سیما علی
لائبریرین
اسلام ایک ہمہ گیر، فطرت سے ہم آہنگ، احترام و حقوق انسانیت کا علم بردار آفاقی مذہب ہے۔
اسلام میں ہر عام و خاص کو داخلے کی اجازت ہے۔ جس میں علاقے، قومیت اور رنگ و نسل کی کوئی تفریق نہیں۔ اس کی نرم اور لچک دار پالیسیوں کی وجہ سے بنی نوع انسان کے حقوق کو تحفظ ملتا ہے اس کا منشور دہشت گردی، فساد فی الارض اور انسانی طبقات کی ایذا رسانی کی سراسر مخالفت کرتا ہے اور ایسا کرنے والوں کو بہ بانگ دہل مجرم قرار دیتا ہے۔ اس کے ہر شعبے میں نرم خوئی، امن و سلامتی اور انسان دوستی کا ایک طویل ترین باب ملتا ہے۔
اسلام امن کا داعی اور ساری انسانیت کے لیے پیام رحمت ہے۔ حقوق العباد کے عنوان سے اسلام کا ایک شرعی کلیہ اور ضابطہ بھی موجود ہے جس کا توسیعی مظہر امن و سلامتی، رحمت اور احترام انسانیت سے ہی ماخوذ ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر اسے دینِ رحمت کہا جاتا ہے۔
دین رحمت سے جو مفہوم نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ دین سارے عالم کے لیے ایک پُرامن اور انسان دوست مذہب بن جائے جس میں انسانی نسل کے ہر دائرے کے لوگوں میں ہم آہنگی، توازن اور آپس میں معاونت کا نیک جذبہ پیدا ہوسکے۔ جہاں انسان امن و سکون اور طمانیت کے ساتھ زندگی گزار سکیں اور اس طرح کے معاشرے کی بنیاد دین رحمت ہی رکھ سکتا ہے کیوں کہ اسلام ہی میں کلمۂ توحید زبان سے ادا کرنے کے ساتھ ہی انسانی حقوق کی پاس داری کی ہدایات جاری ہوتی ہیں۔
رسول اﷲ ﷺ کا آخر ی خطبہ احترام انسانیت کا عالمی منشور اور ایک مکمل نصاب ہے۔ اس تاریخی خطبے میں آپ ﷺ نے انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے، کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر بزرگی حاصل نہیں۔ آپ ﷺ نے انسانیت کا احترام سکھایا کہ جب بھی کسی سے بات کرو اچھے انداز سے کرو، اچھی گفتگو کرو اور دوسروں کو اپنے شر سے بچاؤ۔
احترام انسانیت کے لیے اسلام نے دو زرّیں اصول بیان کیے ہیں کہ جب کسی سے ملے تو خندہ پیشانی سے ملے۔ انسانوں سے اچھے انداز میں گفتگو کریں۔۔
اسلام کا یہ منشور انسان دوستی کے موقف کی تائید کے لیے کافی ہے، لہذا اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنا ایک غیر معقول بات، غیر منصفانہ عمل ہے اور ایک عالم گیر مذہب اور اس کے ماننے والوں کی صریح حق تلفی ہے۔۔
منقول
اسلام میں ہر عام و خاص کو داخلے کی اجازت ہے۔ جس میں علاقے، قومیت اور رنگ و نسل کی کوئی تفریق نہیں۔ اس کی نرم اور لچک دار پالیسیوں کی وجہ سے بنی نوع انسان کے حقوق کو تحفظ ملتا ہے اس کا منشور دہشت گردی، فساد فی الارض اور انسانی طبقات کی ایذا رسانی کی سراسر مخالفت کرتا ہے اور ایسا کرنے والوں کو بہ بانگ دہل مجرم قرار دیتا ہے۔ اس کے ہر شعبے میں نرم خوئی، امن و سلامتی اور انسان دوستی کا ایک طویل ترین باب ملتا ہے۔
اسلام امن کا داعی اور ساری انسانیت کے لیے پیام رحمت ہے۔ حقوق العباد کے عنوان سے اسلام کا ایک شرعی کلیہ اور ضابطہ بھی موجود ہے جس کا توسیعی مظہر امن و سلامتی، رحمت اور احترام انسانیت سے ہی ماخوذ ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر اسے دینِ رحمت کہا جاتا ہے۔
دین رحمت سے جو مفہوم نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ دین سارے عالم کے لیے ایک پُرامن اور انسان دوست مذہب بن جائے جس میں انسانی نسل کے ہر دائرے کے لوگوں میں ہم آہنگی، توازن اور آپس میں معاونت کا نیک جذبہ پیدا ہوسکے۔ جہاں انسان امن و سکون اور طمانیت کے ساتھ زندگی گزار سکیں اور اس طرح کے معاشرے کی بنیاد دین رحمت ہی رکھ سکتا ہے کیوں کہ اسلام ہی میں کلمۂ توحید زبان سے ادا کرنے کے ساتھ ہی انسانی حقوق کی پاس داری کی ہدایات جاری ہوتی ہیں۔
رسول اﷲ ﷺ کا آخر ی خطبہ احترام انسانیت کا عالمی منشور اور ایک مکمل نصاب ہے۔ اس تاریخی خطبے میں آپ ﷺ نے انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے، کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر بزرگی حاصل نہیں۔ آپ ﷺ نے انسانیت کا احترام سکھایا کہ جب بھی کسی سے بات کرو اچھے انداز سے کرو، اچھی گفتگو کرو اور دوسروں کو اپنے شر سے بچاؤ۔
احترام انسانیت کے لیے اسلام نے دو زرّیں اصول بیان کیے ہیں کہ جب کسی سے ملے تو خندہ پیشانی سے ملے۔ انسانوں سے اچھے انداز میں گفتگو کریں۔۔
اسلام کا یہ منشور انسان دوستی کے موقف کی تائید کے لیے کافی ہے، لہذا اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنا ایک غیر معقول بات، غیر منصفانہ عمل ہے اور ایک عالم گیر مذہب اور اس کے ماننے والوں کی صریح حق تلفی ہے۔۔
منقول