arifkarim
معطل
ان کتابوں کو جلا دیجیے
نہیں، میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں – کتابیں کبھی نہیں جلانی چاہئیں – اس کی بجائے ان کتابوں کے کاغذ کو دوبارہ استعمال کیجیے، ان میں سبزی یا مچھلی لپیٹیے، یا انہیں اس طریقے سے ضائع کیجیے کہ ماحول کی آلودگی میں اضافہ نہ ہو – لیکن از راہِ عنایت ہمارے طلباء کو سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ (جو کہ سندھ کی وزارتِ تعلیم کے ماتحت ایک محکمہ ہے) کی شائع کردہ سائنس کی کتابوں سے دور رکھیے ۔
نہیں تو ہمارے طلباء کی ایک اور نسل فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی، اور ریاضی جیسے مضامین سے نا آشنا رہے گی اور ان کتابوں کی بدولت انسان کے ان عظیم کارناموں کو بے فائدہ اور خشک سمجھ کر ان سے بیزار رہے گی ۔اس وقت میرے پاس سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں کا ایک ڈھیر پڑا ہے – یہ تمام کتابیں چوتھی جماعت سے دسویں جماعت کے طلباء (جن کی عمریں عام طور پر 10 سے 16 سال تک کی ہوتی ہیں) کے لیے شائع کی گئی ہیں اور آج کل سندھ کے سکولوں میں زیرِ استعمال ہیں ۔
اس کے علاوہ میرے پاس چوتھی اور پانچویں جماعت کے طلباء کے لیے جنرل سائنس کی کتابوں کے غیر مطبوعہ نسخے موجود ہیں جو اگلے سال شائع ہوں گے ۔ جوں جوں میں یہ کتابیں پڑھ رہا ہوں میرے خون کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور میں احتیاطاً پانی پیتا جا رہا ہوں ۔ذرا سندھ کے چوتھی جماعت کے طلباء پر ظلم کا اندازہ کیجیے جن کی مادری زبان انگریزی نہیں ہے لیکن انہیں انگریزی میں لکھی گئی کتابوں میں
‘obesity’، ‘ulcer’، ‘characteristics’، ‘interpret’، ‘deficiency’ ، ‘ ‘osteoporosis، ’decomposers’ ،‘ecoregion’ ‘translucent’ ،‘trough’ ،‘lukewarm’ ، اور ‘constriction’
جیسے مشکل الفاظ پڑھنا پڑتے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان کے معانی بھی انہیں نہیں بتائے جاتے۔پانچویں جماعت کے بچوں کو
‘monocotyledonous’ اور ‘dicotyledonous’
جیسے لحیم شحیم الفاظ سے ڈرایا جاتا ہے۔ ان غیر معیاری کتابوں میں ناقابلِ فہم اشکال کے علاوہ ہجوں اور کیپٹلائزیشن کی سینکڑوں غلطیاں موجود ہیں۔زبان کی غلطیوں سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ ان کتابوں میں متن کی غلطیاں ہیں ۔
فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے کے باوجود میں ایسے سوالات کے لیے تیار نہیں تھا ‘مادہ ایک حالت (ٹھوس، مائع، اور گیس) سے دوسری حالتوں میں کیسے تبدیل ہوتا ہے‘، ‘کسی جسم پر جتنی زیادہ قوت استعمال کی جائے وہ جسم اتنا ہی زیادہ فاصلہ طے کرے گا ۔ اس اصول کی تشریح کیجیے‘ ۔
بجلی کے سرکٹ کے بارے میں یہ جملہ ملاحظہ فرمائیے: ‘بجلی کا سرکٹ ایسی چیز ہے جو بجلی کو توانائی کی دوسری اشکال مثلاً حرارت، روشنی اور دوسری اشکال میں تبدیل کرتی ہے‘ ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کو نہ صرف سائنس کا علم نہیں ہے بلکہ اس میں عقلِ سلیم کا بھی فقدان ہے اردو میں لکھی گئی سائنس کی کتب کا حال بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کتابوں کے مصنفین کا اصل مسئلہ زبان کی کم علمی نہیں بلکہ سائنس کی سمجھ کا فقدان ہے ۔
ان مصنفین کی طرح زیادہ تر اساتذہ کو بھی سائنس کی سمجھ بوجھ نہیں ہے لہٰذا وہ اپنے طلباء کو سائنس کا ہر مضمون محض رٹے سے یاد کرواتے ہیں ان کتابوں میں ریاضی (ایک خوبصورت مضمون جو انسان کی منطقی سوچ اور استدلال کی قابلیت کو نکھارتا ہے) کی مشقیں محض بےمعنی اقدامات بن کر رہ جاتی ہیں جو ذہنوں کو مردہ کرچھوڑتی ہیں اور ایسے طلباء پیدا کرتی ہیں جن میں منطق یا سمجھ بوجھ کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔
میں نے نویں اور دسویں جماعت کی ریاضی کی کتابوں میں اس بات کی وضاحت کو بہت تلاش کیا کہ بچوں کو لاگرتھم یا میٹرکس کے بارے میں کیوں پڑھایا جاتا ہے لیکن کہیں اس سوال کا جواب نہیں ملا ۔ اگر ہمارے 15 سال کے بچے کوریا کے نو سال کے بچوں سے بھی کم ریاضی جانتے ہیں تو اب ہمیں معلوم ہو جانا چاہیے کہ اس کی وجہ کیا ہے ۔
اردو میں لکھی گئی نویں اور دسویں جماعت کی بائیولوجی کی کتاب بھی انتہائی غیر معیاری ہے ۔ اس میں زندگی کے ارتقاء سے متعلق انگریزی میں لکھا گیا ایک چارٹ ہے جو غالباً کسی اور کتاب سے بغیر حوالہ دیے چرایا گیا ہے ۔ پوری کتاب کے متن میں اس چارٹ کے مندرجات کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ اس بات پر بھی کوئی بحث نہیں کی گئی کہ زندگی کیسے شروع ہوئی سوائے یہ کہنے کے کہ مذہبی نقطہِ نگاہ سے زندگی کا آغاز پانی سے ہوا ۔
بہت سے پودوں اور جانوروں کے نام دیے گئے ہیں اور ان کی تفصیلات بتائی گئی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ حیاتیات کی سائنس میں ایسی معلومات کیسے اکٹھا کی جاتی ہیں اور ان سے کیا نتائج نکالے جاسکتے ہیں۔ نویں اور دسویں جماعت کے لیے لکھی گئی طبیعات کی کتاب شاید باقی سب کتابوں سے بازی لے گئی ۔ اس کتاب کے مصنفین کا دعویٰ ہے کہ اس کتاب میں طبیعات کی بابت اتنی معلومات شامل ہیں کہ طلباء کو کسی اور کتاب کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ۔
کچھ ہی صفحوں کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ کائنات کچھ لاکھ سال پہلے صرف ایک حرف کے ادا ہونے سے وجود میں آئی ۔ کائنات کی اصل عمر کا اندازہ 13 ارب سال سے زیادہ ہے اور یوں یہ کتاب کائنات کی عمر کا اندازہ اصل سے لاکھوں گنا کم بتلاتی ہے۔
قارئین سے میری درخواست ہے کہ وہ خود سوچیں کہ سندھ ٹیکسٹ بورڈ کی ہر کتاب کے کم از کم چھ مصنفین کیوں ہیں (زیادہ تر کتابوں کے مصنفین کی تعداد نو سے بارہ تک ہے) – اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس لوٹ مار کے کاروبار میں بہت سے لوگ حصہ دار بننا چاہتے ہیں ۔ کتابوں کے معیار کی کسے پرواہ ہے؟ چنانچہ اگر ان کتابوں کا متن بے ربط ہے تو اس میں کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے ۔ مثال کے طور پر بائیولوجی کی ایک کتاب میں زیادہ خلیوں والے جانوروں کا پہلے ذکر ہے اور اس کے بعد کے ایک باب میں واحد خلیے والے جانوروں کا تعارف کروایا گیا ہے ۔
آئیے ذرا ان کتابوں کے معاشی پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں ۔
سندھ کی آبادی تقریباً تین کروڑ ہے لہٰذا چوتھی جماعت کی ہر کتاب کی کم از کم تین سے چار لاکھ کاپیاں فروخت ہونگی ۔ اسے چوتھی جماعت میں پڑھائے جانے والے مضامین کی تعداد سے ضرب دیجیے اور پھر ہر کتاب کی 150 روپے کے لگ بھگ قیمت دیکھیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ اربوں روپے کا کاروبار ہے ۔ ان کتابوں کے ناشرین، تقسیم کار، مصنفین، اور مینیجرز، سب اجارہ داری کی کمزوریاں بخوبی سمجھتے ہیں ۔ ہمارے جیسے غیرشفاف نظام میں اس اجارہ داری سے فائدہ کون اٹھاتا ہے اس کا فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں ۔
وقت آ چکا ہے کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ (اور اسی قسم کے دوسرے اداروں مثلاً پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے ٹیکسٹ بک بورڈز) کو توڑ دیا جائے ۔ اب تک دی گئی مثالوں سے صاف ظاہر ہے کہ سائنس کی معیاری کتابیں مہیا کرنے کے لیے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے پاس نہ تو کوئی ذہنی قابلیت ہے اور نہ ہی تنظیمی دیانت داری ۔
اگرچہ حکومتی اداروں میں پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز بدانتظامی کی وجہ سے بدنام ہیں لیکن وہ بھی سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی نسبت بہتر معیار کا مال فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے پروفیسرز کی لکھی گئی سائنس کی درسی کتب کے ساتھ بہت سے مسائل ہیں ۔ اس میں قصور کالج کے پروفیسرز کا بھی نہیں ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ان پروفیسرز کی اپنی تعلیم بھی غیر معیاری ہی رہی ہے ۔ ان میں سے زیادہ تر اپنے مضامین کو خود بھی نہیں سمجھ پاتے اور ‘اے لیول‘ اور ‘او لیول‘ کی درسی کتب کی بہت سی مشقیں حل نہیں کر پاتے ۔
انہی نا اہل افراد کو سندھ کی نئی نسل کی تعلیم کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ اس مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ مقامی مصنفین پر تجربات کرنے کی بجائے ہم غیر ملکی مگر معیاری کتب کے حقوق خرید لیں اور ان کا ترجمہ اور حسبِ ضرورت ترامیم کرواکر انہیں سستے داموں چھپوائیں ۔ یہ دلیل مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے کہ سائنس اور ریاضی کی کتابیں پاکستانی معاشرے کی عکاس ہونی چاہئیں ۔
پانی کا فارمولا(ایچ ٹو او) پاکستان میں بھی وہی ہے اور جو باقی دنیا میں ہے، ہر جگہ دو اور دو چار ہی ہوتے ہیں ۔ پاکستان کے کالجز اور یونیورسیٹیز پہلے ہی غیر ملکی مصنفین کی کتابیں بی ایس سی، ایم ایس سی، ایم فِل، اور پی ایچ ڈی کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ اسی اصول کو ہمارے سکولوں پر لاگو کیوں نہیں کیا جاسکتا اور ہم اپنے سکولوں کے سائنس کے سلیبس کو باقی ملکوں کے برابر کیوں نہیں بنا سکتے؟
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو معیاری کتابیں سستے داموں فراہم کریں اور ایسا صرف اسی وقت ممکن ہے جب بہت سے ناشرین کو اجازت ہو کہ وہ بچوں کی معیاری درسی کتابیں چھاپیں اور بیچیں ۔ محض مقامی مصنفین کی کتابوں کو بیچنے کی اجازت دینا بچوں کو معیاری کتابوں سے دور رکھنے کے مترادف ہے ۔ یہ مصنفین اور ان کے احباب قومی یا صوبائی حمیت کا سوال اٹھاتے ہیں لیکن اصل مسئلہ بے انتہا منافع کا ہے ۔
ان مفاد پرستوں نے اصلاحات کا دروازہ کامیابی کے ساتھ بند کر رکھا ہے اور بدقسمتی سے یہ کاروبار یونہی چلتا رہے گا ۔ سندھ کے وہ چند خوش قسمت بچے جو ‘اے لیول‘ اور ‘او لیول‘ سکولوں میں تعلیم پاتے ہیں اور غیر ملکی مصنفین کی کتابیں پڑھتے ہیں بہتر تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ باقی بچوں کی حالتِ زار پر ہم صرف آنسو ہی بہا سکتے ہیں ۔
حوالہ
فاتح قیصرانی محمد وارث
نہیں تو ہمارے طلباء کی ایک اور نسل فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی، اور ریاضی جیسے مضامین سے نا آشنا رہے گی اور ان کتابوں کی بدولت انسان کے ان عظیم کارناموں کو بے فائدہ اور خشک سمجھ کر ان سے بیزار رہے گی ۔اس وقت میرے پاس سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں کا ایک ڈھیر پڑا ہے – یہ تمام کتابیں چوتھی جماعت سے دسویں جماعت کے طلباء (جن کی عمریں عام طور پر 10 سے 16 سال تک کی ہوتی ہیں) کے لیے شائع کی گئی ہیں اور آج کل سندھ کے سکولوں میں زیرِ استعمال ہیں ۔
اس کے علاوہ میرے پاس چوتھی اور پانچویں جماعت کے طلباء کے لیے جنرل سائنس کی کتابوں کے غیر مطبوعہ نسخے موجود ہیں جو اگلے سال شائع ہوں گے ۔ جوں جوں میں یہ کتابیں پڑھ رہا ہوں میرے خون کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور میں احتیاطاً پانی پیتا جا رہا ہوں ۔ذرا سندھ کے چوتھی جماعت کے طلباء پر ظلم کا اندازہ کیجیے جن کی مادری زبان انگریزی نہیں ہے لیکن انہیں انگریزی میں لکھی گئی کتابوں میں
‘obesity’، ‘ulcer’، ‘characteristics’، ‘interpret’، ‘deficiency’ ، ‘ ‘osteoporosis، ’decomposers’ ،‘ecoregion’ ‘translucent’ ،‘trough’ ،‘lukewarm’ ، اور ‘constriction’
جیسے مشکل الفاظ پڑھنا پڑتے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان کے معانی بھی انہیں نہیں بتائے جاتے۔پانچویں جماعت کے بچوں کو
‘monocotyledonous’ اور ‘dicotyledonous’
جیسے لحیم شحیم الفاظ سے ڈرایا جاتا ہے۔ ان غیر معیاری کتابوں میں ناقابلِ فہم اشکال کے علاوہ ہجوں اور کیپٹلائزیشن کی سینکڑوں غلطیاں موجود ہیں۔زبان کی غلطیوں سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ ان کتابوں میں متن کی غلطیاں ہیں ۔
فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے کے باوجود میں ایسے سوالات کے لیے تیار نہیں تھا ‘مادہ ایک حالت (ٹھوس، مائع، اور گیس) سے دوسری حالتوں میں کیسے تبدیل ہوتا ہے‘، ‘کسی جسم پر جتنی زیادہ قوت استعمال کی جائے وہ جسم اتنا ہی زیادہ فاصلہ طے کرے گا ۔ اس اصول کی تشریح کیجیے‘ ۔
بجلی کے سرکٹ کے بارے میں یہ جملہ ملاحظہ فرمائیے: ‘بجلی کا سرکٹ ایسی چیز ہے جو بجلی کو توانائی کی دوسری اشکال مثلاً حرارت، روشنی اور دوسری اشکال میں تبدیل کرتی ہے‘ ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کو نہ صرف سائنس کا علم نہیں ہے بلکہ اس میں عقلِ سلیم کا بھی فقدان ہے اردو میں لکھی گئی سائنس کی کتب کا حال بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کتابوں کے مصنفین کا اصل مسئلہ زبان کی کم علمی نہیں بلکہ سائنس کی سمجھ کا فقدان ہے ۔
ان مصنفین کی طرح زیادہ تر اساتذہ کو بھی سائنس کی سمجھ بوجھ نہیں ہے لہٰذا وہ اپنے طلباء کو سائنس کا ہر مضمون محض رٹے سے یاد کرواتے ہیں ان کتابوں میں ریاضی (ایک خوبصورت مضمون جو انسان کی منطقی سوچ اور استدلال کی قابلیت کو نکھارتا ہے) کی مشقیں محض بےمعنی اقدامات بن کر رہ جاتی ہیں جو ذہنوں کو مردہ کرچھوڑتی ہیں اور ایسے طلباء پیدا کرتی ہیں جن میں منطق یا سمجھ بوجھ کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔
میں نے نویں اور دسویں جماعت کی ریاضی کی کتابوں میں اس بات کی وضاحت کو بہت تلاش کیا کہ بچوں کو لاگرتھم یا میٹرکس کے بارے میں کیوں پڑھایا جاتا ہے لیکن کہیں اس سوال کا جواب نہیں ملا ۔ اگر ہمارے 15 سال کے بچے کوریا کے نو سال کے بچوں سے بھی کم ریاضی جانتے ہیں تو اب ہمیں معلوم ہو جانا چاہیے کہ اس کی وجہ کیا ہے ۔
اردو میں لکھی گئی نویں اور دسویں جماعت کی بائیولوجی کی کتاب بھی انتہائی غیر معیاری ہے ۔ اس میں زندگی کے ارتقاء سے متعلق انگریزی میں لکھا گیا ایک چارٹ ہے جو غالباً کسی اور کتاب سے بغیر حوالہ دیے چرایا گیا ہے ۔ پوری کتاب کے متن میں اس چارٹ کے مندرجات کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ اس بات پر بھی کوئی بحث نہیں کی گئی کہ زندگی کیسے شروع ہوئی سوائے یہ کہنے کے کہ مذہبی نقطہِ نگاہ سے زندگی کا آغاز پانی سے ہوا ۔
بہت سے پودوں اور جانوروں کے نام دیے گئے ہیں اور ان کی تفصیلات بتائی گئی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ حیاتیات کی سائنس میں ایسی معلومات کیسے اکٹھا کی جاتی ہیں اور ان سے کیا نتائج نکالے جاسکتے ہیں۔ نویں اور دسویں جماعت کے لیے لکھی گئی طبیعات کی کتاب شاید باقی سب کتابوں سے بازی لے گئی ۔ اس کتاب کے مصنفین کا دعویٰ ہے کہ اس کتاب میں طبیعات کی بابت اتنی معلومات شامل ہیں کہ طلباء کو کسی اور کتاب کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ۔
کچھ ہی صفحوں کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ کائنات کچھ لاکھ سال پہلے صرف ایک حرف کے ادا ہونے سے وجود میں آئی ۔ کائنات کی اصل عمر کا اندازہ 13 ارب سال سے زیادہ ہے اور یوں یہ کتاب کائنات کی عمر کا اندازہ اصل سے لاکھوں گنا کم بتلاتی ہے۔
قارئین سے میری درخواست ہے کہ وہ خود سوچیں کہ سندھ ٹیکسٹ بورڈ کی ہر کتاب کے کم از کم چھ مصنفین کیوں ہیں (زیادہ تر کتابوں کے مصنفین کی تعداد نو سے بارہ تک ہے) – اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس لوٹ مار کے کاروبار میں بہت سے لوگ حصہ دار بننا چاہتے ہیں ۔ کتابوں کے معیار کی کسے پرواہ ہے؟ چنانچہ اگر ان کتابوں کا متن بے ربط ہے تو اس میں کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے ۔ مثال کے طور پر بائیولوجی کی ایک کتاب میں زیادہ خلیوں والے جانوروں کا پہلے ذکر ہے اور اس کے بعد کے ایک باب میں واحد خلیے والے جانوروں کا تعارف کروایا گیا ہے ۔
آئیے ذرا ان کتابوں کے معاشی پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں ۔
سندھ کی آبادی تقریباً تین کروڑ ہے لہٰذا چوتھی جماعت کی ہر کتاب کی کم از کم تین سے چار لاکھ کاپیاں فروخت ہونگی ۔ اسے چوتھی جماعت میں پڑھائے جانے والے مضامین کی تعداد سے ضرب دیجیے اور پھر ہر کتاب کی 150 روپے کے لگ بھگ قیمت دیکھیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ اربوں روپے کا کاروبار ہے ۔ ان کتابوں کے ناشرین، تقسیم کار، مصنفین، اور مینیجرز، سب اجارہ داری کی کمزوریاں بخوبی سمجھتے ہیں ۔ ہمارے جیسے غیرشفاف نظام میں اس اجارہ داری سے فائدہ کون اٹھاتا ہے اس کا فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں ۔
وقت آ چکا ہے کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ (اور اسی قسم کے دوسرے اداروں مثلاً پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے ٹیکسٹ بک بورڈز) کو توڑ دیا جائے ۔ اب تک دی گئی مثالوں سے صاف ظاہر ہے کہ سائنس کی معیاری کتابیں مہیا کرنے کے لیے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے پاس نہ تو کوئی ذہنی قابلیت ہے اور نہ ہی تنظیمی دیانت داری ۔
اگرچہ حکومتی اداروں میں پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز بدانتظامی کی وجہ سے بدنام ہیں لیکن وہ بھی سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی نسبت بہتر معیار کا مال فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے پروفیسرز کی لکھی گئی سائنس کی درسی کتب کے ساتھ بہت سے مسائل ہیں ۔ اس میں قصور کالج کے پروفیسرز کا بھی نہیں ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ان پروفیسرز کی اپنی تعلیم بھی غیر معیاری ہی رہی ہے ۔ ان میں سے زیادہ تر اپنے مضامین کو خود بھی نہیں سمجھ پاتے اور ‘اے لیول‘ اور ‘او لیول‘ کی درسی کتب کی بہت سی مشقیں حل نہیں کر پاتے ۔
انہی نا اہل افراد کو سندھ کی نئی نسل کی تعلیم کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ اس مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ مقامی مصنفین پر تجربات کرنے کی بجائے ہم غیر ملکی مگر معیاری کتب کے حقوق خرید لیں اور ان کا ترجمہ اور حسبِ ضرورت ترامیم کرواکر انہیں سستے داموں چھپوائیں ۔ یہ دلیل مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے کہ سائنس اور ریاضی کی کتابیں پاکستانی معاشرے کی عکاس ہونی چاہئیں ۔
پانی کا فارمولا(ایچ ٹو او) پاکستان میں بھی وہی ہے اور جو باقی دنیا میں ہے، ہر جگہ دو اور دو چار ہی ہوتے ہیں ۔ پاکستان کے کالجز اور یونیورسیٹیز پہلے ہی غیر ملکی مصنفین کی کتابیں بی ایس سی، ایم ایس سی، ایم فِل، اور پی ایچ ڈی کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ اسی اصول کو ہمارے سکولوں پر لاگو کیوں نہیں کیا جاسکتا اور ہم اپنے سکولوں کے سائنس کے سلیبس کو باقی ملکوں کے برابر کیوں نہیں بنا سکتے؟
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو معیاری کتابیں سستے داموں فراہم کریں اور ایسا صرف اسی وقت ممکن ہے جب بہت سے ناشرین کو اجازت ہو کہ وہ بچوں کی معیاری درسی کتابیں چھاپیں اور بیچیں ۔ محض مقامی مصنفین کی کتابوں کو بیچنے کی اجازت دینا بچوں کو معیاری کتابوں سے دور رکھنے کے مترادف ہے ۔ یہ مصنفین اور ان کے احباب قومی یا صوبائی حمیت کا سوال اٹھاتے ہیں لیکن اصل مسئلہ بے انتہا منافع کا ہے ۔
ان مفاد پرستوں نے اصلاحات کا دروازہ کامیابی کے ساتھ بند کر رکھا ہے اور بدقسمتی سے یہ کاروبار یونہی چلتا رہے گا ۔ سندھ کے وہ چند خوش قسمت بچے جو ‘اے لیول‘ اور ‘او لیول‘ سکولوں میں تعلیم پاتے ہیں اور غیر ملکی مصنفین کی کتابیں پڑھتے ہیں بہتر تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ باقی بچوں کی حالتِ زار پر ہم صرف آنسو ہی بہا سکتے ہیں ۔
حوالہ
فاتح قیصرانی محمد وارث