اورنج ٹرین پراجیکٹ میں قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کا انکشاف

جاسم محمد

محفلین
اورنج ٹرین پراجیکٹ میں قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کا انکشاف
ایکسپریس رپورٹر ایک گھنٹہ پہلے
1659854-orangelinetrain-1557239976-763-640x480.jpg

من پسندوں کو نوازنے کےلئے میگا پراجیکٹ الاؤنس میں 14لاکھ ڈالر سے زائد اڑا دئیے گئے فوٹو: فائل

لاہور: اورنج ٹرین پراجیکٹ میں اربوں روپے کی مبینہ بے ضابطگیوں اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا انکشاف ہوا ہے۔

اورنج ٹرین پراجیکٹ میں اربوں کے مبینہ بے ضابطگیوں اور خزانے کو نقصان پہنچانے کا انکشاف ہوا ہے، اورنج لائن ٹرین کی اسپیشل آڈٹ رپورٹ کی منظوری دے دی گئی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایل ڈی اے کے ہاؤسنگ شعبے نے فنڈز کہاں استعمال کئے،اہم ریکارڈ ہی غائب کردیا گیا۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صوبے اوروفاق کے درمیان فریم ورک معاہدہ ہی موجود نہیں ہے، اس کے علاوہ سول ورکس کی مد میں پونے 2 ارب روپے سے زائد کی مبینہ ادائیگی کی گئی، آڈٹ ٹیم کی جانب سے متعدد بار پاک چین معاہدہ مانگا گیا جو اب تک نہیں ملا ہے، رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ منظوری کے بغیر ذیلی ٹھیکیدار کو متعدد ٹھیکے دے کر نوازا گیا، انکم ٹیکس ریکور نہ کرنے پر خزانے کو 15 لاکھ 28ہزار ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا اور من پسندوں کو نوازنے کےلئے 14لاکھ ڈالر سے زائد میگا پراجیکٹ الاؤنس میں اڑا دئیے گئے۔
 

جان

محفلین
اس پراجیکٹ کا پشاور میٹرو پراجیکٹ سے تقابلی جائزہ پیش کریں تاکہ تمیز کرنے میں آسانی رہے کہ آپ نے کتنے بچائے اور پچھلی حکومت نے کتنے اڑائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس پراجیکٹ کا پشاور میٹرو پراجیکٹ سے تقابلی جائزہ پیش کریں تاکہ تمیز کرنے میں آسانی رہے کہ آپ نے کتنے بچائے اور پچھلی حکومت نے کتنے اڑائے۔
پشاور ہو یا لاہور۔ نقصان تو مشترکہ قومی خزانے کا ہی ہو رہا ہے۔

بی آر ٹی: ’جلد بازی، ناقص منصوبہ بندی اور سنگین کوتاہی‘ برتی گئی
  • 3 اپريل 2019
_106280883_72fcf662-8f2a-4a0c-a1f6-715615c270fe.jpg

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کی حکومت کی معائنہ ٹیم نے کہا ہے کہ صوبے میں پبلک ٹرانسپورٹ کا سب سے بڑا منصوبہ بس رپیڈ ٹرانزٹ یا بی آر ٹی جلد بازی میں شروع کیا گیا، اس کی منصوبہ بندی ناقص تھی اور اس کا ڈیزائن بناتے وقت سنگین نوعیت کی کوتاہیاں ہوئیں ہیں۔

معائنہ ٹیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس سے قومی خزانے کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

27 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منصوبے کی ڈیزاننگ، منصوبہ بندی اور تعمیراتی کام میں متعدد سنگین غلطیاں اور کوتاہیاں کی گئیں جس سے نہ صرف منصوبہ مقررہ وقت پر مکمل نہ ہوسکا بلکہ اس سے سرکاری پیسہ بھی ضائع ہوا۔

نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق رپورٹ میں ناقص منصوبہ بندی اور قومی خزانے کو مبینہ نقصان پہنچانے کے جرم میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے گذشتہ ہفتے بی آر ٹی کی تاخیر کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے اس کی تحقیقات کا حکم دیا تھا جس کے بعد یہ ذمہ داری صوبائی انسپکشن ٹیم کے سپرد کی گئی تھی۔

_106283675_27e244d9-babb-473f-af07-b9ea4c5413f8.jpg

دریں اثناء صوبائی حکومت نے صوبائی سیکرٹری ٹرانسپورٹ اور پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کو ان عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔ یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ یہ دونوں افسران بی آر ٹی منصوبے کے تعمیراتی اور دیگر امور کے نگرانی پر مامور تھے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ منصوبے کے ڈیزائن میں بار بار تبدیلیاں کی گئیں اور اس دوران ایسا بھی ہوا کہ کچھ حصے تعمیر کیے گئے لیکن بعد میں ان میں غلطیوں کے باعث ان تعمیر شدہ حصوں کو دوبارہ توڑا گیا جس سے اس کی لاگت میں خاصا اضافہ ہوا۔

رپورٹ کے مطابق بی آر ٹی کوریڈور میں تین مقامات پر بس سٹیشنوں کے لیے بنائی گئی سڑک مقررہ حجم سے کم پائی گئی جس سے ان مقامات پر دوبارہ توڑپھوڑ کی گئی اور ان حصوں کو دوبارہ تعمیر کیا گیا جس سے حکومت شدید تنقید کی زد میں بھی آئی۔

انسپکشن ٹیم کے مطابق کوریڈور کے قریب گزرنے والی سڑکوں کے سلسلے میں پہلے سے کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں گئی تھی، تاہم جب مرکزی کوریڈور تیار ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ سڑکیں تنگ پڑ گئی ہیں اور اس سے ٹریفک کی نقل و حرکت بری طرح متاثر ہوئی اور لوگوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا رہا۔

_106283677_cda32fd9-1a11-4361-b228-46fe16f5a8d5.jpg

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بعض مقامات پر بس سٹیشنوں تک جانے اور سڑک عبور کرنے والوں کو تقریباً 1600 میٹر پیدل چلنا پڑے گا جس سے نہ صرف عوام مشکلات کا شکار رہیں گے بلکہ اس سے قریب سے گزرنے والی سڑکوں پر ٹریفک جام میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیشتر مقامات پر پیدل سڑک عبور کرنے والوں کے لیے مناسب انتظام نہیں کیا گیا ہے۔

بعض سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ منصوبے کی ڈیزائننگ کے لیے غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں جس کے لیے ان کو تقریباً ایک ارب روپے سے زائد رقم دی گئی لیکن اس کے باوجود پراجیکٹ میں کئی نقائص سامنے آئے۔

_106283679_2afe0e17-6bb8-470f-9dfa-f293ccae8214.jpg

خیال رہے کہ بی آر ٹی منصوبہ سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی حکومت میں شروع کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر حکومت کی طرف سے اس پراجیکٹ کو چھ ماہ میں مکمل کرنے کا دعویٰ کیا گیا لیکن ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود بھی یہ منصوبہ بدستور التوا کا شکار ہے۔

موجودہ وزیراعلیٰ محمود خان نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ 23 مارچ کو ہر صورت میں اس منصوبے کا افتتاح کریں گے لیکن حکومت اس دعوے میں بھی ناکام رہی۔ بعد میں وزیراعلیٰ نے تاخیر کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے اس کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قومی احتساب بیورو کی طرف سے تقریباً 68 ارب روپے پر مشتمل اس منصوبے کے بارے میں ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ جمع کرادی گئی ہے لیکن پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر اس رپورٹ کو سیل کردیا گیا ہے تاکہ یہ منصوبہ مزید تاخیر کا شکار نہ ہو۔

یہ امر بھی اہم ہے کہ اس منصوبے میں مسلسل تاخیر اور اس میں سامنے آنے والے نقائص کے باعث مرکز اور صوبوں میں موجود تحریک انصاف کی حکومتوں کو میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں کے ہاتھوں شدید تنقید اور دباؤ کا سامنا رہا ہے۔
 

آصف اثر

معطل
ایک میں "قومی خزانے" کو اربوں کا نقصان اور دوسرے میں "کوتاہی، جلدبازی"۔ کیا کہنے۔ اب قوم اتنی بھی بیوقوف نہیں۔

جاسم محمد آپ کا بیانیہ یکطرفہ ہونے کی وجہ سے اپنی وقعت کھورہا ہے۔ لہذا مستقبل میں شائد آپ سے مزید بات چیت کرنا بے جا ہوگا۔
 

جاسم محمد

محفلین
پشاور ہو یا لاہور۔ نقصان تو مشترکہ قومی خزانے کا ہی ہو رہا ہے۔
ایک میں "قومی خزانے" کو اربوں کا نقصان اور دوسرے میں "کوتاہی، جلدبازی"۔ کیا کہنے۔ اب قوم اتنی بھی بیوقوف نہیں۔
27 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منصوبے کی ڈیزاننگ، منصوبہ بندی اور تعمیراتی کام میں متعدد سنگین غلطیاں اور کوتاہیاں کی گئیں جس سے نہ صرف منصوبہ مقررہ وقت پر مکمل نہ ہوسکا بلکہ اس سے سرکاری پیسہ بھی ضائع ہوا۔
 
Top