راج
محفلین
انٹارکٹک سی فلور کے ایک نئے دریافت شدہ حصہ بہت سے آبی سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ سائنسدان پولرسٹرن نامی جہاز پر اس علاقے کے سفر پر بھی گئے اور ان کا کہنا ہے کہ اس سفر کے دوران انہیں اہم معلومات اور جانداروں کی ایسی اقسام ملی ہیں جن کے بارے مںی پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔
(تصویر: جی چیپل، الفریڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ)
نئی دریافت شدہ اقسام میں سے ایک ’جائنٹ ایمفیپوڈ‘ ہے۔ یہ کرسٹیشیئن کی ایک قسم ہے اور اسے محققین نے جال لگا کر پکڑا۔ چار انچ لمبا یہ ایمفیپوڈ اس خطے میں پائے جانے والے برے ایمفیپوڈز میں سے ایک ہے۔
(تصویر: سی ڈیوڈی کم)
علاقے میں موجود اس ٹرکوئٹ آکٹوپس کے بارے میں سائنسدان پہلے سے جانتے ہیں۔ اس آبی جانور کی موجودگی ایلیفنٹ سیل، الباٹروس اور شیگز جیسے جانداروں کی بقا کے لیے ضروری ہے کیونکہ یہ آکٹوپس ان کی خوراک کا اہم جزو ہے۔
(تصویر: ای جورگنسن، نووا)
محقق جولین گٹ کے مطابق اس علاقے کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا ’ورجن‘ جغرافیہ ہے۔ لارسن اے اور بی آئس شیلف بالترتیب بارہ اور پانچ برس قبل ٹوٹ کر گرے۔ اس کے نتیجے میں ایسا علاقہ سامنے آیا جہاں اس سے قبل رسائی ناممکن تھی۔ اب یہاں آبی جاندار اپنی آبادیاں تشکیل دے رہے ہیں۔
(تصویر: جی چیپل، الفریڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ)
کولونائزنگ جانداروں کی ایک مثال ’سی سکوئرٹس‘ ہیں۔ سائنسدانوں کے نزدیک یہ جاندار2002 میں آئس شیلف ٹوٹنے کے بعد اس علاقے میں منتقل ہوئے۔ سائنسدانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ درجہ حرارت بڑھنے کی صورت میں مزید ایسی ہجرتیں عمل میں آ سکتی ہیں۔
(تصویر: جی گٹ، الفریڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ)
انٹارکٹک میں شدید سرد درجہ حرارت میں آبی حیات کی مطابقت کی ایک حیران کن مثال’آئس فش‘ ہے۔ اس مچھلی کے خون میں نہ تو سرخ خلیے ہیں اور نہ ہی ہیموگلوبین۔ جس کی وجہ سے خون کی روانی میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ اس مچھلی کے پٹھوں کو درکار آکسیجن کو صرف خون میں گھلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
(تصویر: جی گٹ، الفریڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ)
ایک گلیشیئر کے نزدیک سے ملنے والے اس ’سی سٹار‘ کے بارہ بازو ہیں جبکہ عام ’سی سٹار‘ کے پانچ بازو ہوتے ہیں۔
(تصویر: جی گٹ، الفریڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ)
یہ خیال صحیح نہیں کہ مونگے صرف استوائی علاقوں میں پائے جاتے ہیں بلکہ وہ تو آرکٹک کے لارسن بی ایریا میں بھی موجود ہیں۔ مہم میں شریک ڈاکٹرگٹ کا کہنا ہے کہ وہ اس آبی ایکو سسٹم سے جہاں چاہتے نمونہ حاصل کر لیتے کیونکہ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جسے انسان نے سب سے کم چھیڑا ہے۔
(تصویر:ً جے گٹ، الفریڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ)
تیرتی امید
جرمنی کے الفریڈ ویگنر انسٹیٹیوٹ کے پولرسٹرن کا دس ہفتے کا سفر آبی حیات کی گنتی کے منصوبے کا حصہ ہے۔ یہ جہاز اور بہت سے سائنسدان ’انٹرنیشنل پولر ایئر‘ کے منصوبوں میں بھی شریک ہوں گے۔
(تصویر: جی چیپل، الفریڈ ویگنر انسٹیٹیوٹ)