نیرنگ خیال
لائبریرین
بچپن میں ہم عجیب و غریب کہانیاں پڑھا کرتے تھے۔ کھانے کی چوری ،دال کی چوری۔۔۔ چور فاختہ۔۔۔ چورمینا۔۔۔ انگوٹھی کی چوری۔۔۔۔ الغرض ہر چیز کی چوری اور ہر طرح کا چور میسر تھا۔ لیکن ان ادباء کے امیر الخیال دماغوں میں کبھی نہ آئی تو انڈے کی چوری نہ آئی۔ اور نہ آیا تو انڈہ چور نہ آیا۔ صدیوں ادب متلاشی رہا۔۔۔۔ کسی ایسے ذہن رسا کا۔۔۔ جس کی کہانی ایک انڈہ چور کے گرد گھومتی ہو۔۔۔۔ لیکن نہ تو انڈہ چوری ہوا۔۔۔۔ اور نہ انڈر چور ہی وجود میں آیا۔ یا پھر یوں کہیے کہ آج تک کوئی انڈہ چور پکڑا نہیں گیا۔ سو یہ جرم خانہ غیب میں تو موجود تھا۔ مگر ارض انسانی پر اس کا اعتراف کرنے والا کوئی نہ تھا۔ کہ ایسے میں ایک جھونکا ہوا کا آیا۔ انڈہ چوری کی کہانی ساتھ لایا۔ ماضی کے دریچوں سے۔۔۔ لڑکپن کے باغیچوں سے۔۔۔ اور یہ ادب کا یہ تشنہ پہلو سیراب ہوا۔ تو آج بچوں ہم آپ کو ایک انڈہ چور ۔۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ ایک انڈہ چورنی کی کہانی سناتے ہیں۔۔۔۔آنڈا چوری کیا، وہ بھی ابلا ہوا۔
کہتے ہیں کہ کسی ملک پر ایک نواب حکومت کرتا تھا۔ آج کے نوابوں کی طرح نہ تھا۔ جسے سب کہتے ہیں تو بڑا نواب ایں۔ بلکہ سچ مچ کا نواب تھا۔ اسی نواب کی راجدھانی میں ایک بوئے نایاب، گل کمیاب ۔۔۔ یعنی یاسمین کی جگہ جاسمن کا ظہو رہوا۔ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں سو ان کے پاؤں پالنے میں نظر نہیں آئے۔ اور ایک مدت تک ان کے سیدھے اور الٹے ہونے کے متعلق گھر کےافراد خاموش رہے۔ لیکن جیسا کہ ہر کہانی میں ہوتا آیا ہے کہ پھر وہ بچہ بڑا ہونے لگا۔ یہ بھی بڑی ہونے لگیں۔ لیکن بچپن سے ہی طبیعت میں ایک کچھ کر گزرنے کی تمنا موجود تھی۔ لڑکپن میں چند سہیلیوں کو جو آپس میں اپنے من گھڑت قصے سناتے سنا کہ کیسے سوئی کی نوک سے کپڑے پر یونان کا نقشہ بنا دیا۔ کیسے اون کی سلائی سے ابا کے مفلر سے گڑیا کی چادر بنا ڈالی۔ تو دل ہی دل میں اپنے قصے سنانے کا بھی شوق پیدا ہوگیا۔ کہ کسی دن میں بھی کچھ ایسا سناؤں کہ سبھی کے لب سل جائیں۔ جل بھن کر کوئلہ ہوجائیں۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ سردیوں کے سرد موسم میں انہیں سوچوں میں ابلتی چلی جا رہی تھیں کہ گلی میں آواز سنائی دی۔ گرم انڈے۔۔۔۔ گرم انڈے۔۔۔۔۔
آنکھیں چمک اٹھیں۔۔۔ دل کی رفتار پر قابو پانا مشکل ہوگیا تھا۔۔۔ قصے کہانیاں بہت زیادہ پڑھنے کی وجہ سے معلوم تھا کہ انڈے کی چوری تو آج تک نک ویلوٹ نے بھی نہیں کی۔ آہا۔۔۔۔ اس خیال کا آنا تھا کہ چوری کے تمام منصوبے ذہن میں ترتیب پانے لگے۔ کیسے نک ویلوٹ نے ساز کی آواز چوری کی۔ تمام جزئیات کو سوچتے احساس ہوا کام ایسا مشکل نہیں۔ اور میرے جیسی ذہین و فطین کے تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔۔۔۔ سو اس لڑکے کو روکا۔ اور کہا۔۔۔ ادھر آؤ۔۔۔ انڈہ کتنے کا بیچ رہے ہو۔۔۔۔ وہ بیچارہ بھاگا بھاگا ان کے پاس آیا۔ انڈے کے دام بتائے۔ ادھر انہوں نے اپنے منصوبے کے مطابق اس کو بھاؤ بتانے پر بے بھاؤ کی سنائیں۔۔۔ کہ زم زم میں ابالا ہے۔ اتنا مہنگا انڈہ ۔۔۔ اور یہ انڈے اتنے چھوٹے چھوٹے۔۔۔۔ مجھے تویہ فاختہ کے انڈے لگ رہے ہیں۔۔۔ وہ بیچارہ رزق کمانے کو۔۔۔ حیلے بہانے کرنے لگا۔ نہیں ۔۔۔۔ بالکل اصیل مرغی کے انڈے ہیں۔ بھلا فاختاؤں کے انڈے اتنی تعداد میں کیسے مل سکتے ہیں۔ اس کی چرب زبانی سے تنگ آ کر سب انڈوں کا معائنہ کیا کہ پیسے دینے ہیں تو دیکھ کر بڑا انڈہ لیا جائے گا۔ اور اسی دیکھ بھال میں ایک انڈہ کھسکا لیا۔ جو آستین سے ہوتا ہوا شال کے اندر غائب ہوگیا۔ واللہ ایسی صفائی تو شعبدہ بازوں کے ہاں بھی نہیں تھیں۔انڈے والے کو بھگانے کے بعد جنابہ ہواؤں میں اڑتی جاتی تھیں کہ اب تو اگلی کئی نسلوں تک کو سنانے کو ایک قصہ ہاتھ آگیا ہے۔۔۔ اور قصہ بھی اصل۔۔۔۔ من گھڑت نہیں۔۔۔۔ اور تو اور ۔۔۔ ادب کی کہانیوں میں ایک نئے چور کا اضافہ ہو چکا تھا۔
نیرنگ خیال
22 نومبر 2023
آخری تدوین: