انگریزی زبان کے اصولِ سہ گانہ

مجھے طالب علموں کی بدقسمتی سے مختلف سطحوں پر انگریزی زبان و ادب کی تدریس کا اتفاق ہوا ہے۔ یہ امر میرے لیے نہایت حیرت کا باعث تھا کہ انگریزی کا وسیع ذخیرۂِ الفاظ اور مناسب فہم رکھنے والے لوگ بھی اکثر اس زبان میں تحریری یا زبانی اظہارِ خیال کے قابل نہیں ہوتے۔ ادب کے طلبا کے لیے تو یہ معاملہ نہایت تشویش ناک مضمرات رکھتا ہے۔
بدقسمتی یا خوش قسمتی سے میں نے خود انگریزی کو ریاضی کی طرح دو جمع دو کے قاعدوں سے سیکھا تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ استثنائی مثالیں سامنے آتی گئیں اور طبیعت تنفر اور تدبر کے درمیان جھولتی رہی۔ حالات کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ مجھے پڑھنے کے ساتھ ساتھ پڑھا کر روزی بھی کمانا پڑی۔ اس دوران میں زبان کے کچھ ایسے پہلوؤں سے بھی آشنائی ہوئی جو شاید عام طور پر نہیں کھلتے۔
ایک عرصے سے میں قائل ہوں کہ انگریزی عربی کی طرح اپنے قواعد کے سلسلے میں نہایت منضبط زبان ہے۔ یہ قواعد میری تحقیق کے مطابق تین اصولوں پر قائم ہیں جنھیں میں نے اصولِ سہ گانہ کا نام دیا ہے۔ ان تین اصولوں اور ان کی توضیحات کو مستحضر کر لینے کے بعد ممکن نہیں کہ آپ کے لکھے یا بولے ہوئے جملے کی ساخت زمانوں (Tenses) کے اعتبار سے قابلِ گرفت ہو۔
مجھے حیرت ہے کہ یہ اصول تدریسِ انگریزی کی صدیوں پرانی تاریخ میں کم از کم مجھے کہیں اس جامع صورت میں نہیں ملے۔ لہٰذا میں نے انھیں اپنی ویب گاہ پر پیش کر دیا ہے اور اب متمنی ہوں کہ محفلین میں سے انگریزی سے دلچسپی یا تعلق رکھنے والے احباب ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی افادیت اور اطلاق کی بابت اپنی قیمتی آرا عنایت فرمائیں۔ ویب گاہ کا پتا یہ ہے:
 
بہت ہی زبردست کام ۔۔ آپ کی جتنی خدمات اردو ادب کے حوالے سے ہیں اسی طرح انگریزی زبان کے حوالے سے بھی آپ نے جو کام شروع کیاہے اللہ آپ کو مزید ہمت اور حوصلہ دے کہ آپ اسے جاری و ساری رکھیں ۔
آپ کی ا س کاوش سے بہت سوں کا بھلا ہو جائے گا بشمول میرے :D
 

با ادب

محفلین
بہت خوب ۔ اچھی کاوش ہے ۔ ضرور ان اصول کا جائزہ لے کر اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں گے ۔
اگر ان سہ گانہ اصول کے ساتھ ذرا بات انگریزی ادب کی بھی چل پڑے تو کیا ہی بات ہو
 
بہت خوب ۔ اچھی کاوش ہے ۔ ضرور ان اصول کا جائزہ لے کر اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں گے ۔
اگر ان سہ گانہ اصول کے ساتھ ذرا بات انگریزی ادب کی بھی چل پڑے تو کیا ہی بات ہو
آپ کے نزدیک انگریزی کا بہترین نثر نگار کون ہے؟
 
بہت ہی زبردست کام ۔۔ آپ کی جتنی خدمات اردو ادب کے حوالے سے ہیں اسی طرح انگریزی زبان کے حوالے سے بھی آپ نے جو کام شروع کیاہے اللہ آپ کو مزید ہمت اور حوصلہ دے کہ آپ اسے جاری و ساری رکھیں ۔
آپ کی ا س کاوش سے بہت سوں کا بھلا ہو جائے گا بشمول میرے :D
اللہ معاف فرمائے۔ خدمت والا مذاق تو اپنا کسی کے ساتھ ہے ہی نہیں۔ باقی رہی بھلے کی بات، تو اسی امید پر پیش کیا ہے۔ :):):)
جزاک اللہ!
بہت خوب ۔ اچھی کاوش ہے ۔ ضرور ان اصول کا جائزہ لے کر اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں گے ۔
جلد۔ دیر کے متحمل نہیں ہو سکتے ہم اس عمر میں!
راحیل فاروق صاحب! اب تو آپ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے! آپ تو چھپے رستم نکلے! اب تو آپ سے متعلق تمام لڑیاں دیکھنا پڑیں گی!
اب تو ترجمہ کر دیجیے محترم!
بھلا ہوا ریحان کی مٹکی ٹوٹی، میں تو پنیا بھرن سے چھوٹی!
اگر ان سہ گانہ اصول کے ساتھ ذرا بات انگریزی ادب کی بھی چل پڑے تو کیا ہی بات ہو
آپ کے نزدیک انگریزی کا بہترین نثر نگار کون ہے؟
میرا خیال ہے ان کے نزدیک ترین تو میں ہی ہوں گا۔ :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

با ادب

محفلین
اصول سہ گانہ پسند آئے ۔ لیکن ایک کمی جو مین نے محسوس کی وہ یہ کہ پوری عبارت انگریزی زبان میں ہی کی گئی ہے ۔ اب جو پہلے سے انگریزی جانتا ہے اس کی معلومات مین تو اضافہ ہو جائے گا لیکن جن افراد کی انگریزی کمزود ہے انھین دقت ہوگی ۔ اگر اردو ترجمہ مہیا کر دیا جائے اصول و قواعد ک ساتھ تو بہتوں کا بھلا ہوگا۔ یہ میری رائے ہھے۔
 
ماشاللہ اللہ پاک آپکے علم میں مزید اضافہ فرمائے۔۔ جزاک اللہ خیر
آمین۔ شکریہ۔
آپ نے انھیں دیکھا ہے؟ آپ کی رائے میرے لیے قیمتی ہو گی۔ اگر وقت نکال کر جائزہ پیش کر سکیں تو اور زیادہ ممنون پائیں گی۔
شکریہ، آپا۔ مجھے بتائیے کہ یہ لاگو کرنے کے لائق بھی معلوم ہوئے آپ کو یا نہیں؟ مثلاً کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اگر نوعمر طالب علموں کو اس طرح انگریزی پڑھائی جائے تو زیادہ تیز اور بہتر نتائج حاصل ہوں گے؟
اصول سہ گانہ پسند آئے ۔ لیکن ایک کمی جو مین نے محسوس کی وہ یہ کہ پوری عبارت انگریزی زبان میں ہی کی گئی ہے ۔ اب جو پہلے سے انگریزی جانتا ہے اس کی معلومات مین تو اضافہ ہو جائے گا لیکن جن افراد کی انگریزی کمزود ہے انھین دقت ہوگی ۔ اگر اردو ترجمہ مہیا کر دیا جائے اصول و قواعد ک ساتھ تو بہتوں کا بھلا ہوگا۔ یہ میری رائے ہھے۔
آپ کی رائے سر آنکھوں پر۔
انگریزی میں لکھنے کی وجہیں ہیں کچھ۔ ایک تو یہ کہ یہ اصول بالفعل اساتذہ کے لیے لکھے گئے ہیں، طلبا پیشِ نظر نہ تھے۔ دوسرا میں ان اصولوں کی صلابت پر دوسروں کی آرا کا طالب ہوں۔ یہ آرا صرف اردو دان طبقے کی بجائے زیادہ سے زیادہ لوگوں سے لینے کے لیے مجھے یہی طریقہ مناسب معلوم ہوا۔ تیسرا سبب یہ ہے کہ اگر یہ اصول درست ہیں تو اردو میں بیان کرنے پر یہ زیادہ سے زیادہ اردو دان طبقے کو فائدہ پہنچائیں گے۔ مگر انگریزی میں لکھنے سے یہ طمع ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کو اپنی اپنی زبانوں میں طلبا تک پہنچا سکیں گے۔
 

مژگان نم

محفلین
جی بہت خوب آپ نے دریا کو کوزے میں بند کردیا ! خاص کر جو
prime verbs کا استعمال subjects اور tenses
کی مناسبت سے بتایا گیا ہے وہ
قابل تعریف ہے کیونکہ موجودہ طریقہ جو انگریزی سکھانے کیلئے رائج ہے اسکو سیکھنے کے بعد بھی بچوں کو helping verbs
کے استعمال میں
خاصی مشکل پیش آتی ہے آپکے بنائے ہوئے ٹیبل کو یاد کرلیا جائے تو میری رائے
میں کوئی confusion
باقی نہیں بچتا
اور ایک
remarkable چیز
passivization of some actual verbs
ہے اسکے بعد تو کوئی گنجائش نہیں بچتی
personally i would like to apply these rules
جزاک اللہ خیر
 
جی بہت خوب آپ نے دریا کو کوزے میں بند کردیا ! خاص کر جو
prime verbs کا استعمال subjects اور tenses
کی مناسبت سے بتایا گیا ہے وہ
قابل تعریف ہے کیونکہ موجودہ طریقہ جو انگریزی سکھانے کیلئے رائج ہے اسکو سیکھنے کے بعد بھی بچوں کو helping verbs
کے استعمال میں
خاصی مشکل پیش آتی ہے آپکے بنائے ہوئے ٹیبل کو یاد کرلیا جائے تو میری رائے
میں کوئی confusion
باقی نہیں بچتا
اور ایک
remarkable چیز
passivization of some actual verbs
ہے اسکے بعد تو کوئی گنجائش نہیں بچتی
personally i would like to apply these rules
جزاک اللہ خیر
یقین کیجیے کہ میرا دل ناچ ناچ اٹھا ہے آپ کی اس رائے سے۔ پرائم ورب اور پیسوائزیشن ان اصولوں کی روح ہیں۔ آپ بالکل ٹھیک جگہ پہنچیں۔ گویا میری محنت رائیگاں نہیں گئی۔
اللہ آپ کو بہت سکھی رکھے۔ اتنے وقت اور توجہ کا بےحد شکریہ!
 

دوست

محفلین
ایک رکشے کے پیچھے لگا فلیکس یاد آ گیا جس میں ڈرائیور کے ایم اے پاس ہونے اور ساتھ انگریزی سیکھنے کی ایک کتاب تحریر کرنے کا تذکرہ تھا جو رکشہ ڈرائیور سے رعایتی قیمت پر مل سکتی تھی۔
خیر یہ تو بات سے بات یاد آ گئی۔ آپ کی ویب سائٹ اچھی ہے۔ اللہ آپ کے رزق میں برکت دے۔ "اصول سہ گانہ" سے آپ کی مراد آپ جانیں یا آپ کا رب جانے۔ بندہ عرصہ دس برس سے انگریزی لسانیات کا طالبعلم ہے۔ قریباً چار سمسٹر تھرڈ ائیر کے بچوں کو انگریزی بھی پڑھا چکا ہے۔ آپ کی ویب سائٹ پر انگریزی کی نحو اور اجزائے کلام کی جو وضاحت کی گئی ہے اس طرح کی وضاحتیں انگریزی گرامر کی بلامبالغہ سینکڑوں کتب میں سے مل جاتی ہیں۔ صرف طلبہ کے لیے نہیں، انگریزی فقرے کی ساخت، فریز (phrase) اور اجزائے کلام کے کئی حوالے سے تجزیات ہو چکے ہیں جنہیں انگریزی لسانیات کے طلبہ بڑی اچھی طرح جانتے ہیں۔ چند ایک کا ذکر یہاں کر دیتا ہوں: Systemic Functional Grammar, Lexical Functional Grammar, Construction Grammar, Transformational Generative Grammar۔ گرامر کی ہر تھیوری نے اجزائے کلام سے فقرے کی ترتیب تک ہر چیز کو اپنے انداز میں دیکھا ہے۔ آپ شاید اپنے کام میں مزید نکھار لانے کے لیے مندرجہ بالا گرامرز کی مبادیات پر ایک نظر ڈالنا پسند فرمائیں۔
انگریزی سیکھنے والے طلبہ کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ بندے کے پُتر کی طرح اپنے نصاب میں انگریزی کی مبادیات سیکھیں۔ اس کے بعد روزمرہ کی زبان پر عبور کے لیے ہالی ووڈ کی موویز سے زیادہ برکت والی چیز کوئی نہیں ہے۔ اللہ کا نام لے کر اپنی پسند کی صنف والی فلمیں دیکھنا شروع کریں (شروع میں سب ٹائٹل سے دیکھیں چند ماہ بعد ہٹا دیں)۔ انشاءاللہ بہت فائدہ ہو گا۔
 

ربیع م

محفلین
نگریزی سیکھنے والے طلبہ کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ بندے کے پُتر کی طرح اپنے نصاب میں انگریزی کی مبادیات سیکھیں۔ اس کے بعد روزمرہ کی زبان پر عبور کے لیے ہالی ووڈ کی موویز سے زیادہ برکت والی چیز کوئی نہیں ہے۔ اللہ کا نام لے کر اپنی پسند کی صنف والی فلمیں دیکھنا شروع کریں (شروع میں سب ٹائٹل سے دیکھیں چند ماہ بعد ہٹا دیں)۔ انشاءاللہ بہت فائدہ ہو گا۔
مطلب شاٹ کٹ کوئی نہیں؟!!!!!!!!!!
 

جاسمن

لائبریرین
میں نے جو سرسری جائزہ لیا ہے تو مجھے یہ اصول بہت پسند آئے ہیں۔یقین مانیں "زمانے"سیکھنے میں ہی "زمانے"لگ گئے۔خود سیکھنا تو پھر بھی آسان رہا لیکن جب بچوں کو سکھاتے ہیں تو وہ طریقے پرانے لگتے ہیں اور ہمیں خود تو سب سمجھ آ رہا ہوتا ہے لیکن سمجھانا بڑا مشکل لگتا ہے۔
خود ہم نے" اردو میں زمانے کی پہچان" سے کام شروع کیا تھا۔جملے کے آخر میں فلاں فلاں لفظ آئے گا تو اس کو ایسے ایسے ترجمہ کریں گے وغیرہ۔
آپ نے آسان ترین بنا دیا ہے۔prime verb کا جس طرح استعمال آپ نے بتایا ہے ،بہت uniqueہے۔auxiliary verbکے استعمال کو بھی آپ نے بہت آسان بنا دیا ۔۔۔اور طلباء انگریزی میں ایم اے کر کے بھیpassive voiceنہیں جانتے۔۔۔لیکن آپ کے ان اصولوں نے آسان ترین بنا دیاہے passivization کو۔
دوست کی سب باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہوں گی۔
اتنی بڑی بڑی گرامر کی کتابوں کے نام پڑھ کر ہی میں تھر تھر کانپنے لگ گئی ہوں۔۔۔ڈرائیں مت دوست بھائی۔
مذاق ایک طرف۔خود مجھے بی اے میں انگریزی گرامر خصوصا tensesسے محبت تھی۔مجھے ایک کھیل لگتا تھا ترجمہ کرنا۔فارغ وقت میں یہی کھیل کھیلتی تھی۔
میرے پاس کئی کتابیں تھیں گرامر کی۔بلکہ ایک گرامر تو انڈیا کے کسی رائٹر کی تھی ،جو مجھے بےحد پسند تھی۔اس کی انگریزی اور جملوں کی بناوٹ ہماری والی کتابوں سے بہت خوبصورت تھی۔
اچھی کوشش ہے راحیل۔اللہ قبول فرمائے۔آپ کی یہ کوشش لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے ہے۔
اور جو دوسروں کو آسانیاں دیتا ہے ،اللہ اسے کتنے ہی گنا بڑھا چڑھا کر آسانیاں اور کامیابیاں عطا فرماتا ہے۔
بے شک وہ بار بار رحم فرمانے والا ہے۔
اور بے شک ساری تعریفیں اسی کے لئے ہی ہیں۔
جزاک اللہ خیرا۔
 

دوست

محفلین
دیکھیں جی دو باتیں ہیں.
ایک، زبان کے بارے میں جاننا.
دوسرا زبان جاننا.
مذکورہ بالا ویب سائٹ کی طرح ساخت اور نظام کی وضاحت کے کئی طریقے طلبہ کی خدمت میں پیش کیے جا سکتے ہیں، ایک طریقہ ہے ٹری اینالیسز جس میں فقرے کو مرحلہ وار ٹری بنا کر لیبل کیا جاتا ہے. فقرے کی ساخت بڑی آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے، فعل مجہول اور معروف کا فرق، اسم، صفت، متعلق فعل اور امدادی افعال کے فنکشن سمجھ آ جاتے ہیں.
دوسری بات ہے آپ کے پاس بات کہنے اور سمجھنے کے لیے ذخیرہ الفاظ ہو. ایسے سمجھ لیں کہ گرامر سیمنٹ ہے تو الفاظ اینٹیں، گرامر سانچہ ہے تو الفاظ اس میں بھرنے کا مصالحہ. دونوں کی موجودگی ضروری ہے. اس لیے اوپر ہالی ووڈ موویز کی فضیلت بیان کی تھی.
المیہ یہ ہے کہ ہمارے طلبہ گرامر کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور پھنسے ہی رہتے ہیں. یہ نہیں سمجھتے کہ زبان سننے پڑھنے اور پھر بولنے لکھنے یعنی ابلاغ کے ذریعے آتی ہے. یعنی الفاظ کے مصالحے سے لینٹر نہیں ڈالیں گے تو گرامر کا ڈھانچہ ہی رہے گا جس کا کوئی فائدہ نہیں. زبان استعمال کریں، گفتگو کے لیے انگریزی کا انتخاب کریں، مطالعہ کریں کہانیاں ناول بلاگ اخبارات فلمیں پڑھیں اور سنیں.
معذرت کے ساتھ، زبان سیکھنے کی کوئی دوا، جادوئی فارمولا یا پھکی ایجاد نہیں ہوئی. اس کے لیے چند ماہ سے کئی برس تک کی مسلسل کچھوا مارکہ محنت درکار ہے. ایک گھنٹہ یا کچھ وقت روزانہ، کسی ایسی لسانی سرگرمی سے شروع کریں جس میں دلچسپی لگے جیسے روز ایک انگریزی فلم دیکھ لینا، ٹیکنالوجی کی خبریں پڑھنا، فیس بک پر انگریزی بولنے والوں کے گروپ وغیرہ میں کچھ مکالمہ کر لینا.
 
ایک رکشے کے پیچھے لگا فلیکس یاد آ گیا جس میں ڈرائیور کے ایم اے پاس ہونے اور ساتھ انگریزی سیکھنے کی ایک کتاب تحریر کرنے کا تذکرہ تھا جو رکشہ ڈرائیور سے رعایتی قیمت پر مل سکتی تھی۔
خیر یہ تو بات سے بات یاد آ گئی۔ آپ کی ویب سائٹ اچھی ہے۔ اللہ آپ کے رزق میں برکت دے۔ "اصول سہ گانہ" سے آپ کی مراد آپ جانیں یا آپ کا رب جانے۔ بندہ عرصہ دس برس سے انگریزی لسانیات کا طالبعلم ہے۔ قریباً چار سمسٹر تھرڈ ائیر کے بچوں کو انگریزی بھی پڑھا چکا ہے۔ آپ کی ویب سائٹ پر انگریزی کی نحو اور اجزائے کلام کی جو وضاحت کی گئی ہے اس طرح کی وضاحتیں انگریزی گرامر کی بلامبالغہ سینکڑوں کتب میں سے مل جاتی ہیں۔ صرف طلبہ کے لیے نہیں، انگریزی فقرے کی ساخت، فریز (phrase) اور اجزائے کلام کے کئی حوالے سے تجزیات ہو چکے ہیں جنہیں انگریزی لسانیات کے طلبہ بڑی اچھی طرح جانتے ہیں۔ چند ایک کا ذکر یہاں کر دیتا ہوں: Systemic Functional Grammar, Lexical Functional Grammar, Construction Grammar, Transformational Generative Grammar۔ گرامر کی ہر تھیوری نے اجزائے کلام سے فقرے کی ترتیب تک ہر چیز کو اپنے انداز میں دیکھا ہے۔ آپ شاید اپنے کام میں مزید نکھار لانے کے لیے مندرجہ بالا گرامرز کی مبادیات پر ایک نظر ڈالنا پسند فرمائیں۔
انگریزی سیکھنے والے طلبہ کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ بندے کے پُتر کی طرح اپنے نصاب میں انگریزی کی مبادیات سیکھیں۔ اس کے بعد روزمرہ کی زبان پر عبور کے لیے ہالی ووڈ کی موویز سے زیادہ برکت والی چیز کوئی نہیں ہے۔ اللہ کا نام لے کر اپنی پسند کی صنف والی فلمیں دیکھنا شروع کریں (شروع میں سب ٹائٹل سے دیکھیں چند ماہ بعد ہٹا دیں)۔ انشاءاللہ بہت فائدہ ہو گا۔
آپ کے حسنِ نظر اور معاملہ فہمی کی داد واجب ہے۔
ان اصولوں کا کوئی تعلق نظری لسانیات سے نہیں۔ یہ انگریزی میں زمانوں کی ساخت کو عملی طور پر سیکھنے کا میری رائے میں آسان اور براہِ راست ترین طریقہ ہیں۔
مطلب شاٹ کٹ کوئی نہیں؟!!!!!!!!!!
:):):)
میں نے جو سرسری جائزہ لیا ہے تو مجھے یہ اصول بہت پسند آئے ہیں۔یقین مانیں "زمانے"سیکھنے میں ہی "زمانے"لگ گئے۔خود سیکھنا تو پھر بھی آسان رہا لیکن جب بچوں کو سکھاتے ہیں تو وہ طریقے پرانے لگتے ہیں اور ہمیں خود تو سب سمجھ آ رہا ہوتا ہے لیکن سمجھانا بڑا مشکل لگتا ہے۔
خود ہم نے" اردو میں زمانے کی پہچان" سے کام شروع کیا تھا۔جملے کے آخر میں فلاں فلاں لفظ آئے گا تو اس کو ایسے ایسے ترجمہ کریں گے وغیرہ۔
آپ نے آسان ترین بنا دیا ہے۔prime verb کا جس طرح استعمال آپ نے بتایا ہے ،بہت uniqueہے۔auxiliary verbکے استعمال کو بھی آپ نے بہت آسان بنا دیا ۔۔۔اور طلباء انگریزی میں ایم اے کر کے بھیpassive voiceنہیں جانتے۔۔۔لیکن آپ کے ان اصولوں نے آسان ترین بنا دیاہے passivization کو۔
خوشی ہوئی، آپا۔ میں شکرگزار ہوں۔
دوست کی سب باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہوں گی۔
اتنی بڑی بڑی گرامر کی کتابوں کے نام پڑھ کر ہی میں تھر تھر کانپنے لگ گئی ہوں۔۔۔ڈرائیں مت دوست بھائی۔
مذاق ایک طرف۔خود مجھے بی اے میں انگریزی گرامر خصوصا tensesسے محبت تھی۔مجھے ایک کھیل لگتا تھا ترجمہ کرنا۔فارغ وقت میں یہی کھیل کھیلتی تھی۔
میرے پاس کئی کتابیں تھیں گرامر کی۔بلکہ ایک گرامر تو انڈیا کے کسی رائٹر کی تھی ،جو مجھے بےحد پسند تھی۔اس کی انگریزی اور جملوں کی بناوٹ ہماری والی کتابوں سے بہت خوبصورت تھی۔
اچھی کوشش ہے راحیل۔اللہ قبول فرمائے۔آپ کی یہ کوشش لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے ہے۔
اور جو دوسروں کو آسانیاں دیتا ہے ،اللہ اسے کتنے ہی گنا بڑھا چڑھا کر آسانیاں اور کامیابیاں عطا فرماتا ہے۔
بے شک وہ بار بار رحم فرمانے والا ہے۔
اور بے شک ساری تعریفیں اسی کے لئے ہی ہیں۔
جزاک اللہ خیرا۔
جزاک اللہ۔
دیکھیں جی دو باتیں ہیں.
ایک، زبان کے بارے میں جاننا.
دوسرا زبان جاننا.
مذکورہ بالا ویب سائٹ کی طرح ساخت اور نظام کی وضاحت کے کئی طریقے طلبہ کی خدمت میں پیش کیے جا سکتے ہیں، ایک طریقہ ہے ٹری اینالیسز جس میں فقرے کو مرحلہ وار ٹری بنا کر لیبل کیا جاتا ہے. فقرے کی ساخت بڑی آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے، فعل مجہول اور معروف کا فرق، اسم، صفت، متعلق فعل اور امدادی افعال کے فنکشن سمجھ آ جاتے ہیں.
دوسری بات ہے آپ کے پاس بات کہنے اور سمجھنے کے لیے ذخیرہ الفاظ ہو. ایسے سمجھ لیں کہ گرامر سیمنٹ ہے تو الفاظ اینٹیں، گرامر سانچہ ہے تو الفاظ اس میں بھرنے کا مصالحہ. دونوں کی موجودگی ضروری ہے. اس لیے اوپر ہالی ووڈ موویز کی فضیلت بیان کی تھی.
المیہ یہ ہے کہ ہمارے طلبہ گرامر کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور پھنسے ہی رہتے ہیں. یہ نہیں سمجھتے کہ زبان سننے پڑھنے اور پھر بولنے لکھنے یعنی ابلاغ کے ذریعے آتی ہے. یعنی الفاظ کے مصالحے سے لینٹر نہیں ڈالیں گے تو گرامر کا ڈھانچہ ہی رہے گا جس کا کوئی فائدہ نہیں. زبان استعمال کریں، گفتگو کے لیے انگریزی کا انتخاب کریں، مطالعہ کریں کہانیاں ناول بلاگ اخبارات فلمیں پڑھیں اور سنیں.
معذرت کے ساتھ، زبان سیکھنے کی کوئی دوا، جادوئی فارمولا یا پھکی ایجاد نہیں ہوئی. اس کے لیے چند ماہ سے کئی برس تک کی مسلسل کچھوا مارکہ محنت درکار ہے. ایک گھنٹہ یا کچھ وقت روزانہ، کسی ایسی لسانی سرگرمی سے شروع کریں جس میں دلچسپی لگے جیسے روز ایک انگریزی فلم دیکھ لینا، ٹیکنالوجی کی خبریں پڑھنا، فیس بک پر انگریزی بولنے والوں کے گروپ وغیرہ میں کچھ مکالمہ کر لینا.
مجھے پورا اتفاق ہے اس بات سے کہ زبان تعلم سے نہیں بلکہ تعامل سے آتی ہے۔ مگر غیر اہلِ زبان کو مبادیات سیکھنے کی جو ضرورت خواہی نخواہی پڑتی ہے اس کے لیے کیا طریقہ ہونا چاہیے؟
سیکڑوں کا لفظ سو کے اضعاف (multiples) کے لیے بولا جاتا ہے۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ جو سیکڑوں قاعدے اس ضمن میں آپ کی نظر سے گزرے ہیں ان میں سے چند ایک ہی سے اس کا تقابل فرمائیے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ نے میرے لیے وقت نکالا۔ مگر یہ عنایت زیادہ مفید مطلب ہو گی اگر آپ زمانوں پر عبور کے لیے اپنے پسندیدہ ترین اور اپنے خیال میں آسان ترین اصولوں سے اس طریقے کا موازنہ کر کے اس کی خامیوں پر بلاتکلف مطلع فرما سکیں۔ میں یہ جاننے کے لیے بےتاب ہوں کہ مبادیات کے استحضار کے لیے ان تین اصولوں سے زیادہ جامع صورت کیا ہو سکتی ہے۔
 

دوست

محفلین
میری کیا مجال جناب کہ میں آپ کی تحقیق کو چیلنج کر سکوں، میں تو خود لسانیات کا طالبعلم ہوں اور اتنا نالائق ہوں کہ ابھی تک طالبعلم ہی چلا آ رہا ہوں۔
میری تو اتنی عرض تھی کہ طلبہ گرامر کو ہی سب کچھ نہ سمجھ لیں۔ اور انگریزی کے زمانوں سے اس قوم کا عشق تو اتنا پرانا ہے کہ بسوں میں عشقیہ اشعار، ضعیف روایات پر مبنی مذہبی قصوں کے بعد انگریزی ٹینسز کی کتب ہی سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انگریزی ہے کہ گوڈوں اور گِٹوں میں بیٹھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اب تو سی ایس ایس کا امتحان بھی شاید اسی دُکھ سے اردو میں کرنے کے احکامات صادر ہو چکے ہیں۔
آپ اپنا تحقیق و دریافت کا عمل جاری رکھیں۔
 
آخری تدوین:
Top