انٹرنیٹ کی آزادی کے بارے میں وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن کی تقریر

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

Internet Freedom – Hillary Clinton Speech

انٹرنیٹ کی آزادی کے بارے میں وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن کی تقریر

21 جنوری،2010
دی نیوزیم، واشنگٹن، ڈی سی

وزیرِ خارجہ کلنٹن:

ایک بہت اہم موضوع پر یہ ایک اہم تقریر ہے ۔ لیکن اپنی تقریر شروع کرنے سے پہلے ، میں مختصراً ہیٹی کے بارے میں کچھ کہنا چاہتی ہوں کیوں کہ گذشتہ آٹھ دنوں کے دوران ، ہیٹی کے لوگ اور دنیا کے لوگ مِل جُل کر اس ہولناک المیے سے نمٹ رہے ہیں ۔ ہمارے کرہ ٔ ارض پر اس سے پہلے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن پورٹ او پرنس جیسی صورتِ حال جیسی تباہی کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ ہماری امدادی کارروائیوں میں مواصلاتی نیٹ ورکس نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ بہت سے نیٹ ورکس کو نقصان پہنچا اور بہت سے مقامات پر وہ مکمل طور سے تباہ ہو گئے۔ اور زلزلے کے بعد چند گھنٹوں میں، ہم نے نجی شعبے میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مِل کر، پہلے ٹیکسٹ “ہیٹی” مہم قائم کی تا کہ امریکہ میں موبائل فون استعمال کرنے والے ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے امدادی کاموں کے لیئے عطیات دے سکیں۔یہ اقدام امریکی عوام کی فیاضی کی شاندار مثال ثابت ہوا ہے اور اس کے ذریعے، بحالی کے کام کے لیئے اب تک 2کروڑ پچاس لاکھ ڈالر جمع کیئے جا چکے ہیں۔

انفارمیشن نیٹ ورکس نے بھی امدادی کاموں میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ سنیچر کے روز جب میں پورٹ او پرنس میں صدر Preval کے ساتھ تھی، تو ان کی ایک اہم ترجیح یہ تھی کہ کمیونیکیشن کا نظام کام شروع کردے۔ حکومت کے مختلف شعبے، جو کچھ بھی باقی بچا تھا، ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کر سکتے تھے ، اور غیر سرکاری تنظیمیں ، ہماری سویلین قیادت، ہماری فوجی قیادت ، سب بری طرح متاثر ہوئی تھیں ۔ ٹکنالوجی کمیونٹی نے انٹر ایکٹو نقشے تیار کیئے ہیں تا کہ ہم ضرورتوں کی نشاندہی کر سکیں اور وسائل سے فائدہ اٹھاسکیں ۔ اور پیر کے روز، ایک سرچ اور ریسکیو امریکی ٹیم نے ایک سات سالہ لڑکی اور دو عورتوں کو ایک تباہ شدہ سپر مارکٹ کے ملبے سے باہر نکال لیا۔ انھوں نے یہ کام اس وقت کیا جب ان لوگوں نے مدد کے لیئے ٹیکسٹ میسیج بھیجا۔ یہ چند مثالیں کہیں زیادہ بڑے کارناموں کی مظہر ہیں۔

انفارمیشن نیٹ ورکس کے پھیلاؤ سے ہماری دنیا میں ایک نئے اعصابی نظام کی تشکیل ہو رہی ہے ۔ جب ہیٹی میں یا ہونان میں کچھ ہوتا ہے، تو ہم سب کو فوری طور پر جیتے جاگتے لوگوں سے پتہ چل جاتا ہے، اور ہم فوری طور پر جوابی کارروائی بھی کر سکتے ہیں ۔ قدرتی آفت کے بعد جو امریکی مدد دینے کے لیئے بے چین ہیں، اور سپر مارکٹ کے ملبے میں پھنسی ہوئی لڑکی کے درمیان آج کل جس قسم کے رابطے قائم ہیں، ایک سال پہلے، بلکہ ایک نسل پہلے ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آج تقریباً پوری انسانیت پر اسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اس وقت جب ہم یہاں بیٹھے ہیں، آپ میں سے کوئی بھی ۔۔ بلکہ زیادہ امکان یہ ہے کہ ہمارے بچوں میں سے کوئی بھی ۔۔ وہ آلات نکال سکتا ہے جو ہمارے پاس ہر روز ہوتے ہیں، اور اس گفتگو کو دنیا بھر میں اربوں لوگو ں تک پہنچا سکتا ہے ۔

کئی لحاظ سے، معلومات کبھی بھی اتنی آزادی سے دستیاب نہیں تھیں۔ تاریخ میں کبھی بھی اتنے مختلف طریقوں سے خیالات اور تصورات کو اتنے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ممکن نہیں تھا جتنا آج کل ہے ۔ ان ملکوں میں بھی جہاں آمرانہ نظام قائم ہیں، انفارمیشن نیٹ ورکس کے ذریعے لوگوں کو نئے حقائق معلوم کرنے میں مدد مل رہی ہے، اور اس طرح حکومتوں کو زیادہ جوابدہ بنایا جا رہا ہے ۔

مثلاً، نومبر میں اپنے چین کے دورے میں، صدر اوباما نے ایک ٹاؤن ہال میٹنگ منعقد کی جس میں ایک آن لائن جزو شامل تھا تا کہ انٹرنیٹ کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے ۔ایک سوال کے جواب میں جو انہیں انٹرنیٹ پر بھیجا گیا تھا، انھوں نے لوگوں کے اس حق کا دفاع کیا کہ لوگوں کو آزادی سے معلومات تک رسائی حاصل ہو۔انھوں نے کہا کہ جتنی زیادہ آزادی سے معلومات کی ترسیل ہوتی ہے، معاشرے اتنے ہی زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح معلومات تک رسائی سے شہریوں کو اپنے حکومتوں کو جوابدہ بنانے اور نئے خیالات پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے اور تخلیقی عمل اور کاروباری عمل کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔اس سچائی میں امریکہ کا پختہ یقین ہے جو مجھے آج یہاں لایا ہے ۔

کیوں کہ ایک دوسرے سے رابطے میں بے مثال اضافے کے اس دور میں، ہمیں یہ بھی جاننا چاہیئے کہ ٹکنالوجی کی اس بہتات کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔ ان آلات کو انسانی ترقی اور سیاسی حقوق کو نقصان پہنچانے کے لیئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے فولاد کو ہسپتال یا مشین گنیں بنانے کے لیئے استعمال کیا جا سکتا ہے، اور نیوکلیئر انرجی سے کسی شہر کو یا تو توانائی فراہم کی جا سکتی ہے یا اسے تباہ کیا جا سکتا ہے ، انفارمیشن کے جدید نیٹ ورکس اور ان سے مستفید ہونے والی ٹکنالوجی کو اچھے اور برے دونوں مقاصد کے لیئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ وہی نیٹ ورکس جن سے آزادی کی تحریکوں کو منظم کرنے میں مدد ملتی ہے، القاعدہ کو نفرت پھیلانے ، اور بے گناہ لوگوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے کے کام آتے ہیں ۔ اور وہی ٹکنالوجیاں جن کے ذریعے حکومتوں تک رسائی ممکن ہو سکتی ہے اور شفاف حکومتوں کو فروغ مِل سکتا ہے، انھیں ٹکنالوجیوں کو حکومتیں اختلاف رائے کو کچلنے اور انسانی حقوق سے محروم کرنے کے لیئے ہائی جیک کر سکتی ہیں۔

گذشتہ سال کے دوران، ہم نے دیکھا ہے کہ معلومات کی آزادنہ ترسیل کے لیئے خطرے میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ ۔ چین، تونس، اور ازبکستان نے انٹرنیٹ کی سینسرشپ میں اضافہ کر دیا ہے۔ ویتنام میں، سوشل نیٹ ورکنگ کی مقبول ویب سائٹس تک رسائی اچانک ختم ہو گئی ہے اور گذشتہ جمعے کے روز، مصر میں 30 بلاگرز اور سرگرم کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ اس گروپ کے ایک رکن، Bassem Smir ، جو اب شکر ہے کہ جیل میں نہیں ہیں، آج ہمارے ساتھ ہیں۔ پس، اگرچہ یہ صحیح ہے کہ ان ٹکنالوجیوں کے پھیلاؤ سے ہماری دنیا تبدیل ہو رہی ہے، یہ بات اب بھی واضح نہیں ہے کہ اس تبدیلی سے انسانی حقوق اور دنیا کے آبادی کے بیشتر حصے کی فلاح پر کیا اثر پڑے گا۔

یہ نئی ٹکنالوجیاں از خود آزادی اور ترقی کی جدو جہدمیں کسی کی طرفداری نہیں کرتیں لیکن امریکہ ضرور کرتا ہے ۔ ہم ایک واحد انٹرنیٹ کے حامی ہیں جس میں پوری انسانیت کو علم و دانش اور تصورات تک برابر کی رسائی حاصل ہو۔ اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کا انفارمیشن کا نظام وہی شکل اختیار کر ے گا جو ہم اور دوسرے ملک اسے دینا چاہیں گے۔ آج کل ہمیں جو چیلنج درپیش ہے وہ نیا ضرور ہے لیکن خیالات کے آزادانہ تبادلے کو یقینی بنانے کے لیئے ہماری ذمہ داری اتنی ہی قدیم ہے جتنی ہماری جمہوریہ کی پیدائش۔ ہمارے آئین کی پہلی ترمیم کے الفاظ اس عمارت پر لگے ہوئے ریاست ٹینےسی کے پچاس ٹن سنگ مرمر پر کندہ ہیں۔ اور امریکیوں کی ہر نسل نے اس پتھر پر کندہ اقدار کی حفاظت کے لیئے کام کیا ہے ۔

فرینکلن روزویلٹ نے، انہیں خیالات کو اساس بنایا جب انھوں نے 1941 میں اپنی چار آزادیوں والی تقریر کی ۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکی بحرانوں میں گھرے ہوئے تھے اور ان کا اعتماد بحران کا شکار تھا۔ لیکن ایک ایسی دنیا کا تصور جس میں تمام لوگوں کو اظہار کی آزادی، عبادت کی آزادی، احتیاج سے آزادی، اور خوف سے آزادی حاصل ہو، اس دور کے مسائل پر غالب آ گیا۔اور برسوں بعد، میری ایک ہیرو، Eleanor Roosevelt نے انہیں اصولوں کو انسانی حقوق کے عالمی اعلان کی بنیاد بنانے کے لیئے جدو جہد کی ۔ اور بعد کی ہر نسل نے انہیں اصولوں سے رہنمائی حاصل کی ہے ۔۔انہیں اصولوں نے ہمیں راستہ دکھایا ہے، ہمیں متحد کیا ہے، اور غیر یقینی کی حالت میں ہمیں آگے بڑھنے کی صلاحیت عطا کی ہے ۔

چنانچہ جیسے جیسے ٹکنالوجی برق رفتاری سے آگے بڑھتی ہے، ہمیں اس ورثے کے بارے میں سوچنا چاہیئے ۔ ہمیں ٹکنالوجی کی ترقی کو اپنے اصولوں سے ہم آہنگ کرنا چاہیئے ۔ نوبیل انعام قبول کرتے ہوئے، صدر اوباما نے ایک ایسی دنیا تعمیر کرنے کی ضرورت پر زور دیا جس میں ہر انسان کے بنیادی حقوق اور ہر فرد کی عزتِ نفس، امن کی اساس ہوں۔ اور چند روز بعد جارج ٹاؤن میں اپنی تقریر میں، میں نے کہا تھا کہ ہمیں ایسے طریقے تلاش کرنے چاہئیں جن کے ذریعے انسانی حقوق حقیقت بن سکیں ۔ آج اکیسویں صدی کے ڈجیٹل فرنٹیئر ز میں، ان آزادیوں کی حفاظت کی فوری ضرورت ہے ۔

دنیا میں اور بہت سی اقسام کے نیٹ ورکس ہیں۔ ان میں بعض انسانوں یا وسائل کی نقل و حرکت میں مدد دیتے ہیں، اور بعض ایک جیسے کام یا دلچسپیاں رکھنے والے افراد کے درمیان تبادلوں میں آسانی پیدا کرتے ہیں۔ لیکن انٹرنیٹ ایسا نیٹ ورک ہے جو تمام دوسرے نیٹ ورکس کی طاقت اور امکانات میں اضافہ کر تا ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اس کے استعمال کرنے والوں کو بعض بنیادی آزادیوں کا یقین ہو۔ان میں سب سے پہلی اظہارِ رائے کی آزادی ہے۔ اب اس آزادی کی وضاحت صرف اس طرح نہیں کی جاتی کہ شہریوں کو شہر کے چوک میں جانے اور بلا خوف و خطر اپنی حکومت پر تنقید کرنے کی آزادی ہے یا نہیں۔ بلاگس، ای میل، سوشل نیٹ ورکس اور ٹیکسٹ میسیجز نے خیالات کے تبادلے کے نئے ذرائع کھول دیے ہیں، اور سینسر شپ کے نئے اہداف پیدا کر دیے ہیں۔

اس وقت بھی جب آج میں آ پ سے مخاطب ہوں، سرکاری سینسرز میرے الفاظ کو تاریخ کے ریکارڈز سے مٹانے کے لیئے زور شور سے کام کر رہے ہیں۔لیکن خود تاریخ پہلے ہی ان ہتھکنڈوں کی مذمت کر چکی ہے ۔ دو مہینے پہلے، میں دیوارِ برلن کے گرنے کی بیسویں سالگرہ منانے کے لیئے جرمنی میں تھی۔ اس تقریب میں جو لیڈر جمع ہوئے تھے انھوں نے ان بہادر مردوں اور عورتوں کو خراج تحسین پیش کیا جنھوں نے چھوٹے چھوٹے پمفلٹ جنہیں samizdat کہا جاتا ہے ، تقسیم کیئے اور ظلم کے خلاف اپنا کیس پیش کیا۔ ان پمفلٹوں میں مشرقی بلاک کی آمرانہ حکومتوں کے دعووں اور عزائم کی قلعی کھولی گئی اور بہت سے لوگوں کو انہیں تقسیم کرنے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ۔لیکن ان کے الفاظ نے کنکریٹ کی دیواروں میں شگاف ڈالنے اور آہنی پردے کے تار کو مسمار کرنے میں مدد دی۔

دیوارِ برلن ایک منقسم دنیا کی علامت اور ایک پورے عہد کا مرقع تھی ۔ آج، اس دیوار کے بچے کھچے ٹکڑے اس میوزیم کے اندر موجود ہیں جو ان کے لیئے صحیح جگہ ہے ۔ اور ہمارےدور کا ایک نیا شاہکار انفرا اسٹرکچر اانٹر نیٹ ہے ۔یہ تقسیم نہیٕں بلکہ جوڑنے کا کام کرتاہے ۔ لیکن اب جب کہ ملکوں تک پہنچنے کے لیئے دنیا کے گرد نیٹ ورکس پھیل رہے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ ظاہری دیواروں کی جگہ عملی طور پر دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ بعض ملکوں نے الیکٹرانک رکاوٹیں تخلیق کی ہیں جو لوگوں کو عالمی نیٹ ورکس کے بعض حصوں تک رسائی حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔ انھوں نے سرچ انجن کے نتائج سے بعض الفاظ، نام اور فقرے حذف کر دیے ہیں۔ انھوں نے ایسے شہریوں کے نجی امور میں مداخلت کی ہے جو تشدد سے پاک سیاسی تقریر کرتے ہیں۔ یہ کارروائیاں انسانی حقوق کے عالمی اعلان کے خلاف ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو معلومات کی تلاش کرنے، انہیں وصول کرنے اور سرحدوں کی تخصیص کے بغیر، کسی بھی میڈیا کے ذریعے معلومات اور خیالات کی تقسیم کا حق حاصل ہے ۔ اس قسم کی پابندیوں کے پھیلاؤ سے، دنیا کے بیشتر حصے پر معلومات پر ایک نیا پردہ گرایا جا رہا ہے ۔ اس پردے سے دور، وائرل وڈیوز اور بلاگ پوسٹس ہمارے دور کے samizdat بنتے جا رہے ہیں۔

جیسا کہ ماضی کی آمریتوں میں ہوتا رہا ہے، حکومتیں ان آزاد مفکروں کو نشانہ بنا رہی ہیں جو یہ آلات استعمال کرتے ہیں۔ ایران کے صدارتی انتخاب کے بعد جو مظاہرے ہوئے، ان میں ایک نوجوان عورت کی خونی ہلاکت کی سیل فون سے لی ہوئی دھندلی تصویروں نے حکومت کی وحشیانہ کارروائی کا ثبوت فراہم کیا۔ ہم نے ایسی رپورٹیں دیکھی ہیں کہ جب بیرونی دنیا میں رہنے والے ایرانیوں نے اپنے ملک کے لیڈروں پر آن لائن تنقید پوسٹ کی، تو ایران میں ان کے اہلِ خاندان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اور حکومت کی طرف سے ڈرانے دھمکانے کی زبردست مہم کے باوجود، ایران میں شہری صحافی مسلسل ٹکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں تا کہ دنیا کو اور اپنے ہم وطن شہریوں کو یہ بتایا جا سکے کہ ان کے ملک کے اندر کیا ہو رہا ہے ۔ اپنے انسانی حقوق کے لیئے ایران کے لوگوں نے جس طرح آواز اٹھائی ہے، اس نے دنیا کے لوگوں میں جوش و ولولہ پیدا کر دیا ہے ۔ اور انھوں نے اپنی جرأت سے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ ٹکنالوجی کو کس طرح سچائی کو پھیلانے اور ناانصافی کو آشکار کرنے کے لیئے استعمال کیا جا سکتا ہے

تمام معاشروں میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ آزادیٔ اظہار کی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ ہم ان لوگوں کو برداشت نہیں کرتے جو دوسروں کو تشدد پر اکساتے ہیں ، جیسے القاعدہ کے ایجنٹ جو اس وقت بھی دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر لوگوں کے قتل کو فروغ دینے کے لیئے انٹرنیٹ کو استعمال کر رہے ہیں۔ اور ایسی نفرت انگیز تقریر جس میں لوگوں کو ان کی نسل، مذہب، گروہ ، جنس یا جنسی رجحان کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے ، قابلِ نفرت ہے ۔ اور ہمیں گمنام تقریر کے مسئلے سے بھی نمٹنا چاہیئے ۔وہ لوگ جو انٹرنیٹ کو دہشت گردوں کی بھرتی کے لیئے یا چرائی ہوئی املاکِ دانش کو تقسیم کرنے کے لیئے استعمال کرتے ہیں، اپنے آن لائن اقدامات کو اپنی اصل شناخت سے الگ نہیں کر سکتے۔ لیکن ان چیلنجوں سے حکومتوں کے لیئے یہ جواز پیدا نہیں ہوتا کہ وہ ان لوگوں کے حقوق کی باقاعدگی سے خلاف ورزی کریں اور ان کے نجی امور میں مداخلت کریں جو انٹرنیٹ کو پرُامن سیاسی مقاصد کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔

نئی ٹکنالوجیز کے پھیلاؤ کے ساتھ آزادیٔ اظہار کو بظاہر سب سے زیادہ چیلنج درپیش ہو سکتے ہیں لیکن خطرہ صرف اسی آزادی کو درپیش نہیں ہے ۔ عبادت کی آزادی میں عموماًا فراد کے یہ حقوق شامل ہیں کہ وہ اپنے خالق کے ساتھ تعلق قائم کریں یا نہ کریں۔ اور خوش قسمتی سے رابطہ قائم کرنے کا یہ وہ ذریعہ ہے جس کا انحصار ٹکنالوجی پر نہیں ہے ۔ لیکن عبادت کی آزادی میں یہ حقوق بھی شامل ہیں کہ ان لوگوں کے ساتھ مِل بیٹھا جائے جن کی اقدار آپ کے ساتھ مشترک ہیں اور جو انسانیت کے لیئے آپ کے تصور سے متفق ہیں۔ ہماری تاریخ میں، اس قسم کے اجتماعات اکثر چرچوں، کنیساؤں، مندروں اور مسجدوں میں ہوتے ہیں۔ آج کل، یہ اجتماعات آن لائن بھی ہو سکتے ہیں۔

انٹرنیٹ سے مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان اختلاف کم کیئے جا سکتے ہیں۔ جیسا کہ صدر نے قاہرہ میں کہا تھا، لوگوں کے مِل جُل کر رہنے کی صلاحیت میں ، مذہب کی آزادی کو مرکزی مقام حاصل ہے ۔اور اب جب کہ ہم مکالمے کو وسعت دینے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں، انٹرنیٹ کو اس مقصد کے لیئے استعمال کرنے کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ہم نے پہلے ہی امریکی طالب علموں کو دنیا بھر میں مسلمان کمیونٹیوں میں نوجوانوں کے ساتھ رابطے میں لانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے تا کہ وہ عالمی چیلنجوں پر تبادلۂ خیال کر سکیں۔ اور ہم مختلف مذہبی کمیونٹیوں کے درمیان بات چیت کو فروغ دینے کے لیئے اس وسیلے کا استعمال جاری رکھیں گے۔

تاہم بعض ملکوں نے انٹرنیٹ کو مذہب پر یقین رکھنے والوں کو نشانہ بنانے اور انہیں خاموش کرنے کے آلے کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ مثلاً گذشتہ سال، سعودی عرب میں ایک شخص نے عیسائیت کے بارے میں بلاگنگ کرنے کی پاداش میں، کئی مہینے جیل میں گذارے ۔ ہارورڈ کے ایک مطالعے میں پتہ چلا کہ سعودی حکومت نے ہندو مت، یہودیت، عیسائیت، یہاں تک کہ اسلام کے بارے میں بہت سے صفحات کو بلاک کر دیا۔ ویتنام اور چین سمیت بہت سے ملکوں نے مذہبی معلومات تک رسائی کو بلاک کرنے کے لیئے اسی قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیئے۔

جس طرح ان ٹکنالوجیوں کو پُر امن سیاسی تقریر پر سزا دینے کے لیئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئیے، اسی طرح انہیں مذہبی اقلیتوں پر ظلم کرنے یا انہیں خاموش کرنے کے لیئے بھی استعمال نہیں کیا جانا چاہیئے۔دعائیں ہمیشہ زیادہ بلند نیٹ ورکس پر سفر کریں گی ۔ لیکن رابطے کی ٹکنالوجیوں جیسے انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ کی سائٹس سے افراد کی اپنی مرضی کے مطابق عبادت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے، اور دوسروں کے عقائد کو جاننے کا موقع ملتا ہے ۔ جس طرح ہم زندگی کے دوسرے شعبوں میں کرتے ہیں، ہمیں آن لائن عبادت کی آزادی کے فروغ کے لیئے بھی کام کرنا چاہیئے ۔

دنیا میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جنہیں ان ٹکنالوجیوں کے فوائد میسر نہیں ہیں۔ جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے ، ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں صلاحیتیں سب میں تقسیم ہوتی ہیں، لیکن سب کو مواقع نہیں ملتے۔ اور ہم نے اپنے طویل تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ ایسے ملکوں میں جہاں لوگوں کو علم، منڈیوں، سرمایے، اور مواقع تک رسائی حاصل نہیں ہے، سماجی اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینا مایوس کُن اور کبھی کبھی بالکل بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے۔ اس ضمن میں، انٹرنیٹ برابری کے مواقع فراہم کرنے کا بڑا چھا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ لوگوں کو معلومات اور امکانی منڈیوں تک رسائی کے ذریعے، نیٹ ورکس ایسے شعبوں میں مواقع پیدا کر سکتے ہیں جہاں پہلے کچھ بھی نہیں تھا۔

گذشتہ سال کے دوران، میں نے خود کینیا میں اس چیز کا مشاہدہ کیا ہے ۔ وہاں کاشتکاروں کی آمدنی میں، موبائل بنکنگ ٹکنالوجی کے استعمال سے، 30 فیصد تک کا اضافہ ہو گیا۔ بنگلہ دیش میں، جہاں 300,000 سے زیادہ لوگوں نے اپنے موبائل فونز پر انگریزی سیکھنے کے لیئے اپنے نام درج کرائے ہیں۔ اور میں نے افریقہ کے زیریں صحارا کے علاقے میں کاروبار کرنے والی عورتوں کو چھوٹے چھوٹے قرضوں تک رسائی حاصل کرتے، اور خود عالمی منڈیوں سے رابطہ قائم کرتے دیکھا ہے ۔

ترقی کی ان مثالوں سے دنیا کے وہ اربوں لوگ مستفید ہو سکتے ہیں جو دنیا میں اقتصادی طور سے سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ بہت سے کیسوں میں، انٹرنیٹ، موبائل فونز، اور رابطہ قائم کرنے کی دوسری ٹکنالوجیوں سے اقتصادی ترقی کے لیئے وہ سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے جو زراعت میں سبز انقلاب سے حاصل کیا گیا تھا۔ اب آپ بہت کم سرمایہ لگا کر پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ حاصل کر سکتے ہیں۔ عالمی بنک کے ایک تحقیقی مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ایک عام ترقی پذیر ملک میں، موبائل فونز کی تعداد میں 10 فیصد اٖضافے کی شرح سے ، مجموعی قومی پیداوار کی فی کس شرح میں تقریباً 1 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس بات کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ بھارت کے لیئے، اس اضافے کا مطلب تقریباً 10 ارب ڈالر سالانہ ہو گا۔

عالمی انفارمیشن نیٹ ورک سے تعلق قائم ہونا ایسا ہی ہے جیسے جدیدیت کی شاہراہ پر سفر کا آغاز کرنا۔ ان ٹکنالوجیوں کے ابتدائی برسوں میں، بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ان سے دنیا امیروں اور غریبوں میں بٹ جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ہے ۔ آج کل 4 ارب سیل فون زیرِ استعمال ہیں۔ ان میں سے بہت سے بازاروں میں سودا بیچنے والوں، رکشا چلانے والوں، اور ایسے دوسرے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جو تاریخی طور پر تعلیم اور ترقی کے مواقع سے محروم رہے ہیں۔ انفارمیشن نیٹ ورکس سے غریب اور امیر کےد رمیان فرق کرنے میں مدد ملی ہے، اور ہمیں چاہیئے کہ انہیں لوگوں کو غربت کے چنگل سے نکالنے اور احتیاج سے آزادی دلانے کے لیئے استعمال کریں۔

ہمارے پاس اب اس بارے میں پرامید ہونے کا ہر جواز موجود ہے کہ لوگ ترقی کے حصول کے لیے کمیونیکیشن نیٹ ورکس اور کنکشن ٹیکنالوجیز کے استعمال میں اضافے سے کیا کیا فائدے حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ کچھ لوگ گلوبل انفارمیشن نیٹ ورکس کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور وہ یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔ متشدد انتہاپسند، جرائم پیشہ گروہ، جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے والے اور آمرانہ حکومتیں ، یہ سب گلوبل نیٹ ورکس کا ناجائز فائدے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جس طرح دہشت گروں نے اپنے منصوبوں پر عمل کرنے کے لیے ہمارے معاشروں کی وسیع القلبی کا فائدہ اٹھایا تھا ، اسی طرح متشدد انتہا پسند انٹرنیٹ کو کٹرنظریات پھیلانے اور ہراساں کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اب جب کہ ہم آزادیوں کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں، ہمیں ان کے خلاف بھی کام کرنا چاہیے جو کمیونیکشین نیٹ ورکس کو انتشار اور خوف پھیلانے کے لیے ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کرتے ہیں۔

حکومتوں اور شہریوں کو یہ بھروسہ ہونا چاہیے کہ قومی سلامتی اور اقتصادی خوش حالی کے ان کے نیٹ ورکس محفوظ ہیں اور ان میں فوری طور پر بحالی کی صلاحیت موجود ہے۔ اب اس کا تعلق ویب سائٹس کو نقصان پہنچانے والے معمولی ہیکرز تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہماری آن لائن بینکنگ کی صلاحیت، الیکٹرانک کامرس کا استعمال، اور اربوں ڈالر مالیت کے کاپی رائٹس، یہ سب اس صورت میں خطرے میں پڑ جائیں گے اگر ہمارے انفارمیشن نیٹ ورکس قابل بھروسہ نہ ہوں۔

ان نظاموں میں خلل اندازیوں کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام حکومتیں، پرائیویٹ سیکٹر اور بین الاقوامی کمیونٹی مربوط انداز میں کام کریں ۔ جرائم پیشہ ہیکرز اور منظم جرائم پیشہ گروہوں کی جانب سے اپنے مالی فوائد کے لیےنیٹ ورکس کو نشانہ بنانے کی صورت میں ہمیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعاون بڑھانے میں مدد کے لیے مزید ذرائع درکار ہوں گے۔ اور ایسے ہی اقدامات ان معاشرتی خرابیوں مثلاً انٹرنیٹ پر بچوں کی قابل اعتراض تصاویر ، غیر قانونی طورپر سمگل کی جانے والی عورتوں کے استحصال اور گرلز آن لائن کے سلسلے میں اور ان لوگوں کے خلاف کرنے ہوں گے جو مالی منفعت کے لیے ان کا استحصال کرتے ہیں۔ہم سائبر کرائمز پرکونسل آن یورپ کے کنونشن جیسی کوششوں کو سراہتے ہیں جوایسے جرائم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے بین الاقوامی تعاون میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اور ہماری خواہش ہے کہ ہم ان کوششوں میں چار گنا اضافہ کردیں۔

ہم نے انٹرنیٹ کی عالمی سیکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لیے کوئی سفارتی حل تلاش کرنے کی غرض سے ایک حکومت اور ایک محکمے کے طورپر اقدامات کیے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ میں ہمارے پاس بہت سے لوگ اس پر کام کررہے ہیں ۔انہوں نے مل کر دو سال قبل سائبر سپیس کے بارے میں خارجہ پالیسی کو مربوط بنانے کے لیے ایک دفتر قائم کیا تھا۔ہم نے اقوام متحدہ اور دوسرے کثیر فریقی فورموں پر اس چیلنج سے نمٹنے اور سائبر سیکیورٹی کو دنیا کے ایجنڈے پرلانے کےلیے کام کیا ہے ۔اور صدر اوباما نے ابھی حال ہی میں سائبر سپیس کی قومی پالیسی کے لیے ایک نئے رابطہ کار کا تقرر کیا ہے جو یہ یقینی بنانے کے لیے ،کہ ہر ایک کے نیٹ ورکس آزاد ، محفوظ اور قابل بھروسہ رہیں، اور بھی زیادہ قریبی طورپر کام کرنے میں ہماری مدد کریں گے۔

(جاری ہے)

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

مملکتوں، دہشت گردوں اور ان کے لیے کام کرنے والوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ امریکہ اپنے نیٹ ورکس کی حفاظت کرے گا۔ ہمارے یا کسی اور معاشرے میں معلومات کی آزادانہ ترسیل میں رخنہ ڈالنے والے ، ہماری معیشت ، ہماری حکومت اور ہماری سول سوسائٹی کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ کمپیوٹروں کے انٹرنیٹ نظام کو نشانہ بنانے والے ملکوں اور افراد کو نتائج اور بین الاقوامی مذمت کا لازمی طورپر سامنا کرنا پڑے گا۔انٹرنیٹ کے ذریعے منسلک دنیا میں کسی ایک ملک کے سائبر نیٹ ورکس پر حملہ، سب پر ایک حملہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اور اس پیغام کو تقویت دے کر ہم ریاستوں کے درمیان طرز عمل کےقواعد و ضوابط تشکیل دے سکتے ہیں اور عالمی سطح پر نیٹ ورکس سے منسلک عام لوگوں کے احترام کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں۔

آخری آزادی ، وہی ہے ،جس کے بارے میں غالباً صدر روزویلٹ اور ان کی اہلیہ مسز روز ویلٹ، دونوں نے سوچا تھا اور جس کے بارے میں ان تمام برسوں کے دوران انہوں نے لکھا تھا۔اور یہ وہی آزادی ہے جو ان چار میں سے ایک ہے جن کا میں پہلے ہی ذکر کرچکی ہوں۔اور وہ ہے ایک دوسرے سے ربط قائم کرنے کی آزادی۔ یعنی یہ تصور کہ حکومتیں لوگوں کو انٹرنیٹ، ویب سائٹس یا ایک دوسرے سے منسلک ہونے سے نہ روکیں۔

ایک دوسرے سے ربط قائم کرنے کی آزادی، سائبر سپیس میں اجتماع کی آزادی کی طرح ہے۔ اس کے ذریعے افراد کو انٹرنیٹ پر آنے، اکھٹے ہونے اور متوقع طور پر تعاون کا موقع ملتا ہے۔جب آپ انٹرنیٹ پر آجاتے ہیں تو آپ کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کوئی بڑی مالدار شخصیت یا کوئی راک سٹار ہوں، جو معاشرے پر گہرا اثر رکھتا ہو۔

ممبئی پر ہونے والے دہشت گرد حملوں پر سب سے بڑا عوامی ردعمل ایک 13 سالہ بچے نےلانچ کیا تھا۔اس نے خون کے عطیات جمع کرنے اور مختلف عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر تعزیت کے اظہار کے لیے، سماجی نیٹ ورکس کو استعمال کیا تھا۔ اسی طرح کولمبیا کے ایک بے روزگار انجنیئر نے ایف اے آرسی دہشت گرد تحریک کے خلاف مظاہرے کے لیے دنیا بھر کے 190 شہروں کے ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ افراد کو اکھٹا کیا تھا۔یہ دہشت گردی کے خلاف ہونے والے تاریخ کے سب سے بڑے مظاہرے تھے۔اور بعد کے چند ہفتوں میں ، ایف اے آرسی کو اس سے زیادہ تعداد میں اپنے ارکان کی علیحدگی اور سبکدوشیوں کا سامنا ہوا جتنا اسے ایک عشرے کی فوجی کارروائی کے دوران ہواتھا۔ اور میکسیکو کے ایک عام شہری کی جانب سے، جومنشیات سے منسلک تشدد سے تنگ آچکا تھا، بھیجی جانے والی ایک واحد ای میل نے ملک کی تمام 32 ریاستوں میں بڑے بڑے مظاہروں کو جنم دیا۔صرف میکسیکو شہر میں ڈیڑھ لاکھ افراد احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔اس لیے انٹرنیٹ جرائم اور انتہاپسندی کو فروغ دینے والوں کی پسپا ئی کے سلسلے میں انسانیت کے لیےمددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

ایران ،مولڈووااور دوسرے ملکوں میں، جمہوریت کے فروغ، اورانتخابات کے مشکوک نتائج کے خلاف احتجاج کو ممکن بنانے کے لیے شہریوں کومنظم کرنے میں انٹرنیٹ ایک انتہائی اہم ذریعہ رہا ہے۔اور حتیٰ کہ امریکہ جیسی تسلیم شدہ جمہوریتوں میں بھی ہم ان ذرائع کی تاریخ بدلنے کی قوت کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔ آپ میں سے کچھ کو ممکن ہے کہ ابھی تک 2008ء کا صدارتی انتخاب یاد ہوگا۔یہاں۔(قہقے)
ان ٹیکنالوجیز سے منسلک ہونے کی آزادی معاشروں کو تبدیل کرنے میں مددگار ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ افراد کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔ میں حال ہی میں اس امریکی ڈاکٹر کی کہانی سن کر بہت متاثر ہوئی تھی اور میں آپ کو یہ نہیں بتاؤں گی کہ اس کا تعلق کس ملک سے تھا۔ وہ ڈاکٹر اپنی بیٹی کی ایک شاذو نادر قسم کی بیماری کی تشخیص کی سر توڑ کوشش کرتا رہا ۔ اور اسے دو درجن ماہرین سے مشوروں کے بعد بھی مرض کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلا۔لیکن آخرکار اس نے انٹرنیٹ پر ایک سرچ انجن کے استعمال سےمرض کا پتا چلایا اور اس کا ایک علاج ڈھونڈ لیا۔ اور یہ بھی ا نٹرنیٹ پر آزادانہ طریقے سے سرچ انجنوں تک رسائی کی افراد کی زندگیوں میں اتنی زیادہ اہمیت کی ایک وجہ ہے۔

اور اب ، جن اصولوں کا میں نے آج خاکہ پیش کیا ہے وہ انٹرنیٹ پر آزادی اور ان ٹیکنالوجیز کے استعمال کے مسئلے سے نمٹنے کے ہمارے انداز کی راہنمائی کریں گے۔اور میں ان کے اطلاق کے طریقوں پر بات کرنا چاہتی ہوں۔ امریکہ ان آزادیوں کے فروغ کے لیے ضروری سفارتی، اقتصادی اور ٹیکنالوجی کے ذرائع مختص کرنے کے عہد سے وابستہ ہے۔

ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ہر ملک کے تارکین وطن سے مل کر بنی ہے اور جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مفادات سے وابستہ ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی اسی تصور پرمبنی ہے کہ جب لوگوں اورریاستوں میں تعاون ہو تو کوئی بھی ملک انہیں فائدہ پہنچانے کے لیے امریکہ سے زیادہ پیش پیش نہ ہو اور جب تنازع اور غلط فہمیاں قوموں کو ایک دوسرےسےدور کر دیں کوئی بھی ملک اس سے زیادہ بوجھ نہ اٹھائے۔ تو اس لیے ہمیں باہمی ربط سے پیدا ہونے والے تمام مواقع سے بہرہ ور ہونے کا موقع حاصل ہے ۔اور کیونکہ ان میں بہت سی ٹیکنالوجیز نے، بشمول انٹرنیٹ ، اس سرزمین پر جنم لیا ہے، اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ ان کا استعمال اچھائی کے لیے ہو۔ایسا کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندر اس کام کے لیےاستعداد کار پیدا کرنی ہوگی جسے ہم، امریکی محکمہ خارجہ میں، 21 ویں صدی کی ریاست کاری کا نام دیتے ہیں۔

اپنی پالیسیوں اوراپنی ترجیحات کو نئے سرے سے ترتیب دینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ لیکن نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا شاذونادر ہی مشکل ہوتا ہے۔ جب ٹیلی گراف متعارف ہوا تو وہ سفارتی برداری میں سے کئی ایک کے لیے بڑی پریشانی کا باعث تھا، کیونکہ دارالحکومتوں سے روزانہ ہدایات کی وصولی کو بالکل پسند نہیں کیا جاتا تھا۔لیکن جس طرح ہمارے سفارت کار آخر کار ٹیلی گراف میں ماہر ہوگئے تھے، اسی طرح آج وہ ان نئے آلات سے بھی مطابقت پیدا کررہے ہیں۔

اور مجھے فخر ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ،40 سے زیادہ ملکوں میں ان لوگوں کی پہلے ہی مدد کررہا ہے جن کی زبانیں حکومتی جبر نے بند کررکھی ہیں۔ہم اقوام متحدہ میں بھی اسے ایک ترجیحی مسئلہ بنانے کے لیے کام کررہے ہیں اور ہم انٹرنیٹ کی آزادی کو ایک جزو کے طورپر اس پہلی قرارداد میں شامل کررہے ہیں جو ہم نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں واپسی کے بعد پیش کی ہے۔
ہم ایسے نئے ذرائع کی تلاش میں بھی مدد کررہے ہیں جو لوگوں کوسیاسی وجوہ کی بنا پر لگائی جانے والی سنسر شپ کے جال سے نکال کر انہیں آزادی اظہار کے اپنے حقوق کے استعمال کے قابل بنا سکیں ۔ہم دنیا بھر میں تنظیموں کو یہ یقینی بنانے کے لیے فنڈز دے رہے ہیں کہ یہ ذرائع مقامی زبانوں میں، اور انٹرنیٹ پر محفوظ رسائی کے لیے درکار تربیت کے ساتھ ان لوگوں تک پہنچیں جنہیں ان کی ضرورت ہے ۔ امریکہ کچھ عرصے سےان پروگراموں پر زیادہ سے زیادہ بہتر اور موثر طریقے سے عمل درآمد پر مرکوز رہتے ہوئے ان کوششوں میں مدد کر رہا ہے ۔ امریکی عوام اور انٹرنیٹ کو سنسر کرنے والے ملکوں، دونوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری حکومت انٹرنیٹ کی آزادی کے فروغ میں مدد سے وابستہ ہے۔

ہم یہ ذرائع ان لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں جو انہیں جمہوریت اور انسانی حقوق کے فروغ، آب وہوا کی تبدیلی اور وباؤں سے نمٹنے، جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کے بارے میں صدر اوباما کے نصب العین کی عالمی حمایت کے فروغ اور ایسی دیر پا اقتصادی ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے استعمال کریں گے جو لوگوں کو نچلی سطح سے اوپر لاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج میں یہ اعلان کررہی ہوں کہ اگلے ایک سال میں ہم صنعتی ، تعلیمی اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر ایک ایسی بھرپور کوشش کریں گے جس سے باہمی ربط قائم کرنے کی ٹیکنالوجیز کی قوت میں اضافہ ہوگا اور ہم انہیں اپنے سفارتی مقاصد کے لیے استعمال کرسکیں گے۔ موبائل فونز ، نقشوں کے اطلاق اور دوسرے نئے آلات پر انحصار کے ذریعے ہم شہریوں کو مضبوط بنا سکتے ہیں اور اپنی روائتی سفارت کاری کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ہم اختراعات کے لیے موجودہ مارکیٹ کی خامیوں سے بھی نمٹ سکتے ہیں۔ میں آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتی ہوں۔ فرض کریں کہ میں موبائل فون میں ایک ایسی سہولت شامل کرنا چاہتی ہوں جس کی مدد سے لوگ حکومتی وزارتوں کی ، بشمول ہماری وزارت ، کارکردگی اور استعداد کار کے بارے میں اپنی رائے دینے کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کا پتہ لگائیں اور اس کی اطلاع دے سکیں۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جس ہارڈ وئیر کی ضرورت ہے وہ پہلے ہی اسے ممکنہ طور پر استعمال کرنے والے اربوں لوگوں کے پاس موجود ہے۔ اور اس مقصد کے لیے جس سافٹ ویئر کی ضرورت ہوگی، اسے بنانا اور نصب کرنا نسبتاً سستا ہوگا۔

اگر لوگوں نے اس آلے سے فائدہ اٹھایا تو ہمیں اپنی غیر ملکی امداد کو صرف کرنے کے اہداف کا تعین کرنے، زندگیوں کوبہتر بنانے اور ان ملکوں میں جہاں ذمہ دار حکومتیں قائم ہیں، غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے میں مدد ملے گی۔تاہم ، اس وقت موبائل فونز کے ایسے سافٹ ویئر تیار کرنے والوں کےلیے اس پراجیکٹ کو خود سے شروع کرنے کے حوالےسے کوئی مالی معاونت میسر نہیں ہے۔اور فی الحال امریکی محکمہ خارجہ کے پاس اسے ممکن بنانے کے لیےکسی میکنزم کی کمی ہے۔ لیکن اس پیش قدمی سے یہ مسئلہ لازمی طور پر حل ہو گااور اختراعات میں درمیانے درجے کی سرمایہ کاری سےدیر پا فوائد حاصل ہوں گے۔ ہم اس پراجیکٹ کے بہترین اسٹرکچر کی تیاری کے لیے ماہرین کے ساتھ مل کرکام کریں گے۔ اور ہمیں جلد از جلدبہتر ین نتائج کے حصول کے لیے باصلاحیت افراد اورٹیکنالوجی کی کمپنیوں اور فلاحی کام کرنے والوں کے وسائل کی ضرورت ہوگی۔ اب تک اس کمرے میں آپ میں سےجن میں اس قسم کی صلاحیت اور مہارتیں موجود ہیں وہ برائے مہربانی خود کو ہماری مدد کے لیے مدعوسمجھیں۔

اسی دوران ، کمپنیاں، افراد اور ادارے ایسے آئیڈیاز اور ایسے سافٹ ویئرز پر کام کررہے ہیں جو ہمارے سفارتی اور ترقیاتی مقاصد کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔اور امریکی محکمہ خارجہ اس کام کو فوری بڑھاوا دینے کے لیے اختراعات کا ایک مقابلہ شروع کرے گا۔ ہم امریکیوں سے کہیں گے کہ وہ ہمیں ٹیکنالوجیز اور ان کے اطلاق کے بارے میں اپنے بہترین آئیڈیاز بھیجیں جن کی مدد سے زبان کی رکاوٹوں کو کم کیا جاسکے ، جہالت پر قابو پانے میں مدد ملے اور لوگوں کو ایسی سہولیات اور معلومات سے منسلک کیا جاسکے جن کی انہیں ضرورت ہو۔ مثال کے طورپر مائیکرو سافٹ نے پہلے ہی ایک ڈیجیٹل ڈاکٹر کا نمونہ بنا لیا ہے جو دوردراز دیہی آبادیوں کو صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی میں مدد دے سکتا ہے۔ہمیں اسی طرح کے اور بھی بہت سے آئیڈیاز کی ضرورت ہے۔ اور ہم یہ مقابلہ جیتنے والوں کے ساتھ کام کریں گے اور انہیں اپنے آئیڈیاز کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے گرانٹس فراہم کریں گے۔

اب ان نئے اقدامات سےہمارے اس اہم کام میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا جو ہم پہلے ہی اس گزرے ایک سال میں کر چکے ہیں۔ اپنے سفارتی اور سفارت کاری کے مقاصد کی تکمیل کی غرض سے میں نے 21 ویں صدی کی ریاست کاری کی کوششوں کی قیادت کے لیے ایک باصلاحیت اور تجربہ کار ٹیم اکٹھی کی ہے ۔یہ ٹیم کنکشن ٹکنالوجیز کے فوائد میں اضافے کے سلسلے میں حکومتوں اور تنظیموں کی مدد کے لیے دنیا بھر میں سفر کر چکی ہے۔انہوں نے بنیادی سطح کی تنظیموں کو ڈیجیٹل دور میں داخل ہونے میں مدد کے لیے ایک پراجیکٹ ،سول سوسائٹی 2.0 شروع کیا ہے ۔ وہ میکسیکو میں منشیات سے منسلک تشدد سے نمٹنے میں مدد کے لیے ایک پروگرام شروع کر رہے ہیں جس میں لوگوں کو ایسی رپورٹیں، جن کا ابھی سراغ نہ لگایا جا سکا ہو،مستند ذرائع تک پہنچانے کے لیے کہا جاتا ہے تاکہ اطلاع دینے والا کسی انتقامی کارروائی سے محفوظ رہ سکے۔ انہوں نے افغانستان میں موبائل بنکنگ متعارف کرائی ہے اور اب وہ ایسی ہی کوشش جمہوریہ کانگو میں کر رہے ہیں ۔ پاکستان میں انہوں نے پہلی بار، ہماری آواز ، کے نام سے ایک سماجی موبائل نیٹ ورک شروع کیا ہے جس کے ذریعے اب تک لاکھوں پیغامات بھیجے جا چکے ہیں اور ان پاکستانی نوجوانوں کو جو پر تشددد انتہا پسندی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہتے ہیں، آپس میں مربوط کیا جا چکا ہے ۔

ایک مختصر وقت میں ہم نے ان ٹکنالوجیز کی مدد سے نمایاں تبدیلیاں لانے والےاہم اقدامات کیے ہیں۔ لیکن ابھی بھی مزید بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ اور اب جب کہ ہم اکییسویں صدی کی ریاست کاری کے ذرائع کو استعمال میں لانے کے لیے نجی شعبے اور غیر ملکی حکومتوں کےساتھ مل کر کام کر رہے ہیں ، ہمیں ان آزادیوں کی حفاظت کی اپنی مشترکہ زمہ داریوں کو یاد رکھنا ہو گا جن کے بارے میں آج میں بات کر چکی ہوں ۔ہمیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ معلومات کی آزادی جیسے اصول صرف اچھی پالیسی ہی نہیں ہے، ان کاتعلق کسی نہ کسی انداز میں صرف ہماری قومی اقدار ہی سے نہیں ہے بلکہ یہ عالمگیر اصول ہیں اور یہ کاروبار کے لیے بھی فائدہ مند ہیں ۔

اگر میں مارکیٹ کی اصطلاح استعمال کروں تو تیونس یا ویت نام میں رجسٹرڈکوئی کمپنی ،جو سنسر شپ کے کسی ماحول میں کام کررہی ہو، آزاد معاشرے کی کسی اپنی ہی جیسی کمپنی کے مقابلے میں ہمیشہ کم قیمتوں کے ساتھ کاروبار کرے گی۔اگر کمپنی کے فیصلہ سازوں کو خبروں اور معلومات کے عالمی ذرائع تک رسائی نہیں ہوگی توسرمایہ کاروں کو ان کے فیصلوں پرکم اعتمادہوگا۔جو ملک خبروں اور معلومات کو سنسر کرتے ہیں، انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ اقتصادی نقطہ نظر سے سیاسی تقریر اور کمرشل تقریر میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اگر آپ کے ملکوں میں کاروباروں کو کسی بھی قسم کی معلومات تک رسائی سے روکا جائے گا تو اس کے نتیجے میں لازمی طورپرافزائش پر اثر پڑےگا۔امریکی کمپنیاں اپنے کاروباری فیصلوں میں انٹرنیٹ اور اطلاعات کی آزادی کے مسئلے کو پہلے سے زیادہ اپنے پیش نظر رکھ رہی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ان کے کاروباری حریف اور غیر ملکی حکومتیں اس پر بھرپور توجہ دیں گی۔

اس رجحان کے تحت گوگل کے حوالے سے ، تازہ ترین صورت حال نے بہت زیادہ توجہ حاصل کی ہے۔ اور ہم چینی حکام سے سے توقع کرتے ہیں کہ وہ انٹرنیٹ پر دراندازیوں کا تفصیلی جائزہ لیں گے جن کے باعث گوگل کو اپنا اعلان کرنا پڑا ۔ اور ہم یہ بھی توقع کریں گے کہ یہ چھان بین اور اس کے نتائج شفاف ہوں گے۔

انٹرنیٹ پہلے ہی چین میں نمایاں ترقی کا ایک ذریعہ رہاہے اور یہ ایک خوش آئند بات ہے ۔چین میں اب لوگوں کی ایک بڑی تعداد انٹرنیٹ استعمال کررہی ہے۔ لیکن جوممالک معلومات تک آزادانہ رسائی پر پابندیاں لگاتے ہیں یا انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں،وہ اپنے گرددیواریں کھڑی کر کے اگلی صدی میں خود کو ترقی سے دور رکھنے کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔

اس مسئلے پر اس وقت امریکہ اور چین کے نظریات میں اختلاف پایا جاتا ہے اور ہم اپنے مثبت،پر تعاون اور بھرپور تعلقات کے پیش نظر ان اختلافات سے صاف دلی اور استقامت کے ساتھ نمٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔

اب یہ مسئلہ انجام کار صرف معلومات کی آزادی کا ہی نہیں ہے ، اس کا تعلق اس سے ہے کہ ہم کس قسم کی دنیا چاہتے ہیں اور ہم کس قسم کی دنیا میں رہیں گے۔ یہ اس بارے میں بھی ہےکہ آیا ہم کسی ایسی دنیا میں رہیں گے جہاں ایک واحد انٹرنیٹ ہو،ایک گلوبل کمیونٹی ہو اور معلومات کا ایک مشترکہ ادارہ ہو،جو ہم سب کے لیے مفید ہو اور ہم سب کومتحد رکھے۔ یا پھر ہم کسی ایسی بکھری ہوئی دنیا میں رہیں گے جس میں معلومات اور مواقعوں تک رسائی کا انحصار آپ کے رہنے کے مقام اورسینسر کرنے والوں کے عزائم پرہو۔
اطلاعات تک رسائی کی آزادی ، اس امن اور سلامتی کی تائید کرتی ہے جو عالمی ترقی کی ایک بنیاد فراہم کرتی ہے۔تاریخی اعتبار سے اطلاعات تک غیر متوازن رسائی ، ریاست کے اندر تنازع کی ایک بڑی وجہ ہے۔جب ہمیں سنگین تنازعوں یا خطرناک واقعات کا سامنا ہوتا ہے تو مسئلے کے دونوں فریقوں کے لیے یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ انہیں ایک جیسے حقائق اور آرا تک رسائی ہو۔

یہ حقیقت ہے کہ امریکی باشندے غیر ملکی حکومتوں کی جانب سے فراہم کی گئی اطلاعات پر توجہ دے سکتے ہیں۔ ہم امریکہ کے لوگوں سے ربط کی آپ کی کوششوں میں رکاوٹیں نہیں ڈالتے لیکن جن معاشروں میں سنسر شپ عائد ہوتی ہے، وہاں کے شہری بیرونی دنیا کے نظریات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ مثال کے طورپر شمالی کوریا کی حکومت نے اپنے شہریوں کو بیرونی دنیا کے آراسے مکمل طورپر الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اطلاعات تک رسائی میں اس عدم توازن سےتنازع اور چھوٹے چھوٹے اختلافات کے شدت اختیار کرنے کے امکان ، دونوں میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ اس الیے مجھے امید ہے کہ عالمی استحکام سے دلچسپی رکھنے والی زمہ دار حکومتیں عدم توازن کے ایسے حالات سے نمٹنے میں ہمارے ساتھ ملک کر کام کریں گی۔

کمپنیوں کے لیے یہ مسئلہ بلندو بانگ اخلاقی دعوؤں سے کہیں بڑھ کرہے۔ اس کا تعلق کمپنیوں اور ان کے صارفین کے درمیان اعتماد پر ہے۔ کسی بھی جگہ کے صارفین یہ اعتماد چاہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کی کمپنیاں، جن پر وہ انحصار کرتے ہیں، انہیں سرچ کے جامع نتائج فراہم کریں گی اور اپنی معلومات کی فراہمی کے سلسلے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گی۔ جو کمپنیاں ان ملکوں کا یہ اعتماد حاصل کرلیں گی اور اس قسم کی سروسز فراہم کریں گی ، وہ عالمی مارکیٹ میں پھلیں پھولیں گی۔ مجھے بالکل یقین ہے کہ جو کمپنیاں اپنے صارفین کا یہ اعتماد کھو دیں گی، وہ آکر کار اپنے صارفین کھو دیں گی۔ آپ خواہ کہیں بھی رہیں ،لوگ یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ وہ انٹر نیٹ پر جو کچھ بھی ڈالیں اسے ان کے خلا ف استعمال نہیں کیا جائے گا۔

اور سنسر شپ کو کسی بھی کمپنی کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرنا چاہیے ۔اور امریکہ میں ، امریکی کمپنیوں کو ایک اصولی موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔اسے ہماری قومی چھاپ کا حصہ ہونا چاہیے۔مجھے یقین ہے کہ دنیا بھر کے صارفین ان اصولوں کا احترام کرنے والی کمپنیوں کی پذیرائی کریں گی ۔

اس وقت ہم دنیا بھر میں انٹر نیٹ کی آزادیوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے گلوبل انٹر نیٹ فریڈم ٹاسک فورس کو ایک فورم کے طور پر از سر نو فعال کر رہے ہیں۔اور ہم امریکی میڈیا کے اداروں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ غیر ملکی حکومتوں کی جانب سے سنسر شپ اور نگرانی کے مطالبوں کو چیلنج کرنے میں پہل کرے۔پرائیویٹ سیکٹر کی بھی یہ مشترکہ زمہ داری ہے کہ وہ اظہار کی آزادی کے تحفظ میں مدد کرے ۔اور جب ان کے کاروباری معاملات میں اس آزادی کے متاثر ہونے کا خطرہ درپیش ہو تو انہیں صرف فوری منافع ہی کو نہیں بلکہ اس چیز کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ درست کیا ہے ۔
ہمارا حوصلہ Global Network Initiative کے ذریعے ہونے والے کام سے بڑھا ہے جو سنسر شپ کے لیےسرکاری درخواستوں پر رد عمل ظاہر کرنے کے لیے غیر سرکاری اداروں ، ماہرین تعلیم اور سماجی سرمایہ کار اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے والی ٹکنالوجی کی کمپنیوں کی ایک رضاکارتنظیم ہے ۔ یہ تنظیم اصولوں کے صرف بیانات ہی جاری نہیں کرتی بلکہ حقیقی جواب دہی اور شفافیت کے فروغ کے لیے میکنزم بھی وضع کرتی ہے۔ معلومات کی آزادی کے سلسلے میں ذمہ دار پرائیویٹ سیکٹر کی شمولیت کی حمایت سے ہماری وابستگی کے ضمن میں امریکی محکمہ خارجہ اگلے ماہ ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس کرے گا جو انڈر سیکرٹری رابرٹ ہارمٹس اور ماریہ اوٹیرو کی سربراہی میں منعقد ہوگا اور جس کا مقصد انٹرنیٹ کی آزادی پر بات چیت کے لیے نیٹ ورک سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں کو اکھٹا کرنا ہوگا اور یہ سب کچھ ہم اس لیے کر ہے ہیں کہ ہم 21ویں صدی کے اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک شراکت داری چاہتے ہیں ۔

اوراب میرا خیال ہے کہ کہ ان آزادیوں کے لیے ، جن کی میں نے آج بات کی تھی ،کوشش کرنا ایک درست اقدام ہے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ ایک دانش مندانہ کام بھی ہے۔ اس ایجنڈے کو آگے بڑھا کر ہم اپنے اصولوں،اپنے اقتصادی اہداف اور اور اپنی اہم نوعیت کی ترجیحات میں ہم آہنگی پیدا کرسکیں گے۔ ہمیں ایک ایسی دنیا کی جانب بڑھنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے جس میں نیٹ ورکس تک رسائی اور اطلاعات لوگوں کو ایک دوسرے کے اور بھی قریب لے آئیں اورگلوبل کمیونٹی کے لفظ کے مفہوم کا دائرہ وسیع ہو جائے ۔ ہمیں جن گوناگوں چیلنجوں کا سامنا ہے اس کے پیش نظر ہمیں عالمی معیشت کی تعمیر نو ، اپنے ماحول کے تحفظ اور پر تشدد انتہا پسندی کو شکست دینے اور ایک ایسے مستقبل کی تعمیر میں مدد کے لیے، جہاں ہر انسان اپنی زمہ داریاں پوری کر سکے اور اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکے، دنیا بھر کے لوگوں کے علم اور تخلیقی صلاحیتوں کو ایک جگہ لانے کی ضرورت ہے۔

میں اپنی تقریر کے اختتام پر آپ سے کہوں گی کہ اس ننھی بچی کو ذہن میں لائیں جسے پیر کے روز پورٹ او پرنس میں ایک ملبے سے نکالا گیا تھا۔ وہ زندہ ہے اور اپنے خاندان سے دوبارہ جاملی ہے اور اسے پروان چڑھنے کا موقع ملے گا اس لیے کہ ان نیٹ ورکس نے ملبے تلے دبی اس آواز کو دنیا بھر میں پھیلادیا تھا۔ کسی ملک ، کسی گروپ اور کسی فرد کو جبر و استبداد کے ملبے تلے نہیں دبے رہنا چاہیے۔ ہم اس وقت خاموش تماشائی بن کر کھڑے نہیں رہ سکتے جب سینسر شپ کی دیواریں لوگوں کو ان کے انسانی کنبوں سےجداکر رہی ہوں ۔ اور ہم ان مسائل کے بارے میں صرف اس لیے چپ نہیں سادھ سکتے کہ ہم چیخیں سن نہیں سکتے ۔

اس لیے آئیے ہم ایک بار پھر خود کوا س نصب العین سے وابستہ کریں۔ آیئے ہم ان ٹکنالوجیز کو دنیا بھر میں حقیقی ترقی کے لیے ایک قوت بنا دیں۔ اور آئیے ہم اپنے دور کے لیے اور اپنے نوجوانوں کے لیے ،جو ان تمام مواقع کے مستحق ہیں جو ہم انہیں دے سکتے ہیں ، ان آزادیوں کے حصول کے لیے مل کر قدم بڑھائیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 

ساجد

محفلین
ہیٹی کے بارے میں ہیلری کے جذبات قابل قدر ہیں۔
اس کے بعد باقی سب پروپیگنڈہ۔ محترم ، انٹر نیٹ ٹیکنالوجی اور جدت کے حوالے سے کسی ملک نے بھی امریکہ کو نہیں روکا۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اسی ٹیکنالوجی کے استعمال سے کم استعداد کے حامل ممالک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ کچھ ممالک اپنے مفادت کے تحفظ کے لئیے انٹر نیٹ کمپنیوں کو داخلی قوانین کا پابند کرتے ہیں۔
ہیلری کی تقریر کے آخر میں چیخوں اور جبر و استبداد جیسے الفاظ پڑھ کر اس تقریر کے لکھاری کی کم علمی کا اندازہ ہوتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
ہیٹی کے بارے میں ہیلری کے جذبات قابل قدر ہیں۔
بھئی یہ تو سیاست دانوں کا شیوا ہے کہ عوام کو خود مسائل میں گھسیڑ کر انکی مدد کو پہنچ جاتے ہیں اور وہ بھی "عوام " کے خرچے پر۔ وینزویلا کے صدر ہیٹی کے زلزلے کو امریکی ہارپ ڈرل قرار دے چکے ہیں:
 

خورشیدآزاد

محفلین
ویسے فواد صاحب کیا محترمہ ہلیری کلنٹن کی تقریرکا اردو ترجمہ آپ نے اکیلے کیا ہے۔۔۔۔۔واقعی آپ نے محنت کی ہے اگرچہ آپ امریکی ہیں لیکن آبائی وطن تو پاکستان ہی ہے اور پاکستانی کو محنت کرتے دیکھنے پر خوشی ہوئی۔ :)
 
fawad – digital outreach team – us state department

internet freedom – hillary clinton speechتاہم بعض ملکوں نے انٹرنیٹ کو مذہب پر یقین رکھنے والوں کو نشانہ بنانے اور انہیں خاموش کرنے کے آلے کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ مثلاً گذشتہ سال، سعودی عرب میں ایک شخص نے عیسائیت کے بارے میں بلاگنگ کرنے کی پاداش میں، کئی مہینے جیل میں گذارے ۔ ہارورڈ کے ایک مطالعے میں پتہ چلا کہ سعودی حکومت نے ہندو مت، یہودیت، عیسائیت، یہاں تک کہ اسلام کے بارے میں بہت سے صفحات کو بلاک کر دیا۔ ویتنام اور چین سمیت بہت سے ملکوں نے مذہبی معلومات تک رسائی کو بلاک کرنے کے لیئے اسی قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیئے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov

سعودی عرب اورعرب امارت نے میرا بلاگ بھی بلاک کر رکھا ہے جب کہ میں نےان ملکوں کے بارے کبھی کچھ نہیں لکھا نہ کچھ کہا۔ سعودی عرب اورعرب امارت سے امریکہ کے تعلقا ت اچھے ہیں ۔آپ ہیلری کلنٹن سے کہیں کہ میرے بلاگ کے لئے بھی آواز اٹھائیں اوراسے ان بلاک کروادیں۔
 
Top