زبیر مرزا
محفلین
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں
علاجِ درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتا ہوں
جو تھے چھالوں میں کانٹے نوک سوزن سے نکالے ہیں
پھلا پھولا رہے یارب چمن میری اُمیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
رلاتی ہے مجھے راتوں کی خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ہے میرا نرالے میرے لالے ہیں
نہ پوچھو مجھ سے لذتِ خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں
نہیں بیگانگی اچھی رفیقِ راہ منزل سے
ٹھہر جا اے شرر ہم بھی تو مٹنے والے ہیں
امیدِ حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو
یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے بھولے بھالے ہیں
(حضرت علامہ اقبالؔ )