شاہد شاہنواز
لائبریرین
برائے اصلاح ۔۔۔
الف عین
ارشد رشید
محمد احسن سمیع راحلؔ
انہیں حقارت سے دیکھنا کیا جو تیرے در پر پڑے ہوئے ہیں
تری نگاہِ کرم کی خواہش میں لعل و گوہر پڑے ہوئے ہیں
کیا تھا جب تو نے حکم جاری کہ گھر کو جاؤ، تو سوچنا تھا
بلا کے سرکش ہیں تیرے شیدا، سجا کے بستر پڑے ہوئے ہیں
کسی کے شکوے، فریب، طعنے، عداوتیں ، نفرتیں ، فسانے
وہ تجھ کو باہر نہ مل سکیں گے، جو دل کے اندر پڑے ہوئے ہیں
قدم قدم پر تھی ایسی پھسلن کہ دونوں پل بھر بھی چل نہ پائے
میں گر گیا، وہ بھی گر گئے تھے، مرے برابر پڑے ہوئے ہیں
گیا وہ دورِ کہن کہ جس میں ہم ایک مرشد کو ڈھونڈتے تھے
کہ عہدِ حاضر میں ہر قدم پر بہت سے رہبر پڑے ہوئے ہیں
وہ پہلا دن تھا کہ جس میں کوئی نظر سے دل تک پہنچ گیا تھا
سو اب نشانہ ہے عقل میری کہ جس پہ پتھر پڑے ہوئے ہیں
وہ اک ملاقات ، پھر خموشی، کئی برس تک غرور تیرا
مجھے بھی پل بھر کو ڈھونڈنے دے، کہاں وہ تیور پڑے ہوئے ہیں؟
زمانے والوں کو کیا بتاؤں، میں کیسی دنیا میں آگیا ہوں
یہاں حقیقت ہے خواب جیسی، نظر میں منظر پڑے ہوئے ہیں
جو وقت آنا ہے، جان لینا کسی قیامت سے کم نہیں ہے
کہ چاروں جانب ہیں صرف لاشیں ،کٹے ہوئے سر پڑے ہوئے ہیں
الف عین
ارشد رشید
محمد احسن سمیع راحلؔ
انہیں حقارت سے دیکھنا کیا جو تیرے در پر پڑے ہوئے ہیں
تری نگاہِ کرم کی خواہش میں لعل و گوہر پڑے ہوئے ہیں
کیا تھا جب تو نے حکم جاری کہ گھر کو جاؤ، تو سوچنا تھا
بلا کے سرکش ہیں تیرے شیدا، سجا کے بستر پڑے ہوئے ہیں
کسی کے شکوے، فریب، طعنے، عداوتیں ، نفرتیں ، فسانے
وہ تجھ کو باہر نہ مل سکیں گے، جو دل کے اندر پڑے ہوئے ہیں
قدم قدم پر تھی ایسی پھسلن کہ دونوں پل بھر بھی چل نہ پائے
میں گر گیا، وہ بھی گر گئے تھے، مرے برابر پڑے ہوئے ہیں
گیا وہ دورِ کہن کہ جس میں ہم ایک مرشد کو ڈھونڈتے تھے
کہ عہدِ حاضر میں ہر قدم پر بہت سے رہبر پڑے ہوئے ہیں
وہ پہلا دن تھا کہ جس میں کوئی نظر سے دل تک پہنچ گیا تھا
سو اب نشانہ ہے عقل میری کہ جس پہ پتھر پڑے ہوئے ہیں
وہ اک ملاقات ، پھر خموشی، کئی برس تک غرور تیرا
مجھے بھی پل بھر کو ڈھونڈنے دے، کہاں وہ تیور پڑے ہوئے ہیں؟
زمانے والوں کو کیا بتاؤں، میں کیسی دنیا میں آگیا ہوں
یہاں حقیقت ہے خواب جیسی، نظر میں منظر پڑے ہوئے ہیں
جو وقت آنا ہے، جان لینا کسی قیامت سے کم نہیں ہے
کہ چاروں جانب ہیں صرف لاشیں ،کٹے ہوئے سر پڑے ہوئے ہیں