انکل چھوڑو نے پھل ٹورا

Ali mujtaba 7

لائبریرین
انکل پھینکو اپنے گھر میں اکیلے رہتے تھے۔ایک دفعہ انکل پھینکو کو بہت بھوک لگی تھی اور ان کے گھر میں بھی کچھ نہ تھا جب وہ اپنے گھر کے باغ میں گئے تو وہاں ایک مالٹے کا درخت تھا وہ درخت کے پاس گئے اور درخت کو زور سے ہلایا ۔درخت تو نہ ہیلا لیکن انکل پھینکو ضرور ہل گئے ۔پھر بھی انکل نے ہر نہ مانی ۔انکل نے اب درخت پر چڑھنے کی کوشش کی لیکن جب انہوں نے درخت پر چڑھنے کے لیے جونہی درخت کی لکڑی کو پکڑا تو ایک چیونٹی نے انکل کے ہاتھ پر کاٹا۔انکل نے فورا چھلانگ لگائی اور کہا ہائے میرا ہاتھ ہائے میری انگلی ۔ بیچارا میں۔اچانک ان کے پاس سے ان کا پڑوسی گیدڑ صاحب جارہے تھے انکل نے جونہی گیدڑ صاحب کو دیکھا تو اونچی آواز میں کہا بیچاری چیونٹی ۔دیکھا چیونٹی مجھے کاٹنے چلی تھی دیکھ لیا اپنا حشر۔گیدڑ صاحب نے سوچا کہ شاید یہ پاگل ہوگیا ہے چلتے بنو یہاں سے۔جونہی گیدڑ صاحب گئے انکل نے آپنی انگلی ہلاتے ہوئے بولے ہائے میری انگلی لیکن انکل نے ہر نہ مانی آب کی بار انکل نے ایک پتھر اٹھایا اور درخت پر لگے درخت کی طرف پھینکا لیکن انہوں نے اتنی قوت کے ساتھ پھینکا کہ انکا ہاتھ موڑ گیا انکل نے کہا ہائے پتھر پھل پر لگنے کے بجائے درخت پر لگا اور اچھلتے ہوئے انکل کے سر پر لگا انکل نیچے گرے اور بے ہوش ہوگئے۔علی مجتبی،میرپور آزاد کشمیر
 

فرقان احمد

محفلین
علی! دیکھیے، کچھ بہتر صورت بنی تو بتائیے گا؛ لکھتے رہیے :) :) :) تیرہ برس کی عمر کے حساب سے ٹھیک ہے یہ کہانی؛ تاہم، اسے مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر:

چچا پھینکو گھر میں اکیلے رہا کرتے تھے۔ ایک بار ان کو بھوک نے بے انت ستایا۔ اتفاق سے گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ یکایک ان کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا اور وہ گھر سے ملحق باغ میں جا پہنچے۔ وہاں ایک مالٹے کا درخت تھا۔ چچا پھینکو کو اپنی گئی جوانی پر بڑا غرور تھا؛ سو لگے درخت کو ہلانے؛ درخت تو خیر کیا ہلتا، چچا پھینکو ضرور ہل گئے۔ تاہم، ہار تسلیم کرنے کو وہ اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ چچا پھینکو بچپن کی یادیں دل میں تازہ کیے درخت پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگے۔ تاہم، قسمت نے یہاں بھی ان کے ساتھ ہاتھ کر دیا۔ چچا پھینکو نے جونہی درخت کی شاخ کو تھاما، ایک ظالم چیونٹی نے چچا کے ہاتھ پر ایسے کاٹا کہ چچا کی جان پر بن آئی؛ اور ان کی چیخ پکار اور ہائے وائے نے گویا کہرام برپا کر دیا۔ چچا پھینکو نے فوری طور پر درخت کو سر کرنے کا خیال دل سے نکالا اور نیچے کی طرف چھلانگ لگا دی۔ اب عالم یہ تھا کہ چچا کو بھوک ستائے جا رہی تھی اور وہ اپنی انگلی کو تھامے چیونٹی کو کوسے جا رہے تھے۔ چچا کے ذہن میں اب یہ بات آئی کہ کیوں نہ پتھر مالٹے کی سمت پھینکا جائے۔ یوں بھی ان کو اپنی نشانہ بازی پربڑا ناز تھا۔ سو، آؤ دیکھا نہ تاؤ؛ دے مارا ایک پتھر، تاہم، شومئی قسمت، پتھر درخت سے ٹکرا کر اچھلتے ہوئے چچا پھینکو کے سر پر لگا اور وہ زمین پر آ رہے۔
 

ظفری

لائبریرین
علی! دیکھیے، کچھ بہتر صورت بنی تو بتائیے گا؛ لکھتے رہیے :) :) :) تیرہ برس کی عمر کے حساب سے ٹھیک ہے یہ کہانی؛ تاہم، اسے مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
اگر تیرہ سال کی عمر میں لکھا ہے تو بہت خوب لکھا ہے ۔ خصوصاً اردو ٹائپنگ تو کمال کی ہے ۔
 

ارتضی عافی

محفلین
انکل پھینکو اپنے گھر میں اکیلے رہتے تھے۔ایک دفعہ انکل پھینکو کو بہت بھوک لگی تھی اور ان کے گھر میں بھی کچھ نہ تھا جب وہ اپنے گھر کے باغ میں گئے تو وہاں ایک مالٹے کا درخت تھا وہ درخت کے پاس گئے اور درخت کو زور سے ہلایا ۔درخت تو نہ ہیلا لیکن انکل پھینکو ضرور ہل گئے ۔پھر بھی انکل نے ہر نہ مانی ۔انکل نے اب درخت پر چڑھنے کی کوشش کی لیکن جب انہوں نے درخت پر چڑھنے کے لیے جونہی درخت کی لکڑی کو پکڑا تو ایک چیونٹی نے انکل کے ہاتھ پر کاٹا۔انکل نے فورا چھلانگ لگائی اور کہا ہائے میرا ہاتھ ہائے میری انگلی ۔ بیچارا میں۔اچانک ان کے پاس سے ان کا پڑوسی گیدڑ صاحب جارہے تھے انکل نے جونہی گیدڑ صاحب کو دیکھا تو اونچی آواز میں کہا بیچاری چیونٹی ۔دیکھا چیونٹی مجھے کاٹنے چلی تھی دیکھ لیا اپنا حشر۔گیدڑ صاحب نے سوچا کہ شاید یہ پاگل ہوگیا ہے چلتے بنو یہاں سے۔جونہی گیدڑ صاحب گئے انکل نے آپنی انگلی ہلاتے ہوئے بولے ہائے میری انگلی لیکن انکل نے ہر نہ مانی آب کی بار انکل نے ایک پتھر اٹھایا اور درخت پر لگے درخت کی طرف پھینکا لیکن انہوں نے اتنی قوت کے ساتھ پھینکا کہ انکا ہاتھ موڑ گیا انکل نے کہا ہائے پتھر پھل پر لگنے کے بجائے درخت پر لگا اور اچھلتے ہوئے انکل کے سر پر لگا انکل نیچے گرے اور بے ہوش ہوگئے۔علی مجتبی،میرپور آزاد کشمیر
اچھا لگا علی بھائی
 

سید عمران

محفلین
اچھا لکھا...
سب نقائص سے قطع نظر تحریر میں روانی ہے...
یہی وجہ ہے کہ بچکانہ انداز ہونے کے باوجود اکتاہٹ نہیں ہوئی...
پوری پڑھ کر ہی دم لیا...
 
Top