ارشد رشید
محفلین
شاہد صاحب - حرمت الفاظ مری نظر میں یہ ہے کہ الفاظ کو ان کے صحیح مقام پہ استعمال کیا جائے - الفاظ کا ان کے مطلب سے ہٹ کر بھی استعمال کرنے کا ایک دائرہ ہوتا ہے اسی کو میں حرمت ِ لفظی کہتا ہوں - دیکھیے ایک اصطلاح ہے لختِ جگر - یعنی جگر ا ٹکڑا - اب کسی کا محبوب بھی اس کے جگر کا ٹکڑا ہو سکتا ہے مگر محبوب کو لختِ جگر نہیں کہا جاتا یہ اصطلاح اولاد کے لیے مروی ہے - بس یہی حرمتِ الفاظ ہے -میری رائے میں آپ نے جسے حرمتِ الفاظ کہا، وہ شاید روزمرہ و محاورہ ہو۔۔۔ لیکن آپ کی رائے میں حرمتِ الفاظ کیا ہے؟ اس کا پاس کیسے رکھا جائے؟
آپ کا شعر ہے انہیں حقارت سے دیکھنا کیا جو تیرے در پر پڑے ہوئے ہیں - ۔دیکھنا کیا - کا استعمال ایسے موقع پر ہوتا ہے جب دیکھا تو جاسکتا ہو مگر نہیں دیکھنا چاہیئے -
تو آپ کو کہنا تھا انہیں حقارت سے مت دیکھو جو تمھارے در پہ پڑے ہوئے ہیں مگر آپ اصل میں کہہ رہے ہیں وہ ہیں تو اس قابل کے آپ انہیں حقارت سے دیکھیں مگر آپ ایسا نہ کریں تو اچھا ہے - بات کدھر کی کدھر پہنچ گئئ -
آپ نے کہا - گیا وہ دورِ کہن کہ جس میں ہم ایک مرشد کو ڈھونڈتے تھے -- کہن کا استعمال ان معنوں میں آپ کو نہیں ملے گا- اس سے مراد قدیم زمانہ ہوتا ہے جس میں عموما آپ موجود نہیں ہوتے - یا پھر جو آپ کے آج سے بہت دور ہو - اسی لیے آپ کو پیر ِ کہن اور چرغِ کہن کی اصطلاحیں ملتی ہیں -
آپ کہہ رہے ہیں وہ زمانہ گیا جب اآپ کسی مرشد کو ڈھونڈہ رہے تھے تو ظاہر بات ہے وہ زمانہ بے حد پرانا تو نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ کو شعور کی عمر میں ہی کسی مرشد کا خیال آتا ہے - لہذا چند برس قبل کے زمانے کو آپ دور کہن نہیں کہ سکتے - یہ ہے لفظ کہن کی حرمت جس کا اس شعر میں خیال نہیں رکھا گیا -
بس یہی مرا مطلب تھا آپ چاہیں تو اتفاق نہ کریں - مگر مجھے لکھ دیجیے گا کہ آپ نے اتفاق نہیں کیا تا کہ میں آئندہ آپ کو کسی شعر پہ اصلاح دینے سے پہلے آپ کے اندازِ فکر سے واقف ہو جاوں -
شکریہ -