فراز انکار نہ اقرار، بڑی دیر سے چپ ہیں

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
انکار نہ اقرار، بڑی دیر سے چپ ہیں
کیا بات ہے سرکار بڑی دیر سے چپ ہیں

آسان نہ کر دی ہو کہیں موت نے مشکل
روتے ہوئے بیمار بڑی دیر سے چپ ہیں

اب کوئی اشارہ ہے نہ پیغام نہ آہٹ
بام و در و دیوار بڑی دیر سے چپ ہیں

ساقی یہ خموشی بھی تو کچھ غور طلب ہے
ساقی ترے میخوار بڑی دیر سے چپ ہیں

یہ برق نشیمن پہ گری تھی کہ قفس پر
مرغانِ گرفتار بڑی دیر سے چپ ہیں

اس شہر میں ہر جنس بنی یوسفِ کنعاں
بازار کے بازار بڑی دیر سے چپ ہیں

پھر نعرۂ مستانہ فراز آؤ لگائیں
اہلِ رسن و دار بڑی دیر سے چپ ہیں
 
تنقید نہ تکرار بڑی دیر سے چپ ہیں
حیرت ہے مرے یار بڑی دیر سے چپ ہیں

گونگوں کو تکلم کے مواقع ہیں میسر
ہم ماہرِ گفتار بڑی دیر سے چپ ہیں
احمد عبداللہ
 
Top