گانوں سے ہی یاد آیا.
ایک موٹر مکینک کے پاس بیٹھا تھا. اس کے ایک ملازم کا چھوٹا سا بیٹا بھی بیٹھا تھا.
گانا لگا ہوا تھا. "کینا سوہنا تینوں رب نے بنایا"
بچہ دہرا رہا تھا. بچے کے ابا نے فوراً اس سے پوچھا:
اینا سوہنا کس نے بنایا؟
بچہ: "رب نے
باپ: تے تینوں کس نے بنایا؟
بچہ: رب نے
باپ: (مکینک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) مجیدے نوں کس نے بنایا.
بچہ: رب نے.
یوں پہلی دفعہ گانوں سے سبق حاصل کرنے کا مظاہرہ کیا.
پی ٹی وی کے کسی پرانے ڈرامے میں ایک مکالمہ سنا تھا۔ اسے میں کلاسیک لطیفہ قرار دیتا ہوں۔
کسی سے کسی نے پوچھا، "تم نے پچھلا مکان کیوں چھوڑ دیا؟"
"کرایہ بہت مانگتے تھے۔"
"کیا ہزار ڈیڑھ ہزار روپے؟"
"ارے نہیں۔ دن میں چار پانچ دفعہ مانگتے تھے!"
یہ تو بے چارہ ایک ہی مصرع ہے۔
جب تک زیک بھائی اپنی ریسرچ پیش کرتے ہیں، ہم اس پر گرہ لگا دیتے ہیں۔
وہ محوِ فیس بک رہتا ہے ہر گھڑی صد حیف
اب اپنے گھر کے دریچے سے دیکھتا کم ہے
فیس بک کا "کاف" گر گیا ہے اُٹھا کے رکھ لیجے پھر کام آئے گا۔
یہاں 'کاف' سے مراد بچھڑا نہیں ہے۔
محمد احمد بھائی کیا اب ہم یہ بھی نہیں سمجھیں گے کہ یہاں کاف سے مراد بچھڑا نہیں بلکہ پنڈلی ہے ......
ہاتفاچھا سلسلہ ہے محمد احمد بھئی ضرور شامل ہوتا ہوں.
ابھی ہاطف کی بیٹری جواب دے گئی ہے .......
آخری جملے نے پورے واقعے کو سنجیدہ بنا دیاایک صاحب اپنے ایک مزاح نگار دوست سے ملنے پہنچے تو وہ کسی تقریب میں جانے کے لئے نکل رہے تھے ۔ مزاح نگار نےانہیں بھی ساتھ چلنے کی دعوت دے ڈالی ۔ تقریب دراصل مزاح نگاروں اورفکاہیہ ادیبوں کا ایک ڈنر تھا ۔ کھانے کے بعد سب لوگ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے تھے کہ ایک صاحب نے مائیک پر آکر کہا ۔ ’’ ایک سو بارہ‘‘ ۔ یہ سن کر تمام حاضرین ہنس ہنس کر دوہرے ہوگئے ۔ ابھی ان کی ہنسی بمشکل تھمی ہوگی کہ ایک دوسرے صاحب نے مائیک پر آکر کہا ۔ ’’ستانوے‘‘ ۔ یہ سن کر لوگوں پر ہنسی کا ایک اور دورہ پڑگیا ۔ اسی طرح یکے بعد دیگرےلوگ مائیک پر آکر کوئی نمبر بولتے اور تمام حاضرین اس پر خوب قہقہے لگاتے ۔ یہ تمام صورتحال دیکھ کر اُن صاحب نے اپنے مزاح نگار دوست سے حیران ہوکر پوچھا کہ آخر یہ ہوکیا رہا ہے ؟ دوست نے سمجھایا کہ بھئی ہم سب مزاح نگار ہیں اور یہ بات جانتے ہیں کہ دنیا کے تمام لطیفے کچھ گنی چنی تھیمز پر بنے ہوئے ہیں ۔ ہم نے ان میں سے ہر تھیم کو ایک خاص نمبر دے دیا ہے ۔ سو اب لطیفہ سنانے کے بجائے ہم صرف اس لطیفے کی تھیم کا نمبر پکار دیتے ہیں ۔ بات دوست کی سمجھ میں آگئی ۔ مائیک پر نمبر پکارنے کا سلسلہ جاری تھا اور لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوئے جارہے تھے کہ ایک صاحب نے مائیک پر آکر بلند آواز میں پکارا ۔ ’’ ایک سو باسٹھ‘‘ ۔ یہ سن کر تمام ہال میں خاموشی سی چھا گئی ۔ کہیں سے کوئی ہنسنے کی آواز نہیں آئی ۔ اس پر ان صاحب نےاپنے دوست کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا ہوا؟ اس پر لوگ کیوں نہیں ہنسے ؟ مزاح نگار نے جھک کر چپکے سے کہا ۔ ’’ یار ، کیا کریں ۔ بعض لوگوں کو لطیفہ سنانا ہی نہیں آتا ۔ ‘‘
اچھا سلسلہ ہے محمد احمد بھئی ضرور شامل ہوتا ہوں.
ابھی ہاطف کی بیٹری جواب دے گئی ہے .......
arifkarim
عارف کریم بھائی ! خیریت ہے شاعری کے دھاگے پڑھے جا رہے ہیں اور دوستانہ کی ریٹنگز پھینکی جا رہی ہیں۔
سب خیریت؟
پر مزاح کا بٹن خراب ہے تو آجکل اسی سے کام چلا رہا ہوں
یہ دھاگہ بدل گیا؟
نہیں. خود بدلا ہے.یہ دھاگہ بدل گیا؟
اوج تخیل"بیٹا، آپ کا نام کیا ھے؟"
"سلمان محمود ."
"واہ.. کتنا پیارا نام ھے. کِس کلاس میں پڑھتے ھیں؟"
"پلے گروپ میں."
"واہ... آپ تو بہت پیارے بچے ھیں.. اتنا پڑھ لکھ رھے ھیں. آپ کو کونسی میڈم پسند ھیں؟"
"میڈم مہوش اور میڈم بشریٰ بہت اچھی ھیں. اور میڈم ایمن تو مجھے اپنا موبائل فون بھی دے دیتی ھیں."
"زبردست..... آپ کے ابو نے بتایا کہ آپ بہت طاقتور ھیں.. ذرا بازو دکھائیے."
سلمان محمود نے زورِ بازو دکھانے کے لیے بازو دکھایا تو
وھی آواز پھر آئی " آہا... کمال ھو گیا. آپ ایسا کیا کھاتے ھیں کہ اتنے طاقت ور ھو گئے..."
ایک دلسوز چیخ بلند ھُوئی..... یہ چیخ سلمان محمود کی تھی. اصل میں اِس سے پہلے کہ سلمان محمود کوئی جواب دیتا، چُھپی ھوئی نرس نے اُسے چُپکے سے ٹیکا لگا دیا تھا. یہ سب گفتگو سلمان محمود کو ادھر اُدھر بزی کرنے کے لیے تھی ورنہ وہ کبھی ٹیکا نہ لگانے دیتا.
سیاستدان اور میڈیا عوام کو اسی طرح مصروف کر کے چُپکے سے ٹیکے لگاتے رھتے ھیں.