توصیف یوسف مغل
محفلین
تجهے کل ہی سے نہیں بے کلی نہ کچھ آج ہی سے رہا قلق
تری عمر ساری یوں ہی کٹی تو ہمیشہ یوں ہی جیا قلق
ہوا دل کے جانے کا اب یقیں کہ وہ درد بر میں مرے نہیں
نہ وہ اضطراب قضا کمیں نہ وہ خشر خیز_ بلا قلق
انہیں نالہ کرنے کا رنج کیا انہیں آہ بهرنے کا رنج کیا
انہیں میرے مرنے کا رنج کیا انہیں میرے جانے کا کیا قلق
یہی رشک نے دیے مشورے کبهی پردہ ان کا نہ کهولیے
مرے جی ہی جی میں پهرا کیے مرے دل ہی دل میں رہا قلق
نہ وہ میں رہا نہ وہ تو رہا نہ وہ آرزو نہ وہ مدعا
ہوا زندگی کا بهی فیصلہ مگر ایک تیرا رہا قلق
رہے لاکھ صدمے نفس نفس جیے کیوں کہ کوئی پرائے بس
شب وصل مرنے کی تهی ہوس شب خجر جینے کا تها قلق
نہیں چین ان کو بھی ایک دم کہ ہے فکر جور کا غم سا غم
ہوئے مجھ پہ روز نئے ستم رہا ان کو روز نیا قلق
حکیم غلام مولیٰ قلق......
تری عمر ساری یوں ہی کٹی تو ہمیشہ یوں ہی جیا قلق
ہوا دل کے جانے کا اب یقیں کہ وہ درد بر میں مرے نہیں
نہ وہ اضطراب قضا کمیں نہ وہ خشر خیز_ بلا قلق
انہیں نالہ کرنے کا رنج کیا انہیں آہ بهرنے کا رنج کیا
انہیں میرے مرنے کا رنج کیا انہیں میرے جانے کا کیا قلق
یہی رشک نے دیے مشورے کبهی پردہ ان کا نہ کهولیے
مرے جی ہی جی میں پهرا کیے مرے دل ہی دل میں رہا قلق
نہ وہ میں رہا نہ وہ تو رہا نہ وہ آرزو نہ وہ مدعا
ہوا زندگی کا بهی فیصلہ مگر ایک تیرا رہا قلق
رہے لاکھ صدمے نفس نفس جیے کیوں کہ کوئی پرائے بس
شب وصل مرنے کی تهی ہوس شب خجر جینے کا تها قلق
نہیں چین ان کو بھی ایک دم کہ ہے فکر جور کا غم سا غم
ہوئے مجھ پہ روز نئے ستم رہا ان کو روز نیا قلق
حکیم غلام مولیٰ قلق......