زبیر مرزا
محفلین
میری فطرت غزل گو ہے مگرمیں نظم کہتا ہوں
میری مجبوریاں مجھ کو غزل کہنے نہیں دیتیں
میرا اسلوب بھی مجھ سے شکایت کرتا رہتا ہے
میرے احباب بھی مجھ سے شکایت کرتے رہتے ہیں
شہرمیں ایسی کوئی ماہ جبیں بھی تو نہیں رہتی
غزل جس پر کہی جائے
الف سا ناک ہو جس کا توچہرہ نون جیسا ہو
حسیں آنکھیں مگر وہ قاف کے نقطوں کے جیسی ہوں
تو گیسولام جیسے ہوں
وہ جس کے عزم کی بھی استقامت بس الف سی ہو
ہوں جس کے ہونٹ بے کیہ جیسے ہوں
رُخ زیبا کے خال وخد ہجے ہوں
توچہرہ انقلاب اُس کا
اگرتصویرکھچوائے تو کاغذ پر فقط اک انقلاب آئے
شاعر: کاشف نوید
میری مجبوریاں مجھ کو غزل کہنے نہیں دیتیں
میرا اسلوب بھی مجھ سے شکایت کرتا رہتا ہے
میرے احباب بھی مجھ سے شکایت کرتے رہتے ہیں
شہرمیں ایسی کوئی ماہ جبیں بھی تو نہیں رہتی
غزل جس پر کہی جائے
الف سا ناک ہو جس کا توچہرہ نون جیسا ہو
حسیں آنکھیں مگر وہ قاف کے نقطوں کے جیسی ہوں
تو گیسولام جیسے ہوں
وہ جس کے عزم کی بھی استقامت بس الف سی ہو
ہوں جس کے ہونٹ بے کیہ جیسے ہوں
رُخ زیبا کے خال وخد ہجے ہوں
توچہرہ انقلاب اُس کا
اگرتصویرکھچوائے تو کاغذ پر فقط اک انقلاب آئے
شاعر: کاشف نوید