ناصر علی مرزا
معطل
ربط
انگریزی زبان چینی زبان کے تقریباً شعبے میں سرایت کر رہی ہے لیکن اس کا زیادہ اثر ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہے
اگر آج کل چینی لوگوں کی گفتگو سنیں تو آپ کو انگریزی کے روز مرہ استعمال کے کئی الفاظ سننے کو ملیں گے: ’او کے‘ کُول، بائے بائے، ہئر اینڈ دیئر۔‘
گفتگو کے علاوہ آج کل چینی زبان میں شائع ہونے والی کتابوں اور اخبارات میں بھی آپ کو نہ صرف انگریزی کے کئی الفاظ نظر آئیں گے بلکہ چینی زبان میں ان کا کوئی آسان ترجمہ بھی دکھائی نہیں دے گا۔ ’جی ڈی پی، ڈبلیو ٹی او، وائی فائی، سی ای او، ایم بی اے، وی آئی پی اور فضائی آلودگی کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ’پی ایم 2.5 ‘ اس قسم کے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ ہیں۔
چینی زبان میں بغیر ترجمے کے انگریزی الفاظ استعمال کرنے کے اس رجحان کو ’زیرو ٹرانسلیشن‘ کا نام دیا گیا ہے اور آج کل چین میں یہ بحث زوروں پر ہے کہ آیا یہ رجحان چینیوں کی صدیوں پرانی زبان پر مثبت اثر ڈالےگا یا اس سے چینی زبان اور تہذیب کو خطرہ ہے۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی کا اخبار ’پیپلز ڈیلی‘ بھی اس بحث میں کود چکا ہے۔ اخبار نے اپنے ایک حالیہ ادارتی کالم میں ’ہر کوئی زیرو ٹرانسلیشن کی روایت کیوں اپنا رہا ہے؟‘ کی سرخی کے تحت ایسی کتابوں اور لوگوں کے خوب لتے لیے ہیں جن کا اصرار ہے کہ وہ انگریزی الفاظ ہی استعمال کریں گے۔
اخبار کا کہنا تھا کہ جب ہم ’نوکیا‘ اور ’موٹورولا‘ موبائل فونوں کے لیے چینی زبان کے حروف تہجی استعمال کرتے ہیں تو پھر ’آئی فون‘ اور ’آئی پیڈ‘ کے لیے ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟
چینی میں کوکا کولا کو ’کیکو کیلی‘ کا نام دیا گیا تھا جس کے معنی ہیں ’مزیدار اور خوش‘
کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار اور اس کے ہمنوا دیگر ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر بات محض عام بول چال کی زبان تک رہتی تو شاید ان کا ردعمل اتنا شدید نہ ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ آج کل چینی زبان کی سائنسی کتابوں میں بھی انگریزی کے بے شمار الفاظ کو انگریزی حروف تہجی میں لکھا جا رہا ہے جو سراسر غلط ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس رجحان سے نہ صرف چینی زبان کی سالمیت اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ اس سے چینی تہذیب بھی کمزور ہو رہی ہے اور لوگوں کو اسے سمجھنے میں بھی دقت ہو رہی ہے۔ کتنے لوگ ہیں کہ جو انگریزی کے ان ہجًوں کو سمجھ پاتے ہیں؟
امریکی اور برطانوی اثرات
انٹرنیٹ بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے اور خاص طور پر ٹیکنالوجی اور جدید مصنوعات کے شعبوں میں انگریزی کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ مقبول امریکی اور برطانوی فلمیں اور ٹی وی کے پرگرام بھی انگریزی کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
چینی میں انگریزی کی ملاوٹ کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ گذشتہ برسوں میں انگریزی کے کئی الفاظ اور اصطلاحیں چینی میں سرایت کر چکی ہیں، بلکہ کئی ترجمے تو ایسے ہیں کہ جو بہت زیادہ مقبول ہوئے۔ مثلاً ’کوکا کولا‘ کو چین میں مقبول بنانے میں اس کے چینی ترجمے کا بڑا عمل دخل ہے کیونکہ چینی میں کوکا کولا کو ’کیکو کیلی‘ کا نام دیا گیا تھا جس کے معنی ہیں ’مزیدار اور خوش۔‘
کوکا کولا کی طرز پر انگریزی کے کئی دوسرے ناموں اور اصطلاحوں کو بھی چینی حروف تہجی میں لکھا جاتا رہا ہے جس کے نتیجے میں کئی کمپنیوں کی مصنوعات کو چین میں مقبول عام بنانے میں خاصی مدد ملی ہے۔ لیکن ’زیرو ٹرانسلیشن‘ کے حالیہ رجحان کے ناقدین کہتے ہیں کہ اب مسئلہ یہ ہو گیا ہے کہ چینی زبان میں لکھے ہوئے فقروں کے درمیان انگریزی کے حروف تہجی گُھسیڑے جا رہے اور ساتھ میں ان کا کوئی ترجمہ بھی نہیں دیا جا رہا۔
ماضی میں امریکی باسکٹ بال کے مشہور مقابلوں ’این بی اے‘ کے انگریزی نام پر پابندی لگائی جا چکی ہے
چین میں انگریزی بولنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ لوگ اپنی گفتگو اور تحریر میں جا بجا انگریزی الفاظ اور حروف تہجی استعمال کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ اس سلسلے میں بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے اور خاص طور پر ٹیکنالوجی اور جدید مصنوعات کے شعبوں میں انگریزی کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ گذشتہ برسوں میں مقبول امریکی اور برطانوی فلموں اور ٹی وی کے پرگراموں نے بھی انگریزی کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
چین میں انگریزی زبان کے اثرات کے بارے میں بحت اگرچہ کوئی نئی بات نہیں، لیکن معاشرتی رابطوں کی ویب سائٹس کے اس دور میں یہ بحث ماہرینِ زبان تک محدود نہیں بلکہ ہر کوئی اس میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ چین کو چاہیے کہ وہ اپنے سرکاری ٹیلی ویژن کا نام بھی تبدیل کر دے۔ یاد رہے کہ چین کے سرکاری ٹی وی کا نام ’سی سی ٹی وی‘ ہے۔
انگریزی زبان چینی زبان کے تقریباً شعبے میں سرایت کر رہی ہے لیکن اس کا زیادہ اثر ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہے
اگر آج کل چینی لوگوں کی گفتگو سنیں تو آپ کو انگریزی کے روز مرہ استعمال کے کئی الفاظ سننے کو ملیں گے: ’او کے‘ کُول، بائے بائے، ہئر اینڈ دیئر۔‘
گفتگو کے علاوہ آج کل چینی زبان میں شائع ہونے والی کتابوں اور اخبارات میں بھی آپ کو نہ صرف انگریزی کے کئی الفاظ نظر آئیں گے بلکہ چینی زبان میں ان کا کوئی آسان ترجمہ بھی دکھائی نہیں دے گا۔ ’جی ڈی پی، ڈبلیو ٹی او، وائی فائی، سی ای او، ایم بی اے، وی آئی پی اور فضائی آلودگی کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ’پی ایم 2.5 ‘ اس قسم کے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ ہیں۔
چینی زبان میں بغیر ترجمے کے انگریزی الفاظ استعمال کرنے کے اس رجحان کو ’زیرو ٹرانسلیشن‘ کا نام دیا گیا ہے اور آج کل چین میں یہ بحث زوروں پر ہے کہ آیا یہ رجحان چینیوں کی صدیوں پرانی زبان پر مثبت اثر ڈالےگا یا اس سے چینی زبان اور تہذیب کو خطرہ ہے۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی کا اخبار ’پیپلز ڈیلی‘ بھی اس بحث میں کود چکا ہے۔ اخبار نے اپنے ایک حالیہ ادارتی کالم میں ’ہر کوئی زیرو ٹرانسلیشن کی روایت کیوں اپنا رہا ہے؟‘ کی سرخی کے تحت ایسی کتابوں اور لوگوں کے خوب لتے لیے ہیں جن کا اصرار ہے کہ وہ انگریزی الفاظ ہی استعمال کریں گے۔
اخبار کا کہنا تھا کہ جب ہم ’نوکیا‘ اور ’موٹورولا‘ موبائل فونوں کے لیے چینی زبان کے حروف تہجی استعمال کرتے ہیں تو پھر ’آئی فون‘ اور ’آئی پیڈ‘ کے لیے ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟
چینی میں کوکا کولا کو ’کیکو کیلی‘ کا نام دیا گیا تھا جس کے معنی ہیں ’مزیدار اور خوش‘
کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار اور اس کے ہمنوا دیگر ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر بات محض عام بول چال کی زبان تک رہتی تو شاید ان کا ردعمل اتنا شدید نہ ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ آج کل چینی زبان کی سائنسی کتابوں میں بھی انگریزی کے بے شمار الفاظ کو انگریزی حروف تہجی میں لکھا جا رہا ہے جو سراسر غلط ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس رجحان سے نہ صرف چینی زبان کی سالمیت اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ اس سے چینی تہذیب بھی کمزور ہو رہی ہے اور لوگوں کو اسے سمجھنے میں بھی دقت ہو رہی ہے۔ کتنے لوگ ہیں کہ جو انگریزی کے ان ہجًوں کو سمجھ پاتے ہیں؟
امریکی اور برطانوی اثرات
انٹرنیٹ بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے اور خاص طور پر ٹیکنالوجی اور جدید مصنوعات کے شعبوں میں انگریزی کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ مقبول امریکی اور برطانوی فلمیں اور ٹی وی کے پرگرام بھی انگریزی کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
چینی میں انگریزی کی ملاوٹ کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ گذشتہ برسوں میں انگریزی کے کئی الفاظ اور اصطلاحیں چینی میں سرایت کر چکی ہیں، بلکہ کئی ترجمے تو ایسے ہیں کہ جو بہت زیادہ مقبول ہوئے۔ مثلاً ’کوکا کولا‘ کو چین میں مقبول بنانے میں اس کے چینی ترجمے کا بڑا عمل دخل ہے کیونکہ چینی میں کوکا کولا کو ’کیکو کیلی‘ کا نام دیا گیا تھا جس کے معنی ہیں ’مزیدار اور خوش۔‘
کوکا کولا کی طرز پر انگریزی کے کئی دوسرے ناموں اور اصطلاحوں کو بھی چینی حروف تہجی میں لکھا جاتا رہا ہے جس کے نتیجے میں کئی کمپنیوں کی مصنوعات کو چین میں مقبول عام بنانے میں خاصی مدد ملی ہے۔ لیکن ’زیرو ٹرانسلیشن‘ کے حالیہ رجحان کے ناقدین کہتے ہیں کہ اب مسئلہ یہ ہو گیا ہے کہ چینی زبان میں لکھے ہوئے فقروں کے درمیان انگریزی کے حروف تہجی گُھسیڑے جا رہے اور ساتھ میں ان کا کوئی ترجمہ بھی نہیں دیا جا رہا۔
ماضی میں امریکی باسکٹ بال کے مشہور مقابلوں ’این بی اے‘ کے انگریزی نام پر پابندی لگائی جا چکی ہے
چین میں انگریزی بولنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ لوگ اپنی گفتگو اور تحریر میں جا بجا انگریزی الفاظ اور حروف تہجی استعمال کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ اس سلسلے میں بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے اور خاص طور پر ٹیکنالوجی اور جدید مصنوعات کے شعبوں میں انگریزی کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ گذشتہ برسوں میں مقبول امریکی اور برطانوی فلموں اور ٹی وی کے پرگراموں نے بھی انگریزی کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
چین میں انگریزی زبان کے اثرات کے بارے میں بحت اگرچہ کوئی نئی بات نہیں، لیکن معاشرتی رابطوں کی ویب سائٹس کے اس دور میں یہ بحث ماہرینِ زبان تک محدود نہیں بلکہ ہر کوئی اس میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ چین کو چاہیے کہ وہ اپنے سرکاری ٹیلی ویژن کا نام بھی تبدیل کر دے۔ یاد رہے کہ چین کے سرکاری ٹی وی کا نام ’سی سی ٹی وی‘ ہے۔