انگلش میڈیم۔۔۔۔یعنی انگریزی زبان بطور ذریعہ تعلیم۔ صرف پاکستان ہی نہیں برصغیر میں اس پر کافی توجہ دی جا رہی ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ انگریزی چونکہ آج کے دور میں سائنس اور تکنیکیات کی زبان ہے اور مروجہ سائنسی و ہندسی علوم و فنون کی تمام اصطلاحات اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں اس لئیے بچوں کو سکول کے ابتدائی دور سے تمام مضامین اس زبان میں پڑھائے جائیں۔
دلیل واقعی مضبوط ہے اور دل کو بھاتی ہے اور راقم کو بھی انگریزی زبان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں۔ لیکن ایک بات ہے جو شاید بہت سے مدرسین اور عوام کے ذہن میں ایک سوال پیدا کرتی ہے کہ کیا ہمیں واقعی اپنے بچوں کو تمام مضامین اپنی مادری اور قومی زبان کی بجائے ایک غیر ملکی زبان میں پڑھانے چاہئیں؟۔
اہل علم و نظر اور ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بچہ اسی زبان میں سب سے بہتر سیکھتا ہے کہ جو زبان اس کے گردو پیش کی ہوتی ہے۔ یا یوں کہہ لیجئیے کہ جو اس کے گھر اور معاشرے کی ہوتی ہے۔
تاریخ قدیم اور جدید بھی اسی بات کے حق میں فیصلہ دیتی ہے کہ ترقی ان ا قوام نے کی جس نے جدید علوم کو اپنی زبان میں ڈھالا نا کہ وہ اقوام جو خود اغیار کی زبان میں ڈھل گئیں۔
اردو زبان دنیا کی ان چیدہ و چنیدہ زبانوں میں سے ہے جو انتہائی فصیح اور جامع ہیں۔ اردو میں اہلیت موجود ہے کہ دور جدید کے سائنسی ، علمی اور تحقیقی علوم کے تراجم اور اصطلاحات کو الفاظ کا بیش بہا ذخیرہ فراہم کر سکے۔ ایک مدرس ہونے کے ناطے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ زبان مروجہ علوم کو انگریزی زبان سے بھی زیادہ وسیع المفہوم اور اعلی اصطلاھات مہیا کر سکتی ہے لیکن تحقیق کی کمی اور ارباب اختیار کی عدم توجہی دو ایسے عوامل ہیں جو اردو زبان کو خود اس کے دیس میں اجنبی بنا رہے ہیں۔
یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ انگریزی کو بالکل فراموش کر دیا جائے بلکہ فی زمانہ اس کا سیکھنا بہت ضروری ہے ، لیکن ایک زبان کے طور پر۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو پہلی جماعت سے ہی اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان سکھائیں۔ انہیں اس کے روانی سے بولنے اور اس میں اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے میں مدد فراہم کریں۔ اس کی درست صرف و نحو ، شاعری اور اس کے ادبی مشاہیر سے روشناس کروائیں اور یہ سلسلہ آٹھویں جماعت تک چلتا رہنا چاہئیے۔۔۔۔یعنی انگریزی بطور لازمی زبان۔اور نویں جماعت سے ،جب کہ بچے انگریزی زبان بولنے ، سمجھنے اور لکھنے پہ خوب قدرت رکھتے ہوں، تب ان کو انگریزی زبان میں سائنسی و تکنیکی علوم پڑھائے جانے چاہئیں۔
میرے خیال میں ابتدائی جماعتوں سے ہی انگریزی میں تمام مضامین پڑھانا بچوں پہ ناروا ذہنی بوجھ کا سبب بنتا ہے۔ بچے کہ جو انگریزی کا ایک جملہ درست طور پہ لکھنے کے قابل بھی نہیں ہوتے انہیں انتہائی ثقیل قسم کی اصطلاحات اور کلیات انگریزی مین رٹا کر ہم ان کے ذہن کا استحصال کر ڈالتے ہیں۔ وہ چند مخصوص الفاظ اور کلیات کو تو جیسے تیسے یاد کر ہی لیتے ہیں لیکن سوچنے سمجھنے اور تجسس کی انتہائی اہم صفت سے محروم ہو جاتے ہیں کہ رٹا ذہنی صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے۔ اور اس کی بجائے اگر ہم بچے کی ذہنی توانائی کا درست استعمال کرتے ہوئے اسے ایک نقطہ پر مرکوز کر دیں یعنی انگریزی زبان میں اس کی اچھی قابلیت کی طرف اس کا رخ موڑ دیں تو وہ اس کو آسان بھی پائے گا اور سیکھنے میں دلچسپی بھی دکھائے گا۔۔۔۔یہ میرا ذاتی مشاہدہ بھی ہے۔ اور یہی بچہ جب آٹھ سال تک اس زبان میں کافی مہارت حاصل کر چکا ہو گا تو نویں جمارت میں اسے پچھلی جماعتوں میں اردو میں پڑھی گئی اصطلا حات کو انگریزی میں ڈھالنے اور سمجھنے میں نہایت کم وقت اور ذہنی توانائی کی ضرورت ہو گی۔ اور انہی میں سے کوئی بچہ شاید اس قابل بھی بن سکے گا کہ جو مروجہ سائنسی علوم کو اپنی دونوں مہارتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی قومی زبان میں ڈھالنے کا بیڑہ اٹھانے کا حوصلہ اپنے اندر پائے گا۔
'
متمنی ہوں کہ احباب اپنی آراء سے مستفید فرمائیں گے کہ انگریزی کب اور کیسے ذریعہ تعلیم بنائی جانی چاہئیے۔
دلیل واقعی مضبوط ہے اور دل کو بھاتی ہے اور راقم کو بھی انگریزی زبان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں۔ لیکن ایک بات ہے جو شاید بہت سے مدرسین اور عوام کے ذہن میں ایک سوال پیدا کرتی ہے کہ کیا ہمیں واقعی اپنے بچوں کو تمام مضامین اپنی مادری اور قومی زبان کی بجائے ایک غیر ملکی زبان میں پڑھانے چاہئیں؟۔
اہل علم و نظر اور ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بچہ اسی زبان میں سب سے بہتر سیکھتا ہے کہ جو زبان اس کے گردو پیش کی ہوتی ہے۔ یا یوں کہہ لیجئیے کہ جو اس کے گھر اور معاشرے کی ہوتی ہے۔
تاریخ قدیم اور جدید بھی اسی بات کے حق میں فیصلہ دیتی ہے کہ ترقی ان ا قوام نے کی جس نے جدید علوم کو اپنی زبان میں ڈھالا نا کہ وہ اقوام جو خود اغیار کی زبان میں ڈھل گئیں۔
اردو زبان دنیا کی ان چیدہ و چنیدہ زبانوں میں سے ہے جو انتہائی فصیح اور جامع ہیں۔ اردو میں اہلیت موجود ہے کہ دور جدید کے سائنسی ، علمی اور تحقیقی علوم کے تراجم اور اصطلاحات کو الفاظ کا بیش بہا ذخیرہ فراہم کر سکے۔ ایک مدرس ہونے کے ناطے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ زبان مروجہ علوم کو انگریزی زبان سے بھی زیادہ وسیع المفہوم اور اعلی اصطلاھات مہیا کر سکتی ہے لیکن تحقیق کی کمی اور ارباب اختیار کی عدم توجہی دو ایسے عوامل ہیں جو اردو زبان کو خود اس کے دیس میں اجنبی بنا رہے ہیں۔
یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ انگریزی کو بالکل فراموش کر دیا جائے بلکہ فی زمانہ اس کا سیکھنا بہت ضروری ہے ، لیکن ایک زبان کے طور پر۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو پہلی جماعت سے ہی اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان سکھائیں۔ انہیں اس کے روانی سے بولنے اور اس میں اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے میں مدد فراہم کریں۔ اس کی درست صرف و نحو ، شاعری اور اس کے ادبی مشاہیر سے روشناس کروائیں اور یہ سلسلہ آٹھویں جماعت تک چلتا رہنا چاہئیے۔۔۔۔یعنی انگریزی بطور لازمی زبان۔اور نویں جماعت سے ،جب کہ بچے انگریزی زبان بولنے ، سمجھنے اور لکھنے پہ خوب قدرت رکھتے ہوں، تب ان کو انگریزی زبان میں سائنسی و تکنیکی علوم پڑھائے جانے چاہئیں۔
میرے خیال میں ابتدائی جماعتوں سے ہی انگریزی میں تمام مضامین پڑھانا بچوں پہ ناروا ذہنی بوجھ کا سبب بنتا ہے۔ بچے کہ جو انگریزی کا ایک جملہ درست طور پہ لکھنے کے قابل بھی نہیں ہوتے انہیں انتہائی ثقیل قسم کی اصطلاحات اور کلیات انگریزی مین رٹا کر ہم ان کے ذہن کا استحصال کر ڈالتے ہیں۔ وہ چند مخصوص الفاظ اور کلیات کو تو جیسے تیسے یاد کر ہی لیتے ہیں لیکن سوچنے سمجھنے اور تجسس کی انتہائی اہم صفت سے محروم ہو جاتے ہیں کہ رٹا ذہنی صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے۔ اور اس کی بجائے اگر ہم بچے کی ذہنی توانائی کا درست استعمال کرتے ہوئے اسے ایک نقطہ پر مرکوز کر دیں یعنی انگریزی زبان میں اس کی اچھی قابلیت کی طرف اس کا رخ موڑ دیں تو وہ اس کو آسان بھی پائے گا اور سیکھنے میں دلچسپی بھی دکھائے گا۔۔۔۔یہ میرا ذاتی مشاہدہ بھی ہے۔ اور یہی بچہ جب آٹھ سال تک اس زبان میں کافی مہارت حاصل کر چکا ہو گا تو نویں جمارت میں اسے پچھلی جماعتوں میں اردو میں پڑھی گئی اصطلا حات کو انگریزی میں ڈھالنے اور سمجھنے میں نہایت کم وقت اور ذہنی توانائی کی ضرورت ہو گی۔ اور انہی میں سے کوئی بچہ شاید اس قابل بھی بن سکے گا کہ جو مروجہ سائنسی علوم کو اپنی دونوں مہارتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی قومی زبان میں ڈھالنے کا بیڑہ اٹھانے کا حوصلہ اپنے اندر پائے گا۔
'
متمنی ہوں کہ احباب اپنی آراء سے مستفید فرمائیں گے کہ انگریزی کب اور کیسے ذریعہ تعلیم بنائی جانی چاہئیے۔