بات لاتوں ہی سے بگڑی ہے اور مزید بگڑتی جائیگی اگر پاکستان کی ایک خاص کلاس نے اس زبان میں بات کرنے کے روش ترک نہیں کی...
اللہ مرحومین کی مغفرت فرمائے (امین(
جی ، عبدالحمید بھائی ، آپ کی بات سے میں متفق ہوں۔ لیکن عام شہریوں کے قتلِ عام کو تو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ناں۔ بھلے وہ آرمی کے ہاتھوں ہو یا ان درندوں کے ہاتھوں۔
اگر سوات کی حد تک بات کریں تو یہاں صاف ظاہر ہے کہ حملہ پہلے آرمی پر کیا گیا جس میں 29 جوان مارے گئے ۔ اس حملے سے پہلے آرمی نے نہ تو کسی پر گولی چلائی تھی اور نہ ہی کسی کو گرفتار کیا تھا۔ پھر فضل اللہ کا اس حملے کے فوری بعد فرار ہونا چہ معنی دارد؟؟؟
اور فضل اللہ کے چیلے چانٹے بی بی سی ریڈیو پر گفتگو میں یہ کہہ رہے ہیں کہ جو بھی شریعت کے نفاذ میں آڑے آئے گا اس کا حال ایسا ( ذبح کرنا) ہی ہو گا۔ یہ اس دن کی بات ہے جس دن آرمی کے 8 جوانوں کو ذبح کر کے ان کے کٹے ہوئے سروں کی گاڑیوں میں نمائش کا مکروہ کام ان درندوں نے سر انجام دیا تھا۔
اللہ ہمیں ایسی شریعت اور اس کے مبلغوں سے محفوظ رکھے۔ ویسے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ساٹھ سال تک سوات میں شریعت کے نفاذ کا خیال اس منافق ٹولے کو کیوں نہیں آیا؟