راشد اشرف
محفلین
امی جان و دیگر منتخب اوراق
ماخذ: اوراق پریشاں
فیروز الدین احمد
اشاعت: 1993
شہر کراچی میں پرانی کتابوں کے حصول کے کچھ مقامات پرانی کتابوں کے اتوار بازار کے سوا بھی تھے۔ کتاب سے شغف رکھنے والوں کے لیے اب ان میں سے بیشتر جگہیں "مقامات آہ و فغاں" میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ عرصہ ہوا کہ اکثر کتاب بیچنے والوں نے غنیمت اسی کو جانا تھا کہ چکن تکہ فروخت کیا جائے۔ اس شہر بے اماں میں لذت کام و دہن کی آزمائش دیگر جان لیوا آزمائشوں پر سبقت لے گئی ہے۔
راقم الحروف نے پرانی کتابوں کے ایک ٹھکانے کا ذکر غالبا" اس سے قبل نہیں کیا۔ یہ گلشن اقبال میں واقع ممتاز منزل کا علاقہ ہے جہاں درختوں کے عقب میں ایک لائن سے چند ٹھیلے والے روزانہ کی بنیاد پر موجود رہتے ہیں۔ کبھی طبیعت موج پر آئی تو آفس سے واپسی پر آفس کی گاڑی کے ڈرائیور کو وہاں رکنے کا اشارہ کرکے اتر جاتا ہوں۔ مذکورہ مقام سے غریب خانے کا فاصلہ یہ غریب بخوشی پیدل طے کرلیتا ہے۔ گزشتہ برس تک ریڈیو سے وابستہ رہے جمیل زبیری صاحب سے ملاقات کا شوق جواز بن جایا کرتا تھا۔ کتابیں دیکھیں اور خراماں خراماں زبیری صاحب کے فلیٹ پر جا دھمکا۔ خدا بخشے، اب وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔
پروفیسر سحر انصاری سے راقم کی ملاقات اکثر اس جگہ ہوتی ہے, وہ یہاں کے پرانے گاہک ہیں. کتابیں ویسی تو نہیں جیسی صدر ریگل میں اتوار بازار میں ملتی ہیں لیکن پھر بھی کبھی کبھی گوہر نایاب ہاتھ آہی جاتا ہے۔
دو چار روز ادھر کی بات ہے کہ مذکورہ مقام پر ایک کتاب نظر آئی۔ فیروز الدین احمد کی یاداشتیں "اوراق پریشاں"۔ اس کتاب سے پہلا تعارف تین برس قبل مشفق خواجہ مرحوم کے کتب خانے میں ہوا تھا۔ اس کا سن اشاعت 1993 ہے۔ کتب فروش نے بیس روپے طلب کیے جسے ادا کرکے یوں محسوس ہوا کہ گویا بیس روپے کہ عوض سونا خرید لیا ہو۔
مصنف کے والد دہلی کے خواجہ شفیع کے چھوٹے بھائی تھے۔ چالیس برس کی عمر میں انتقال ہوا، تدفین میں ملا واحدی کے علاوہ دہلی کے کئی مشاہیر نے شرکت کی تھی۔ فیروز الدین احمد حکومت پاکستان میں ایڈیشنل سیکریٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ اردو و انگریزی کے انشاء پرداز بھی تھے۔ ان دنوں خدا جانے کہاں ہیں۔ زیر تذکرہ خودنوشت میں انہوں نے اپنی والد مرحومہ کا خاکہ "امی جان" کے عنوان سے لکھا ہے۔ قدرت اللہ شہاب کی ماں جی ہوں یا اشفاق احمد کی اماں سردار بیگم، ایک بیٹا جب اپنی ماں کو یاد کرتا ہے، تحریر میں گداز آہی جاتا ہے۔ متذکرہ شخصیات افسانہ نگار بھی تھیں سو ان کی تحریر میں افسانوی رنگ میں جھلکتا ہے۔ لیکن فیروز الدین احمد کا "امی جان" ایک مختلف سی تحریر ہے، یہ خاکے سے زیادہ ایک نوحہ لگتا ہے۔ ایک ایسے بیٹے کی داستان جس نے اپنی باہمت اور دکھیاری ماں کو اپنی آنکھوں کے سامنے جاتے دیکھا۔
بہتر فیصلہ احباب کریں گے۔
کتاب سے دیگر منتخب کردہ اوراق، مصنف کا مختصر تعارف معہ تصویر اور سرورق پی ڈی ایف فائل میں شامل کیے گئے ہیں۔
ماخذ: اوراق پریشاں
فیروز الدین احمد
اشاعت: 1993
شہر کراچی میں پرانی کتابوں کے حصول کے کچھ مقامات پرانی کتابوں کے اتوار بازار کے سوا بھی تھے۔ کتاب سے شغف رکھنے والوں کے لیے اب ان میں سے بیشتر جگہیں "مقامات آہ و فغاں" میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ عرصہ ہوا کہ اکثر کتاب بیچنے والوں نے غنیمت اسی کو جانا تھا کہ چکن تکہ فروخت کیا جائے۔ اس شہر بے اماں میں لذت کام و دہن کی آزمائش دیگر جان لیوا آزمائشوں پر سبقت لے گئی ہے۔
راقم الحروف نے پرانی کتابوں کے ایک ٹھکانے کا ذکر غالبا" اس سے قبل نہیں کیا۔ یہ گلشن اقبال میں واقع ممتاز منزل کا علاقہ ہے جہاں درختوں کے عقب میں ایک لائن سے چند ٹھیلے والے روزانہ کی بنیاد پر موجود رہتے ہیں۔ کبھی طبیعت موج پر آئی تو آفس سے واپسی پر آفس کی گاڑی کے ڈرائیور کو وہاں رکنے کا اشارہ کرکے اتر جاتا ہوں۔ مذکورہ مقام سے غریب خانے کا فاصلہ یہ غریب بخوشی پیدل طے کرلیتا ہے۔ گزشتہ برس تک ریڈیو سے وابستہ رہے جمیل زبیری صاحب سے ملاقات کا شوق جواز بن جایا کرتا تھا۔ کتابیں دیکھیں اور خراماں خراماں زبیری صاحب کے فلیٹ پر جا دھمکا۔ خدا بخشے، اب وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔
پروفیسر سحر انصاری سے راقم کی ملاقات اکثر اس جگہ ہوتی ہے, وہ یہاں کے پرانے گاہک ہیں. کتابیں ویسی تو نہیں جیسی صدر ریگل میں اتوار بازار میں ملتی ہیں لیکن پھر بھی کبھی کبھی گوہر نایاب ہاتھ آہی جاتا ہے۔
دو چار روز ادھر کی بات ہے کہ مذکورہ مقام پر ایک کتاب نظر آئی۔ فیروز الدین احمد کی یاداشتیں "اوراق پریشاں"۔ اس کتاب سے پہلا تعارف تین برس قبل مشفق خواجہ مرحوم کے کتب خانے میں ہوا تھا۔ اس کا سن اشاعت 1993 ہے۔ کتب فروش نے بیس روپے طلب کیے جسے ادا کرکے یوں محسوس ہوا کہ گویا بیس روپے کہ عوض سونا خرید لیا ہو۔
مصنف کے والد دہلی کے خواجہ شفیع کے چھوٹے بھائی تھے۔ چالیس برس کی عمر میں انتقال ہوا، تدفین میں ملا واحدی کے علاوہ دہلی کے کئی مشاہیر نے شرکت کی تھی۔ فیروز الدین احمد حکومت پاکستان میں ایڈیشنل سیکریٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ اردو و انگریزی کے انشاء پرداز بھی تھے۔ ان دنوں خدا جانے کہاں ہیں۔ زیر تذکرہ خودنوشت میں انہوں نے اپنی والد مرحومہ کا خاکہ "امی جان" کے عنوان سے لکھا ہے۔ قدرت اللہ شہاب کی ماں جی ہوں یا اشفاق احمد کی اماں سردار بیگم، ایک بیٹا جب اپنی ماں کو یاد کرتا ہے، تحریر میں گداز آہی جاتا ہے۔ متذکرہ شخصیات افسانہ نگار بھی تھیں سو ان کی تحریر میں افسانوی رنگ میں جھلکتا ہے۔ لیکن فیروز الدین احمد کا "امی جان" ایک مختلف سی تحریر ہے، یہ خاکے سے زیادہ ایک نوحہ لگتا ہے۔ ایک ایسے بیٹے کی داستان جس نے اپنی باہمت اور دکھیاری ماں کو اپنی آنکھوں کے سامنے جاتے دیکھا۔
بہتر فیصلہ احباب کریں گے۔
کتاب سے دیگر منتخب کردہ اوراق، مصنف کا مختصر تعارف معہ تصویر اور سرورق پی ڈی ایف فائل میں شامل کیے گئے ہیں۔