راحیل فاروق
محفلین
مجھے طالب علموں کی بدقسمتی سے مختلف سطحوں پر انگریزی زبان و ادب کی تدریس کا اتفاق ہوا ہے۔ یہ امر میرے لیے نہایت حیرت کا باعث تھا کہ انگریزی کا وسیع ذخیرۂِ الفاظ اور مناسب فہم رکھنے والے لوگ بھی اکثر اس زبان میں تحریری یا زبانی اظہارِ خیال کے قابل نہیں ہوتے۔ ادب کے طلبا کے لیے تو یہ معاملہ نہایت تشویش ناک مضمرات رکھتا ہے۔
بدقسمتی یا خوش قسمتی سے میں نے خود انگریزی کو ریاضی کی طرح دو جمع دو کے قاعدوں سے سیکھا تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ استثنائی مثالیں سامنے آتی گئیں اور طبیعت تنفر اور تدبر کے درمیان جھولتی رہی۔ حالات کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ مجھے پڑھنے کے ساتھ ساتھ پڑھا کر روزی بھی کمانا پڑی۔ اس دوران میں زبان کے کچھ ایسے پہلوؤں سے بھی آشنائی ہوئی جو شاید عام طور پر نہیں کھلتے۔
ایک عرصے سے میں قائل ہوں کہ انگریزی عربی کی طرح اپنے قواعد کے سلسلے میں نہایت منضبط زبان ہے۔ یہ قواعد میری تحقیق کے مطابق تین اصولوں پر قائم ہیں جنھیں میں نے اصولِ سہ گانہ کا نام دیا ہے۔ ان تین اصولوں اور ان کی توضیحات کو مستحضر کر لینے کے بعد ممکن نہیں کہ آپ کے لکھے یا بولے ہوئے جملے کی ساخت زمانوں (Tenses) کے اعتبار سے قابلِ گرفت ہو۔
مجھے حیرت ہے کہ یہ اصول تدریسِ انگریزی کی صدیوں پرانی تاریخ میں کم از کم مجھے کہیں اس جامع صورت میں نہیں ملے۔ لہٰذا میں نے انھیں اپنی ویب گاہ پر پیش کر دیا ہے اور اب متمنی ہوں کہ محفلین میں سے انگریزی سے دلچسپی یا تعلق رکھنے والے احباب ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی افادیت اور اطلاق کی بابت اپنی قیمتی آرا عنایت فرمائیں۔ ویب گاہ کا پتا یہ ہے:
بدقسمتی یا خوش قسمتی سے میں نے خود انگریزی کو ریاضی کی طرح دو جمع دو کے قاعدوں سے سیکھا تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ استثنائی مثالیں سامنے آتی گئیں اور طبیعت تنفر اور تدبر کے درمیان جھولتی رہی۔ حالات کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ مجھے پڑھنے کے ساتھ ساتھ پڑھا کر روزی بھی کمانا پڑی۔ اس دوران میں زبان کے کچھ ایسے پہلوؤں سے بھی آشنائی ہوئی جو شاید عام طور پر نہیں کھلتے۔
ایک عرصے سے میں قائل ہوں کہ انگریزی عربی کی طرح اپنے قواعد کے سلسلے میں نہایت منضبط زبان ہے۔ یہ قواعد میری تحقیق کے مطابق تین اصولوں پر قائم ہیں جنھیں میں نے اصولِ سہ گانہ کا نام دیا ہے۔ ان تین اصولوں اور ان کی توضیحات کو مستحضر کر لینے کے بعد ممکن نہیں کہ آپ کے لکھے یا بولے ہوئے جملے کی ساخت زمانوں (Tenses) کے اعتبار سے قابلِ گرفت ہو۔
مجھے حیرت ہے کہ یہ اصول تدریسِ انگریزی کی صدیوں پرانی تاریخ میں کم از کم مجھے کہیں اس جامع صورت میں نہیں ملے۔ لہٰذا میں نے انھیں اپنی ویب گاہ پر پیش کر دیا ہے اور اب متمنی ہوں کہ محفلین میں سے انگریزی سے دلچسپی یا تعلق رکھنے والے احباب ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی افادیت اور اطلاق کی بابت اپنی قیمتی آرا عنایت فرمائیں۔ ویب گاہ کا پتا یہ ہے: