انگریزی زبان کے لاطینی و یونانی الاصل الفاظ کی کُل فیصد

حسان خان

لائبریرین
اردو محفل کے ایک دوست عارف کریم صاحب نے چند ماہ قبل مجھے مخاطب کر کے ایک دوستانہ اعتراض کا اظہار کیا تھا:
اگر فارسی پر مبنی اصطلاحات ہی اردو میں استعمال کرنا مقصود ہے تو بہتر ہے بندہ فارسی سیکھ لے بجائے اردو سیکھنے کے:)
ایک لسانیاتی طالبِ عالم اور فارسی زبان کے ایک غیور عاشق ہونے کی حیثیت سے میں اس اعتراض کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ لیکن جواب سے قبل میں اولاً انگریزی زبان میں موجود لاطینی و یونانی الاصل الفاظ کی کُل فیصد بیان کرنے والا ایک ترجمہ شدہ مستند اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ بعد میں اِسے اپنے جوابِ اعتراض میں دلیل کے طور پر عرض کر سکوں:

سوال: کٌل انگریزی الفاظ کی کتنی فیصد مقدار لاطینی الاصل ہے؟ نیز، دیگر زبانوں سے ماخوذ انگریزی الفاظ کی فیصد کیا ہے؟
جواب: کسی انگریزی لغت میں موجود مدخلات کا تقریباً ۸۰ فیصد حصہ دیگر زبانوں، اساساً لاطینی، سے ماخوذ ہے۔ کُل انگریزی الفاظ کی ۶۰ فیصد سے زائد کی اصل یونانی یا لاطینی ہے۔ علوم اور فن آوری سے مربوط ذخیرۂ الفاظ میں یہ تعداد ۹۰ فیصد سے تجاوز کر جاتی ہے۔ انگریزی میں موجود لاطینی الفاظ کی تخمیناً ۱۰ فیصد تعداد کسی واسطے - عموماَ لاطینی الفاظ کے انتقال کا واسطہ فرانسیسی زبان رہی ہے - کے بغیر مستقیماَ انگریزی میں وارد ہوئی ہے۔ ایک مدت کے دوران تو لاطینی کے تمام الفاظ ہی امکانی طور پر انگریزی الفاظ بن گئے تھے اور اُس زمانے میں متعدد الفاظ لاطینی نمونے پر وضع کیے گئے۔ یونانی الاصل الفاظ تین مختلف ذریعوں سے انگریزی میں وارد ہوئے ہیں: ۱) لاطینی کے واسطے سے، ۲) یونانی تحریروں سے بلاواسطہ اخذ کیے گئے، یا پھر ۳) عصرِ جدید میں، خصوصاً علمی اصطلاحوں کے ذیل میں، یونانی عناصر کو نئے طریقوں سے باہم مرکّب کر کے وضع کیے گئے۔ کلاسیکی زبانوں [یعنی یونانی اور لاطینی] کا بے واسطہ اثر یورپی نشاۃِ ثانیہ کے ہمراہ شروع ہوا تھا اور اُس وقت سے تا ہنوز جاری ہے۔ حتیٰ کہ آج بھی لاطینی اور یونانی مادّے ہی علم اور فن آوری سے متعلق انگریزی الفاظ کے بنیادی منابع ہیں۔


× مدخل = entry
× فن آوری = ٹیکنالوجی
× مستقیماً = بلاواسطہ


ماخذ:
http://dictionary.reference.com/help/faq/language/t16.html

اب یہاں سے میرا جواب شروع ہوتا ہے:

اگر انگریز اپنی زبان کو اپنی کہنہ تمدنی زبانوں یونانی اور لاطینی کے الفاظ سے پُر کر لیں تو کوئی اُن کا محاکمہ نہیں کرتا، اور بے شک کرنا بھی نہیں چاہیے، لیکن اگر شومیِ قسمت سے یہاں کوئی شخص غالب اور اقبال کی محبوب ترین زبان فارسی سے کوئی نیا لفظ اردو کے لیے اخذ کر لے تو انبوہِ سہل انگاراں کی جانب سے فی الفور مقدمہ دائر ہو جاتا ہے۔ اب اسے 'فرنگی محور دوگانہ معیار' کے سوا کیا پکارا جائے؟
عارف کریم صاحب یقیناً مجھ سے بہتر انگریزی جانتے ہیں۔ لیکن کیا اُنہیں کبھی اس پُرلاطینی زبان انگریزی کو سمجھنے کے لیے لاطینی سیکھنے کی بھی حاجت محسوس ہوئی؟ قطعاً نہیں ہوئی ہو گی۔ اُنہیں جب بھی adumbration اور simulacrum جیسے لاطینی الاصل علمی کلمات انگریزی میں نظر آئے ہوں گے تو اُنہوں نے لاطینی زدگی کا شکوہ کرتے ہوئے لاطینی دستوری کتابوں کی جانب رجوع کرنے کی بجائے کسی انگریزی لغت ہی کی ورق گردانی کی ہو گی اور بعد میں بغیر کسی شکایت کے ان جیسے الفاظ کو اپنی یادداشت کا حصہ بنا لیا ہو گا۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم اردو میں کوئی ناآشنا فارسی یا عربی لفظ اور اصطلاح اوّلین بار دیکھ کر شاکی ہونے یا فارسی و عربی آموزی کی حاجت ہونے کا غیرمنصفانہ ادّعا کرنے کی بجائے اگر جامع لغت ناموں کی جانب مراجعت کر لیں تو ہمیں بھی زیادہ مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔
نیز، اگر انگریزی زبان کے پُرلاطینی کُل ذخیرۂ الفاظ اور اُس کے تاریخی سابقے کو مدِ نظر رکھا جائے، تو یہ طنز آمیز سخن اس لحاظ سے نادرست اور دوگانہ معیار کا مورد ٹھہرتا ہے کیونکہ بعینہ یہی چیز صدیوں سے انگریز لاطینی کے ضمن میں کرتے آئے ہیں، اور ابھی بھی انگریزی اصطلاحیں لاطینی اور یونانی نمونے ہی پر وضع ہوتی ہیں، لیکن میں نے آج تک، بالخصوص کسی اردو گو کی زبان سے، ایسا اعتراض انگریزوں کے طرزِ عمل کی نسبت نہیں سنا۔ وہ کریں تو آفرین، ہم کریں تو نفرین!
یہ ذہن میں رکھیے کہ کسی بھی زبان کی علمی و ادبی شکل کو شعوری طور پر محنت کر کے ہی سیکھا جاتا ہے۔ اس کا اکتساب خود بخود ہی نہیں ہو جاتا۔ چونکہ علمی اصطلاحوں یا علمی کلمات و اسلوب کی ضرورت صرف متخصصین کو پیش آتی ہے، اس لیے یہ ہماری روزمرہ عام زبان کا حصہ نہیں ہوتے۔ اور ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ علمی زبان بھی ویسی ہی ہو جو ہم کھانے پینے کے معاملات اور احوال پرسی کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہر زبان کے گفتاری اور تحریری اسالیب باہمی طور پر بہت متفاوت ہوتے ہیں۔ تحریر میں ہمیں متنوع اور گوناگوں تجریدی مضامین پر قلم اٹھانا ہوتا ہے، اسی لیے اسلوب اور الفاظ بھی اسی کے مناسبِ حال منتخب کرنے پڑتے ہیں۔ علمی و ادبی زبان 'تم کیسے ہو' یا 'تم سو جاؤ' کی نوعیت کی نہیں ہو سکتی۔ اگر ہم اپنی زبان کو پیش رفتہ زبانوں کی طرح ترقی و تکامل کی مسیر پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا اور اپنی ضررناک سہل انگاری کو ترک کرنا لازم ہے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
یہ کوئی نہیں کہہ رہا کہ اردو سے فارسی یا عربی کے الفاظ نکال دیئے جائیں۔ رہی بات اب اردو میں فارسی اور عربی کے الفاظ شامل کرنے کی تو اس سلسلے میں شاید اس آرٹیکل کی گرافک مددگار ثابت ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
رہی بات اب اردو میں فارسی اور عربی کے الفاظ شامل کرنے کی تو اس سلسلے میں شاید اس آرٹیکل کی گرافک مددگار ثابت ہو۔
انگریزی برطانوی سلطنت کی زبان تھی، اس لیے برطانویوں کی جہاں بھی حکومت رہی وہاں کی زبانوں سے اُنہوں نے اُن جانوروں، پودوں یا دیگر اشیاء کے نام ماخوذ کیے جن سے اُن کا پہلے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ انگریزی کے لاطینی اور یونانی کے سوا دوسری زبانوں سے ماخوذ بیشتر الفاظ اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں اور اِن کی تعداد کُل ذخیرۂ الفاظ میں لاطینی و یونانی الفاظ کے مقابلے میں ہیچ ہے۔ اور مجھے بھی چینی زبان سے چاؤمن ، جاپانی سے سُوشی، اور فرانسیسی سے آملیٹ وغیرہ جیسے الفاظ اردو کا حصہ بنانے پر اعتراض نہیں۔ بات اشیاء کے اسمِ خاص کی نہیں، بلکہ علمی اصطلاحوں کے وضع کی ہو رہی ہے، جس کے لیے انگریزی نے بلااستثناء لاطینی اور یونانی کی جانب ہی دیکھا ہے۔آپ اس چیز کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
آپ کے پیش کردہ مضمون میں بھی اگر دیکھا جائے تو ‌۱۱۵۰ء سے لے کر اِس دم تک انگریزی میں داخل ہونے والے نوے فیصد الفاظ لاطینی، یونانی اور لاطینی کی دختر زبانوں ہی سے آئے ہیں۔ کیا انگریزی میں ان سب لاطینی اور یونانی الفاظ کی موجودگی کے باعث آپ کو کبھی لاطینی اور یونانی زبانیں سیکھنے کی حاجت پیش آئی؟ اصل اعتراض تو یہی تھا۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
اصل اعتراض تو یہی تھا۔
پرانی بحث کو بالکل غلط انداز سے پیش کر رہے ہیں۔ اصل اعتراض فارسی کے الفاظ آپ کے بیکار میں اردو میں داخل کرنے کی کوشش پر تھا:
فارسی زبان میں انگریزی کے 'پاپولر' کے لیے 'عامّہ پسند' مستعمل ہے اور میری نظر میں اردو میں استعمال کے لیے بھی یہ اصطلاح بالکل مناسب ہے۔ اسی طرح، 'پاپ موسیقی' کی جگہ پر بھی ہم فارسی کی پیروی میں 'عامّہ پسند موسیقی' استعمال کر سکتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
پرانی بحث کو بالکل غلط انداز سے پیش کر رہے ہیں۔ اصل اعتراض فارسی کے الفاظ آپ کے بیکار میں اردو میں داخل کرنے کی کوشش پر تھا:
اگر phantasmagorical کو انگریزی کا لفظ مانا جا سکتا ہے تو پھر 'عامّہ پسند' کیسے اردو کا لفظ نہیں مانا جا سکتا جب کہ لغت کے بغیر ہی یہ ترکیب سمجھی جا سکتی ہے؟ جب انگریزی ہر دور میں نئے الفاظ لاطینی اور یونانی سے اخذ کر سکتی ہیں تو میں نے اپنے پیشروؤں کی طرح ایک نئی ترکیب فارسی سے اخذ کر لی تو بیکار بات کیسے ہو گئی؟
جو معیارات کسی کو انگریزی کے لیے قبول ہیں، اُنہیں اردو کے لیے بھی قبول کرنا چاہیے۔
ویسے بھی 'عامّہ' اور 'پسند' اردو ذخیرۂ الفاظ ہی کا حصہ ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
میر انیس نے جنت کے معنی میں فارسی کا لفظ 'مینو' استعمال کیا ہے، جو میں نے اردو میں کہیں اور نہیں دیکھا۔ بلکہ فارسی زبان میں بھی یہ نادر الاستعمال الفاظ کی فہرست میں آتا ہے۔ جب اُن کا ایسا کرنا غلط نہیں تھا تو، اگرچہ میں میر انیس کے سامنے کچھ نہیں ہوں، اصولاً میرا بھی کسی نئے یا نادر فارسی لفظ کا استعمال اردو میں غلط نہیں مانا جانا چاہیے۔
 

زیک

مسافر
اگر phantasmagorical کو انگریزی کا لفظ مانا جا سکتا ہے تو پھر 'عامّہ پسند' کیسے اردو کا لفظ نہیں مانا جا سکتا جب کہ لغت کے بغیر ہی یہ ترکیب سمجھی جا سکتی ہے؟ جب انگریزی ہر دور میں نئے الفاظ لاطینی اور یونانی سے اخذ کر سکتی ہیں تو میں نے اپنے پیشروؤں کی طرح ایک نئی ترکیب فارسی سے اخذ کر لی تو بیکار بات کیسے ہو گئی؟
جو معیارات کسی کو انگریزی کے لیے قبول ہیں، اُنہیں اردو کے لیے بھی قبول کرنا چاہیے۔
آپ شوق سے اردو میں جتنے چاہیں فارسی یا ولکن کے الفاظ استعمال کریں مگر وہ اردو کے اسی وقت گردانے جائیں گے جب تک عام استعمال اور معتبر لغت میں شامل ہوں۔
 

فلک شیر

محفلین
میر انیس نے جنت کے معنی میں فارسی کا نادر لفظ 'مینو' استعمال کیا ہے، جو میں نے اردو میں کہیں اور نہیں دیکھا۔ بلکہ فارسی زبان میں بھی یہ نادر الاستعمال الفاظ کی فہرست میں آتا ہے۔ جب اُن کا ایسا کرنا غلط نہیں تھا تو، اگرچہ میں میر انیس کے سامنے کچھ نہیں ہوں، اصولاً میرا بھی کسی نئے یا نادر فارسی لفظ کا استعمال اردو میں غلط نہیں مانا جانا چاہیے۔
انگریزی کی اجازت دی جا سکتی ہے ، فارسی کی نہیں :)
یا للعجب
 

زیک

مسافر
میر انیس نے جنت کے معنی میں فارسی کا نادر لفظ 'مینو' استعمال کیا ہے، جو میں نے اردو میں کہیں اور نہیں دیکھا۔ بلکہ فارسی زبان میں بھی یہ نادر الاستعمال الفاظ کی فہرست میں آتا ہے۔ جب اُن کا ایسا کرنا غلط نہیں تھا تو، اگرچہ میں میر انیس کے سامنے کچھ نہیں ہوں، اصولاً میرا بھی کسی نئے یا نادر فارسی لفظ کا استعمال اردو میں غلط نہیں مانا جانا چاہیے۔
مگر آپ یہی آزادی انگریزی الفاظ کو نہیں دینا چاہتے؟
 

حسان خان

لائبریرین
آپ شوق سے اردو میں جتنے چاہیں فارسی یا ولکن کے الفاظ استعمال کریں مگر وہ اردو کے اسی وقت گردانے جائیں گے جب تک عام استعمال اور معتبر لغت میں شامل ہوں۔
جو الفاظ آج انگریزی اور اردو لغت کا حصہ ہیں وہ اسی لیے ہیں کہ اُنہیں پیشروؤں نے اپنی تحریروں میں استعمال کیا تھا۔ میں اگر کوئی نیا لفظ استعمال کرتا ہوں تو اسی امید کے ساتھ کرتا ہوں کہ جس طرح پیشروؤں کے منتخب کردہ یا وضع کردہ الفاظ و اصطلاحات آج ہماری زبانوں پر رائج ہیں، اُسی طرح یہ نئی اصطلاحیں بھی مستقبل میں آیندہ نسلوں کی تحریر و تقریر میں مستعمل ہو جائیں گی۔
امید پر دنیا قائم ہے اور کسی شخص کی امید پر اعتراض کرنا تو خوب بات بھی نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اجازت کوئی بھی الفاظ استعمال کرنے کی ہے مگر زبان میں وہی الفاظ شامل ہوتے ہیں جو کچھ عام استعمال میں آ جائیں۔
جی، بالکل! لیکن عام استعمال میں اُسی وقت آنا شروع ہوتے ہیں جب کوئی اُن کے استعمال میں پہل کرتا ہے۔ کیا انگریزی میں 'ڈکشنری' کا لفظ روزِ اول سے تھا؟ یہ بھی تو اُسی وقت پہلی بار استعمال ہوا تھا جب گذشتہ صدیوں میں کسی شخص نے لاطینی کی مدد سے یہ اصطلاح اپنی زبان کے لیے وضع کی تھی۔
 

حسان خان

لائبریرین
مگر آپ یہی آزادی انگریزی الفاظ کو نہیں دینا چاہتے؟
انگریزی سےجیکٹ جیسے الفاظ شوق سے آتے جائیں۔:)
میں پھر کہوں کہ گفتگو اشیاء کے اسمِ خاص کی نہیں، بلکہ علمی اصطلاحوں کی ہو رہی ہے، اور میرا نکتہ یہ ہے کہ جس طرح انگریزی میں لاطینی اور یونانی کی مدد سے علمی اصطلاحوں کو وضع کیا جا تا رہا ہے، اُسی طرح اگر اردو میں فارسی یا عربی کی مدد سے کوئی اصطلاح وضع کی جائے تو اصولاً اُس پر کوئی اعتراض کا جواز نہیں ہے اور اُن کی اردو میں موجودگی اس بات کا موجب نہیں ہے کہ اردو سمجھنے کے لیے فارسی یا عربی سیکھنے کی بھی ضرورت پڑے۔
 

زیک

مسافر
جو الفاظ آج انگریزی اور اردو لغت کا حصہ ہیں وہ اسی لیے ہیں کہ اُنہیں پیشروؤں نے اپنی تحریروں میں استعمال کیا تھا۔ میں اگر کوئی نیا لفظ استعمال کرتا ہوں تو اسی امید کے ساتھ کرتا ہوں کہ جس طرح پیشروؤں کے منتخب کردہ یا وضع کردہ الفاظ و اصطلاحات آج ہماری زبانوں پر رائج ہیں، اُسی طرح یہ نئی اصطلاحیں بھی مستقبل میں آیندہ نسلوں کی تحریر و تقریر میں مستعمل ہو جائیں گی۔
امید پر دنیا قائم ہے اور کسی شخص کی امید پر اعتراض کرنا تو خوب بات بھی نہیں ہے۔
شوق سے فارسی الفاظ استعمال کریں۔ یہ محفل ہے جہاں لوگ پنجابی لکھ کر صفحے کالے کرتے ہیں۔ میں ان کی وہ تحریریں نہیں پڑھتا۔ آپ کی فارسی زدہ اردو بھی نہیں پڑھوں گا۔
 

زیک

مسافر
جس طرح انگریزی میں لاطینی اور یونانی کی مدد سے علمی اصطلاحوں کو وضع کیا جا تا رہا ہے، اُسی طرح اگر اردو میں فارسی یا عربی کی مدد سے کوئی اصطلاح وضع کی جائے تو اصولاً اُس پر کوئی اعتراض کا جواز نہیں ہے اور اُن کی اردو میں موجودگی اس بات کا موجب نہیں ہے کہ اردو سمجھنے کے لیے فارسی یا عربی سیکھنے کی بھی ضرورت پڑے۔
اس میں مجھے اعتراض نہیں مگر یہ نکتہ یاد رہے کہ اصطلاحات عربی فارسی کے علاوہ دیگر زبانوں سے بھی آ سکتی ہیں اور آخر میں فیصلہ اردو بولنے پڑھنے والے ہی کریں گے کہ کونسی اصطلاح اردو میں صحیح ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شوق سے فارسی الفاظ استعمال کریں۔ یہ محفل ہے جہاں لوگ پنجابی لکھ کر صفحے کالے کرتے ہیں۔ میں ان کی وہ تحریریں نہیں پڑھتا۔ آپ کی فارسی زدہ اردو بھی نہیں پڑھوں گا۔
ارے جنابِ محترم! میری فارسی زدہ اردو تو گفتگو کا موضوع ہی نہیں ہے۔ میں آپ کی اس رائے کا احترام کرتا ہوں کہ آپ آئندہ میری کوئی تحریر نہیں پڑھیں گے۔ لیکن اس چیز سے اِس علمی گفتگو میں کیا اضافہ ہوتا ہے؟ میں تو اپنے لیے ہی لکھتا آیا ہوں، آئندہ بھی اپنے لیے ہی لکھتا رہوں گا۔ آپ کی توجہ شاملِ حال رہی، تو آپ کی مہربانی، اور اگر آپ نے درخورِ اعتناء نہ جانا، تو اس پر بھی کوئی گلہ یا شکوہ نہیں۔
 
جناب حسان خان کا مؤقف بہت واضح اور بہت مفید ہے۔ ہمارے اعلیٰ سطح کے ادیبوں، زبان دانوں، اہلِ زبان اور مختار اداروں کے علاوہ ہم جیسے عام قارئین اور چھوٹے موٹے قلمکاروں کو بھی چاہئے کہ ان پر توجہ دیں۔
آپ کی اجازت سے آپ کے حوالے کے ساتھ آپ کے رشحات اپنے بلاگ پر نقل کرنا چاہتا ہوں۔
 
Top