Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
Internet Freedom – Hillary Clinton Speech
انٹرنیٹ کی آزادی کے بارے میں وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن کی تقریر
21 جنوری،2010
دی نیوزیم، واشنگٹن، ڈی سی
وزیرِ خارجہ کلنٹن:
ایک بہت اہم موضوع پر یہ ایک اہم تقریر ہے ۔ لیکن اپنی تقریر شروع کرنے سے پہلے ، میں مختصراً ہیٹی کے بارے میں کچھ کہنا چاہتی ہوں کیوں کہ گذشتہ آٹھ دنوں کے دوران ، ہیٹی کے لوگ اور دنیا کے لوگ مِل جُل کر اس ہولناک المیے سے نمٹ رہے ہیں ۔ ہمارے کرہ ٔ ارض پر اس سے پہلے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن پورٹ او پرنس جیسی صورتِ حال جیسی تباہی کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ ہماری امدادی کارروائیوں میں مواصلاتی نیٹ ورکس نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ بہت سے نیٹ ورکس کو نقصان پہنچا اور بہت سے مقامات پر وہ مکمل طور سے تباہ ہو گئے۔ اور زلزلے کے بعد چند گھنٹوں میں، ہم نے نجی شعبے میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مِل کر، پہلے ٹیکسٹ “ہیٹی” مہم قائم کی تا کہ امریکہ میں موبائل فون استعمال کرنے والے ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے امدادی کاموں کے لیئے عطیات دے سکیں۔یہ اقدام امریکی عوام کی فیاضی کی شاندار مثال ثابت ہوا ہے اور اس کے ذریعے، بحالی کے کام کے لیئے اب تک 2کروڑ پچاس لاکھ ڈالر جمع کیئے جا چکے ہیں۔
انفارمیشن نیٹ ورکس نے بھی امدادی کاموں میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ سنیچر کے روز جب میں پورٹ او پرنس میں صدر Preval کے ساتھ تھی، تو ان کی ایک اہم ترجیح یہ تھی کہ کمیونیکیشن کا نظام کام شروع کردے۔ حکومت کے مختلف شعبے، جو کچھ بھی باقی بچا تھا، ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کر سکتے تھے ، اور غیر سرکاری تنظیمیں ، ہماری سویلین قیادت، ہماری فوجی قیادت ، سب بری طرح متاثر ہوئی تھیں ۔ ٹکنالوجی کمیونٹی نے انٹر ایکٹو نقشے تیار کیئے ہیں تا کہ ہم ضرورتوں کی نشاندہی کر سکیں اور وسائل سے فائدہ اٹھاسکیں ۔ اور پیر کے روز، ایک سرچ اور ریسکیو امریکی ٹیم نے ایک سات سالہ لڑکی اور دو عورتوں کو ایک تباہ شدہ سپر مارکٹ کے ملبے سے باہر نکال لیا۔ انھوں نے یہ کام اس وقت کیا جب ان لوگوں نے مدد کے لیئے ٹیکسٹ میسیج بھیجا۔ یہ چند مثالیں کہیں زیادہ بڑے کارناموں کی مظہر ہیں۔
انفارمیشن نیٹ ورکس کے پھیلاؤ سے ہماری دنیا میں ایک نئے اعصابی نظام کی تشکیل ہو رہی ہے ۔ جب ہیٹی میں یا ہونان میں کچھ ہوتا ہے، تو ہم سب کو فوری طور پر جیتے جاگتے لوگوں سے پتہ چل جاتا ہے، اور ہم فوری طور پر جوابی کارروائی بھی کر سکتے ہیں ۔ قدرتی آفت کے بعد جو امریکی مدد دینے کے لیئے بے چین ہیں، اور سپر مارکٹ کے ملبے میں پھنسی ہوئی لڑکی کے درمیان آج کل جس قسم کے رابطے قائم ہیں، ایک سال پہلے، بلکہ ایک نسل پہلے ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آج تقریباً پوری انسانیت پر اسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اس وقت جب ہم یہاں بیٹھے ہیں، آپ میں سے کوئی بھی ۔۔ بلکہ زیادہ امکان یہ ہے کہ ہمارے بچوں میں سے کوئی بھی ۔۔ وہ آلات نکال سکتا ہے جو ہمارے پاس ہر روز ہوتے ہیں، اور اس گفتگو کو دنیا بھر میں اربوں لوگو ں تک پہنچا سکتا ہے ۔
کئی لحاظ سے، معلومات کبھی بھی اتنی آزادی سے دستیاب نہیں تھیں۔ تاریخ میں کبھی بھی اتنے مختلف طریقوں سے خیالات اور تصورات کو اتنے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ممکن نہیں تھا جتنا آج کل ہے ۔ ان ملکوں میں بھی جہاں آمرانہ نظام قائم ہیں، انفارمیشن نیٹ ورکس کے ذریعے لوگوں کو نئے حقائق معلوم کرنے میں مدد مل رہی ہے، اور اس طرح حکومتوں کو زیادہ جوابدہ بنایا جا رہا ہے ۔
مثلاً، نومبر میں اپنے چین کے دورے میں، صدر اوباما نے ایک ٹاؤن ہال میٹنگ منعقد کی جس میں ایک آن لائن جزو شامل تھا تا کہ انٹرنیٹ کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے ۔ایک سوال کے جواب میں جو انہیں انٹرنیٹ پر بھیجا گیا تھا، انھوں نے لوگوں کے اس حق کا دفاع کیا کہ لوگوں کو آزادی سے معلومات تک رسائی حاصل ہو۔انھوں نے کہا کہ جتنی زیادہ آزادی سے معلومات کی ترسیل ہوتی ہے، معاشرے اتنے ہی زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح معلومات تک رسائی سے شہریوں کو اپنے حکومتوں کو جوابدہ بنانے اور نئے خیالات پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے اور تخلیقی عمل اور کاروباری عمل کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔اس سچائی میں امریکہ کا پختہ یقین ہے جو مجھے آج یہاں لایا ہے ۔
کیوں کہ ایک دوسرے سے رابطے میں بے مثال اضافے کے اس دور میں، ہمیں یہ بھی جاننا چاہیئے کہ ٹکنالوجی کی اس بہتات کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔ ان آلات کو انسانی ترقی اور سیاسی حقوق کو نقصان پہنچانے کے لیئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے فولاد کو ہسپتال یا مشین گنیں بنانے کے لیئے استعمال کیا جا سکتا ہے، اور نیوکلیئر انرجی سے کسی شہر کو یا تو توانائی فراہم کی جا سکتی ہے یا اسے تباہ کیا جا سکتا ہے ، انفارمیشن کے جدید نیٹ ورکس اور ان سے مستفید ہونے والی ٹکنالوجی کو اچھے اور برے دونوں مقاصد کے لیئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ وہی نیٹ ورکس جن سے آزادی کی تحریکوں کو منظم کرنے میں مدد ملتی ہے، القاعدہ کو نفرت پھیلانے ، اور بے گناہ لوگوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے کے کام آتے ہیں ۔ اور وہی ٹکنالوجیاں جن کے ذریعے حکومتوں تک رسائی ممکن ہو سکتی ہے اور شفاف حکومتوں کو فروغ مِل سکتا ہے، انھیں ٹکنالوجیوں کو حکومتیں اختلاف رائے کو کچلنے اور انسانی حقوق سے محروم کرنے کے لیئے ہائی جیک کر سکتی ہیں۔
گذشتہ سال کے دوران، ہم نے دیکھا ہے کہ معلومات کی آزادنہ ترسیل کے لیئے خطرے میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ ۔ چین، تونس، اور ازبکستان نے انٹرنیٹ کی سینسرشپ میں اضافہ کر دیا ہے۔ ویتنام میں، سوشل نیٹ ورکنگ کی مقبول ویب سائٹس تک رسائی اچانک ختم ہو گئی ہے اور گذشتہ جمعے کے روز، مصر میں 30 بلاگرز اور سرگرم کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ اس گروپ کے ایک رکن، Bassem Smir ، جو اب شکر ہے کہ جیل میں نہیں ہیں، آج ہمارے ساتھ ہیں۔ پس، اگرچہ یہ صحیح ہے کہ ان ٹکنالوجیوں کے پھیلاؤ سے ہماری دنیا تبدیل ہو رہی ہے، یہ بات اب بھی واضح نہیں ہے کہ اس تبدیلی سے انسانی حقوق اور دنیا کے آبادی کے بیشتر حصے کی فلاح پر کیا اثر پڑے گا۔
یہ نئی ٹکنالوجیاں از خود آزادی اور ترقی کی جدو جہدمیں کسی کی طرفداری نہیں کرتیں لیکن امریکہ ضرور کرتا ہے ۔ ہم ایک واحد انٹرنیٹ کے حامی ہیں جس میں پوری انسانیت کو علم و دانش اور تصورات تک برابر کی رسائی حاصل ہو۔ اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کا انفارمیشن کا نظام وہی شکل اختیار کر ے گا جو ہم اور دوسرے ملک اسے دینا چاہیں گے۔ آج کل ہمیں جو چیلنج درپیش ہے وہ نیا ضرور ہے لیکن خیالات کے آزادانہ تبادلے کو یقینی بنانے کے لیئے ہماری ذمہ داری اتنی ہی قدیم ہے جتنی ہماری جمہوریہ کی پیدائش۔ ہمارے آئین کی پہلی ترمیم کے الفاظ اس عمارت پر لگے ہوئے ریاست ٹینےسی کے پچاس ٹن سنگ مرمر پر کندہ ہیں۔ اور امریکیوں کی ہر نسل نے اس پتھر پر کندہ اقدار کی حفاظت کے لیئے کام کیا ہے ۔
فرینکلن روزویلٹ نے، انہیں خیالات کو اساس بنایا جب انھوں نے 1941 میں اپنی چار آزادیوں والی تقریر کی ۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکی بحرانوں میں گھرے ہوئے تھے اور ان کا اعتماد بحران کا شکار تھا۔ لیکن ایک ایسی دنیا کا تصور جس میں تمام لوگوں کو اظہار کی آزادی، عبادت کی آزادی، احتیاج سے آزادی، اور خوف سے آزادی حاصل ہو، اس دور کے مسائل پر غالب آ گیا۔اور برسوں بعد، میری ایک ہیرو، Eleanor Roosevelt نے انہیں اصولوں کو انسانی حقوق کے عالمی اعلان کی بنیاد بنانے کے لیئے جدو جہد کی ۔ اور بعد کی ہر نسل نے انہیں اصولوں سے رہنمائی حاصل کی ہے ۔۔انہیں اصولوں نے ہمیں راستہ دکھایا ہے، ہمیں متحد کیا ہے، اور غیر یقینی کی حالت میں ہمیں آگے بڑھنے کی صلاحیت عطا کی ہے ۔
چنانچہ جیسے جیسے ٹکنالوجی برق رفتاری سے آگے بڑھتی ہے، ہمیں اس ورثے کے بارے میں سوچنا چاہیئے ۔ ہمیں ٹکنالوجی کی ترقی کو اپنے اصولوں سے ہم آہنگ کرنا چاہیئے ۔ نوبیل انعام قبول کرتے ہوئے، صدر اوباما نے ایک ایسی دنیا تعمیر کرنے کی ضرورت پر زور دیا جس میں ہر انسان کے بنیادی حقوق اور ہر فرد کی عزتِ نفس، امن کی اساس ہوں۔ اور چند روز بعد جارج ٹاؤن میں اپنی تقریر میں، میں نے کہا تھا کہ ہمیں ایسے طریقے تلاش کرنے چاہئیں جن کے ذریعے انسانی حقوق حقیقت بن سکیں ۔ آج اکیسویں صدی کے ڈجیٹل فرنٹیئر ز میں، ان آزادیوں کی حفاظت کی فوری ضرورت ہے ۔
دنیا میں اور بہت سی اقسام کے نیٹ ورکس ہیں۔ ان میں بعض انسانوں یا وسائل کی نقل و حرکت میں مدد دیتے ہیں، اور بعض ایک جیسے کام یا دلچسپیاں رکھنے والے افراد کے درمیان تبادلوں میں آسانی پیدا کرتے ہیں۔ لیکن انٹرنیٹ ایسا نیٹ ورک ہے جو تمام دوسرے نیٹ ورکس کی طاقت اور امکانات میں اضافہ کر تا ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اس کے استعمال کرنے والوں کو بعض بنیادی آزادیوں کا یقین ہو۔ان میں سب سے پہلی اظہارِ رائے کی آزادی ہے۔ اب اس آزادی کی وضاحت صرف اس طرح نہیں کی جاتی کہ شہریوں کو شہر کے چوک میں جانے اور بلا خوف و خطر اپنی حکومت پر تنقید کرنے کی آزادی ہے یا نہیں۔ بلاگس، ای میل، سوشل نیٹ ورکس اور ٹیکسٹ میسیجز نے خیالات کے تبادلے کے نئے ذرائع کھول دیے ہیں، اور سینسر شپ کے نئے اہداف پیدا کر دیے ہیں۔
اس وقت بھی جب آج میں آ پ سے مخاطب ہوں، سرکاری سینسرز میرے الفاظ کو تاریخ کے ریکارڈز سے مٹانے کے لیئے زور شور سے کام کر رہے ہیں۔لیکن خود تاریخ پہلے ہی ان ہتھکنڈوں کی مذمت کر چکی ہے ۔ دو مہینے پہلے، میں دیوارِ برلن کے گرنے کی بیسویں سالگرہ منانے کے لیئے جرمنی میں تھی۔ اس تقریب میں جو لیڈر جمع ہوئے تھے انھوں نے ان بہادر مردوں اور عورتوں کو خراج تحسین پیش کیا جنھوں نے چھوٹے چھوٹے پمفلٹ جنہیں samizdat کہا جاتا ہے ، تقسیم کیئے اور ظلم کے خلاف اپنا کیس پیش کیا۔ ان پمفلٹوں میں مشرقی بلاک کی آمرانہ حکومتوں کے دعووں اور عزائم کی قلعی کھولی گئی اور بہت سے لوگوں کو انہیں تقسیم کرنے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ۔لیکن ان کے الفاظ نے کنکریٹ کی دیواروں میں شگاف ڈالنے اور آہنی پردے کے تار کو مسمار کرنے میں مدد دی۔
دیوارِ برلن ایک منقسم دنیا کی علامت اور ایک پورے عہد کا مرقع تھی ۔ آج، اس دیوار کے بچے کھچے ٹکڑے اس میوزیم کے اندر موجود ہیں جو ان کے لیئے صحیح جگہ ہے ۔ اور ہمارےدور کا ایک نیا شاہکار انفرا اسٹرکچر اانٹر نیٹ ہے ۔یہ تقسیم نہیٕں بلکہ جوڑنے کا کام کرتاہے ۔ لیکن اب جب کہ ملکوں تک پہنچنے کے لیئے دنیا کے گرد نیٹ ورکس پھیل رہے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ ظاہری دیواروں کی جگہ عملی طور پر دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ بعض ملکوں نے الیکٹرانک رکاوٹیں تخلیق کی ہیں جو لوگوں کو عالمی نیٹ ورکس کے بعض حصوں تک رسائی حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔ انھوں نے سرچ انجن کے نتائج سے بعض الفاظ، نام اور فقرے حذف کر دیے ہیں۔ انھوں نے ایسے شہریوں کے نجی امور میں مداخلت کی ہے جو تشدد سے پاک سیاسی تقریر کرتے ہیں۔ یہ کارروائیاں انسانی حقوق کے عالمی اعلان کے خلاف ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو معلومات کی تلاش کرنے، انہیں وصول کرنے اور سرحدوں کی تخصیص کے بغیر، کسی بھی میڈیا کے ذریعے معلومات اور خیالات کی تقسیم کا حق حاصل ہے ۔ اس قسم کی پابندیوں کے پھیلاؤ سے، دنیا کے بیشتر حصے پر معلومات پر ایک نیا پردہ گرایا جا رہا ہے ۔ اس پردے سے دور، وائرل وڈیوز اور بلاگ پوسٹس ہمارے دور کے samizdat بنتے جا رہے ہیں۔
جیسا کہ ماضی کی آمریتوں میں ہوتا رہا ہے، حکومتیں ان آزاد مفکروں کو نشانہ بنا رہی ہیں جو یہ آلات استعمال کرتے ہیں۔ ایران کے صدارتی انتخاب کے بعد جو مظاہرے ہوئے، ان میں ایک نوجوان عورت کی خونی ہلاکت کی سیل فون سے لی ہوئی دھندلی تصویروں نے حکومت کی وحشیانہ کارروائی کا ثبوت فراہم کیا۔ ہم نے ایسی رپورٹیں دیکھی ہیں کہ جب بیرونی دنیا میں رہنے والے ایرانیوں نے اپنے ملک کے لیڈروں پر آن لائن تنقید پوسٹ کی، تو ایران میں ان کے اہلِ خاندان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اور حکومت کی طرف سے ڈرانے دھمکانے کی زبردست مہم کے باوجود، ایران میں شہری صحافی مسلسل ٹکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں تا کہ دنیا کو اور اپنے ہم وطن شہریوں کو یہ بتایا جا سکے کہ ان کے ملک کے اندر کیا ہو رہا ہے ۔ اپنے انسانی حقوق کے لیئے ایران کے لوگوں نے جس طرح آواز اٹھائی ہے، اس نے دنیا کے لوگوں میں جوش و ولولہ پیدا کر دیا ہے ۔ اور انھوں نے اپنی جرأت سے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ ٹکنالوجی کو کس طرح سچائی کو پھیلانے اور ناانصافی کو آشکار کرنے کے لیئے استعمال کیا جا سکتا ہے
تمام معاشروں میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ آزادیٔ اظہار کی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ ہم ان لوگوں کو برداشت نہیں کرتے جو دوسروں کو تشدد پر اکساتے ہیں ، جیسے القاعدہ کے ایجنٹ جو اس وقت بھی دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر لوگوں کے قتل کو فروغ دینے کے لیئے انٹرنیٹ کو استعمال کر رہے ہیں۔ اور ایسی نفرت انگیز تقریر جس میں لوگوں کو ان کی نسل، مذہب، گروہ ، جنس یا جنسی رجحان کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے ، قابلِ نفرت ہے ۔ اور ہمیں گمنام تقریر کے مسئلے سے بھی نمٹنا چاہیئے ۔وہ لوگ جو انٹرنیٹ کو دہشت گردوں کی بھرتی کے لیئے یا چرائی ہوئی املاکِ دانش کو تقسیم کرنے کے لیئے استعمال کرتے ہیں، اپنے آن لائن اقدامات کو اپنی اصل شناخت سے الگ نہیں کر سکتے۔ لیکن ان چیلنجوں سے حکومتوں کے لیئے یہ جواز پیدا نہیں ہوتا کہ وہ ان لوگوں کے حقوق کی باقاعدگی سے خلاف ورزی کریں اور ان کے نجی امور میں مداخلت کریں جو انٹرنیٹ کو پرُامن سیاسی مقاصد کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔
نئی ٹکنالوجیز کے پھیلاؤ کے ساتھ آزادیٔ اظہار کو بظاہر سب سے زیادہ چیلنج درپیش ہو سکتے ہیں لیکن خطرہ صرف اسی آزادی کو درپیش نہیں ہے ۔ عبادت کی آزادی میں عموماًا فراد کے یہ حقوق شامل ہیں کہ وہ اپنے خالق کے ساتھ تعلق قائم کریں یا نہ کریں۔ اور خوش قسمتی سے رابطہ قائم کرنے کا یہ وہ ذریعہ ہے جس کا انحصار ٹکنالوجی پر نہیں ہے ۔ لیکن عبادت کی آزادی میں یہ حقوق بھی شامل ہیں کہ ان لوگوں کے ساتھ مِل بیٹھا جائے جن کی اقدار آپ کے ساتھ مشترک ہیں اور جو انسانیت کے لیئے آپ کے تصور سے متفق ہیں۔ ہماری تاریخ میں، اس قسم کے اجتماعات اکثر چرچوں، کنیساؤں، مندروں اور مسجدوں میں ہوتے ہیں۔ آج کل، یہ اجتماعات آن لائن بھی ہو سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ سے مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان اختلاف کم کیئے جا سکتے ہیں۔ جیسا کہ صدر نے قاہرہ میں کہا تھا، لوگوں کے مِل جُل کر رہنے کی صلاحیت میں ، مذہب کی آزادی کو مرکزی مقام حاصل ہے ۔اور اب جب کہ ہم مکالمے کو وسعت دینے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں، انٹرنیٹ کو اس مقصد کے لیئے استعمال کرنے کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ہم نے پہلے ہی امریکی طالب علموں کو دنیا بھر میں مسلمان کمیونٹیوں میں نوجوانوں کے ساتھ رابطے میں لانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے تا کہ وہ عالمی چیلنجوں پر تبادلۂ خیال کر سکیں۔ اور ہم مختلف مذہبی کمیونٹیوں کے درمیان بات چیت کو فروغ دینے کے لیئے اس وسیلے کا استعمال جاری رکھیں گے۔
تاہم بعض ملکوں نے انٹرنیٹ کو مذہب پر یقین رکھنے والوں کو نشانہ بنانے اور انہیں خاموش کرنے کے آلے کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ مثلاً گذشتہ سال، سعودی عرب میں ایک شخص نے عیسائیت کے بارے میں بلاگنگ کرنے کی پاداش میں، کئی مہینے جیل میں گذارے ۔ ہارورڈ کے ایک مطالعے میں پتہ چلا کہ سعودی حکومت نے ہندو مت، یہودیت، عیسائیت، یہاں تک کہ اسلام کے بارے میں بہت سے صفحات کو بلاک کر دیا۔ ویتنام اور چین سمیت بہت سے ملکوں نے مذہبی معلومات تک رسائی کو بلاک کرنے کے لیئے اسی قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیئے۔
جس طرح ان ٹکنالوجیوں کو پُر امن سیاسی تقریر پر سزا دینے کے لیئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئیے، اسی طرح انہیں مذہبی اقلیتوں پر ظلم کرنے یا انہیں خاموش کرنے کے لیئے بھی استعمال نہیں کیا جانا چاہیئے۔دعائیں ہمیشہ زیادہ بلند نیٹ ورکس پر سفر کریں گی ۔ لیکن رابطے کی ٹکنالوجیوں جیسے انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ کی سائٹس سے افراد کی اپنی مرضی کے مطابق عبادت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے، اور دوسروں کے عقائد کو جاننے کا موقع ملتا ہے ۔ جس طرح ہم زندگی کے دوسرے شعبوں میں کرتے ہیں، ہمیں آن لائن عبادت کی آزادی کے فروغ کے لیئے بھی کام کرنا چاہیئے ۔
دنیا میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جنہیں ان ٹکنالوجیوں کے فوائد میسر نہیں ہیں۔ جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے ، ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں صلاحیتیں سب میں تقسیم ہوتی ہیں، لیکن سب کو مواقع نہیں ملتے۔ اور ہم نے اپنے طویل تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ ایسے ملکوں میں جہاں لوگوں کو علم، منڈیوں، سرمایے، اور مواقع تک رسائی حاصل نہیں ہے، سماجی اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینا مایوس کُن اور کبھی کبھی بالکل بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے۔ اس ضمن میں، انٹرنیٹ برابری کے مواقع فراہم کرنے کا بڑا چھا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ لوگوں کو معلومات اور امکانی منڈیوں تک رسائی کے ذریعے، نیٹ ورکس ایسے شعبوں میں مواقع پیدا کر سکتے ہیں جہاں پہلے کچھ بھی نہیں تھا۔
گذشتہ سال کے دوران، میں نے خود کینیا میں اس چیز کا مشاہدہ کیا ہے ۔ وہاں کاشتکاروں کی آمدنی میں، موبائل بنکنگ ٹکنالوجی کے استعمال سے، 30 فیصد تک کا اضافہ ہو گیا۔ بنگلہ دیش میں، جہاں 300,000 سے زیادہ لوگوں نے اپنے موبائل فونز پر انگریزی سیکھنے کے لیئے اپنے نام درج کرائے ہیں۔ اور میں نے افریقہ کے زیریں صحارا کے علاقے میں کاروبار کرنے والی عورتوں کو چھوٹے چھوٹے قرضوں تک رسائی حاصل کرتے، اور خود عالمی منڈیوں سے رابطہ قائم کرتے دیکھا ہے ۔
ترقی کی ان مثالوں سے دنیا کے وہ اربوں لوگ مستفید ہو سکتے ہیں جو دنیا میں اقتصادی طور سے سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ بہت سے کیسوں میں، انٹرنیٹ، موبائل فونز، اور رابطہ قائم کرنے کی دوسری ٹکنالوجیوں سے اقتصادی ترقی کے لیئے وہ سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے جو زراعت میں سبز انقلاب سے حاصل کیا گیا تھا۔ اب آپ بہت کم سرمایہ لگا کر پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ حاصل کر سکتے ہیں۔ عالمی بنک کے ایک تحقیقی مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ایک عام ترقی پذیر ملک میں، موبائل فونز کی تعداد میں 10 فیصد اٖضافے کی شرح سے ، مجموعی قومی پیداوار کی فی کس شرح میں تقریباً 1 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس بات کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ بھارت کے لیئے، اس اضافے کا مطلب تقریباً 10 ارب ڈالر سالانہ ہو گا۔
عالمی انفارمیشن نیٹ ورک سے تعلق قائم ہونا ایسا ہی ہے جیسے جدیدیت کی شاہراہ پر سفر کا آغاز کرنا۔ ان ٹکنالوجیوں کے ابتدائی برسوں میں، بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ان سے دنیا امیروں اور غریبوں میں بٹ جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ہے ۔ آج کل 4 ارب سیل فون زیرِ استعمال ہیں۔ ان میں سے بہت سے بازاروں میں سودا بیچنے والوں، رکشا چلانے والوں، اور ایسے دوسرے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جو تاریخی طور پر تعلیم اور ترقی کے مواقع سے محروم رہے ہیں۔ انفارمیشن نیٹ ورکس سے غریب اور امیر کےد رمیان فرق کرنے میں مدد ملی ہے، اور ہمیں چاہیئے کہ انہیں لوگوں کو غربت کے چنگل سے نکالنے اور احتیاج سے آزادی دلانے کے لیئے استعمال کریں۔
ہمارے پاس اب اس بارے میں پرامید ہونے کا ہر جواز موجود ہے کہ لوگ ترقی کے حصول کے لیے کمیونیکیشن نیٹ ورکس اور کنکشن ٹیکنالوجیز کے استعمال میں اضافے سے کیا کیا فائدے حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ کچھ لوگ گلوبل انفارمیشن نیٹ ورکس کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور وہ یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔ متشدد انتہاپسند، جرائم پیشہ گروہ، جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے والے اور آمرانہ حکومتیں ، یہ سب گلوبل نیٹ ورکس کا ناجائز فائدے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جس طرح دہشت گروں نے اپنے منصوبوں پر عمل کرنے کے لیے ہمارے معاشروں کی وسیع القلبی کا فائدہ اٹھایا تھا ، اسی طرح متشدد انتہا پسند انٹرنیٹ کو کٹرنظریات پھیلانے اور ہراساں کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اب جب کہ ہم آزادیوں کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں، ہمیں ان کے خلاف بھی کام کرنا چاہیے جو کمیونیکشین نیٹ ورکس کو انتشار اور خوف پھیلانے کے لیے ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کرتے ہیں۔
حکومتوں اور شہریوں کو یہ بھروسہ ہونا چاہیے کہ قومی سلامتی اور اقتصادی خوش حالی کے ان کے نیٹ ورکس محفوظ ہیں اور ان میں فوری طور پر بحالی کی صلاحیت موجود ہے۔ اب اس کا تعلق ویب سائٹس کو نقصان پہنچانے والے معمولی ہیکرز تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہماری آن لائن بینکنگ کی صلاحیت، الیکٹرانک کامرس کا استعمال، اور اربوں ڈالر مالیت کے کاپی رائٹس، یہ سب اس صورت میں خطرے میں پڑ جائیں گے اگر ہمارے انفارمیشن نیٹ ورکس قابل بھروسہ نہ ہوں۔
ان نظاموں میں خلل اندازیوں کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام حکومتیں، پرائیویٹ سیکٹر اور بین الاقوامی کمیونٹی مربوط انداز میں کام کریں ۔ جرائم پیشہ ہیکرز اور منظم جرائم پیشہ گروہوں کی جانب سے اپنے مالی فوائد کے لیےنیٹ ورکس کو نشانہ بنانے کی صورت میں ہمیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعاون بڑھانے میں مدد کے لیے مزید ذرائع درکار ہوں گے۔ اور ایسے ہی اقدامات ان معاشرتی خرابیوں مثلاً انٹرنیٹ پر بچوں کی قابل اعتراض تصاویر ، غیر قانونی طورپر سمگل کی جانے والی عورتوں کے استحصال اور گرلز آن لائن کے سلسلے میں اور ان لوگوں کے خلاف کرنے ہوں گے جو مالی منفعت کے لیے ان کا استحصال کرتے ہیں۔ہم سائبر کرائمز پرکونسل آن یورپ کے کنونشن جیسی کوششوں کو سراہتے ہیں جوایسے جرائم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے بین الاقوامی تعاون میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اور ہماری خواہش ہے کہ ہم ان کوششوں میں چار گنا اضافہ کردیں۔
ہم نے انٹرنیٹ کی عالمی سیکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لیے کوئی سفارتی حل تلاش کرنے کی غرض سے ایک حکومت اور ایک محکمے کے طورپر اقدامات کیے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ میں ہمارے پاس بہت سے لوگ اس پر کام کررہے ہیں ۔انہوں نے مل کر دو سال قبل سائبر سپیس کے بارے میں خارجہ پالیسی کو مربوط بنانے کے لیے ایک دفتر قائم کیا تھا۔ہم نے اقوام متحدہ اور دوسرے کثیر فریقی فورموں پر اس چیلنج سے نمٹنے اور سائبر سیکیورٹی کو دنیا کے ایجنڈے پرلانے کےلیے کام کیا ہے ۔اور صدر اوباما نے ابھی حال ہی میں سائبر سپیس کی قومی پالیسی کے لیے ایک نئے رابطہ کار کا تقرر کیا ہے جو یہ یقینی بنانے کے لیے ،کہ ہر ایک کے نیٹ ورکس آزاد ، محفوظ اور قابل بھروسہ رہیں، اور بھی زیادہ قریبی طورپر کام کرنے میں ہماری مدد کریں گے۔
(جاری ہے)
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
Internet Freedom – Hillary Clinton Speech
انٹرنیٹ کی آزادی کے بارے میں وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن کی تقریر
21 جنوری،2010
دی نیوزیم، واشنگٹن، ڈی سی
وزیرِ خارجہ کلنٹن:
ایک بہت اہم موضوع پر یہ ایک اہم تقریر ہے ۔ لیکن اپنی تقریر شروع کرنے سے پہلے ، میں مختصراً ہیٹی کے بارے میں کچھ کہنا چاہتی ہوں کیوں کہ گذشتہ آٹھ دنوں کے دوران ، ہیٹی کے لوگ اور دنیا کے لوگ مِل جُل کر اس ہولناک المیے سے نمٹ رہے ہیں ۔ ہمارے کرہ ٔ ارض پر اس سے پہلے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن پورٹ او پرنس جیسی صورتِ حال جیسی تباہی کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ ہماری امدادی کارروائیوں میں مواصلاتی نیٹ ورکس نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ بہت سے نیٹ ورکس کو نقصان پہنچا اور بہت سے مقامات پر وہ مکمل طور سے تباہ ہو گئے۔ اور زلزلے کے بعد چند گھنٹوں میں، ہم نے نجی شعبے میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مِل کر، پہلے ٹیکسٹ “ہیٹی” مہم قائم کی تا کہ امریکہ میں موبائل فون استعمال کرنے والے ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے امدادی کاموں کے لیئے عطیات دے سکیں۔یہ اقدام امریکی عوام کی فیاضی کی شاندار مثال ثابت ہوا ہے اور اس کے ذریعے، بحالی کے کام کے لیئے اب تک 2کروڑ پچاس لاکھ ڈالر جمع کیئے جا چکے ہیں۔
انفارمیشن نیٹ ورکس نے بھی امدادی کاموں میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ سنیچر کے روز جب میں پورٹ او پرنس میں صدر Preval کے ساتھ تھی، تو ان کی ایک اہم ترجیح یہ تھی کہ کمیونیکیشن کا نظام کام شروع کردے۔ حکومت کے مختلف شعبے، جو کچھ بھی باقی بچا تھا، ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کر سکتے تھے ، اور غیر سرکاری تنظیمیں ، ہماری سویلین قیادت، ہماری فوجی قیادت ، سب بری طرح متاثر ہوئی تھیں ۔ ٹکنالوجی کمیونٹی نے انٹر ایکٹو نقشے تیار کیئے ہیں تا کہ ہم ضرورتوں کی نشاندہی کر سکیں اور وسائل سے فائدہ اٹھاسکیں ۔ اور پیر کے روز، ایک سرچ اور ریسکیو امریکی ٹیم نے ایک سات سالہ لڑکی اور دو عورتوں کو ایک تباہ شدہ سپر مارکٹ کے ملبے سے باہر نکال لیا۔ انھوں نے یہ کام اس وقت کیا جب ان لوگوں نے مدد کے لیئے ٹیکسٹ میسیج بھیجا۔ یہ چند مثالیں کہیں زیادہ بڑے کارناموں کی مظہر ہیں۔
انفارمیشن نیٹ ورکس کے پھیلاؤ سے ہماری دنیا میں ایک نئے اعصابی نظام کی تشکیل ہو رہی ہے ۔ جب ہیٹی میں یا ہونان میں کچھ ہوتا ہے، تو ہم سب کو فوری طور پر جیتے جاگتے لوگوں سے پتہ چل جاتا ہے، اور ہم فوری طور پر جوابی کارروائی بھی کر سکتے ہیں ۔ قدرتی آفت کے بعد جو امریکی مدد دینے کے لیئے بے چین ہیں، اور سپر مارکٹ کے ملبے میں پھنسی ہوئی لڑکی کے درمیان آج کل جس قسم کے رابطے قائم ہیں، ایک سال پہلے، بلکہ ایک نسل پہلے ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آج تقریباً پوری انسانیت پر اسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اس وقت جب ہم یہاں بیٹھے ہیں، آپ میں سے کوئی بھی ۔۔ بلکہ زیادہ امکان یہ ہے کہ ہمارے بچوں میں سے کوئی بھی ۔۔ وہ آلات نکال سکتا ہے جو ہمارے پاس ہر روز ہوتے ہیں، اور اس گفتگو کو دنیا بھر میں اربوں لوگو ں تک پہنچا سکتا ہے ۔
کئی لحاظ سے، معلومات کبھی بھی اتنی آزادی سے دستیاب نہیں تھیں۔ تاریخ میں کبھی بھی اتنے مختلف طریقوں سے خیالات اور تصورات کو اتنے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ممکن نہیں تھا جتنا آج کل ہے ۔ ان ملکوں میں بھی جہاں آمرانہ نظام قائم ہیں، انفارمیشن نیٹ ورکس کے ذریعے لوگوں کو نئے حقائق معلوم کرنے میں مدد مل رہی ہے، اور اس طرح حکومتوں کو زیادہ جوابدہ بنایا جا رہا ہے ۔
مثلاً، نومبر میں اپنے چین کے دورے میں، صدر اوباما نے ایک ٹاؤن ہال میٹنگ منعقد کی جس میں ایک آن لائن جزو شامل تھا تا کہ انٹرنیٹ کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے ۔ایک سوال کے جواب میں جو انہیں انٹرنیٹ پر بھیجا گیا تھا، انھوں نے لوگوں کے اس حق کا دفاع کیا کہ لوگوں کو آزادی سے معلومات تک رسائی حاصل ہو۔انھوں نے کہا کہ جتنی زیادہ آزادی سے معلومات کی ترسیل ہوتی ہے، معاشرے اتنے ہی زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح معلومات تک رسائی سے شہریوں کو اپنے حکومتوں کو جوابدہ بنانے اور نئے خیالات پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے اور تخلیقی عمل اور کاروباری عمل کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔اس سچائی میں امریکہ کا پختہ یقین ہے جو مجھے آج یہاں لایا ہے ۔
کیوں کہ ایک دوسرے سے رابطے میں بے مثال اضافے کے اس دور میں، ہمیں یہ بھی جاننا چاہیئے کہ ٹکنالوجی کی اس بہتات کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔ ان آلات کو انسانی ترقی اور سیاسی حقوق کو نقصان پہنچانے کے لیئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے فولاد کو ہسپتال یا مشین گنیں بنانے کے لیئے استعمال کیا جا سکتا ہے، اور نیوکلیئر انرجی سے کسی شہر کو یا تو توانائی فراہم کی جا سکتی ہے یا اسے تباہ کیا جا سکتا ہے ، انفارمیشن کے جدید نیٹ ورکس اور ان سے مستفید ہونے والی ٹکنالوجی کو اچھے اور برے دونوں مقاصد کے لیئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ وہی نیٹ ورکس جن سے آزادی کی تحریکوں کو منظم کرنے میں مدد ملتی ہے، القاعدہ کو نفرت پھیلانے ، اور بے گناہ لوگوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے کے کام آتے ہیں ۔ اور وہی ٹکنالوجیاں جن کے ذریعے حکومتوں تک رسائی ممکن ہو سکتی ہے اور شفاف حکومتوں کو فروغ مِل سکتا ہے، انھیں ٹکنالوجیوں کو حکومتیں اختلاف رائے کو کچلنے اور انسانی حقوق سے محروم کرنے کے لیئے ہائی جیک کر سکتی ہیں۔
گذشتہ سال کے دوران، ہم نے دیکھا ہے کہ معلومات کی آزادنہ ترسیل کے لیئے خطرے میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ ۔ چین، تونس، اور ازبکستان نے انٹرنیٹ کی سینسرشپ میں اضافہ کر دیا ہے۔ ویتنام میں، سوشل نیٹ ورکنگ کی مقبول ویب سائٹس تک رسائی اچانک ختم ہو گئی ہے اور گذشتہ جمعے کے روز، مصر میں 30 بلاگرز اور سرگرم کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ اس گروپ کے ایک رکن، Bassem Smir ، جو اب شکر ہے کہ جیل میں نہیں ہیں، آج ہمارے ساتھ ہیں۔ پس، اگرچہ یہ صحیح ہے کہ ان ٹکنالوجیوں کے پھیلاؤ سے ہماری دنیا تبدیل ہو رہی ہے، یہ بات اب بھی واضح نہیں ہے کہ اس تبدیلی سے انسانی حقوق اور دنیا کے آبادی کے بیشتر حصے کی فلاح پر کیا اثر پڑے گا۔
یہ نئی ٹکنالوجیاں از خود آزادی اور ترقی کی جدو جہدمیں کسی کی طرفداری نہیں کرتیں لیکن امریکہ ضرور کرتا ہے ۔ ہم ایک واحد انٹرنیٹ کے حامی ہیں جس میں پوری انسانیت کو علم و دانش اور تصورات تک برابر کی رسائی حاصل ہو۔ اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کا انفارمیشن کا نظام وہی شکل اختیار کر ے گا جو ہم اور دوسرے ملک اسے دینا چاہیں گے۔ آج کل ہمیں جو چیلنج درپیش ہے وہ نیا ضرور ہے لیکن خیالات کے آزادانہ تبادلے کو یقینی بنانے کے لیئے ہماری ذمہ داری اتنی ہی قدیم ہے جتنی ہماری جمہوریہ کی پیدائش۔ ہمارے آئین کی پہلی ترمیم کے الفاظ اس عمارت پر لگے ہوئے ریاست ٹینےسی کے پچاس ٹن سنگ مرمر پر کندہ ہیں۔ اور امریکیوں کی ہر نسل نے اس پتھر پر کندہ اقدار کی حفاظت کے لیئے کام کیا ہے ۔
فرینکلن روزویلٹ نے، انہیں خیالات کو اساس بنایا جب انھوں نے 1941 میں اپنی چار آزادیوں والی تقریر کی ۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکی بحرانوں میں گھرے ہوئے تھے اور ان کا اعتماد بحران کا شکار تھا۔ لیکن ایک ایسی دنیا کا تصور جس میں تمام لوگوں کو اظہار کی آزادی، عبادت کی آزادی، احتیاج سے آزادی، اور خوف سے آزادی حاصل ہو، اس دور کے مسائل پر غالب آ گیا۔اور برسوں بعد، میری ایک ہیرو، Eleanor Roosevelt نے انہیں اصولوں کو انسانی حقوق کے عالمی اعلان کی بنیاد بنانے کے لیئے جدو جہد کی ۔ اور بعد کی ہر نسل نے انہیں اصولوں سے رہنمائی حاصل کی ہے ۔۔انہیں اصولوں نے ہمیں راستہ دکھایا ہے، ہمیں متحد کیا ہے، اور غیر یقینی کی حالت میں ہمیں آگے بڑھنے کی صلاحیت عطا کی ہے ۔
چنانچہ جیسے جیسے ٹکنالوجی برق رفتاری سے آگے بڑھتی ہے، ہمیں اس ورثے کے بارے میں سوچنا چاہیئے ۔ ہمیں ٹکنالوجی کی ترقی کو اپنے اصولوں سے ہم آہنگ کرنا چاہیئے ۔ نوبیل انعام قبول کرتے ہوئے، صدر اوباما نے ایک ایسی دنیا تعمیر کرنے کی ضرورت پر زور دیا جس میں ہر انسان کے بنیادی حقوق اور ہر فرد کی عزتِ نفس، امن کی اساس ہوں۔ اور چند روز بعد جارج ٹاؤن میں اپنی تقریر میں، میں نے کہا تھا کہ ہمیں ایسے طریقے تلاش کرنے چاہئیں جن کے ذریعے انسانی حقوق حقیقت بن سکیں ۔ آج اکیسویں صدی کے ڈجیٹل فرنٹیئر ز میں، ان آزادیوں کی حفاظت کی فوری ضرورت ہے ۔
دنیا میں اور بہت سی اقسام کے نیٹ ورکس ہیں۔ ان میں بعض انسانوں یا وسائل کی نقل و حرکت میں مدد دیتے ہیں، اور بعض ایک جیسے کام یا دلچسپیاں رکھنے والے افراد کے درمیان تبادلوں میں آسانی پیدا کرتے ہیں۔ لیکن انٹرنیٹ ایسا نیٹ ورک ہے جو تمام دوسرے نیٹ ورکس کی طاقت اور امکانات میں اضافہ کر تا ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اس کے استعمال کرنے والوں کو بعض بنیادی آزادیوں کا یقین ہو۔ان میں سب سے پہلی اظہارِ رائے کی آزادی ہے۔ اب اس آزادی کی وضاحت صرف اس طرح نہیں کی جاتی کہ شہریوں کو شہر کے چوک میں جانے اور بلا خوف و خطر اپنی حکومت پر تنقید کرنے کی آزادی ہے یا نہیں۔ بلاگس، ای میل، سوشل نیٹ ورکس اور ٹیکسٹ میسیجز نے خیالات کے تبادلے کے نئے ذرائع کھول دیے ہیں، اور سینسر شپ کے نئے اہداف پیدا کر دیے ہیں۔
اس وقت بھی جب آج میں آ پ سے مخاطب ہوں، سرکاری سینسرز میرے الفاظ کو تاریخ کے ریکارڈز سے مٹانے کے لیئے زور شور سے کام کر رہے ہیں۔لیکن خود تاریخ پہلے ہی ان ہتھکنڈوں کی مذمت کر چکی ہے ۔ دو مہینے پہلے، میں دیوارِ برلن کے گرنے کی بیسویں سالگرہ منانے کے لیئے جرمنی میں تھی۔ اس تقریب میں جو لیڈر جمع ہوئے تھے انھوں نے ان بہادر مردوں اور عورتوں کو خراج تحسین پیش کیا جنھوں نے چھوٹے چھوٹے پمفلٹ جنہیں samizdat کہا جاتا ہے ، تقسیم کیئے اور ظلم کے خلاف اپنا کیس پیش کیا۔ ان پمفلٹوں میں مشرقی بلاک کی آمرانہ حکومتوں کے دعووں اور عزائم کی قلعی کھولی گئی اور بہت سے لوگوں کو انہیں تقسیم کرنے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ۔لیکن ان کے الفاظ نے کنکریٹ کی دیواروں میں شگاف ڈالنے اور آہنی پردے کے تار کو مسمار کرنے میں مدد دی۔
دیوارِ برلن ایک منقسم دنیا کی علامت اور ایک پورے عہد کا مرقع تھی ۔ آج، اس دیوار کے بچے کھچے ٹکڑے اس میوزیم کے اندر موجود ہیں جو ان کے لیئے صحیح جگہ ہے ۔ اور ہمارےدور کا ایک نیا شاہکار انفرا اسٹرکچر اانٹر نیٹ ہے ۔یہ تقسیم نہیٕں بلکہ جوڑنے کا کام کرتاہے ۔ لیکن اب جب کہ ملکوں تک پہنچنے کے لیئے دنیا کے گرد نیٹ ورکس پھیل رہے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ ظاہری دیواروں کی جگہ عملی طور پر دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ بعض ملکوں نے الیکٹرانک رکاوٹیں تخلیق کی ہیں جو لوگوں کو عالمی نیٹ ورکس کے بعض حصوں تک رسائی حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔ انھوں نے سرچ انجن کے نتائج سے بعض الفاظ، نام اور فقرے حذف کر دیے ہیں۔ انھوں نے ایسے شہریوں کے نجی امور میں مداخلت کی ہے جو تشدد سے پاک سیاسی تقریر کرتے ہیں۔ یہ کارروائیاں انسانی حقوق کے عالمی اعلان کے خلاف ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو معلومات کی تلاش کرنے، انہیں وصول کرنے اور سرحدوں کی تخصیص کے بغیر، کسی بھی میڈیا کے ذریعے معلومات اور خیالات کی تقسیم کا حق حاصل ہے ۔ اس قسم کی پابندیوں کے پھیلاؤ سے، دنیا کے بیشتر حصے پر معلومات پر ایک نیا پردہ گرایا جا رہا ہے ۔ اس پردے سے دور، وائرل وڈیوز اور بلاگ پوسٹس ہمارے دور کے samizdat بنتے جا رہے ہیں۔
جیسا کہ ماضی کی آمریتوں میں ہوتا رہا ہے، حکومتیں ان آزاد مفکروں کو نشانہ بنا رہی ہیں جو یہ آلات استعمال کرتے ہیں۔ ایران کے صدارتی انتخاب کے بعد جو مظاہرے ہوئے، ان میں ایک نوجوان عورت کی خونی ہلاکت کی سیل فون سے لی ہوئی دھندلی تصویروں نے حکومت کی وحشیانہ کارروائی کا ثبوت فراہم کیا۔ ہم نے ایسی رپورٹیں دیکھی ہیں کہ جب بیرونی دنیا میں رہنے والے ایرانیوں نے اپنے ملک کے لیڈروں پر آن لائن تنقید پوسٹ کی، تو ایران میں ان کے اہلِ خاندان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اور حکومت کی طرف سے ڈرانے دھمکانے کی زبردست مہم کے باوجود، ایران میں شہری صحافی مسلسل ٹکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں تا کہ دنیا کو اور اپنے ہم وطن شہریوں کو یہ بتایا جا سکے کہ ان کے ملک کے اندر کیا ہو رہا ہے ۔ اپنے انسانی حقوق کے لیئے ایران کے لوگوں نے جس طرح آواز اٹھائی ہے، اس نے دنیا کے لوگوں میں جوش و ولولہ پیدا کر دیا ہے ۔ اور انھوں نے اپنی جرأت سے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ ٹکنالوجی کو کس طرح سچائی کو پھیلانے اور ناانصافی کو آشکار کرنے کے لیئے استعمال کیا جا سکتا ہے
تمام معاشروں میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ آزادیٔ اظہار کی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ ہم ان لوگوں کو برداشت نہیں کرتے جو دوسروں کو تشدد پر اکساتے ہیں ، جیسے القاعدہ کے ایجنٹ جو اس وقت بھی دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر لوگوں کے قتل کو فروغ دینے کے لیئے انٹرنیٹ کو استعمال کر رہے ہیں۔ اور ایسی نفرت انگیز تقریر جس میں لوگوں کو ان کی نسل، مذہب، گروہ ، جنس یا جنسی رجحان کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے ، قابلِ نفرت ہے ۔ اور ہمیں گمنام تقریر کے مسئلے سے بھی نمٹنا چاہیئے ۔وہ لوگ جو انٹرنیٹ کو دہشت گردوں کی بھرتی کے لیئے یا چرائی ہوئی املاکِ دانش کو تقسیم کرنے کے لیئے استعمال کرتے ہیں، اپنے آن لائن اقدامات کو اپنی اصل شناخت سے الگ نہیں کر سکتے۔ لیکن ان چیلنجوں سے حکومتوں کے لیئے یہ جواز پیدا نہیں ہوتا کہ وہ ان لوگوں کے حقوق کی باقاعدگی سے خلاف ورزی کریں اور ان کے نجی امور میں مداخلت کریں جو انٹرنیٹ کو پرُامن سیاسی مقاصد کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔
نئی ٹکنالوجیز کے پھیلاؤ کے ساتھ آزادیٔ اظہار کو بظاہر سب سے زیادہ چیلنج درپیش ہو سکتے ہیں لیکن خطرہ صرف اسی آزادی کو درپیش نہیں ہے ۔ عبادت کی آزادی میں عموماًا فراد کے یہ حقوق شامل ہیں کہ وہ اپنے خالق کے ساتھ تعلق قائم کریں یا نہ کریں۔ اور خوش قسمتی سے رابطہ قائم کرنے کا یہ وہ ذریعہ ہے جس کا انحصار ٹکنالوجی پر نہیں ہے ۔ لیکن عبادت کی آزادی میں یہ حقوق بھی شامل ہیں کہ ان لوگوں کے ساتھ مِل بیٹھا جائے جن کی اقدار آپ کے ساتھ مشترک ہیں اور جو انسانیت کے لیئے آپ کے تصور سے متفق ہیں۔ ہماری تاریخ میں، اس قسم کے اجتماعات اکثر چرچوں، کنیساؤں، مندروں اور مسجدوں میں ہوتے ہیں۔ آج کل، یہ اجتماعات آن لائن بھی ہو سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ سے مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان اختلاف کم کیئے جا سکتے ہیں۔ جیسا کہ صدر نے قاہرہ میں کہا تھا، لوگوں کے مِل جُل کر رہنے کی صلاحیت میں ، مذہب کی آزادی کو مرکزی مقام حاصل ہے ۔اور اب جب کہ ہم مکالمے کو وسعت دینے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں، انٹرنیٹ کو اس مقصد کے لیئے استعمال کرنے کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ہم نے پہلے ہی امریکی طالب علموں کو دنیا بھر میں مسلمان کمیونٹیوں میں نوجوانوں کے ساتھ رابطے میں لانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے تا کہ وہ عالمی چیلنجوں پر تبادلۂ خیال کر سکیں۔ اور ہم مختلف مذہبی کمیونٹیوں کے درمیان بات چیت کو فروغ دینے کے لیئے اس وسیلے کا استعمال جاری رکھیں گے۔
تاہم بعض ملکوں نے انٹرنیٹ کو مذہب پر یقین رکھنے والوں کو نشانہ بنانے اور انہیں خاموش کرنے کے آلے کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ مثلاً گذشتہ سال، سعودی عرب میں ایک شخص نے عیسائیت کے بارے میں بلاگنگ کرنے کی پاداش میں، کئی مہینے جیل میں گذارے ۔ ہارورڈ کے ایک مطالعے میں پتہ چلا کہ سعودی حکومت نے ہندو مت، یہودیت، عیسائیت، یہاں تک کہ اسلام کے بارے میں بہت سے صفحات کو بلاک کر دیا۔ ویتنام اور چین سمیت بہت سے ملکوں نے مذہبی معلومات تک رسائی کو بلاک کرنے کے لیئے اسی قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیئے۔
جس طرح ان ٹکنالوجیوں کو پُر امن سیاسی تقریر پر سزا دینے کے لیئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئیے، اسی طرح انہیں مذہبی اقلیتوں پر ظلم کرنے یا انہیں خاموش کرنے کے لیئے بھی استعمال نہیں کیا جانا چاہیئے۔دعائیں ہمیشہ زیادہ بلند نیٹ ورکس پر سفر کریں گی ۔ لیکن رابطے کی ٹکنالوجیوں جیسے انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ کی سائٹس سے افراد کی اپنی مرضی کے مطابق عبادت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے، اور دوسروں کے عقائد کو جاننے کا موقع ملتا ہے ۔ جس طرح ہم زندگی کے دوسرے شعبوں میں کرتے ہیں، ہمیں آن لائن عبادت کی آزادی کے فروغ کے لیئے بھی کام کرنا چاہیئے ۔
دنیا میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جنہیں ان ٹکنالوجیوں کے فوائد میسر نہیں ہیں۔ جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے ، ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں صلاحیتیں سب میں تقسیم ہوتی ہیں، لیکن سب کو مواقع نہیں ملتے۔ اور ہم نے اپنے طویل تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ ایسے ملکوں میں جہاں لوگوں کو علم، منڈیوں، سرمایے، اور مواقع تک رسائی حاصل نہیں ہے، سماجی اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینا مایوس کُن اور کبھی کبھی بالکل بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے۔ اس ضمن میں، انٹرنیٹ برابری کے مواقع فراہم کرنے کا بڑا چھا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ لوگوں کو معلومات اور امکانی منڈیوں تک رسائی کے ذریعے، نیٹ ورکس ایسے شعبوں میں مواقع پیدا کر سکتے ہیں جہاں پہلے کچھ بھی نہیں تھا۔
گذشتہ سال کے دوران، میں نے خود کینیا میں اس چیز کا مشاہدہ کیا ہے ۔ وہاں کاشتکاروں کی آمدنی میں، موبائل بنکنگ ٹکنالوجی کے استعمال سے، 30 فیصد تک کا اضافہ ہو گیا۔ بنگلہ دیش میں، جہاں 300,000 سے زیادہ لوگوں نے اپنے موبائل فونز پر انگریزی سیکھنے کے لیئے اپنے نام درج کرائے ہیں۔ اور میں نے افریقہ کے زیریں صحارا کے علاقے میں کاروبار کرنے والی عورتوں کو چھوٹے چھوٹے قرضوں تک رسائی حاصل کرتے، اور خود عالمی منڈیوں سے رابطہ قائم کرتے دیکھا ہے ۔
ترقی کی ان مثالوں سے دنیا کے وہ اربوں لوگ مستفید ہو سکتے ہیں جو دنیا میں اقتصادی طور سے سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ بہت سے کیسوں میں، انٹرنیٹ، موبائل فونز، اور رابطہ قائم کرنے کی دوسری ٹکنالوجیوں سے اقتصادی ترقی کے لیئے وہ سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے جو زراعت میں سبز انقلاب سے حاصل کیا گیا تھا۔ اب آپ بہت کم سرمایہ لگا کر پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ حاصل کر سکتے ہیں۔ عالمی بنک کے ایک تحقیقی مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ایک عام ترقی پذیر ملک میں، موبائل فونز کی تعداد میں 10 فیصد اٖضافے کی شرح سے ، مجموعی قومی پیداوار کی فی کس شرح میں تقریباً 1 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس بات کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ بھارت کے لیئے، اس اضافے کا مطلب تقریباً 10 ارب ڈالر سالانہ ہو گا۔
عالمی انفارمیشن نیٹ ورک سے تعلق قائم ہونا ایسا ہی ہے جیسے جدیدیت کی شاہراہ پر سفر کا آغاز کرنا۔ ان ٹکنالوجیوں کے ابتدائی برسوں میں، بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ان سے دنیا امیروں اور غریبوں میں بٹ جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ہے ۔ آج کل 4 ارب سیل فون زیرِ استعمال ہیں۔ ان میں سے بہت سے بازاروں میں سودا بیچنے والوں، رکشا چلانے والوں، اور ایسے دوسرے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جو تاریخی طور پر تعلیم اور ترقی کے مواقع سے محروم رہے ہیں۔ انفارمیشن نیٹ ورکس سے غریب اور امیر کےد رمیان فرق کرنے میں مدد ملی ہے، اور ہمیں چاہیئے کہ انہیں لوگوں کو غربت کے چنگل سے نکالنے اور احتیاج سے آزادی دلانے کے لیئے استعمال کریں۔
ہمارے پاس اب اس بارے میں پرامید ہونے کا ہر جواز موجود ہے کہ لوگ ترقی کے حصول کے لیے کمیونیکیشن نیٹ ورکس اور کنکشن ٹیکنالوجیز کے استعمال میں اضافے سے کیا کیا فائدے حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ کچھ لوگ گلوبل انفارمیشن نیٹ ورکس کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور وہ یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔ متشدد انتہاپسند، جرائم پیشہ گروہ، جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے والے اور آمرانہ حکومتیں ، یہ سب گلوبل نیٹ ورکس کا ناجائز فائدے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جس طرح دہشت گروں نے اپنے منصوبوں پر عمل کرنے کے لیے ہمارے معاشروں کی وسیع القلبی کا فائدہ اٹھایا تھا ، اسی طرح متشدد انتہا پسند انٹرنیٹ کو کٹرنظریات پھیلانے اور ہراساں کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اب جب کہ ہم آزادیوں کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں، ہمیں ان کے خلاف بھی کام کرنا چاہیے جو کمیونیکشین نیٹ ورکس کو انتشار اور خوف پھیلانے کے لیے ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کرتے ہیں۔
حکومتوں اور شہریوں کو یہ بھروسہ ہونا چاہیے کہ قومی سلامتی اور اقتصادی خوش حالی کے ان کے نیٹ ورکس محفوظ ہیں اور ان میں فوری طور پر بحالی کی صلاحیت موجود ہے۔ اب اس کا تعلق ویب سائٹس کو نقصان پہنچانے والے معمولی ہیکرز تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہماری آن لائن بینکنگ کی صلاحیت، الیکٹرانک کامرس کا استعمال، اور اربوں ڈالر مالیت کے کاپی رائٹس، یہ سب اس صورت میں خطرے میں پڑ جائیں گے اگر ہمارے انفارمیشن نیٹ ورکس قابل بھروسہ نہ ہوں۔
ان نظاموں میں خلل اندازیوں کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام حکومتیں، پرائیویٹ سیکٹر اور بین الاقوامی کمیونٹی مربوط انداز میں کام کریں ۔ جرائم پیشہ ہیکرز اور منظم جرائم پیشہ گروہوں کی جانب سے اپنے مالی فوائد کے لیےنیٹ ورکس کو نشانہ بنانے کی صورت میں ہمیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعاون بڑھانے میں مدد کے لیے مزید ذرائع درکار ہوں گے۔ اور ایسے ہی اقدامات ان معاشرتی خرابیوں مثلاً انٹرنیٹ پر بچوں کی قابل اعتراض تصاویر ، غیر قانونی طورپر سمگل کی جانے والی عورتوں کے استحصال اور گرلز آن لائن کے سلسلے میں اور ان لوگوں کے خلاف کرنے ہوں گے جو مالی منفعت کے لیے ان کا استحصال کرتے ہیں۔ہم سائبر کرائمز پرکونسل آن یورپ کے کنونشن جیسی کوششوں کو سراہتے ہیں جوایسے جرائم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے بین الاقوامی تعاون میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اور ہماری خواہش ہے کہ ہم ان کوششوں میں چار گنا اضافہ کردیں۔
ہم نے انٹرنیٹ کی عالمی سیکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لیے کوئی سفارتی حل تلاش کرنے کی غرض سے ایک حکومت اور ایک محکمے کے طورپر اقدامات کیے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ میں ہمارے پاس بہت سے لوگ اس پر کام کررہے ہیں ۔انہوں نے مل کر دو سال قبل سائبر سپیس کے بارے میں خارجہ پالیسی کو مربوط بنانے کے لیے ایک دفتر قائم کیا تھا۔ہم نے اقوام متحدہ اور دوسرے کثیر فریقی فورموں پر اس چیلنج سے نمٹنے اور سائبر سیکیورٹی کو دنیا کے ایجنڈے پرلانے کےلیے کام کیا ہے ۔اور صدر اوباما نے ابھی حال ہی میں سائبر سپیس کی قومی پالیسی کے لیے ایک نئے رابطہ کار کا تقرر کیا ہے جو یہ یقینی بنانے کے لیے ،کہ ہر ایک کے نیٹ ورکس آزاد ، محفوظ اور قابل بھروسہ رہیں، اور بھی زیادہ قریبی طورپر کام کرنے میں ہماری مدد کریں گے۔
(جاری ہے)
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov