1 ۔ ازدواجیات (عائلی زندگی)
٭ شرم والے ستر کو ڈھانکنے، جسم کی حفاظت اور زینت کے لئے لباس کو نازل کیا گیا
(اعراف:۶۲)
٭ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لئے لباس کی مانند ہیں
(البقرة:۷۸۱)
٭ تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جاؤ
(البقرة :۳۲۲)
٭ حیض ایک تکلیف دہ حالت ہے، اس میں عورتوں سے (مجامعت کرنے سے) الگ رہو
(البقرة:۲۲۲)
٭ جو بیویوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے
(البقرة:۶۲۲)
٭ تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو انہیں چھوڑ دو
(النساء:۶۱۔۵۱)
٭ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں اُن سے علیٰحدہ رہو اور مارو، پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو۔
(النساء:۴۳)
٭ اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکَم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو۔
(النساء:۵۳)
٭ اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رخی کا خطرہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں کہ میاں اور بیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کر لیں۔
(النساء:۸۲۱)
٭ اگر زوجین ایک دوسرے سے الگ ہو ہی جائیں تو اللہ اپنی وسیع قدرت سے ہر ایک کو دوسرے کی محتاجی سے بے نیاز کر دے گا۔
(النساء:۰۳۱)
مہر:
٭ عورتوں کے مہر خوشدلی کے ساتھ ادا کرو
(النساء:۴)
٭ تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں تنگ کر کے اُس مَہر کا کچھ حصہ اُڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو
(النساء:۹۱)
٭ جوازدواجی لطف تم ان سے اُٹھاؤ اس کے بدلے اُن کے مَہر بطور فرض کے ادا کرو
(النساء:۴۲)
٭ اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کر لو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا
(النساء:۰۲)
ظہار:
٭جو لوگ اپنی بیویوں سے ظِہار کرتے ہیں ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں۔
(مجادلہ:۲)
٭ جواپنی بیوی سے ظِہار کرے اورپھر رجوع کرے تو پہلے انہیں ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔ غلام نہ پائے تو دو مہینے کے پے درپے روزے رکھے اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
(مجادلہ:۴۔۳)
نیک بیویاں:
٭ جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔
(النساء:۴۳)
٭ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو۔
( روم:۱۲)
٭ ایسی بیویاں جو سچی مسلمان، باایمان، اطاعت گزار، توبہ گزار، عبادت گزار، اور روزہ دار ہو، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ۔
(التحریم :۵)
زائد بیویاں
٭ اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو۔ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں (بطور لونڈی) آئی ہیں۔
(النساء:۳)
٭ ایک بیوی کی طرف اس طرح نہ جُھک جاؤ کہ دوسری کو ادھر لٹکتا چھوڑ دو۔
(النساء:۹۲۱)
نکاح؛ حلال و حرام:
٭ تم مشرک عورتوں سے ہر گز نکاح نہ کرو۔
(البقرة:۱۲۲)
٭ اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا۔
(البقرة:۱۲۲)
٭ جن عورتوں سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہوں اُن سے ہر گز نکاح نہ کرو۔
(النساء:۲۲)
٭ تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو، اور تمہاری دُودھ شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں، اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے۔
(النساء:۳۲)
٭ اور اُن بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن و شَو ہو چکا ہو۔
(النساء:۳۲)
٭ تمہارے اُن بیٹوں کی بیویاں جو تمہارے صُلب سے ہوں۔ تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو۔
(النساء:۳۲)
٭ اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں۔
(النساء:۴۲)
٭ محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے (نکاح کے لئے) حلال ہیں خواہ وہ اہلِ ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔
(المآئدة:۵)
٭ جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ وہ کفار کے لیے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیے حلال۔
(سورة الممتحنہ:۰۱)
٭ ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ تم اُن کے مہر اُن کو ادا کر دو۔
(الممتحنہ:۰۱)
٭ تم خود بھی کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رہو۔
(الممتحنہ:۰۱)
٭ جو مہر تُم نے اپنی کافر بیویوں کو دیے تھے وہ تم واپس مانگ لو اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیے تھے انہیں وہ واپس مانگ لیں۔
(الممتحنہ:۰۱)
٭ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے۔
( النور:۶۲)
٭ پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔
( النور:۶۲)
٭ جو نکاح کا موقع نہ پائیں انہیں چاہیں کہ عفت مآبی اختیار کریں۔
(سورة النور:۳۳)
٭ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہیں جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں۔
(الاحزاب:۷۳)
طلاق اور عدت:
٭ جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں۔
(بقرة:۸۲۲)
٭ اللہ نے مطلقہ عورتوں کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو، اُسے چھپانا جائز نہیں ہے۔
(البقرة:۸۲۲)
٭ جو کچھ تم اپنی بیوی کو دے چکے تھے، طلاق کے بعد اُسے واپس لینا جائز نہیں۔
(البقرة:۹۲۲)
٭ عورتوں کو طلاق دے چکو تو بعد از عدت اُن کے نکاح کرنے میں رکاوٹ نہ ڈالو۔
(البقرة:۲۳۲)
٭ عدت پوری ہونے تک عقد نکاح باندھنے کا فیصلہ نہ کرو
(البقرة:۵۳۲)
٭ بعد از نکاح عورت کو ہاتھ لگانے سے قبل طلاق دینے میں کوئی گناہ نہیں۔
(البقرة:۶۳۲)
٭ ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دینے کی صورت میں نصف مہر دینا ہو گا۔
(البقرة:۷۳۲)
٭ جنہیں طلاق دی جائے انہیں مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔
(البقرة:۱۴۲)
٭ اے مومنو!اگر تم مومن عورتوں سے نکاح کے بعد انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے۔
(الاحزاب:۹۴)
٭ عورتوں کو طلاق دو تو اُنہیں اُن کی عدّت کے لیے طلاق دیا کرو اور عدت کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو۔
( الطلاق :۱)
٭ عدت کے دوران نہ تم اُنہیں گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔
(سورة الطلاق:۱)
٭ عدت کی مدت کے خاتمہ پر یا انہیں بھلے طریقے سے اپنے نکاح میں روک رکھو، یا بھلے طریقے سے اُن سے جدا ہو جاؤ۔ اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحبِ عدل ہوں۔
( الطلاق:۲)
٭ عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اُن کی عدت تین مہینے ہے۔ اور یہی حکم اُن کا ہے جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو۔
( الطلاق:۴)
٭ اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حد یہ ہے کہ اُن کا وضع حمل ہو جائے۔
(الطلاق :۴)
٭ مطلقہ عورتوں کوعدت میں اُسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمہیں میسر ہو۔
(الطلاق :۶)
٭ اور انہیں تنگ کرنے کے لیے ان کو نہ ستاؤ
(طلاق :۶)
٭ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اُس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہو جائے
(الطلاق:۶)
٭ پھر اگر وہ تمہارے بچے کو دُودھ پلائیں تو ان کی اُجرت انہیں دو
( الطلاق :۶)
بیوہ کی عدت:
٭ شوہر کے مرنے کے بعد بیوہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن تک روکے رکھے۔
(البقرة:۴۳۲)
٭بیوہ عورتوں کو ایک سال تک شوہر کے گھر سے نہ نکالا جائے
(البقرة:۰۴۲)
پردہ اور حجاب:
٭ دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک اُن سے اجازت نہ لے لو اور اُن پر سلام نہ بھیج لو
(النور:۷۲)
٭ جب تک اجازت نہ دیدی جائے، داخل نہ ہو۔ واپس جانے کو کہا جائے تو واپس ہوجاؤ
(النور:۸۲)
٭ کوئی مضائقہ نہیں کہ ایسے گھروں میں داخل ہوجاﺅ جو کسی کے رہنے کی جگہ نہ ہوں (النور:۹۲)
٭مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں( النور:۰۳)
٭ مومن عورتیں اپنی نظریں بچاکر رکھیں،اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں (النور:۱۳)
٭ وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، ا پنے لونڈی غلام، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہو، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں
( النور:۱۳)
٭ وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اُن کی چھپی ہوئی زینت کا لوگوں کو علم ہو جائے
( النور:۱۳)
٭ لونڈی غلام اور چھوٹے بے عقل بچے تمہارے پاس پردے کے ان تین اوقات میں اجازت لے کر آیا کریں۔ صبح کی نماز سے پہلے، دوپہر کو اور عشاء کی نماز کے بعد
(النور:۸۵)
٭ان کے بعد وہ بلااجازت آئیں تو نہ تم پر کوئی گناہ ہے نہ ان پر۔ تمہیں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا ہی ہوتا ہے
(النور:۸۵)
٭ جب تمہارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں تو بڑوں کی طرح اجازت لے کر آیا کریں
(النور:۹۵)
٭ جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں، نکاح کی امیدوار نہ ہوں، وہ اگر اپنی چادریں اتار کر رکھ دیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں
(النور:۰۶)
٭ اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو
( احزاب:۲۳)
٭ اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دورِ جاہلیت کی سی سَج دھج نہ دکھاتی پھرو
(احزاب:۳۳)
٭ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں
(احزاب:۹۵)