انگریزی ۔۔۔کب اور کیسے؟

ساجد

محفلین
انگلش میڈیم۔۔۔۔یعنی انگریزی زبان بطور ذریعہ تعلیم۔ صرف پاکستان ہی نہیں برصغیر میں اس پر کافی توجہ دی جا رہی ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ انگریزی چونکہ آج کے دور میں سائنس اور تکنیکیات کی زبان ہے اور مروجہ سائنسی و ہندسی علوم و فنون کی تمام اصطلاحات اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں اس لئیے بچوں کو سکول کے ابتدائی دور سے تمام مضامین اس زبان میں پڑھائے جائیں۔
دلیل واقعی مضبوط ہے اور دل کو بھاتی ہے اور راقم کو بھی انگریزی زبان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں۔ لیکن ایک بات ہے جو شاید بہت سے مدرسین اور عوام کے ذہن میں ایک سوال پیدا کرتی ہے کہ کیا ہمیں واقعی اپنے بچوں کو تمام مضامین اپنی مادری اور قومی زبان کی بجائے ایک غیر ملکی زبان میں پڑھانے چاہئیں؟۔
اہل علم و نظر اور ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بچہ اسی زبان میں سب سے بہتر سیکھتا ہے کہ جو زبان اس کے گردو پیش کی ہوتی ہے۔ یا یوں کہہ لیجئیے کہ جو اس کے گھر اور معاشرے کی ہوتی ہے۔
تاریخ قدیم اور جدید بھی اسی بات کے حق میں فیصلہ دیتی ہے کہ ترقی ان ا قوام نے کی جس نے جدید علوم کو اپنی زبان میں ڈھالا نا کہ وہ اقوام جو خود اغیار کی زبان میں ڈھل گئیں۔
اردو زبان دنیا کی ان چیدہ و چنیدہ زبانوں میں سے ہے جو انتہائی فصیح اور جامع ہیں۔ اردو میں اہلیت موجود ہے کہ دور جدید کے سائنسی ، علمی اور تحقیقی علوم کے تراجم اور اصطلاحات کو الفاظ کا بیش بہا ذخیرہ فراہم کر سکے۔ ایک مدرس ہونے کے ناطے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ زبان مروجہ علوم کو انگریزی زبان سے بھی زیادہ وسیع المفہوم اور اعلی اصطلاھات مہیا کر سکتی ہے لیکن تحقیق کی کمی اور ارباب اختیار کی عدم توجہی دو ایسے عوامل ہیں جو اردو زبان کو خود اس کے دیس میں اجنبی بنا رہے ہیں۔
یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ انگریزی کو بالکل فراموش کر دیا جائے بلکہ فی زمانہ اس کا سیکھنا بہت ضروری ہے ، لیکن ایک زبان کے طور پر۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو پہلی جماعت سے ہی اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان سکھائیں۔ انہیں اس کے روانی سے بولنے اور اس میں اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے میں مدد فراہم کریں۔ اس کی درست صرف و نحو ، شاعری اور اس کے ادبی مشاہیر سے روشناس کروائیں اور یہ سلسلہ آٹھویں جماعت تک چلتا رہنا چاہئیے۔۔۔۔یعنی انگریزی بطور لازمی زبان۔اور نویں جماعت سے ،جب کہ بچے انگریزی زبان بولنے ، سمجھنے اور لکھنے پہ خوب قدرت رکھتے ہوں، تب ان کو انگریزی زبان میں سائنسی و تکنیکی علوم پڑھائے جانے چاہئیں۔
میرے خیال میں ابتدائی جماعتوں سے ہی انگریزی میں تمام مضامین پڑھانا بچوں پہ ناروا ذہنی بوجھ کا سبب بنتا ہے۔ بچے کہ جو انگریزی کا ایک جملہ درست طور پہ لکھنے کے قابل بھی نہیں ہوتے انہیں انتہائی ثقیل قسم کی اصطلاحات اور کلیات انگریزی مین رٹا کر ہم ان کے ذہن کا استحصال کر ڈالتے ہیں۔ وہ چند مخصوص الفاظ اور کلیات کو تو جیسے تیسے یاد کر ہی لیتے ہیں لیکن سوچنے سمجھنے اور تجسس کی انتہائی اہم صفت سے محروم ہو جاتے ہیں کہ رٹا ذہنی صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے۔ اور اس کی بجائے اگر ہم بچے کی ذہنی توانائی کا درست استعمال کرتے ہوئے اسے ایک نقطہ پر مرکوز کر دیں یعنی انگریزی زبان میں اس کی اچھی قابلیت کی طرف اس کا رخ موڑ دیں تو وہ اس کو آسان بھی پائے گا اور سیکھنے میں دلچسپی بھی دکھائے گا۔۔۔۔یہ میرا ذاتی مشاہدہ بھی ہے۔ اور یہی بچہ جب آٹھ سال تک اس زبان میں کافی مہارت حاصل کر چکا ہو گا تو نویں جمارت میں اسے پچھلی جماعتوں میں اردو میں پڑھی گئی اصطلا حات کو انگریزی میں ڈھالنے اور سمجھنے میں نہایت کم وقت اور ذہنی توانائی کی ضرورت ہو گی۔ اور انہی میں سے کوئی بچہ شاید اس قابل بھی بن سکے گا کہ جو مروجہ سائنسی علوم کو اپنی دونوں مہارتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی قومی زبان میں ڈھالنے کا بیڑہ اٹھانے کا حوصلہ اپنے اندر پائے گا۔
'
متمنی ہوں کہ احباب اپنی آراء سے مستفید فرمائیں گے کہ انگریزی کب اور کیسے ذریعہ تعلیم بنائی جانی چاہئیے۔
 

ماسٹر

محفلین
بچوں کو لوئی بھی زبان بچپن سے سکھائی جا سکتی ہے ۔ ماہرین تو کہتے ہیں کہ ایک وقت میں تین یا چار زبانیں بھی سکھائی جاسکتی ہیں - جہاں تک انگریزی کا تعلق ہے تو اس جیسی ادھوری زبانیں کم ہی ہوں گی -
وہ تو بلا تردد لاتینی اور یونانی وغیرہ کے الفاظ انگریزی میں استعمال کر لیتے ہیں ، اور اس طرح زبان کو وصیع کرتے رہتے ہیں - مگر اردو والے وہاں سے نہیں لیتے -
 

arifkarim

معطل
اس معاملہ میں چین، جاپان اور کوریا کی تاریخ کا مطالعہ بہتر رہے گا۔ ان قوموں نے تمام جدید علوم "اپنی" ہی زبان میں عام کئے اور آج دنیا کی سب سے زیادہ ذہین قوموں میں انکا شمار ہوتا ہے:
IQ_by_Country.png
باقی جہاں تک اردو و انگریزی کے امتزاج کا سوال ہے تو اسکے لئے یہیں نارویجن زبان کی مثال کو پیش کروں گا؛
ناروے میں بچوں کو پہلی جماعت سے انگریزی نہیں پڑھائی جاتی بلکہ کچھ عرصہ بعد جب وہ نارویجن کو لکھنے اور سمجھنے کے قابل ہو جاتے ہیں، تب انگریزی کا پہلا درس دیا جاتا ہے۔ دسویں جماعت تک انگریزی ایک لازم مضمون ہے جو کہ تمام پرائیویٹ اور اسٹیٹ اسکولز میں یکساں رہتا ہے۔ اسکے بعد آپکے انتخاب کالج کی تعلیم پر منحصر ہے کہ آیا مزید انگریزی والے مضمون پڑھیں یا چھوڑ دیں۔ مطلب دسویں تک سوائے زبان انگریزی کہ ایک بھی مضمون اس میں نہیں‌ہوتا!
کالج کی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد ہائی اسکول اور یونی ورسٹی کی تعلیم عالمی اسٹینڈرڈ کے مطابق انگریزی زبان میں دی جاتی ہے۔ یعنی کتب انگریزی ہوتی ہیں لیکن درس و امتحانات مقامی زبان میں‌ہوتے ہیں!
یہ طریقہ میرے خیال میں انگریزی و اردو کے ملاپ کا بہترین ذریعہ ہے۔ اسکا فائدہ یہ ہے کہ میٹرک پاس کرنے والا کمزو ر ترین فرد بھی کم از کم سمجھنے کی حد تک انگریزی پر عبور رکھتا ہے اور بیرون ممالک سے روابط میں کوئی مسئلہ محسوس نہیں کرتا، جیسا کہ ہمارے کرکٹرز کو اکثر درپیش ہوتا ہے! :)
 

دوست

محفلین
جی آج انگریزی ایک عالمی زبان بن چکی ہے۔ ہمارے ہاں‌بھی انگریزی کوئی نئی بات نہیں یہ انگریزوں‌کے دور اقتدار اور ہمارے ساٹھ سال ملا کر کوئی دو سو سال سے یہاں‌ موجود ہے۔ انگریزی بولنے والے آدھے سے بھی زیادہ آج وہ لوگ ہیں جن کی مادری زبان انگریزی نہیں۔ اور انگریزی کو استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے سے گفتگو کرنے والے وہ آدھے سے زیادہ وہ ہیں‌جو انگریزی کو بطور غیرملکی زبان، دوسری زبان وغیرہ سیکھ کر آئے ہوتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد کمیونیکیکشن ہوتا ہے جیسے بزنس میں لکھے جانے والے لیٹرز وغیرہ۔ انگریزی آج وقت کی‌ ضرورت ہے۔ اور جن ملکوں کی آپ مثال دے رہے ہیں وہاں‌ بھی اب انگلش لینگوئج ٹیچنگ ایک ہاٹ کیک بن چکا ہے۔ چین سے زیادہ انگریزی کی ضرورت کس کو ہوگی جو معاشی دیو بن چکا ہے۔ مزید یہ کہ زبان میں تعلیم دینے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہورہا ہے، خوش قسمتی یا بدقسمتی سے۔ دنیا کے اکثر ترقی پذیر ممالک میں قومی، مقامی، مادری زبانوں‌کی بجائے تعلیم ابتدا سے ہی انگریزی میں دی جانے لگی ہے۔ اس کے پیچھے شاید یہ مقصد کارفرما ہے کہ بچے انگریزی اچھی اور بہتر سیکھ سکیں گے۔ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ انگریزی کو ایسے ٹھونسنے سے مقامی زبانوں‌ کی اہمیت کم ہوجائے گی۔ لیکن حقیقت وہی ہے جو میں اوپر بیان کرچکا ہوں۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
دوست بھائی، جب زبان ایک ہو جائے تو تہذیب و تمدن بھی ایک ہونے لگتا ہے۔ اور اسکی عملی مثال ہمارا معاشرہ بنا ہوا ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
اس معاملہ میں چین، جاپان اور کوریا کی تاریخ کا مطالعہ بہتر رہے گا۔ ان قوموں نے تمام جدید علوم "اپنی" ہی زبان میں عام کئے اور آج دنیا کی سب سے زیادہ ذہین قوموں میں انکا شمار ہوتا ہے:
iq_by_country.png
باقی جہاں تک اردو و انگریزی کے امتزاج کا سوال ہے تو اسکے لئے یہیں نارویجن زبان کی مثال کو پیش کروں گا؛
ناروے میں بچوں کو پہلی جماعت سے انگریزی نہیں پڑھائی جاتی بلکہ کچھ عرصہ بعد جب وہ نارویجن کو لکھنے اور سمجھنے کے قابل ہو جاتے ہیں، تب انگریزی کا پہلا درس دیا جاتا ہے۔ دسویں جماعت تک انگریزی ایک لازم مضمون ہے جو کہ تمام پرائیویٹ اور اسٹیٹ اسکولز میں یکساں رہتا ہے۔ اسکے بعد آپکے انتخاب کالج کی تعلیم پر منحصر ہے کہ آیا مزید انگریزی والے مضمون پڑھیں یا چھوڑ دیں۔ مطلب دسویں تک سوائے زبان انگریزی کہ ایک بھی مضمون اس میں نہیں‌ہوتا!
کالج کی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد ہائی اسکول اور یونی ورسٹی کی تعلیم عالمی اسٹینڈرڈ کے مطابق انگریزی زبان میں دی جاتی ہے۔ یعنی کتب انگریزی ہوتی ہیں لیکن درس و امتحانات مقامی زبان میں‌ہوتے ہیں!
یہ طریقہ میرے خیال میں انگریزی و اردو کے ملاپ کا بہترین ذریعہ ہے۔ اسکا فائدہ یہ ہے کہ میٹرک پاس کرنے والا کمزو ر ترین فرد بھی کم از کم سمجھنے کی حد تک انگریزی پر عبور رکھتا ہے اور بیرون ممالک سے روابط میں کوئی مسئلہ محسوس نہیں کرتا، جیسا کہ ہمارے کرکٹرز کو اکثر درپیش ہوتا ہے! :)

اس کے ساتھ ساتھ عرب ممالک میں بھی انگریزی زبان سیکھنا ضروری نہیں۔ ان کے تمام اداروں میں عربی سرکاری زبان ہے۔ چین کو دیکھ لیں وہاں کے وزیر کو انگریزی بے شک آتی بھی ہو لیکن وہ ترجمان ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔
ہمارے پیارے وطن میں بھی اردو کو سرکاری زبان ہونا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہیں۔ بول چال کی حد تک تو اردو دیکھنے میں ملتی ہے ۔ لیکن قانونی کاروائیوں میں انگریزی زبان کی لاٹھی کا سہارا لیا جاتا ہے ۔
 

dxbgraphics

محفلین
جی آج انگریزی ایک عالمی زبان بن چکی ہے۔ ہمارے ہاں‌بھی انگریزی کوئی نئی بات نہیں یہ انگریزوں‌کے دور اقتدار اور ہمارے ساٹھ سال ملا کر کوئی دو سو سال سے یہاں‌ موجود ہے۔ انگریزی بولنے والے آدھے سے بھی زیادہ آج وہ لوگ ہیں جن کی مادری زبان انگریزی نہیں۔ اور انگریزی کو استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے سے گفتگو کرنے والے وہ آدھے سے زیادہ وہ ہیں‌جو انگریزی کو بطور غیرملکی زبان، دوسری زبان وغیرہ سیکھ کر آئے ہوتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد کمیونیکیکشن ہوتا ہے جیسے بزنس میں لکھے جانے والے لیٹرز وغیرہ۔ انگریزی آج وقت کی‌ ضرورت ہے۔ اور جن ملکوں کی آپ مثال دے رہے ہیں وہاں‌ بھی اب انگلش لینگوئج ٹیچنگ ایک ہاٹ کیک بن چکا ہے۔ چین سے زیادہ انگریزی کی ضرورت کس کو ہوگی جو معاشی دیو بن چکا ہے۔ مزید یہ کہ زبان میں تعلیم دینے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہورہا ہے، خوش قسمتی یا بدقسمتی سے۔ دنیا کے اکثر ترقی پذیر ممالک میں قومی، مقامی، مادری زبانوں‌کی بجائے تعلیم ابتدا سے ہی انگریزی میں دی جانے لگی ہے۔ اس کے پیچھے شاید یہ مقصد کارفرما ہے کہ بچے انگریزی اچھی اور بہتر سیکھ سکیں گے۔ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ انگریزی کو ایسے ٹھونسنے سے مقامی زبانوں‌ کی اہمیت کم ہوجائے گی۔ لیکن حقیقت وہی ہے جو میں اوپر بیان کرچکا ہوں۔
وسلام

چھوٹے بھائی کو لیپ ٹاپ کے کمپوننٹ چین سے لانے کے لئے بھیجا تو دیکھا کہ چینی لوگ انگریزی سیکھنا ہی نہیں چاہتے چاہے آپ کروڑوں کا بزنس کریں۔ بس ان کو ماڈل نمبر بتائیں۔ وہ بات بھی نہیں کریں گے صرف کیلکولیٹر پر نمبر پریس کر کے آپ کو کوانٹٹی اور یونٹ پرائس دے دیتے ہیں۔یہاں دوبئی میں بھی چینی دوکانداروں سے جب کوئی چیز لینے جاتے ہیں تو ان کے کمپیوٹر میں‌لینگویج تک چینی زبان میں ہوتی ہے۔اور قیمت آپ کو کیلکولیٹر پر ٹائپ کر کے بتائیں گے۔:)
 

arifkarim

معطل
واقعی میں نے چین جیسی خوددار قوم اور کوئی نہیں دیکھی۔ وہ تو اہل یورپ نے انکو دھوکے سے افیون پر لگوا کر پھوٹ ڈلوا کر کچھ سال کی مہلت حاصل کر لی۔ ورنہ یہ مغربی کبھی بھی اتنے سال دنیا پر حکمرانی نہ کرپاتے۔ سنہ 2035 کے بعد سے مشرقی ایشیا دنیا کا طاقتور گڑھ ہوگا اور پھر پاکستانیوں کو انگریزی کی نہیں چینی کی ضرورت ہوگی۔۔۔۔ :)
 

دوست

محفلین
عارف کریم بھائی آپ کی اس پیشن گوئی کی تکمیل کا انتظار رہے گا مجھے۔ انگریزی کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔ انگریزی ان سب کی ہے جو اسے بولتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ انگریزی بولنے والے برطانیہ اور امریکہ سے زیادہ ہند و پاک اور افریقہ میں ہیں۔ انگریزی کو ایسے ہی عالمی زبان نہیں کہا جاتا۔ آج انگریزی کے بارے (اس کے) "اہل زبان" کے اعتراضات ،کہ اسے بطور سیکنڈ لینگوئج یا فارن لیگوئج سیکھنے والے اسے ٹھیک طرح سے استعمال نہیں کرتے، کو جوتے کی نوک پر رکھا جاتا ہے۔ انگریزی اب پب اور بار کے تصورات ہی نہیں اللہ، مسجد، صلوۃ کے تصوارت بھی بیان کرنے کے قابل ہے۔ ہر علاقے کے بولنے والوں نے اسے اپنا رنگ دیا ہے، دیسی رنگ۔ نائجیریا کے افریقی ہوں، ہندو پاک کے دیسی ہوں یا چین و ہانک کانگ کے رہنے والے۔ کثیر زبانی کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ نارمل بات ہے۔ ہم تو پہلے ہی ایک سے زیادہ زبانیں سیکھتے ہیں، ایک اور سہی۔ اور بہت امکان یہ ہے کہ وہ انگریزی ہو۔ آج جتنا کام انگریزی سکھانے پر جتنا کام ہورہا ہے اور کسی زبان کے سکھانے پر نہیں۔ اور ویسے بھی "جس نے دشمن کی زبان سیکھ لی وہ اس کے شر سے محفوظ ہوگیا"۔
 

dxbgraphics

محفلین
دوست بھائی بے شک آپ کی بات میں دم ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں خرابی یہ ہے کہ قومی زبان اردو میں ہوتے ہوئے تمام کاغذی کاروائیاں انگریزی میں کی جاتی ہیں جو کہ اردو کے ساتھ زیادتی اور ظلم سےکم نہیں۔ اگر ہمارا نظام اردو میں ڈھل جائے تو عجب نہیں کہ باہر کے لوگوں سے ہم بھی کافی حد تک محفوظ رہیں گے۔ آج ہمارا جتنا بھی سرکاری ڈیٹا آنلائن ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس کو دن میں کتنی دفعہ چیک کیا جاتا ہوگا۔ جس کانقصان پاکستان کو صرف اور صرف اسی وجہ سے ہوتا ہوگا کہ وہ انگریزی میں فیڈڈ ہے نہ کہ ہماری قومی زبان میں۔
اس دھاگے میں اگر کسی نے بھی کوئی بھی مثال دی ہے اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ہم انگریزی سے نفرت کرتے ہیں لیکن اس میں ایک خواہش ہے کہ ہمارے ملک کی قومی زبان ہوتے ہوئے بھی ہم اپنی سرکاری عمارتوں پر اور دیگر کئی جگہوں پر سائن بورڈ تک انگریزی میں دیکھتےہیں۔ہماری اسمبلیوں میں سرکاری دفاتر میں سب کاغذی کاروائی انگریزی میں ہے جس سے عام آدمی جو میٹرک پاس ہوگا وہ بے چارہ کیا سمجھے گا کہ میں نے کیا کرنا ہے۔ کیا لکھنا ہے۔
 

arifkarim

معطل
سب کاغذی کاروائی انگریزی میں ہے جس سے عام آدمی جو میٹرک پاس ہوگا وہ بے چارہ کیا سمجھے گا کہ میں نے کیا کرنا ہے۔ کیا لکھنا ہے۔
پاکستانی تعلیمی نظام کی ناکامی کیلئے یہ دلیل کافی اچھی ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ آکسفورڈ کا پڑھا لکھا پاکستان کا وزیر بن سکتا ہے۔ پر پاکستانی گوورنمنٹ کے اسکول والا نہیں۔۔۔۔
 

ساجد

محفلین
دوستو ، موضوع سخن ہے کہ سکولوں میں پہلی جماعت سے بچوں کے لئیے انگریزی زبان میں مکمل (مضامین کی ) تدریس کا رواج آپ کی نظر میں کیسا ہے؟۔ کیا اس سے ہمارے بچوں کی تعلیمی حالت بہتر ہو رہی ہے ؟۔ کیا اس سے تعلیم کے قومی مقاصد حاصل ہو سکیں گے؟ کیا اس رواج کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے بچے جدید علوم کو اپنی قومی زبان میں ڈھالنے کی اہلیت حاصل کر سکیں گے ؟۔
زبانوں کا تقابل اس دھاگے کا مقصود نہیں۔
 

arifkarim

معطل
دوستو ، موضوع سخن ہے کہ سکولوں میں پہلی جماعت سے بچوں کے لئیے انگریزی زبان میں مکمل (مضامین کی ) تدریس کا رواج آپ کی نظر میں کیسا ہے؟۔ کیا اس سے ہمارے بچوں کی تعلیمی حالت بہتر ہو رہی ہے ؟۔ کیا اس سے تعلیم کے قومی مقاصد حاصل ہو سکیں گے؟ کیا اس رواج کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے بچے جدید علوم کو اپنی قومی زبان میں ڈھالنے کی اہلیت حاصل کر سکیں گے ؟۔
زبانوں کا تقابل اس دھاگے کا مقصود نہیں۔

شکریہ ساجد۔ ایک بات واضح کر دوں کہ ‌خالی بہتر نظام تعلیم ہی اقتصادی، معاشی و سماجی ترقی میں اول رول ادا نہیں کر تا۔ بلکہ اسکے لئے ایک مضبوط سیاسی لیڈرشپ اور قدرتی وسائل کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ تیل والے ممالک صرف اپنے قدرتی وسائل کی بدولت تعلیمی نظام میں‌پیچھے رہنے کے باوجود ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شمار ہوتے ہیں۔ اب آیا تیل کے خاتمہ کے بعد انکی کیا صورت حال ہوگی، بہرحال جب تک تیل ہے۔ وہ ترقی یافتہ ہیں۔ نیز بہت سے ایسے ممالک ہیں‌جو قدرتی وسائل ہونے کے باوجود انکی دولت گنتی کے افراد یا بیرونی کمپنیز کو دینے پر مجبور ہیں۔
پس ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم چاہے اردو میں‌ہو یا کسی دوسری زبان میں۔ اسے مکمل کر نے والے کے پاس کیا ایک بہتر مستقبل ہے؟ کہیں‌ایسا تو نہیں کہ انگریزی میں تعلیم مکمل کرنے والا بیرون ممالک میں‌بہتر مواقع پاکر اپنے وطن سے غائب ہو جانے پر مجبور ہے۔ جبکہ اردو میں‌تعلیم حاصل کرنے والا اپنے ہی وطن کی خاک چھاننے پر؟ :daydreaming:
پہلا مرحلہ بیروز گاری ، غربت و افلاس کو دور کرنے کا آتا ہے۔ جسکی اسپورٹ کیلئے ایک اعلیٰ تعلیم نظام درکار ہوتا ہے۔ ہمارے طالب علم اعلیٰ تعلیم بیرون ممالک میں حاصل کرکے وہیں‌کے نظام کا حصہ بن جاتے ہیں، جو اکا دکا واپس آتے ہیں، وہ یہاں کی کرپشن سے تنگ آکر واپس چلے جاتے ہیں۔
پس میرے خیال میں سب سے پہلے ہمیں اقتصادی، سیاسی، سماجی نظام کی تبدیلی کرنی ہوگی۔ جسکے بعد تعلیمی نظام کی تبدیلی پر غور کرنا ہوگا۔ ورنہ وہی ہوگا جو پچھلے 60 سال سے قوم کے انتہائی ذہین اور ہنر مند افراد کر رہے ہیں۔۔۔۔ :moneyeyes:
 
Top