ان سے دیکھا نہ گیا مجھ سے دکھایا نہ گیا

نمرہ

محفلین
ان سے دیکھا نہ گیا، مجھ سے دکھایا نہ گیا
ہجر کی رات کا دل سے کبھی سایا نہ گیا
آنکھ صحرا تھی کسی سے جہاں آیا نہ گیا
دل وہ نغمہ تھا کسی ساز پہ گایا نہ گیا
ہائے وہ چشم فسوں خیز کہ جس کا ہم نے
رنج اٹھانا کبھی چاہا تو اٹھایا نہ گیا
لوگ آئے بھی گئے بھی لئے حسرت دل میں
حال دل ہم سے کسی کو بھی سنایا نہ گیا
نقش گہرا تھا ترے عہد وفا کا اتنا
تو نے جب آپ مٹایا تو مٹایا نہ گیا
دین و دل عشق میں تج دینے پہ ہم راضی تھے
ایک پندار تھا اپنا کہ گنوایا نہ گیا
سننے والوں کا رہا اپنا تخیل شامل
ورنہ مفہوم سے لفظوں میں سمایا نہ گیا
جانے کیوں یار کے دروازے پہ جا پہنچے تھے
ہم کو پھر آپ میں اپنے کبھی پایا نہ گیا
واقعہ عام نہ تھا دل کے اجڑ جانے کا
ایک آنسو بھی مگر ہم سے بہایا نہ گیا
سازوسامان جو ہستی کا سنبھالے رکھا
غم کا سیلاب جب آیا تو بچایا نہ گیا
سادہ لوحی کا یہ اعجاز نہ پہلے دیکھا
لفظ پہنچے ہیں جہاں کوئی کنایا نہ گیا
کیا ہی دنیا کو سجانے کی تمنا رکھتے
کام اپنا بھی کوئی ہم سے بنایا نہ گیا
 

سین خے

محفلین
ان سے دیکھا نہ گیا، مجھ سے دکھایا نہ گیا
ہجر کی رات کا دل سے کبھی سایا نہ گیا
آنکھ صحرا تھی کسی سے جہاں آیا نہ گیا
دل وہ نغمہ تھا کسی ساز پہ گایا نہ گیا
ہائے وہ چشم فسوں خیز کہ جس کا ہم نے
رنج اٹھانا کبھی چاہا تو اٹھایا نہ گیا
لوگ آئے بھی گئے بھی لئے حسرت دل میں
حال دل ہم سے کسی کو بھی سنایا نہ گیا
نقش گہرا تھا ترے عہد وفا کا اتنا
تو نے جب آپ مٹایا تو مٹایا نہ گیا
دین و دل عشق میں تج دینے پہ ہم راضی تھے
ایک پندار تھا اپنا کہ گنوایا نہ گیا
سننے والوں کا رہا اپنا تخیل شامل
ورنہ مفہوم سے لفظوں میں سمایا نہ گیا
جانے کیوں یار کے دروازے پہ جا پہنچے تھے
ہم کو پھر آپ میں اپنے کبھی پایا نہ گیا
واقعہ عام نہ تھا دل کے اجڑ جانے کا
ایک آنسو بھی مگر ہم سے بہایا نہ گیا
سازوسامان جو ہستی کا سنبھالے رکھا
غم کا سیلاب جب آیا تو بچایا نہ گیا
سادہ لوحی کا یہ اعجاز نہ پہلے دیکھا
لفظ پہنچے ہیں جہاں کوئی کنایا نہ گیا
کیا ہی دنیا کو سجانے کی تمنا رکھتے
کام اپنا بھی کوئی ہم سے بنایا نہ گیا

واہ! بہت ہی خوب :) لاجواب!

ڈھیروں داد قبول فرمائیے :)
 

نمرہ

محفلین
اسکی وضاحت ہوجائے تو .....
کنایا؟

بہت خوب لاجواب غزل
شکریہ نور۔ آنکھ نم ہوتی ہے تو غم سے ، جس کا کسی کی ہستی سے تعلق ہوتا ہے عام طور پر۔ کسی کو آنکھ میں بسانا بھی ایک محاورہ ہے ، تو اس نسبت سے خشک آنکھ کو ایسے صحرا سے تشبیہ دی ہے جہاں کسی کا گزر نہ ہو۔
دل کے نغمے کا معاملہ یہ ہے کہ یہ کسی نے سنا دیکھا سمجھا نہیں۔
یہ تو میری نیت تھی شعر کے پیچھے۔ شکریہ سوال کرنے کا بھی :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! واہ ! کیا اچھی غزل ہے نمرہ صاحبہ !
؎ واقعہ عام نہ تھا دل کے اجڑ جانے کا
کیا اچھا مصرع ہے ! واہ!

ساتویں شعر کو ایک مرتبہ دیکھ لیجئے۔ اس میں ٹائپو لگ رہا ہے ۔
حسنِ اتفاق دیکھے کہ اسی سے ملتی جلتی زمین میں میری بھی ایک پرانی غزل ہے ۔ اس کے ردیف قافیے بنائے نہ گئے اور سنائے نہ گئے وغیرہ تھے۔ آپ کی غزل پڑھ کر وہ یاد آگئی۔ اب ڈھونڈ کر نکالتا ہوں ۔ :)
 
بہت خوب! واہ ! کیا اچھی غزل ہے نمرہ صاحبہ !
؎ واقعہ عام نہ تھا دل کے اجڑ جانے کا
کیا اچھا مصرع ہے ! واہ!

ساتویں شعر کو ایک مرتبہ دیکھ لیجئے۔ اس میں ٹائپو لگ رہا ہے ۔
حسنِ اتفاق دیکھے کہ اسی سے ملتی جلتی زمین میں میری بھی ایک پرانی غزل ہے ۔ اس کے ردیف قافیے بنائے نہ گئے اور سنائے نہ گئے وغیرہ تھے۔ آپ کی غزل پڑھ کر وہ یاد آگئی۔ اب ڈھونڈ کر نکالتا ہوں ۔ :)
باز خوش آمدید۔ :)
 

نمرہ

محفلین
بہت خوب! واہ ! کیا اچھی غزل ہے نمرہ صاحبہ !
؎ واقعہ عام نہ تھا دل کے اجڑ جانے کا
کیا اچھا مصرع ہے ! واہ!

ساتویں شعر کو ایک مرتبہ دیکھ لیجئے۔ اس میں ٹائپو لگ رہا ہے ۔
حسنِ اتفاق دیکھے کہ اسی سے ملتی جلتی زمین میں میری بھی ایک پرانی غزل ہے ۔ اس کے ردیف قافیے بنائے نہ گئے اور سنائے نہ گئے وغیرہ تھے۔ آپ کی غزل پڑھ کر وہ یاد آگئی۔ اب ڈھونڈ کر نکالتا ہوں ۔ :)
بہت شکریہ ! ساتویں شعر کی نشاندہی کیجیے ، مجھے غلطی نہیں ملی اپنی۔ :)

نیز یہ کہ خوش آمدید۔:)
 

منیب الف

محفلین
ان سے دیکھا نہ گیا، مجھ سے دکھایا نہ گیا
ہجر کی رات کا دل سے کبھی سایا نہ گیا
آنکھ صحرا تھی کسی سے جہاں آیا نہ گیا
دل وہ نغمہ تھا کسی ساز پہ گایا نہ گیا
ہائے وہ چشم فسوں خیز کہ جس کا ہم نے
رنج اٹھانا کبھی چاہا تو اٹھایا نہ گیا
لوگ آئے بھی گئے بھی لئے حسرت دل میں
حال دل ہم سے کسی کو بھی سنایا نہ گیا
نقش گہرا تھا ترے عہد وفا کا اتنا
تو نے جب آپ مٹایا تو مٹایا نہ گیا
دین و دل عشق میں تج دینے پہ ہم راضی تھے
ایک پندار تھا اپنا کہ گنوایا نہ گیا
سننے والوں کا رہا اپنا تخیل شامل
ورنہ مفہوم سے لفظوں میں سمایا نہ گیا
جانے کیوں یار کے دروازے پہ جا پہنچے تھے
ہم کو پھر آپ میں اپنے کبھی پایا نہ گیا
واقعہ عام نہ تھا دل کے اجڑ جانے کا
ایک آنسو بھی مگر ہم سے بہایا نہ گیا
سازوسامان جو ہستی کا سنبھالے رکھا
غم کا سیلاب جب آیا تو بچایا نہ گیا
سادہ لوحی کا یہ اعجاز نہ پہلے دیکھا
لفظ پہنچے ہیں جہاں کوئی کنایا نہ گیا
کیا ہی دنیا کو سجانے کی تمنا رکھتے
کام اپنا بھی کوئی ہم سے بنایا نہ گیا
واہ، نمرہ صاحبہ!
کافی عرصے کے بعد آپ کی شاعری نظر سے گزری۔
ما شاء اللہ، بہت روانی اور زبان و بیان پر عبور حاصل کر لیا ہے آپ نے۔
یوں لگا جیسے میر تقی صاحب ہی سے کوئی غزل سن رہے ہیں۔
کیا ہی دلنشین اشعار ہیں!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت شکریہ ! ساتویں شعر کی نشاندہی کیجیے ، مجھے غلطی نہیں ملی اپنی۔ :)

نیز یہ کہ خوش آمدید۔:)

سننے والوں کا رہا اپنا تخیل شامل
ورنہ مفہوم سے لفظوں میں سمایا نہ گیا

میرا خیال تھا کہ یہاں ’’مفہوم سے‘‘ کے بجائے ’’مفہوم تو‘‘ لکھا ہوگا آپ نے ۔
 

نمرہ

محفلین
واہ، نمرہ صاحبہ!
کافی عرصے کے بعد آپ کی شاعری نظر سے گزری۔
ما شاء اللہ، بہت روانی اور زبان و بیان پر عبور حاصل کر لیا ہے آپ نے۔
یوں لگا جیسے میر تقی صاحب ہی سے کوئی غزل سن رہے ہیں۔
کیا ہی دلنشین اشعار ہیں!
ارے واہ، میر کی ہی انسپریشن تھی ان دنوں ! بہت شکریہ ، میر کے تو شاگرد ہیں ہم۔
 

نمرہ

محفلین
سننے والوں کا رہا اپنا تخیل شامل
ورنہ مفہوم سے لفظوں میں سمایا نہ گیا

میرا خیال تھا کہ یہاں ’’مفہوم سے‘‘ کے بجائے ’’مفہوم تو‘‘ لکھا ہوگا آپ نے ۔
میں نے واقعی سے ہی لکھا ہے۔ تو کے ساتھ زیادہ درست معلوم۔ہوتا ہے کیا ؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں نے واقعی سے ہی لکھا ہے۔ تو کے ساتھ زیادہ درست معلوم۔ہوتا ہے کیا ؟
جی ہاں ۔ مفہوم لفظوں میں سمایا جاتا ہے ۔ مفہوم خود تو کوئی چیز لفظوں میں نہیں سماتا ۔
مفہوم سے اگر لکھا جائے تو تعقید پیدا ہوتی ہے ۔ یعنی وہ کیا ہے جو مفہوم سے لفظوں میں سمایا نہ گیا ۔
 
آخری تدوین:
Top