نصیر الدین نصیر ان کی نگاہ، اپنا جگر دیکھتے رہے

ہم کشمکش یہ شام و سحر دیکھتے رہے
ان کی نگاہ، اپنا جگر دیکھتے رہے

اہل نظر کی بزم میں ہم بیٹھ کر خموش
دل سے تجلیوں کا گزر دیکھتے رہے

کھل کر رہے گی راہِ سلام و پیام بھی
ہم مستقل کسی کو اگر دیکھتے رہے

گزری تمام رات ترے انتظار میں
نیرنگیءِ قضا و قَدَر دیکھتے رہے

یہ دل کا وسوسہ تھا کہ آہٹ کسی کی تھی
ہم بار بار جانبِ در دیکھتے رہے

وہ آفتابِ حسن رہا مرکز نگاہ
تھا دیکھنا محال، مگر دیکھتے رہے

لے کر ہمیں نہ ساتھ چلے اہلِ کارواں
ہم تھے کہ گردِ راہ گزر دیکھتے رہے

مثل صبا نصیر گزر بھی گیا کوئی
اک آپ ہیں، نہ جانے کدھر دیکھتے رہے

(پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی رحمتہ اللہ علیہ)​
 
ہمیں بھی یہ راز سمجھائیے
ہر کس نہ شناسندہءِ راز است وگرنہ۔۔۔
اینہا ہمہ راز است کہ معلومِ عوام است​
آپ کو مزا آتا ہے مجھے چھیڑنے میں۔ ہے نا؟ غالبؔ کا ایک شعر یاد آ گیا:
پر ہوں میں شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیے...... پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے ! ! !​
مذاق بر طرف، رازوں کی سمجھ ہوتی تو ہم بھلا شادی کرتے؟ آنرا کہ خبر شد خبرش باز نیامد!
 
ہر کس نہ شناسندہءِ راز است وگرنہ۔۔۔
اینہا ہمہ راز است کہ معلومِ عوام است​
آپ کو مزا آتا ہے مجھے چھیڑنے میں۔ ہے نا؟ غالبؔ کا ایک شعر یاد آ گیا:
پر ہوں میں شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیے...... پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے ! ! !​
مذاق بر طرف، رازوں کی سمجھ ہوتی تو ہم بھلا شادی کرتے؟ آنرا کہ خبر شد خبرش باز نیامد!
ہمیں فارسی نہیں آتی اس لیے کہا تھا۔۔آپ نے مزید فارسی لکھ بھیجی۔۔۔
 
Top