نور وجدان
لائبریرین
میں کب سے آپ کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں اور آپ کے ارشاد کے مطابق وہی گن گاتا رہا ہوں جن کی آپ کو ضرورت تھی۔ آج میں آپ سے ایک اجازت مانگنے کی جرات کر رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ مجھے اس بات کی اجازت دیجیے کہ میں دبی زبان کی بجائے اونچی آواز میں یہ کہہ سکوں کہ جو انسان ان پڑھ ہوتا ہے اس کے پاس بھی اچھا اور ہائپوتھیلمس دماغ ہوتا ہے۔ وہ بھی سوچ سکتا ہے، وہ بھی سوچتا ہے۔ وہ بھی فاضل ہوتا ہے اور ہنر مند ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اور خاص طور پر ہمارے علاقے میں یہ بات بہت عام ہو گئی ہے کہ صرف پڑھا لکھا آدمی ہی لائق ہوتا ہے اور جو “ پینڈو “ آدمی ہے اور انگوٹھا چھاپ ہے اس کو اللہ نے دانش ہی نہیں دی ہے۔ اس سوچ نے ہماری زندگیوں میں ایک بہت بڑا رخنہ پیدا کر دیا ہے اور ہم ایک دوسرے سے جدا ہو گئے ہیں۔ ہمیں سیاسی، سماجی اور نفسیاتی طور پر بڑی شدت کا نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ دوسرے ملکوں والے اپنی اجتماعی زندگی میں اس نقصان کے متاثرہ نہیں ہیں۔ ہماری چودہ کروڑ کی اتنی بڑی کمیونٹی ہے۔ اس کو ہم نے ایک طرف رکھا ہوا ہے اور میں آپ اور ہم سب جو سمجھدار لوگ ہیں جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ دو لاکھ بنتی ہے ہم نے سارا حساب و کتاب سنبھال کے رکھا ہوا ہے اور اصل میں ہم ہی اس ملک کے آقا اور حکمران بنے بیٹھے ہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں اور دست بستہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ لوگ بھی ہمارے ساتھی ہیں۔ پنکچر لگانے والا، سائن بورڈ لگانے والا، بڑھئ، ترکھان بھی اپنے اندر ایک ہنر رکھتا ہے۔ اگر ہم اس کو سلام نہ کر سکیں تو کم از کم ان کے لیے دل میں یہ احترام تو رکھیں کہ یہ ویلڈر جس نے کالے رنگ کی عینک پہن رکھی ہے اور ٹانکا لگا رہا ہے وہ بھی تقریباً اتنا ہی علم رکھتا ہے جتنا ہارٹ سرجن یا بائ پاس کرنے والے کا علم ہوتا ہے لیکن ہم نے ایسے ہنر مندوں کو ایک طرف رکھا ہوا ہے۔
زاویہ دوئم، باب اڑتیس سے اقتباس
زاویہ دوئم، باب اڑتیس سے اقتباس