انقلاب

زبیر مرزا

محفلین
میری فطرت غزل گو ہے مگرمیں نظم کہتا ہوں
میری مجبوریاں مجھ کو غزل کہنے نہیں دیتیں
میرا اسلوب بھی مجھ سے شکایت کرتا رہتا ہے
میرے احباب بھی مجھ سے شکایت کرتے رہتے ہیں
شہرمیں ایسی کوئی ماہ جبیں بھی تو نہیں رہتی
غزل جس پر کہی جائے
الف سا ناک ہو جس کا توچہرہ نون جیسا ہو
حسیں آنکھیں مگر وہ قاف کے نقطوں کے جیسی ہوں
تو گیسولام جیسے ہوں
وہ جس کے عزم کی بھی استقامت بس الف سی ہو
ہوں جس کے ہونٹ بے کیہ جیسے ہوں
رُخ زیبا کے خال وخد ہجے ہوں
توچہرہ انقلاب اُس کا
اگرتصویرکھچوائے تو کاغذ پر فقط اک انقلاب آئے

شاعر: کاشف نوید
 

نایاب

لائبریرین
واہ کیا خوب کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوب انتخاب محترم زبیر بھائی
 

زبیر مرزا

محفلین
کل یہ نظم ایک دوست نے سنائی تھی تو میں نے لکھ کے پوسٹ کردی
اُن کی آواز میں یہ یوٹیوب پر بھی ہے
نوٹ: نظم کے نفسِ مضمون سے اور خیالات سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں:)
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
اپنی ہی رپورٹ نہیں بھائی ہم کو تھانے کہچری کچہری سے ڈرلگتا ہے
یہ راہِ فرار ہے۔ اپنی ذمہ داریوں سے انحراف ہے۔ سسٹم سے بغاوت ہے۔ جب رب کائنات نے توبہ کے دروازے کھلے رکھ کر انسان کو اپنی غلطی کی اصلاح کے مواقع دے رکھے ہیں۔ انسانی زندگی ہی طرح دنیا کے ہر نظام میں اغلاط کی تصحیح و اصلاح کا ایک نظام ہوتا ہی ہے۔ الحمد للہ اردو محفل میں بھی بشمول تدوین کے آپشن کے اپنی پوسٹ کی اغلاط کا ایک عمدہ نظام موجود ہے۔ تاہم
اللہ معاف کرنے والا ہے غلطیوں کو
جیسا خوبصورت جملہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے انحراف کرنا اچھی بات نہیں۔ کم سے کم آپ جیسے ذمہ دار حضرات کو یہ بات زیبا نہیں دیتی۔ برائے کرم رپورٹ کیجیے اور تصحیح کروائیے۔
 

مہ جبین

محفلین
اگرتصویرکھچوائے تو کاغذ پر فقط اک انقلاب آئے

واہ واہ کیا بات ہے شاعر کے تخیل کی اور کیا بات ہے چھوٹے بھیا کی۔۔۔۔:) اب تو زبیر مرزا نے اُس انقلاب کا نقشہ کھینچ دیا ہے جو بس آیا ہی چاہتا ہے۔۔۔۔۔ یا شاید دروازے پر دستک دینے والا ہے :D
کوئی ہے جو زبیر کی بڑی بہن تک یہ خوشخبری پہنچائے :heehee:
 
Top