سیفی
محفلین
شوق قدوائی لکھنو کے بڑے شاعر تھے۔ اپنا کلام سنانے کے بہت شوقین تھے۔ اسی لیے ان کے دوست، ہمسائے ان سے بہت گھبراتے۔ یہ ان کو دعوت کے بہانے یا بیماری کا دھوکا دے کر بلاتے۔ مرغن کھانے، آم، خربوزے کھلاتے، پھر اپنا کلام سنانے بیٹھ جاتے۔ سہ پہر کا پھنسا شکار رات تک ان کے کلام سے مستفید ہوتا، پھر اس کو ڈنر کراتے اور دستر خوان سے اٹھا کر غزلوں پر غزلیں سناتے۔ تھکاوٹ کے آثار دیکھتے تو چائے منگواتے، پان پیش کرتے یا حقہ بڑھاتے۔ وہ اجازت چاہتا تو اصرار کر کے اپنے ہاں سلا لیتے اور اس کے بیدار ہونے پر یہ سلسلہ پھر سے شروع کر دیتے۔ اگر شوق صاحب غسل خانے جاتے یا کسی ضرورت سے اٹھتے تو ان کی جگہ ان کے چھوٹے بھائی ابر قدوائی آن موجود ہوتے اور وہ اپنی غزلوں سے شوق فرمانا شروع کر دیتے، مشکل ہی سے بے چارے سامع کی جان چھوٹتی۔