ان کتابوں کو جلا دیجیے!

arifkarim

معطل
ان کتابوں کو جلا دیجیے

ڈاکٹر پرویز ہودبھائی​
نہیں، میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں – کتابیں کبھی نہیں جلانی چاہئیں – اس کی بجائے ان کتابوں کے کاغذ کو دوبارہ استعمال کیجیے، ان میں سبزی یا مچھلی لپیٹیے، یا انہیں اس طریقے سے ضائع کیجیے کہ ماحول کی آلودگی میں اضافہ نہ ہو – لیکن از راہِ عنایت ہمارے طلباء کو سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ (جو کہ سندھ کی وزارتِ تعلیم کے ماتحت ایک محکمہ ہے) کی شائع کردہ سائنس کی کتابوں سے دور رکھیے ۔
نہیں تو ہمارے طلباء کی ایک اور نسل فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی، اور ریاضی جیسے مضامین سے نا آشنا رہے گی اور ان کتابوں کی بدولت انسان کے ان عظیم کارناموں کو بے فائدہ اور خشک سمجھ کر ان سے بیزار رہے گی ۔اس وقت میرے پاس سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں کا ایک ڈھیر پڑا ہے – یہ تمام کتابیں چوتھی جماعت سے دسویں جماعت کے طلباء (جن کی عمریں عام طور پر 10 سے 16 سال تک کی ہوتی ہیں) کے لیے شائع کی گئی ہیں اور آج کل سندھ کے سکولوں میں زیرِ استعمال ہیں ۔
اس کے علاوہ میرے پاس چوتھی اور پانچویں جماعت کے طلباء کے لیے جنرل سائنس کی کتابوں کے غیر مطبوعہ نسخے موجود ہیں جو اگلے سال شائع ہوں گے ۔ جوں جوں میں یہ کتابیں پڑھ رہا ہوں میرے خون کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور میں احتیاطاً پانی پیتا جا رہا ہوں ۔ذرا سندھ کے چوتھی جماعت کے طلباء پر ظلم کا اندازہ کیجیے جن کی مادری زبان انگریزی نہیں ہے لیکن انہیں انگریزی میں لکھی گئی کتابوں میں
‘obesity’، ‘ulcer’، ‘characteristics’، ‘interpret’، ‘deficiency’ ، ‘ ‘osteoporosis، ’decomposers’ ،‘ecoregion’ ‘translucent’ ،‘trough’ ،‘lukewarm’ ، اور ‘constriction’
جیسے مشکل الفاظ پڑھنا پڑتے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان کے معانی بھی انہیں نہیں بتائے جاتے۔پانچویں جماعت کے بچوں کو
‘monocotyledonous’ اور ‘dicotyledonous’
جیسے لحیم شحیم الفاظ سے ڈرایا جاتا ہے۔ ان غیر معیاری کتابوں میں ناقابلِ فہم اشکال کے علاوہ ہجوں اور کیپٹلائزیشن کی سینکڑوں غلطیاں موجود ہیں۔زبان کی غلطیوں سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ ان کتابوں میں متن کی غلطیاں ہیں ۔
فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے کے باوجود میں ایسے سوالات کے لیے تیار نہیں تھا ‘مادہ ایک حالت (ٹھوس، مائع، اور گیس) سے دوسری حالتوں میں کیسے تبدیل ہوتا ہے‘، ‘کسی جسم پر جتنی زیادہ قوت استعمال کی جائے وہ جسم اتنا ہی زیادہ فاصلہ طے کرے گا ۔ اس اصول کی تشریح کیجیے‘ ۔
بجلی کے سرکٹ کے بارے میں یہ جملہ ملاحظہ فرمائیے: ‘بجلی کا سرکٹ ایسی چیز ہے جو بجلی کو توانائی کی دوسری اشکال مثلاً حرارت، روشنی اور دوسری اشکال میں تبدیل کرتی ہے‘ ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کو نہ صرف سائنس کا علم نہیں ہے بلکہ اس میں عقلِ سلیم کا بھی فقدان ہے اردو میں لکھی گئی سائنس کی کتب کا حال بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کتابوں کے مصنفین کا اصل مسئلہ زبان کی کم علمی نہیں بلکہ سائنس کی سمجھ کا فقدان ہے ۔
ان مصنفین کی طرح زیادہ تر اساتذہ کو بھی سائنس کی سمجھ بوجھ نہیں ہے لہٰذا وہ اپنے طلباء کو سائنس کا ہر مضمون محض رٹے سے یاد کرواتے ہیں ان کتابوں میں ریاضی (ایک خوبصورت مضمون جو انسان کی منطقی سوچ اور استدلال کی قابلیت کو نکھارتا ہے) کی مشقیں محض بےمعنی اقدامات بن کر رہ جاتی ہیں جو ذہنوں کو مردہ کرچھوڑتی ہیں اور ایسے طلباء پیدا کرتی ہیں جن میں منطق یا سمجھ بوجھ کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔
میں نے نویں اور دسویں جماعت کی ریاضی کی کتابوں میں اس بات کی وضاحت کو بہت تلاش کیا کہ بچوں کو لاگرتھم یا میٹرکس کے بارے میں کیوں پڑھایا جاتا ہے لیکن کہیں اس سوال کا جواب نہیں ملا ۔ اگر ہمارے 15 سال کے بچے کوریا کے نو سال کے بچوں سے بھی کم ریاضی جانتے ہیں تو اب ہمیں معلوم ہو جانا چاہیے کہ اس کی وجہ کیا ہے ۔
اردو میں لکھی گئی نویں اور دسویں جماعت کی بائیولوجی کی کتاب بھی انتہائی غیر معیاری ہے ۔ اس میں زندگی کے ارتقاء سے متعلق انگریزی میں لکھا گیا ایک چارٹ ہے جو غالباً کسی اور کتاب سے بغیر حوالہ دیے چرایا گیا ہے ۔ پوری کتاب کے متن میں اس چارٹ کے مندرجات کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ اس بات پر بھی کوئی بحث نہیں کی گئی کہ زندگی کیسے شروع ہوئی سوائے یہ کہنے کے کہ مذہبی نقطہِ نگاہ سے زندگی کا آغاز پانی سے ہوا ۔
بہت سے پودوں اور جانوروں کے نام دیے گئے ہیں اور ان کی تفصیلات بتائی گئی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ حیاتیات کی سائنس میں ایسی معلومات کیسے اکٹھا کی جاتی ہیں اور ان سے کیا نتائج نکالے جاسکتے ہیں۔ نویں اور دسویں جماعت کے لیے لکھی گئی طبیعات کی کتاب شاید باقی سب کتابوں سے بازی لے گئی ۔ اس کتاب کے مصنفین کا دعویٰ ہے کہ اس کتاب میں طبیعات کی بابت اتنی معلومات شامل ہیں کہ طلباء کو کسی اور کتاب کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ۔
کچھ ہی صفحوں کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ کائنات کچھ لاکھ سال پہلے صرف ایک حرف کے ادا ہونے سے وجود میں آئی ۔ کائنات کی اصل عمر کا اندازہ 13 ارب سال سے زیادہ ہے اور یوں یہ کتاب کائنات کی عمر کا اندازہ اصل سے لاکھوں گنا کم بتلاتی ہے۔
قارئین سے میری درخواست ہے کہ وہ خود سوچیں کہ سندھ ٹیکسٹ بورڈ کی ہر کتاب کے کم از کم چھ مصنفین کیوں ہیں (زیادہ تر کتابوں کے مصنفین کی تعداد نو سے بارہ تک ہے) – اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس لوٹ مار کے کاروبار میں بہت سے لوگ حصہ دار بننا چاہتے ہیں ۔ کتابوں کے معیار کی کسے پرواہ ہے؟ چنانچہ اگر ان کتابوں کا متن بے ربط ہے تو اس میں کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے ۔ مثال کے طور پر بائیولوجی کی ایک کتاب میں زیادہ خلیوں والے جانوروں کا پہلے ذکر ہے اور اس کے بعد کے ایک باب میں واحد خلیے والے جانوروں کا تعارف کروایا گیا ہے ۔
آئیے ذرا ان کتابوں کے معاشی پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں ۔
سندھ کی آبادی تقریباً تین کروڑ ہے لہٰذا چوتھی جماعت کی ہر کتاب کی کم از کم تین سے چار لاکھ کاپیاں فروخت ہونگی ۔ اسے چوتھی جماعت میں پڑھائے جانے والے مضامین کی تعداد سے ضرب دیجیے اور پھر ہر کتاب کی 150 روپے کے لگ بھگ قیمت دیکھیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ اربوں روپے کا کاروبار ہے ۔ ان کتابوں کے ناشرین، تقسیم کار، مصنفین، اور مینیجرز، سب اجارہ داری کی کمزوریاں بخوبی سمجھتے ہیں ۔ ہمارے جیسے غیرشفاف نظام میں اس اجارہ داری سے فائدہ کون اٹھاتا ہے اس کا فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں ۔
وقت آ چکا ہے کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ (اور اسی قسم کے دوسرے اداروں مثلاً پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے ٹیکسٹ بک بورڈز) کو توڑ دیا جائے ۔ اب تک دی گئی مثالوں سے صاف ظاہر ہے کہ سائنس کی معیاری کتابیں مہیا کرنے کے لیے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے پاس نہ تو کوئی ذہنی قابلیت ہے اور نہ ہی تنظیمی دیانت داری ۔
اگرچہ حکومتی اداروں میں پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز بدانتظامی کی وجہ سے بدنام ہیں لیکن وہ بھی سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی نسبت بہتر معیار کا مال فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے پروفیسرز کی لکھی گئی سائنس کی درسی کتب کے ساتھ بہت سے مسائل ہیں ۔ اس میں قصور کالج کے پروفیسرز کا بھی نہیں ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ان پروفیسرز کی اپنی تعلیم بھی غیر معیاری ہی رہی ہے ۔ ان میں سے زیادہ تر اپنے مضامین کو خود بھی نہیں سمجھ پاتے اور ‘اے لیول‘ اور ‘او لیول‘ کی درسی کتب کی بہت سی مشقیں حل نہیں کر پاتے ۔
انہی نا اہل افراد کو سندھ کی نئی نسل کی تعلیم کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ اس مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ مقامی مصنفین پر تجربات کرنے کی بجائے ہم غیر ملکی مگر معیاری کتب کے حقوق خرید لیں اور ان کا ترجمہ اور حسبِ ضرورت ترامیم کرواکر انہیں سستے داموں چھپوائیں ۔ یہ دلیل مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے کہ سائنس اور ریاضی کی کتابیں پاکستانی معاشرے کی عکاس ہونی چاہئیں ۔
پانی کا فارمولا(ایچ ٹو او) پاکستان میں بھی وہی ہے اور جو باقی دنیا میں ہے، ہر جگہ دو اور دو چار ہی ہوتے ہیں ۔ پاکستان کے کالجز اور یونیورسیٹیز پہلے ہی غیر ملکی مصنفین کی کتابیں بی ایس سی، ایم ایس سی، ایم فِل، اور پی ایچ ڈی کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ اسی اصول کو ہمارے سکولوں پر لاگو کیوں نہیں کیا جاسکتا اور ہم اپنے سکولوں کے سائنس کے سلیبس کو باقی ملکوں کے برابر کیوں نہیں بنا سکتے؟
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو معیاری کتابیں سستے داموں فراہم کریں اور ایسا صرف اسی وقت ممکن ہے جب بہت سے ناشرین کو اجازت ہو کہ وہ بچوں کی معیاری درسی کتابیں چھاپیں اور بیچیں ۔ محض مقامی مصنفین کی کتابوں کو بیچنے کی اجازت دینا بچوں کو معیاری کتابوں سے دور رکھنے کے مترادف ہے ۔ یہ مصنفین اور ان کے احباب قومی یا صوبائی حمیت کا سوال اٹھاتے ہیں لیکن اصل مسئلہ بے انتہا منافع کا ہے ۔
ان مفاد پرستوں نے اصلاحات کا دروازہ کامیابی کے ساتھ بند کر رکھا ہے اور بدقسمتی سے یہ کاروبار یونہی چلتا رہے گا ۔ سندھ کے وہ چند خوش قسمت بچے جو ‘اے لیول‘ اور ‘او لیول‘ سکولوں میں تعلیم پاتے ہیں اور غیر ملکی مصنفین کی کتابیں پڑھتے ہیں بہتر تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ باقی بچوں کی حالتِ زار پر ہم صرف آنسو ہی بہا سکتے ہیں ۔
حوالہ

فاتح قیصرانی محمد وارث
 

محمد وارث

لائبریرین
متفق۔ آج کل میں اپنے بڑے بیٹے کو نویں جماعت کی ریاضی، فزکس، کیمسٹری پڑھا رہا ہوں۔ ایک سال پہلے تک ریاضی اور سائنس، آکسفورڈ کی کتابیں تھیں، لیکن اسکول کی پالیسی کی وجہ سے اب پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی ہیں۔ زمین آسمان کا فرق ہے یا اللہ۔

آکسفورڈ کی کتابوں میں "کانسپٹ" ایسے لاجواب طریقے سے سمجھایا گیا ہوتا تھا کہ بچے کو پڑھانا میرے لیے بہت آسان تھا اور اس کے لیے سمجھنا۔ اب یہ صورتحال ہے کہ پہلے دیر تک مجھے خود سر کھپا کر اس کو سمجھنا پڑتا ہے پھر ایسے تیسے بچے کو سمجھاتا ہوں وہ بھی اس حد تک کہ وہ مشقی سوال کرنے کے قابل ہو جائے، سمجھ آئے نہ آئے۔
 

arifkarim

معطل
آکسفورڈ کی کتابوں میں "کانسپٹ" ایسے لاجواب طریقے سے سمجھایا گیا ہوتا تھا کہ بچے کو پڑھانا میرے لیے بہت آسان تھا اور اس کے لیے سمجھنا۔
آکسفورڈ کی تدریسی کتب کے پیچھے دنیا کی چوٹی کی اساتذہ ٹیم ہوتی ہے۔ جو نت نئی تدریسی ریسرچ کی بنیاد پر ان کتب کو ریوائز کرتے ہیں۔ اسلئے زمین آسمان کا فرق تو ہوگا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آکسفورڈ کی تدریسی کتب کے پیچھے دنیا کی چوٹی کی اساتذہ ٹیم ہوتی ہے۔ جو نت نئی تدریسی ریسرچ کی بنیاد پر ان کتب کو ریوائز کرتے ہیں۔ اسلئے زمین آسمان کا فرق تو ہوگا۔

یہ بات بھی ہے کسی حد تک، لیکن سب سے اہم بات ہوتی ہے سمجھانے کی، کتاب والے نے اس کو لکھا کیسے ہے اور سمجھایا کیسے ہے اور بیان کتنی تفصیل سے کیا ہے۔ مثال کے طور پر الجبرا، دونوں کتابوں میں ایک جیسا ہی ہے سمجھانے کا فرق ہے۔ اور جیومیٹری اِس میں تو جب تک انتہائی واضح اور تفصیلی انداز میں بیان نہیں کیا جائے گا، کچھ پلے نہیں پڑے گا اور پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں میں اسی چیز ہی کی کمی ہے۔
 
FB_IMG_1449814402203_zps8fnc17md.jpg
 

نور وجدان

لائبریرین
میں نے گریجویشن تک میتھس پڑھا ۔میں اکثر پوچھا کرتی تھی ہمیں الجبرا پڑھایا جاتا ہے اور لاگرتھمس وغیرہ ۔۔۔ان کا عملی اطلاق کیا ہے ہمیں ان سے کیا فائدہ ہوتا ہے ۔مجھے چُپ کرادیا جاتا تھا کہ میں بہت سوال کرتی ہوں یا کہ دیا جاتا تھا کہ جب ایم ایس سی میتھس پڑھو گی تو تھیورمز کی سمجھ خود آجائے گی اس سے پہلے رٹا لگایا جاتا ہے ۔میرا میتھس جانے کیسا تھا کہ مجھے رٹا لگانا پڑتا تھا نمبر لینے کے لیے اور یہی وجہ تھی مجھے سب سے مشکل میتھس ہی لگا۔میں نے گریجویشن تک اسی کو اپنایا کہ مجھے اس مضمون کی سمجھ آجائے مگر ایم اے میں یہی سوچ کے اس مضمون کو بدل دیا کب تک تجربے کرتی رہوں گی ۔ اس سوال کو سندھ کے لیے کیوں اٹھایا گیا ۔ یہی المیہ پنجاب کا بھی ہے ۔میں آج تک تھیورمز کی لاجک سمجھ نہیں پائی کہ اعلی پائے کے اساتذہ تک پڑھانے سے ہی انکار کردیتے تھے اگر ان سے سوال کرتی یا ڈرا کے رکھ دیتے تھے ۔
 

arifkarim

معطل
میں نے گریجویشن تک میتھس پڑھا ۔میں اکثر پوچھا کرتی تھی ہمیں الجبرا پڑھایا جاتا ہے اور لاگرتھمس وغیرہ ۔۔۔ان کا عملی اطلاق کیا ہے ہمیں ان سے کیا فائدہ ہوتا ہے ۔مجھے چُپ کرادیا جاتا تھا کہ میں بہت سوال کرتی ہوں یا کہ دیا جاتا تھا کہ جب ایم ایس سی میتھس پڑھو گی تو تھیورمز کی سمجھ خود آجائے گی اس سے پہلے رٹا لگایا جاتا ہے ۔میرا میتھس جانے کیسا تھا کہ مجھے رٹا لگانا پڑتا تھا نمبر لینے کے لیے اور یہی وجہ تھی مجھے سب سے مشکل میتھس ہی لگا۔میں نے گریجویشن تک اسی کو اپنایا کہ مجھے اس مضمون کی سمجھ آجائے مگر ایم اے میں یہی سوچ کے اس مضمون کو بدل دیا کب تک تجربے کرتی رہوں گی ۔ اس سوال کو سندھ کے لیے کیوں اٹھایا گیا ۔ یہی المیہ پنجاب کا بھی ہے ۔میں آج تک تھیورمز کی لاجک سمجھ نہیں پائی کہ اعلی پائے کے اساتذہ تک پڑھانے سے ہی انکار کردیتے تھے اگر ان سے سوال کرتی یا ڈرا کے رکھ دیتے تھے ۔
میرا بھی آپ والا تجربہ ہی ہے۔ آپ کسی کو ڈرا دھمکا کر کچھ سکھا تو سکتے ہیں پر اسے وہی چیز سمجھا نہیں سکتے۔
 

باباجی

محفلین
میں نے گریجویشن تک میتھس پڑھا ۔میں اکثر پوچھا کرتی تھی ہمیں الجبرا پڑھایا جاتا ہے اور لاگرتھمس وغیرہ ۔۔۔ان کا عملی اطلاق کیا ہے ہمیں ان سے کیا فائدہ ہوتا ہے ۔مجھے چُپ کرادیا جاتا تھا کہ میں بہت سوال کرتی ہوں یا کہ دیا جاتا تھا کہ جب ایم ایس سی میتھس پڑھو گی تو تھیورمز کی سمجھ خود آجائے گی اس سے پہلے رٹا لگایا جاتا ہے ۔میرا میتھس جانے کیسا تھا کہ مجھے رٹا لگانا پڑتا تھا نمبر لینے کے لیے اور یہی وجہ تھی مجھے سب سے مشکل میتھس ہی لگا۔میں نے گریجویشن تک اسی کو اپنایا کہ مجھے اس مضمون کی سمجھ آجائے مگر ایم اے میں یہی سوچ کے اس مضمون کو بدل دیا کب تک تجربے کرتی رہوں گی ۔ اس سوال کو سندھ کے لیے کیوں اٹھایا گیا ۔ یہی المیہ پنجاب کا بھی ہے ۔میں آج تک تھیورمز کی لاجک سمجھ نہیں پائی کہ اعلی پائے کے اساتذہ تک پڑھانے سے ہی انکار کردیتے تھے اگر ان سے سوال کرتی یا ڈرا کے رکھ دیتے تھے ۔
ریاضی میں زیادہ تر بچے اس لیئے کمزور ہوتے ہیں کہ
اکثر ریاضی کے اساتذہ ظالم اور جلاد صفت ہوتےہیں
(ذاتی تجربہ)
 

arifkarim

معطل
خان ایکیڈمی بہت عمدہ ریسورس ہے۔ معلوم نہیں اس پر پر مزاح والی ریٹنگ کیوں ملی ہے
اسکے معاشیات و مالیات پر مبنی لیکچر ضرور سنئے گا، خاص کر وہ فریکشنل ریزرو بینکنگ سے متعلق۔ کافی بونگیاں ماری گئیں تھیں وہاں۔ اسکے علاوہ خان اکیڈمی سائنسی مضامین پڑھانے کیلئے عمدہ آن لائن درسگارہ ہے ۔ خود بل گیٹس اسکا اسپورٹر ہے۔
 
اسکے معاشیات پر مبنی لیکچر ضرور سنئے گا، خاص کر وہ فریکشنل ریزرو بینکنگ سے متعلق۔ کافی بونگیاں ماری گئیں تھیں وہاں
اس حوالے سے علم نہیں، کیونکہ میری دلچسپی نہیں اس مضمون میں۔
اسکے علاوہ خان اکیڈمی سائنسی مضامین پڑھانے کیلئے عمدہ آن لائن درسگارہ ہے ۔ خود بل گیٹس اسکا اسپورٹر ہے۔
اس بات سے صد فیصد متفق
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میں نے ہمیشہ انجینئرنگ کی ریاضی کتب سے پہلے پاکستانی کتب پڑھی تھیں اور پڑھائیں بھی یہاں اپنے بچوں میں آکسفورڈ کی کتب پڑھانے کا اتفاق ہوا ۔البتہ مجھے اکسفورڈ کتب کی ایک خاص اور منفرد بات یہ نظر آئی کہ اس میں کوچنگ اور وضاحت کا انداز کچھ اسطرح کا ہوتا ہے کہ جس سے اوسط اور کم درجے کے بچوں کی بھی صلاحیت میں بہتری پیدا ہوجاتی ہے ۔کیوں کہ ذہین اور ایکسٹرا آرڈنری بچوں کو محض اشارہ درکار ہوتاہے خواہ کسی بھی طرح دیا جائے۔اور وہ نفس مضمون کو آسانی سے گرفت میں لے لیے ہیں ۔یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ کچھ استاد ایسے ہوتے ہیں کہ کسی بھی طرح کے مواد کو منتقل کرنے میں کسی خاص کتاب کے محتاج نہیں ہوتے۔
 

arifkarim

معطل
گولڈ بگ کی سی بونگیاں؟
اصل میں Money Creation کافی متنازع موضوع ہے اور مختلف مکتبہ الفکر کے معاشی اسکول اسکی الگ الگ تشریح کرتے ہیں۔ خان اکیڈمی نے غالبا ً اسے Monetarist زاویے سے پڑھایا ہے اور جو اس اسکول کے ناقدین ہیں وہ پھر اسکی سند پر سوالات اٹھاتے ہیں۔
 
Top