انٹرنیٹ، سوشل میڈیا پر پیش آنے والے دلچسپ، حیرت انگیز، عبرتناک و غیر عبرتناک واقعات۔

محمداحمد

لائبریرین
انٹرنیٹ، بالخصوص سوشل میڈیا پر ہمیں آئے روز طرح کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بھانت بھانت کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ طرح طرح کے رویّے دیکھنے میں آتے ہیں۔ انہیں میں سے اگر کوئی دلچسپ یا حیرت انگیز واقعہ آپ کی نظر سے گزرا ہو یا آپ کے ساتھ ہی پیش آیا ہو تو اُسے یہاں بیان کیجے۔

بہت عمومی رویّے بیان نہ کیے جائیں، جن سے زیادہ تر لوگ ویسے ہی واقف ہیں۔ کوئی نہ کوئی انوکھی بات یا غیر معمولی بات ہو تو وہ بیان کیجے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہمارے ایک دوست نے اپنے کاروبار کی تشہیر کے لئے فیس بک پیج بنایا۔ چونکہ یہ نیا پیج تھا سو اس پر فالوئرز نہ ہونے کے برابر تھے۔ اُنہیں مسئلہ یہ درپیش تھا کہ جب اُن کے کلائنٹس اُن کے فیس بک پیج پر وزٹ کرتے تو بہت کم فالوئرز دیکھ کر کوئی اچھا تاثر نہ جاتا۔ اُنہی دنوں، سوشل میڈیا مارکیٹنگ سے متعلق اُنہیں ایک محترمہ کی طرف سے ایک مارکیٹنگ پیکیج ملا۔ جس کے تحت اُن خاتون کا کہنا تھا کہ آپ ہمارا یہ پیکیج لے لیں تو ہم آپ کے پیج پر کم و بیش ایک ہزار فالوئرز لا دیں گے، اور یہ فالوئرز جعلی نہ ہوں گے بلکہ یہ آرگینک فالوئرز ہوں گے، یعنی فالوئرز نقلی نہیں ہوں گے بلکہ عام زندگی کے لوگ ہی ہوں گے۔ خیر میرے دوست نے اُن کی سروسز آزمانے کا فیصلہ کیا۔ سب معاملات طے پا گئے اور پیکیج کی رقم ادا کر دی گئی۔ اگلے دن میرے دوست نے دیکھا کہ اُن کے پیج پر واقعی ایک ہزار کے قریب فالوئرز آ گئے تھے۔

میرے دوست نے جب یہ معلوم کرنے کی کوشش کی یہ فالوئرز کیسے آئے تو اُنہیں پتہ چلا کہ جس پوسٹ پر بوسٹ لگایا گیا تھا اُس میں ایک ویڈیو دی گئی تھی۔ ویڈیو میں لوگ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے اور پس منظر میں ایک نعت چل رہی تھی۔ ویڈیو کے دائیں جانب ایک عبارت لکھی تھی کہ جو بھی حج عمرے کے خواہش رکھتا ہو وہ لائیک کرے۔ لائیک بٹن دبانے سے میرے دوست کا مذکورہ صفحہ لائیک ہو جاتا تھا۔

ہمارے پاکستانی لوگ ویسے بھی دین کے معاملات میں جذباتی ہوتے ہیں۔ فوراً ہی لائیک کا بٹن دبا دیتے ہوں گے۔ تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ کمپین چلانے والے کس طرح لوگوں کے مذہبی جذبات سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
انٹرنیٹ، بالخصوص سوشل میڈیا پر ہمیں آئے روز طرح کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بھانت بھانت کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ طرح طرح کے رویّے دیکھنے میں آتے ہیں۔ انہیں میں سے اگر کوئی دلچسپ یا حیرت انگیز واقعہ آپ کی نظر سے گزرا ہو یا آپ کے ساتھ ہی پیش آیا ہو تو اُسے یہاں بیان کیجے۔

بہت عمومی رویّے بیان نہ کیے جائیں، جن سے زیادہ تر لوگ ویسے ہی واقف ہیں۔ کوئی نہ کوئی انوکھی بات یا غیر معمولی بات ہو تو وہ بیان کیجے۔
اس سر گوشی کو تو آپ کو جلی حروف سے اعلانیہ لکھنا چاہیے تھا ۔اور مجھے یہ بات سرگوشی میں کہنی چاہیے تھی ۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اس سر گوشی کو تو آپ کو جلی حروف سے اعلانیہ لکھنا چاہیے تھا ۔اور مجھے یہ بات سرگوشی میں کہنی چاہیے تھی ۔ :)

سرگوشی میں اس لیے لکھا کہ واقعات بیان کرتے ہوئے لوگ زیادہ محتاط نہ ہو جائیں اور لڑی سُونی پڑی رہے۔ :) :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک دلچسپ لیکن غیر اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ میں نے اس لڑی میں "انٹرنیٹ" کے لفظ کا ٹیگ لگایا۔ جو نہ جانے کیسے "انٹارکٹیکا" بن گیا۔ جب اس کی اصلاح کی کوشش کی تو ٹیگ پر کلک ہو گیا اور پتہ چلا کہ ہماری اس سے پہلے بھی ایک پوسٹ میں یہ ٹیگ اسی طرح سے لگا ہوا ہے۔ :) :) :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
انٹر نیٹ دیگر دھوکا دہی کے مقامات اور نظاموں میں سے ایک ہی عام ذریعہ بھی ہے ۔سوشل میڈیا کے اس فراڈ میں ایک یہ بھی ہے کہ ایک کو آپ کے دوست کی فیک شناخت بنا کر آپ سے ہنگامی صورت حال بتا کر پیسے طلب کیے جاتے ہیں اور اسے ایسے اوقات میں کیا جاتا ہو جب آپ کی توجہ اور دھیان بٹا ہوا ہوتا ہے جیسے رات یا علی الصبح ۔ ایسے کاموں میں ہمیشیہ سم کارڈ اور میئکرو فنانس نظاموں -(جیسے جیز کیش ایزی پیسے) کا سہارا لیا جاتا ہے اور بینک اکاؤنٹ نہیں دییے جاتے ۔کیوں کہ پاکستان میں سم کارڈ کی اونر شپ میں عوامی شعور اور احتیاط اچھی طرح عمل پیرا نہیں ۔ مین ایک دو سال قبل ایسا بڑا دھوکا کھا چکا ہوں ۔
آپ سے ایک رقم مانگی جاتی ہے اور اگر وہ رقم آپ بھیج دیں تو ایمر جنسی کیس کا تسلسل بنا کر اور رقم بنا کر مانگی جاتی ہے ۔ایمر جنسی کیس بہت مہارت سے بنائے جاتے ہیں تاکہ ہم جیسے لوگ چنگل میں پھنس جائیں ۔
ایسے لوگوں کو بیوقوف یا سادہ لوح میں سے جو مناسب ہو وہی کہہ لیا جائے ۔ میرے کئی دوستوں کے ساتھ بھی ایسا ہوا ۔ کوئی دھوکا کھا گیا کوئی بچ بھی گیا۔ تتاہم احتیاط ہر صورت میں لازم ہے ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ایک ٹرک ڈرائیور میرے جاننے والا ہے۔ اس کی اچھی خاصی عمر ہے اور طرہ یہ کہ وہ چٹا ان پڑھ یعنی ایسا ان پڑھ ہے جو گنتی بھی لکھنا پڑھنا نہیں جانتا۔ وہ جب پہلی مرتبہ مجھے ملا تو میں نے اس کا موبائل نمبر پوچھا آئندہ رابطہ کرنے کے لیے تو اس نے اپنی جیب سے ایک پرچی نکالی کہا کہ یہ نمبر لکھ کر پرچی واپس کر دو۔
نیا نیا انعامی کالز کا سلسلہ چلا ہوا تھا ایک مرتبہ میرے پاس آیا اور بتانے لگا کہ مجھے انعام کی کال آئی تھی لیکن اب وہ نمبر بند آ رہا ہے۔ میں نے فوراً پوچھا کہ انہوں نے کوئی پیسے وغیرہ تو نہیں مانگے تھے اس نے کہا کہ دو ہزار درہم وہ لے چکے ہیں۔

اب ایک اور سلسلہ چل نکلا ہے۔ کال کر کے کہا جائے گا کہ آپ کی بنک سے بات کر رہے ہیں اور کچھ ڈاکومنٹس کی اپڈیٹ کرنے کے بہانے آپ سے او ٹی پی مانگتے ہیں۔ ایک ایسا واقعہ ہوا جس سے ایک آدمی کے اٹھائیس ہزار درہم فوراً اڑا لیے گئے۔ اس شخص نے بنک سے رابطہ کیا مگر بے سود۔۔۔ کیونکہ او ٹی پی تو اسی نے خود دی تھی۔ ایسے معاملات میں بنک والے بھی کچھ نہیں کر پاتے۔ لیکن بنک کے کچھ لوگ ضرور اس میں شامل ہیں جو لوگوں کا ڈیٹا ایسے لوگوں کے ہاتھوں بیچتے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
انٹر نیٹ دیگر دھوکا دہی کے مقامات اور نظاموں میں سے ایک ہی عام ذریعہ بھی ہے ۔سوشل میڈیا کے اس فراڈ میں ایک یہ بھی ہے کہ ایک کو آپ کے دوست کی فیک شناخت بنا کر آپ سے ہنگامی صورت حال بتا کر پیسے طلب کیے جاتے ہیں اور اسے ایسے اوقات میں کیا جاتا ہو جب آپ کی توجہ اور دھیان بٹا ہوا ہوتا ہے جیسے رات یا علی الصبح ۔ ایسے کاموں میں ہمیشیہ سم کارڈ اور میئکرو فنانس نظاموں -(جیسے جیز کیش ایزی پیسے) کا سہارا لیا جاتا ہے اور بینک اکاؤنٹ نہیں دییے جاتے ۔کیوں کہ پاکستان میں سم کارڈ کی اونر شپ میں عوامی شعور اور احتیاط اچھی طرح عمل پیرا نہیں ۔ مین ایک دو سال قبل ایسا بڑا دھوکا کھا چکا ہوں ۔
آپ سے ایک رقم مانگی جاتی ہے اور اگر وہ رقم آپ بھیج دیں تو ایمر جنسی کیس کا تسلسل بنا کر اور رقم بنا کر مانگی جاتی ہے ۔ایمر جنسی کیس بہت مہارت سے بنائے جاتے ہیں تاکہ ہم جیسے لوگ چنگل میں پھنس جائیں ۔
ایسے لوگوں کو بیوقوف یا سادہ لوح میں سے جو مناسب ہو وہی کہہ لیا جائے ۔ میرے کئی دوستوں کے ساتھ بھی ایسا ہوا ۔ کوئی دھوکا کھا گیا کوئی بچ بھی گیا۔ تتاہم احتیاط ہر صورت میں لازم ہے ۔

جی۔ یہ تو آج کل بہت عام ہے۔

فیس بک پر لوگ ہو بہو آپ کی پروفائل بنا لیتے ہیں اور آپ کے دوستوں کو فیس بک ریکویسٹ بھیج دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ویسے ہی انسان ایک اضطراری حالت میں ہوتا ہے تو وہ روا روی میں فرینڈ ریکویسٹ قبول بھی کر لیتا ہے، یہ سوچ کر کہ شاید اتفاقاً انفرینڈ ہوگیا ہوگا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک ٹرک ڈرائیور میرے جاننے والا ہے۔ اس کی اچھی خاصی عمر ہے اور طرہ یہ کہ وہ چٹا ان پڑھ یعنی ایسا ان پڑھ ہے جو گنتی بھی لکھنا پڑھنا نہیں جانتا۔ وہ جب پہلی مرتبہ مجھے ملا تو میں نے اس کا موبائل نمبر پوچھا آئندہ رابطہ کرنے کے لیے تو اس نے اپنی جیب سے ایک پرچی نکالی کہا کہ یہ نمبر لکھ کر پرچی واپس کر دو۔
نیا نیا انعامی کالز کا سلسلہ چلا ہوا تھا ایک مرتبہ میرے پاس آیا اور بتانے لگا کہ مجھے انعام کی کال آئی تھی لیکن اب وہ نمبر بند آ رہا ہے۔ میں نے فوراً پوچھا کہ انہوں نے کوئی پیسے وغیرہ تو نہیں مانگے تھے اس نے کہا کہ دو ہزار درہم وہ لے چکے ہیں۔
:confused:
اب ایک اور سلسلہ چل نکلا ہے۔ کال کر کے کہا جائے گا کہ آپ کی بنک سے بات کر رہے ہیں اور کچھ ڈاکومنٹس کی اپڈیٹ کرنے کے بہانے آپ سے او ٹی پی مانگتے ہیں۔ ایک ایسا واقعہ ہوا جس سے ایک آدمی کے اٹھائیس ہزار درہم فوراً اڑا لیے گئے۔ اس شخص نے بنک سے رابطہ کیا مگر بے سود۔۔۔ کیونکہ او ٹی پی تو اسی نے خود دی تھی۔ ایسے معاملات میں بنک والے بھی کچھ نہیں کر پاتے۔ لیکن بنک کے کچھ لوگ ضرور اس میں شامل ہیں جو لوگوں کا ڈیٹا ایسے لوگوں کے ہاتھوں بیچتے ہیں۔

اس سلسلے میں آگہی پھیلانے کی بہت ضرورت ہے۔ حالانکہ بینک وغیرہ کافی ای میلز اور پیغامات بھیجتے رہتے ہیں کہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، لیکن عموماً لوگ یہ ای میلز وغیرہ پڑھتے ہی نہیں ہیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بینک وغیرہ کافی ای میلز اور پیغامات بھیجتے رہتے ہیں کہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، لیکن عموماً لوگ یہ ای میلز وغیرہ پڑھتے ہی نہیں ہیں۔
درست کہا آپ نے، پولیس کے ادارے سے آئے روز میسج آتے ہیں اور ڈکیتوں کے کرنٹ فیشن سے آگاہ کرتے رہتے ہیں 🙂
پھر ہمیں یاد آتا ہے موبائل بیلنس مانگنے والی صبا ان سب سے کتنی اچھی تھی ۔ اللّٰہ اسے جنت نصیب فرمائے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
پچھلے ہی دنوں ہمارے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا ۔ الحمد للہ نقصان تو نہیں ہوا لیکن پریشانی کافی رہی۔
ہوا یہ کہ ہمارے نمبر پر ایک سرکاری ادارے کے نام سے میسیج آیا۔ پہلے دن تو ہم نے نہ پڑھا کیونکہ ہم نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ ڈنمارک کا ذکر تک بھی نہیں کرنا یونان میں۔ چونکہ ایسے ایک لیٹر کے آنے کی امید تھی لیکن ایک خیال ذہن میں یہ بھی آیا کہ یہ میسیج ہمارے ای باکس میں کیوں نہیں آیا جسے ہم صرف اپنی آئی ڈی کے ذریعے موبائل ایپ سے کھول سکتے ہیں۔ خیر گرمی کے زور نے کچھ زیادہ ذہن استعمال کرنے کا موقع نہ دیا۔ ہم نے تجسس کے مارے میسیج کھول لیا ۔ اس میں ادار کی طرف سے یہ پیغام دیا گیا تھا کہ نیچے دئیے گئے لنک کو فالو کر کے مکمل میسیج پڑھ سکتے ہیں۔
لنک پر کلک کیا۔۔۔ کمبخت نے سامنے ایک صفحہ کھولا جس میں نام، پتہ، سی پی آر سمیت تمام معلومات درج کرنی تھیں۔ بس ایک نظر میں اتنا ہی دیکھ پائے اور جھٹ سے اسے بند کر دیا کیونکہ اس وقت سویا ذہن جاگ گیا تھا کہ ان کے پاس تو پہلے سے سب معلومات ہوتی ہیں۔ پھر یہ نئے سرے سے کیوں؟
لیکن تب تک یہ شک قریب بھی نہ پھٹکا تھا کہ یہ ہیک کرنے کی کوشش ہے۔ ہاں تو اگلے دو دن ہلکا سا خیال تو آتا رہا کہ جانے کیا لکھا ہو گا۔ لیکن ذہن سے جھٹکتے ہوئے سمند میں ڈوبتے سورج کا نظارہ کرتے رہے۔ آخر کو جب لوٹ کے بدھو واپس ڈنمارک آئے تو صبح ہوتے ہی بینک کی طرف سے لمبا چوڑا لیٹر آ گیا۔ جس میں انھوں نے بتایا کہ سرکاری اداروں کے نام پر بھی فراڈ ہو رہا ہے بہت۔ فون کالز بھی آتی ہیں اس سلسلہ میں۔ اور تمہارا بینک اکاؤنٹ ہیک کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ہم نے جلدی ایکشن لے لیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے احتیاطی کے پیش نظربینک کی لاگ ان آئی ڈی، ایپ اور سب بدلنے کا کہا۔ وہ سب ہم نے کر دیا۔
اکاؤنٹ وغیرہ سب محفوظ تھا الحمد للہ۔
دوسرے دن ہماری موبائل نیٹ ورک سروس کی طرف سے بھی پیغام آ گیا کہ ان کی طرف سے کوتاہی اور سسٹم کی خرابی کی وجہ سے ہماری معلومات کچھ وقت کے لیے دیکھی جا سکتی تھیں۔ چونکہ یہ ان کی غلطی ہے اس لیے وہ فری میں ہمارا نمبر بدل سکتے ہیں۔ باقی احتیاطی تدابیر کی وجہ سے تسلی تھی اس لیے نمبر نہ بدلوایا۔ لیکن انھی سخت سست کہا۔ ظاہر ہے کئی اور لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہو گا۔
اب صحیح سے علم نہیں کہ اس ایس ایم ایس کی وجہ سے یہ معاملہ ہوا یا پھر موبائل والوں کے سسٹم کی خرابی سے۔ ہمیں یقین ہے کہ ایسا ایم ایس پہ دئیے گئے لنک کی وجہ سے ہوا کیونکہ جب ہم نے دوبارہ میسیجز دیکھنے والوں کی لسٹ دیکھی تو اس میں اس ادارے کا نام دو بار تھا۔۔ ایک بار تو وہی جو پہلے سے تھا۔ دوسرا والا بڑے حروف میں تھا۔
ای میلز تو پہلے بھی اکثر آتی رہتی ہیں ٹیکس والوں کی طرف سے۔ لیکن جو اصلی ہوتی ہیں وہ ای باکس میں آتی ہیں اور دوسری جعلی والی عام میل ایڈریس پہ۔ انھیں کبھی ہم نے نہیں کھولا۔ اسی طرح کبھی کبھی یہاں کے پیکیج ڈلیوری والوں کا بھی میسیج آتا ہے کہ تمہارا پیکٹ آیا پڑا ہے اور کچھ معلومات درکار ہیں۔ بتا کر لے جاؤ۔ اس کا تو پتہ رہتا ہے کہ جب کچھ منگوایا ہی نہیں تو آئے گا کہا ں سے۔
کئی آس پاس جاننے والوں کے ساتھ ایسے ہاتھ ہو چکے ہیں۔
ہاں تو یہ ہوا۔۔ بال بال بچ گئے۔۔۔الحمد للہ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
درست کہا آپ نے، پولیس کے ادارے سے آئے روز میسج آتے ہیں اور ڈکیتوں کے کرنٹ فیشن سے آگاہ کرتے رہتے ہیں 🙂
پھر ہمیں یاد آتا ہے موبائل بیلنس مانگنے والی صبا ان سب سے کتنی اچھی تھی ۔ اللّٰہ اسے جنت نصیب فرمائے۔
آمین
کیا ہوا انھیں؟؟؟ کیا زیادہ بیلنس لوڈ ہو گیا؟
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ایک اور بھی ہوا۔۔۔
ڈیڑھ دو سال پہلے کی بات ہے کہ ہمیں کسی اور ملک کا نام لکھے ہوئے ای میل آئی۔ جس میں ہمیں انفارم کیا گیا تھا کہ ہمارے کسی رشتہ دار کی وفات ہو گئی ہے۔ چونکہ ان کی اولاد یا بہن بھائی کوئی نہیں تو انھوں نے ہمیں اپنی جائداد کا اکلوتا وارث مقرر کیا ہے۔ جائیداد بہت ہی زیادہ بتائی گئی تھی۔ اب تو یاد نہیں۔
یہ کہا گیا تھا سرکاری معاملات نمٹانے کے لئے کچھ رقم فوری درکار ہے کیونکہ جائیداد فریز ہے اور جب تک ہمارے نام ٹرانسفر نہ ہو جائے، تب تک اسے چھیڑا نہیں جا سکتا۔
ٹیلی فون نمبر وغیرہ بھی دیا گیا تھا کہ اگر اپنی تسلی کرنا چاہیں تو کال کر سکتے ہیں۔
معلوم تھا صاف کہ کوئی فریبی ہے۔ بڑا کھڑپینچ بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ سو بچت رہی۔ الحمد للہ
کئی لوگ ٹھگے بھی جاتے ہیں۔
اللہ پاک نیکی کی ہدایت عطا فرمائیں ایسے لوگوں کو۔ آمین
 

محمداحمد

لائبریرین
اس میں ادار کی طرف سے یہ پیغام دیا گیا تھا کہ نیچے دئیے گئے لنک کو فالو کر کے مکمل میسیج پڑھ سکتے ہیں۔
لنک پر کلک کیا۔۔۔ کمبخت نے سامنے ایک صفحہ کھولا جس میں نام، پتہ، سی پی آر سمیت تمام معلومات درج کرنی تھیں۔
لنک پر کلک کرنے سے تو کئی ایک مسائل ہو سکتے ہیں۔ اسکرپٹ وغیرہ چلا کر بھی لوگ فون کا ڈیٹا چرا لیتے ہیں۔
دوسرے دن ہماری موبائل نیٹ ورک سروس کی طرف سے بھی پیغام آ گیا کہ ان کی طرف سے کوتاہی اور سسٹم کی خرابی کی وجہ سے ہماری معلومات کچھ وقت کے لیے دیکھی جا سکتی تھیں۔ چونکہ یہ ان کی غلطی ہے اس لیے وہ فری میں ہمارا نمبر بدل سکتے ہیں۔
آپ کی موبائل کمپنی اچھی ہوگی تبھی اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ ورنہ یہاں پاکستان میں تو کس کا ڈیٹا کس نے دیا اور کس کو دیا کچھ پتہ نہیں چلتا۔
جب کچھ منگوایا ہی نہیں تو آئے گا کہا ں سے۔
ہو سکتا ہے کسی نے گفٹ بھیجا ہو۔ :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
یہاں پر ایک ڈیلیوری بوائے کسی کا آرڈر لے کر جا رہا تھا کہ اسی اثناء میں جہاں ڈیلیوری دینی تھی ان کی کال آئی کہ تم راستے میں کہیں سے میرے نمبر پر دو سو کا کریڈٹ بھیج دو۔مگر اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ ہماری پالیسی کے خلاف ہے ہم صرف آنلائن آرڈر لیتے ہیں اس طرح سے نہیں۔ کچھ ہی دیر گزری ہو گی کہ اسے اپنے ہیڈ آفس سے کال موصول ہوئی بات کرنے والے نے پہلے تو اسے جھاڑ پلائی پھر کہا کہ کسٹمر جو کچھ کہہ رہا ہے اس کو فالو کرو۔ اب بے چارہ کیا کرتا اس نے کسٹمر کو کریڈٹ بھیج دیا۔ جب وہ مطلوبہ پتے پر پہنچا تو کسٹمر کا موبائل آف۔۔۔
اپنے آفس سے رابطہ کیا انہیں یہ سٹوری سنائی تو انہیں نے کہا کہ ہماری طرف سے کوئی کال نہیں کی گئی تھی۔
اب تو فراڈیئے کسی خاص سافٹ ویئر کے ذریعے کوئی بھی نمبر آپ کے موبائل میں دکھا سکتے ہیں۔
 
Top