ایک وہ زمانہ تھا کہ ملاء دارلعلوم دیوبند ، بریلی یا حیدر آباد سے فارغ التحصیل ہو کر نکلتا تھا اور گورنری، بڑا جج صاحب یعنی قاضی ، بڑا قانون ساز یعنی مفتی کا عہدہ اس کا انتظار کررہا ہوتا تھا۔ پانچ حکایتیں اور چھ آئیتیں رٹ کر قاضی، مفتی، اور حاکم لگ جانا ملاء کے لئے عام بات تھی۔ پھر دارالعلوم میں داخلہ بھی سہروردیوں، نقشبندیوں، صدیقیوں، فاروقیوں اور ساداتوں کے لئے مخصوص تھا۔ یہ بات ماننے میں کسی کو انکار نہیں کہ ملاء نے ہر دور میں حکومت کرنے کا نت نیا دھندا ڈھونڈ نکالا۔ اپنی شریعت کی شرارت سے سب کو دبا رکھا۔ ان کا دعوی ہے کہ حکومت یعنی خلافت کا حق رب نے صرف ان کے لئے رکھا ہے۔ یہودی ملاء ہو ، عیسائی ملاء ہو یا مسلمان ملاء۔ بات ہمیشہ اللہ کی حکومت کی کرتا ہے ۔ ملاء کو اپنی نشاۃ ثانیہ چاہئے۔ اس کو حکومت چاہئے خدمت نہیں۔ جب عوام نے دیکھا کہ کبھی ملا پادشاہ کو قابو کرلیتا ہے اور کبھی خود حکومت کرتا ہے تو عوام نے عوامی نظام یعنی --- باہمی مشورہ سے فیصلہ - کرنے والی حکومت کی بنیاد ڈالی۔ ملاء اس جمہوریت کے آگے بے بس ہے ۔ کبھی یہ شریعت کی شرارت سے انقلاب لانے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی یہ زکواۃ کا مستحق صرف علماء یعنی خود کو قرار دیتا ہے۔ سب سے بڑا سود خور خود ملاء ہے۔ لیکن ہر دوسرے کو سود خور کہتا ہے۔ بلکہ ملاء نے تو سود کی تعریف ہی بدل دی ہے۔ ملاء اپنی نشاۃ ثانیہ اور بقاء کی جنگ لڑرہا ہے ۔ ملاء کو پہچاننا ضروری ہے۔ صرف مسلمان ملاء ہی کو نہیں بلکہ عیسائی ملاء ، یہودی ملاء ، کیوں کہ ان کا مشترک ایمان ہے ذاتی خواہشات کی پیروی ، لالچ اور حکومت۔ یہ -- باہمی مشورے سے کئے گئے فیصلے --- کے خلاف ہے۔۔ اس لئے کہ اس طرح ملاء کی دال نہیں گلتی۔
کہتے ہیں کہ صدقہ ہر بلاء کو کھا جاتا ہے اور ملاء صدقے کو کھا جاتا ہے ۔۔۔۔ یہ بے چارہ عمران کیا چیز ہے ملاء کے آگے