سیما علی
لائبریرین
اور معرفت…
احبابِ ذی مقام ! گزشتہ ہفتے کا کالم’’حقیقت اور صداقت‘‘ ایک دقیق اور عمیق موضوع تھا… اہلِ فکر کیلئے یہ ایک دعوت ِ فکرِ مزید تھی۔ احباب کے محبت بھرے تبصروں اور سوالوں نے اس موضوع پرمزید لکھنے پر آمادہ کیا۔ دراصل اہلِ معانی کی نظر میں کوئی سے دو لفظ بھی مترادف نہیں ہوتے، ڈکشنری کے اعتبار سے لاکھ مترادف ہوں‘ معنی کے اعتبار سے ہر لفظ جدا جدا ہے۔ معانی بھی نازل ہوتے ہیں … اور انسانوں کی طرح الفاظ بھی معانی کی ترسیل کیلئے چنے جاتے ہیں۔ کسی پر کشف ِ معانی کا دَر کھلا … تو اْسے الگ سے کوئی لفظ ڈھونڈنا پڑا۔ چنانچہ ہر لفظ معانی کی ترسیل، کیفیت کی ترتیل اور ترجیحاتِ فکر کی ترتیب کے اعتبار سے الگ اہمیت کا حامل ہے۔ حاملین ِ فکر کبھی مترادفات پر اکتفا نہیں کرتے… یہ معانی کے سفر میںشارٹ کٹ کرنے کے چکر میں شارٹ سرکٹ ہونے کی غلطی ہوتی ہے۔ تشبیہات ہمیں شبہے میں ڈال سکتی ہیں۔ سونا اور چاندی دونوں قیمتی دھاتیں سہی، لیکن کوئی ذی شعور سونے کی جگہ چاندی قبول نہیں کرتا !! صفائی اور پاکیزگی ہم معنی نہیں۔ طہارت نصف ایمان ہے… اورطہارت پاکیزگی ہے‘ محض صفائی نہیں۔ پاکیزگی کا تعلق دل اور نیت کی پاکیزگی کے ساتھ ہے۔ ظاہری اعتبار سے ایک صفائی پسند شخص ممکن ہے‘باطنی طور پر نجس حالت میں ہو… اور اِس کا اْلٹ بھی عین درست ہو سکتا ہے۔ پریشان زلف اور گرد آلود لباس میں فٹ پاتھ کی بساند میں بیٹھا ساغرؔ ‘ عطر بیز فکر کے جام لنڈھا سکتا ہے۔ اِسی طرح اخلاقیات اور دینیات بھی ایک دوسرے کا متبادل نہیں۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ اخلاقیات میں الٰہیات شامل کرو تو دینیات ہے۔ بالفاظِ دیگر جس اخلاقیات میں الٰہیات شامل نہیں ‘ وہ محض آٓدابِِ محفل اور رکھ رکھاؤ میں مہارت کے سوا کچھ نہیں۔بالکل اِسی طرح انسانیت اور دین مترادفات ضرور ہیں‘ لیکن ایک دوسرے کے ہم معنی اور متبادل ہرگز نہیں۔ دین میں انسانیت کا سبق موجود ہے، لیکن انسانیت میں دین کا پیغام شامل نہیں… اِس لیے انسانیت دین کا متبادل نہیں!! ایک مذہب بیزار شخص عین ممکن ہے‘ عام لوگوں سے بہتر اخلاق کا مظاہرہ کرے‘ بسا اوقات وہ مذہب سے بغاوت کرتے ہوئے ردِّ عمل کے طور پر بھی خوش اخلاق ہو جاتا ہے… کیونکہ وہ یہی ثابت کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے کہ اخلاقیات اپنانے کیلئے مذہب کی قطعی ضرورت نہیں۔ اس کی خوش اخلاقی اور انسانیت دوستی کا بھرم اس وقت کھلتا ہے ‘ جب کوئی شخص اس کے مفاد اور اَنا کے راستے میں مزاحم ہوتا ہے۔ اِسی طرح حقیقت اور صداقت بھی مترادف ہو سکتے ہیں‘ ہم معنی نہیں۔ صاحبانِِ فکر کیلئے یہ بات وبال ہے کہ وہ سقراط کی اس بات پر قناعت کر لیں ’’حقیقت ہی صداقت ہے اور صداقت ہی حقیقت ہے‘‘… سقراط کی حکمت میں کوئی کلام نہیں لیکن ہمیں سقراط کے دَور میں حنوط نہیں ہونا، فکری مسائل "قدیم فلسفۂ یونان" سے کافی آگے بڑھ چکے ہیں۔ اْس دور کے فکری مسائل اور تھے، عہدِ سقراط میں سائنس اور فلسفہ الگ شعبوں میں منقسم نہ تھا۔ اِس لیے لازم ہے کہ حقیقت اور صداقت کا ربط الگ سے تلاش کیا جائے تاکہ موجودہ دَور کی فکری اْلجھنیں سلجھ سکیں۔ ہماری فکری گمراہیوںکا ایک سبب ہماری آسان کوشی بھی ہے، ہم بہت سے مترادف الفاظ کو ہم معنی لے لیتے ہیں۔ اِسی آسان کوشی کا فایدہ اْٹھاتے ہوئے فکری تخریب کار معانی کے قلعوں میں نقب لگاتے ہیں اور ایسے کلیشے گھڑ لیتے ہیں کہ مسافر اْن کی لچھے دار باتوں میں اْلجھ کر رہ جاتے ہیں… اوردیکھتے ہی دیکھتے ایک پوری نسل فکری طور پر اغوا ہو چکی ہوتی ہے۔ جاننے والوں پر فرض ہے کہ وہ ہوشیار باش الاپتے رہیں…سو! ایک صدقہ جاریہ جانتے ہوئے اس مضمون کو جو صرف دانشوروں کا منظرنامہ ہے ‘ ہرکہ خاص و عام کی خدمت میں اس کی ایک اور جہت پیش کی
حقیقت عین فطرت ہے… اور فطرت دائرۂ صفات ہے، جبکہ مقصودِ حقیقی حق ہے… اور حق‘ ذات ہے…متلاشیٔ حق کا مقصود فطرت نہیں‘ فاطر ہے… اور فاطر ‘ ذات ہے…ذات سے آشنائی کیلئے دائرۂ صداقت میں داخل ہونا لازم ہے۔ اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ فطرت ‘ حقیقت ہے…اورفاطر ‘ صداقت… اور اس صداقت تک رسائی کیلئے انسان ہی واحد وسیلہ ہے۔ دراصل ذات تک رسائی کیلئے ذات ہی درکار ہے!! سائنس فطرت کا مطالعہ ہے‘ فاطر کا محاکمہ نہیں۔اسی طرح سوشل سائنس انسانی رویوں کا مطالعہ ہے‘ اخلاقیات مرتب کرنے کا محکمہ نہیں۔ اخلاقیات کا ماخذ دین ہے… اور دین کا ماخذ وحی و الہام… اور وحی انسان پر نازل ہوئی… یہ بنی آدم کی تکریم ہے کہ رسول بنی آدم سے مبعوث کیے گئے…ولقد کرمنا بنی آدم۔
جائے ایمان قلب ہے، اور جائے عمل قالب! قلب میں موجزن ایمان جب قالب کو اپنے اثر میں لے لیتا ہے تو اس حالت کو یقین کہتے ہیں۔ یقین… ایمان اور وجود میں ربط اور رابطہ پیدا کرتا ہے۔ یقین عطا کرنا ایک صاحبِ یقین کا کام ہے۔علم الیقین پیدا کرنے کیلئے کسی عین الیقین والے کے پاس جانا پڑتا ہے… اور عین الیقین کیلئے کسی حق الیقین والے کے پاس!! جب تک انسان درمیان میں موجود نہ ہو‘ کتاب کا علم وجود پر وارد نہیں ہوتا۔ ہدایت کتاب سے نہیں‘ ہادی سے ملتی ہے۔ ہادی گم ہو جائے تو کتاب گمراہ بھی کر سکتی ہے۔ اپنے عقل کے زعم میں کتاب پڑھنے والا اپنے نفس کے مطابق مطلب اَخذ کرے گا… اور یہی فسق ہے۔ اِلہامی ہدایت کی تشریح میں اپنی تجویز شامل کرنا فسق بھی ہے اور موجب ِ فساد بھی!! یاد رہے کہ فسق تقوٰی کا اْلٹ ہے۔
صداقت کی دلیل صادق کا وجود ہے‘ جبکہ حقیقت کی دلیل میں منطق، تجزیہ اور تجربہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً مسئلہ فیثاغورث جاننے کیلئے فیثا غورث کی ذات کو ماننا ضروری نہیں، یہ مسئلہ کوئی بھی شخص حسابی کتابی کلیے سے ثابت کر سکتا ہے۔ اسی طرح ’’سورج مشرق سے نکلتا ہے‘‘ اور’’جیسا کروگے ‘ ویسا بھرو گے‘‘ فطری کلیات ہیں… ان کلیات کو جاننے کیلئے‘کسی انسان کو ماننا لازم نہیں، جو شخص چاہے ‘ قطب نما لے کر تجربہ کر لے۔ اسی طرح اخلاقیات کے کلیے ہماری روز مرہ زندگی میں ثابت ہو جاتے ہیں، مثلاً "لوگوں کو فائدہ پہنچانے والے خود بھی فائدے میں رہتے ہیں" اور یہ کہ " دوسروں کیلئے ضرررساں لوگ بالا?خر خود نقصان اْٹھاتے ہیں" … یہ کلیات ہماری فوک وزڈم wisdom folk ہیں، صدیوں کے تجربے نے اِنسان کو اِس نتیجے پر پہنچایا کہ policy Honesty is the best ، دیانت داری ہی بہترین پالیسی ہوتی ہے۔ دنیا کا ہر ذی شعور آدمی یہ معاشرتی و اخلاقی کلیہ جانتا ہے۔ حقیقت اور صداقت میں فرق چند مثالوں سے مزید واضح ہو سکتا ہے … مثال کے طور پر اگر میں ایک سائنسی کلیہ سمجھتے ہوئے پانی تین سانس میں پیتا ہوں ، اور پانی کے برتن میں پھونک نہیں مارتا ‘ تو یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ اِس پر عمل کرنے سے میں صحت مندرہوں گا، مجھے جسمانی فائدہ پہنچے گا… لیکن مجھے ثواب نہ ہوگا۔ ثواب ( مابعد کا فائدہ ) مجھے اْس وقت حاصل ہوگا جب میں یہ کام رسولؐ اللہ کی سنت سمجھ کر اپناؤں گا۔ جب میں اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی رضا کیلئے، یعنی ذاتی طور پر انہیں خوش کرنے کیلئے کوئی اخلاقی کلیہ اپناتا ہوں تو یہ ایک مکمل اخلاقیات ہے، بصورت ِ دیگرمیرے اخلاقیات کے تمام Gesture ایک معاشرتی رکھ رکھاؤ norms socical ہیں… یعنی دینی حوالے کے بغیر ‘ جسے میں اخلاقیات کا نام دیتا ہوں‘ یہ خود کو دوسروں کے شر سے محفوظ رکھنے کا ایک معاشرتی ہنر ہے‘ جو میں نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد کے ماحول سے سیکھ لیا ہے۔ صرف دین میں بتائی ہوئی اخلاقیات پر عمل پیرا ہونے سے میں صداقت تک پہنچ سکتا ہوں۔ رسولؐ اللہ کی ذاتِ گرامی پر ایمان لاکر انسان اْس عالم میں بھی ایک خوبصورت شناخت حاصل کرسکتا ہے ‘ جس عالم کی خبر رسولِ ِ صادقؐ نے دی ہے…جس عالم کی تصدیق یا تردید انسان کے حواسِ خمسہ اپنی تمام تر عقلی اور منطقی مہارتوں کے باوجود نہیں کر سکتے۔
بحوالۂ صادقؐ صداقت کے اعتراف کے بعد معرفت کا باب کھلتا ہے۔ معرفت کے آسان ترین معنی پہچان کے ہیں… پہچان انسان کی درکار ہے، انسانوں کی دنیا میں ہم چہرے سے انسان کو پہچانتے ہیں۔ یہاں وجہہ اللہ کا راز کھل سکتا ہے… "فاینما تولو فثم وجہہ اللہ"۔ اہلِ معرفت کو انسان کے چہرے میں کسی اور کا چہرہ نظر آتا ہے؎
ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت
عارفِ کامل واصف علی واصفؒ اسی مشاہدے کے اگلے مراحل بیان کرتے ہیں؎
صورت میری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی
نظروں میں بسی رہتی ہے سرکارؐ کی صورت
’’فضلنا بعضھم علی بعض‘‘… ہم نے بعض کو بعض پر فصیلت دی۔ فضیلت کا کلیہ تخلیق کے اوّلین کلیات میں سے ہے۔ جب تک درجے مقرر نہ کیے جائیں ‘ عالمِ کثرت میں تنوع ممکن نہیں۔ ارتقائے فکر فضیلتوں کے مطالعے سے ہی ممکن ہے۔ جس کو اپنے سے افضل کوئی انسان نظر نہ آئے ‘ وہ اَنا کی آگ میں بھسم ہو کر رہ جاتا ہے… اْس میں نمو اور نمود ناممکن ہو جاتی ہے۔ انسانوں کی درجہ بندی میں دولت اور طاقت کو حتمی سمجھنے والے کسی اعلیٰ فکرکے مسافر نہیں ہو سکتے۔ تکریم کے باب میں اصل معیار تقویٰ بتایا گیا… اورتقویٰ کا ایک مفہوم سورۃ الحجرات میں تکریمِ رسولِ کریمؐ ہے۔ یعنی فضیلتوں کے باب میں وہ انسان ترقی کرے گا جو انسانِ کامل الانسانؐ کی تکریم کا عملی طور پر قائل ہوگا۔ اہلِ معرفت کہتے ہیں کہ معرفت درحقیقت "م" کی پہچان ہے، اور یہ پہچان بہ وسیلۂ ولایت ممکن ہوتی ہے۔ معرفت ِ حق‘ درحقیقت معرفتِ نورِ محمدیؐ ہے۔ پس درجۂ تفضیل میں کسی افضل انسان ہی کی معرفت ہم انسانِ کاملؐ تک پہنچتے ہیں … اور انسانِ کاملؐ کی معرفت خالقِِ حقیقی تک!! القصہ حقیقت کے منظر نامے سے ہوتے ہوئے بہ وسیلۂ انسانِ کاملؐ ہم صداقت کی وادی تک پہنچتے ہیں… اور جسے اِس وادی میں قیام میسر آجائے اسے خیمۂ معرفت میں داخل ہونے کا اِذن مل جاتا ہے۔ احادیث میں اْمت کو یہ دعا تعلیم کی گئی ہے" اللھم ارنا الاشیا کما ھی‘‘… اے اللہ! مجھے چیزیں دکھا‘جیسا کہ وہ حقیقت میں ہیں۔ شیخِ اکبر حضرت محی الدین ابن عربیؒ یہ راز منکشف کرتے ہیں کہ اشیا کی حقیقت ’’یشاء ‘‘ ہے، یعنی اشیاء کا وجود خالقِ حقیقی کی ’’یشاء ‘‘ کا ظہور ہے۔ گویا مشیت ِ الٰہیہ کی آنکھ سے دیکھنے والا اشیا کی اصل حقیقت دیکھ لے گا۔ یہاں دائرہ مکمل ہو جاتا ہے۔عالمِ ظاہر میں حقیقت سے سفر شروع کرنے والا مسافر‘ صداقت اور معرفت کی کیف آگیں وادیوں سے گزرتا ہوا حقیقت کی اصل حقیقت یعنی حقیقتِ کاملہ تک پہنچ جاتا ہے!! یہاں پہنچنے والا انسان کہہ سکتا ہے کہ حقیقت حق ہے اور حق حقیقت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احبابِ ذی مقام ! گزشتہ ہفتے کا کالم’’حقیقت اور صداقت‘‘ ایک دقیق اور عمیق موضوع تھا… اہلِ فکر کیلئے یہ ایک دعوت ِ فکرِ مزید تھی۔ احباب کے محبت بھرے تبصروں اور سوالوں نے اس موضوع پرمزید لکھنے پر آمادہ کیا۔ دراصل اہلِ معانی کی نظر میں کوئی سے دو لفظ بھی مترادف نہیں ہوتے، ڈکشنری کے اعتبار سے لاکھ مترادف ہوں‘ معنی کے اعتبار سے ہر لفظ جدا جدا ہے۔ معانی بھی نازل ہوتے ہیں … اور انسانوں کی طرح الفاظ بھی معانی کی ترسیل کیلئے چنے جاتے ہیں۔ کسی پر کشف ِ معانی کا دَر کھلا … تو اْسے الگ سے کوئی لفظ ڈھونڈنا پڑا۔ چنانچہ ہر لفظ معانی کی ترسیل، کیفیت کی ترتیل اور ترجیحاتِ فکر کی ترتیب کے اعتبار سے الگ اہمیت کا حامل ہے۔ حاملین ِ فکر کبھی مترادفات پر اکتفا نہیں کرتے… یہ معانی کے سفر میںشارٹ کٹ کرنے کے چکر میں شارٹ سرکٹ ہونے کی غلطی ہوتی ہے۔ تشبیہات ہمیں شبہے میں ڈال سکتی ہیں۔ سونا اور چاندی دونوں قیمتی دھاتیں سہی، لیکن کوئی ذی شعور سونے کی جگہ چاندی قبول نہیں کرتا !! صفائی اور پاکیزگی ہم معنی نہیں۔ طہارت نصف ایمان ہے… اورطہارت پاکیزگی ہے‘ محض صفائی نہیں۔ پاکیزگی کا تعلق دل اور نیت کی پاکیزگی کے ساتھ ہے۔ ظاہری اعتبار سے ایک صفائی پسند شخص ممکن ہے‘باطنی طور پر نجس حالت میں ہو… اور اِس کا اْلٹ بھی عین درست ہو سکتا ہے۔ پریشان زلف اور گرد آلود لباس میں فٹ پاتھ کی بساند میں بیٹھا ساغرؔ ‘ عطر بیز فکر کے جام لنڈھا سکتا ہے۔ اِسی طرح اخلاقیات اور دینیات بھی ایک دوسرے کا متبادل نہیں۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ اخلاقیات میں الٰہیات شامل کرو تو دینیات ہے۔ بالفاظِ دیگر جس اخلاقیات میں الٰہیات شامل نہیں ‘ وہ محض آٓدابِِ محفل اور رکھ رکھاؤ میں مہارت کے سوا کچھ نہیں۔بالکل اِسی طرح انسانیت اور دین مترادفات ضرور ہیں‘ لیکن ایک دوسرے کے ہم معنی اور متبادل ہرگز نہیں۔ دین میں انسانیت کا سبق موجود ہے، لیکن انسانیت میں دین کا پیغام شامل نہیں… اِس لیے انسانیت دین کا متبادل نہیں!! ایک مذہب بیزار شخص عین ممکن ہے‘ عام لوگوں سے بہتر اخلاق کا مظاہرہ کرے‘ بسا اوقات وہ مذہب سے بغاوت کرتے ہوئے ردِّ عمل کے طور پر بھی خوش اخلاق ہو جاتا ہے… کیونکہ وہ یہی ثابت کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے کہ اخلاقیات اپنانے کیلئے مذہب کی قطعی ضرورت نہیں۔ اس کی خوش اخلاقی اور انسانیت دوستی کا بھرم اس وقت کھلتا ہے ‘ جب کوئی شخص اس کے مفاد اور اَنا کے راستے میں مزاحم ہوتا ہے۔ اِسی طرح حقیقت اور صداقت بھی مترادف ہو سکتے ہیں‘ ہم معنی نہیں۔ صاحبانِِ فکر کیلئے یہ بات وبال ہے کہ وہ سقراط کی اس بات پر قناعت کر لیں ’’حقیقت ہی صداقت ہے اور صداقت ہی حقیقت ہے‘‘… سقراط کی حکمت میں کوئی کلام نہیں لیکن ہمیں سقراط کے دَور میں حنوط نہیں ہونا، فکری مسائل "قدیم فلسفۂ یونان" سے کافی آگے بڑھ چکے ہیں۔ اْس دور کے فکری مسائل اور تھے، عہدِ سقراط میں سائنس اور فلسفہ الگ شعبوں میں منقسم نہ تھا۔ اِس لیے لازم ہے کہ حقیقت اور صداقت کا ربط الگ سے تلاش کیا جائے تاکہ موجودہ دَور کی فکری اْلجھنیں سلجھ سکیں۔ ہماری فکری گمراہیوںکا ایک سبب ہماری آسان کوشی بھی ہے، ہم بہت سے مترادف الفاظ کو ہم معنی لے لیتے ہیں۔ اِسی آسان کوشی کا فایدہ اْٹھاتے ہوئے فکری تخریب کار معانی کے قلعوں میں نقب لگاتے ہیں اور ایسے کلیشے گھڑ لیتے ہیں کہ مسافر اْن کی لچھے دار باتوں میں اْلجھ کر رہ جاتے ہیں… اوردیکھتے ہی دیکھتے ایک پوری نسل فکری طور پر اغوا ہو چکی ہوتی ہے۔ جاننے والوں پر فرض ہے کہ وہ ہوشیار باش الاپتے رہیں…سو! ایک صدقہ جاریہ جانتے ہوئے اس مضمون کو جو صرف دانشوروں کا منظرنامہ ہے ‘ ہرکہ خاص و عام کی خدمت میں اس کی ایک اور جہت پیش کی
حقیقت عین فطرت ہے… اور فطرت دائرۂ صفات ہے، جبکہ مقصودِ حقیقی حق ہے… اور حق‘ ذات ہے…متلاشیٔ حق کا مقصود فطرت نہیں‘ فاطر ہے… اور فاطر ‘ ذات ہے…ذات سے آشنائی کیلئے دائرۂ صداقت میں داخل ہونا لازم ہے۔ اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ فطرت ‘ حقیقت ہے…اورفاطر ‘ صداقت… اور اس صداقت تک رسائی کیلئے انسان ہی واحد وسیلہ ہے۔ دراصل ذات تک رسائی کیلئے ذات ہی درکار ہے!! سائنس فطرت کا مطالعہ ہے‘ فاطر کا محاکمہ نہیں۔اسی طرح سوشل سائنس انسانی رویوں کا مطالعہ ہے‘ اخلاقیات مرتب کرنے کا محکمہ نہیں۔ اخلاقیات کا ماخذ دین ہے… اور دین کا ماخذ وحی و الہام… اور وحی انسان پر نازل ہوئی… یہ بنی آدم کی تکریم ہے کہ رسول بنی آدم سے مبعوث کیے گئے…ولقد کرمنا بنی آدم۔
جائے ایمان قلب ہے، اور جائے عمل قالب! قلب میں موجزن ایمان جب قالب کو اپنے اثر میں لے لیتا ہے تو اس حالت کو یقین کہتے ہیں۔ یقین… ایمان اور وجود میں ربط اور رابطہ پیدا کرتا ہے۔ یقین عطا کرنا ایک صاحبِ یقین کا کام ہے۔علم الیقین پیدا کرنے کیلئے کسی عین الیقین والے کے پاس جانا پڑتا ہے… اور عین الیقین کیلئے کسی حق الیقین والے کے پاس!! جب تک انسان درمیان میں موجود نہ ہو‘ کتاب کا علم وجود پر وارد نہیں ہوتا۔ ہدایت کتاب سے نہیں‘ ہادی سے ملتی ہے۔ ہادی گم ہو جائے تو کتاب گمراہ بھی کر سکتی ہے۔ اپنے عقل کے زعم میں کتاب پڑھنے والا اپنے نفس کے مطابق مطلب اَخذ کرے گا… اور یہی فسق ہے۔ اِلہامی ہدایت کی تشریح میں اپنی تجویز شامل کرنا فسق بھی ہے اور موجب ِ فساد بھی!! یاد رہے کہ فسق تقوٰی کا اْلٹ ہے۔
صداقت کی دلیل صادق کا وجود ہے‘ جبکہ حقیقت کی دلیل میں منطق، تجزیہ اور تجربہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً مسئلہ فیثاغورث جاننے کیلئے فیثا غورث کی ذات کو ماننا ضروری نہیں، یہ مسئلہ کوئی بھی شخص حسابی کتابی کلیے سے ثابت کر سکتا ہے۔ اسی طرح ’’سورج مشرق سے نکلتا ہے‘‘ اور’’جیسا کروگے ‘ ویسا بھرو گے‘‘ فطری کلیات ہیں… ان کلیات کو جاننے کیلئے‘کسی انسان کو ماننا لازم نہیں، جو شخص چاہے ‘ قطب نما لے کر تجربہ کر لے۔ اسی طرح اخلاقیات کے کلیے ہماری روز مرہ زندگی میں ثابت ہو جاتے ہیں، مثلاً "لوگوں کو فائدہ پہنچانے والے خود بھی فائدے میں رہتے ہیں" اور یہ کہ " دوسروں کیلئے ضرررساں لوگ بالا?خر خود نقصان اْٹھاتے ہیں" … یہ کلیات ہماری فوک وزڈم wisdom folk ہیں، صدیوں کے تجربے نے اِنسان کو اِس نتیجے پر پہنچایا کہ policy Honesty is the best ، دیانت داری ہی بہترین پالیسی ہوتی ہے۔ دنیا کا ہر ذی شعور آدمی یہ معاشرتی و اخلاقی کلیہ جانتا ہے۔ حقیقت اور صداقت میں فرق چند مثالوں سے مزید واضح ہو سکتا ہے … مثال کے طور پر اگر میں ایک سائنسی کلیہ سمجھتے ہوئے پانی تین سانس میں پیتا ہوں ، اور پانی کے برتن میں پھونک نہیں مارتا ‘ تو یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ اِس پر عمل کرنے سے میں صحت مندرہوں گا، مجھے جسمانی فائدہ پہنچے گا… لیکن مجھے ثواب نہ ہوگا۔ ثواب ( مابعد کا فائدہ ) مجھے اْس وقت حاصل ہوگا جب میں یہ کام رسولؐ اللہ کی سنت سمجھ کر اپناؤں گا۔ جب میں اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی رضا کیلئے، یعنی ذاتی طور پر انہیں خوش کرنے کیلئے کوئی اخلاقی کلیہ اپناتا ہوں تو یہ ایک مکمل اخلاقیات ہے، بصورت ِ دیگرمیرے اخلاقیات کے تمام Gesture ایک معاشرتی رکھ رکھاؤ norms socical ہیں… یعنی دینی حوالے کے بغیر ‘ جسے میں اخلاقیات کا نام دیتا ہوں‘ یہ خود کو دوسروں کے شر سے محفوظ رکھنے کا ایک معاشرتی ہنر ہے‘ جو میں نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد کے ماحول سے سیکھ لیا ہے۔ صرف دین میں بتائی ہوئی اخلاقیات پر عمل پیرا ہونے سے میں صداقت تک پہنچ سکتا ہوں۔ رسولؐ اللہ کی ذاتِ گرامی پر ایمان لاکر انسان اْس عالم میں بھی ایک خوبصورت شناخت حاصل کرسکتا ہے ‘ جس عالم کی خبر رسولِ ِ صادقؐ نے دی ہے…جس عالم کی تصدیق یا تردید انسان کے حواسِ خمسہ اپنی تمام تر عقلی اور منطقی مہارتوں کے باوجود نہیں کر سکتے۔
بحوالۂ صادقؐ صداقت کے اعتراف کے بعد معرفت کا باب کھلتا ہے۔ معرفت کے آسان ترین معنی پہچان کے ہیں… پہچان انسان کی درکار ہے، انسانوں کی دنیا میں ہم چہرے سے انسان کو پہچانتے ہیں۔ یہاں وجہہ اللہ کا راز کھل سکتا ہے… "فاینما تولو فثم وجہہ اللہ"۔ اہلِ معرفت کو انسان کے چہرے میں کسی اور کا چہرہ نظر آتا ہے؎
ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت
عارفِ کامل واصف علی واصفؒ اسی مشاہدے کے اگلے مراحل بیان کرتے ہیں؎
صورت میری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی
نظروں میں بسی رہتی ہے سرکارؐ کی صورت
’’فضلنا بعضھم علی بعض‘‘… ہم نے بعض کو بعض پر فصیلت دی۔ فضیلت کا کلیہ تخلیق کے اوّلین کلیات میں سے ہے۔ جب تک درجے مقرر نہ کیے جائیں ‘ عالمِ کثرت میں تنوع ممکن نہیں۔ ارتقائے فکر فضیلتوں کے مطالعے سے ہی ممکن ہے۔ جس کو اپنے سے افضل کوئی انسان نظر نہ آئے ‘ وہ اَنا کی آگ میں بھسم ہو کر رہ جاتا ہے… اْس میں نمو اور نمود ناممکن ہو جاتی ہے۔ انسانوں کی درجہ بندی میں دولت اور طاقت کو حتمی سمجھنے والے کسی اعلیٰ فکرکے مسافر نہیں ہو سکتے۔ تکریم کے باب میں اصل معیار تقویٰ بتایا گیا… اورتقویٰ کا ایک مفہوم سورۃ الحجرات میں تکریمِ رسولِ کریمؐ ہے۔ یعنی فضیلتوں کے باب میں وہ انسان ترقی کرے گا جو انسانِ کامل الانسانؐ کی تکریم کا عملی طور پر قائل ہوگا۔ اہلِ معرفت کہتے ہیں کہ معرفت درحقیقت "م" کی پہچان ہے، اور یہ پہچان بہ وسیلۂ ولایت ممکن ہوتی ہے۔ معرفت ِ حق‘ درحقیقت معرفتِ نورِ محمدیؐ ہے۔ پس درجۂ تفضیل میں کسی افضل انسان ہی کی معرفت ہم انسانِ کاملؐ تک پہنچتے ہیں … اور انسانِ کاملؐ کی معرفت خالقِِ حقیقی تک!! القصہ حقیقت کے منظر نامے سے ہوتے ہوئے بہ وسیلۂ انسانِ کاملؐ ہم صداقت کی وادی تک پہنچتے ہیں… اور جسے اِس وادی میں قیام میسر آجائے اسے خیمۂ معرفت میں داخل ہونے کا اِذن مل جاتا ہے۔ احادیث میں اْمت کو یہ دعا تعلیم کی گئی ہے" اللھم ارنا الاشیا کما ھی‘‘… اے اللہ! مجھے چیزیں دکھا‘جیسا کہ وہ حقیقت میں ہیں۔ شیخِ اکبر حضرت محی الدین ابن عربیؒ یہ راز منکشف کرتے ہیں کہ اشیا کی حقیقت ’’یشاء ‘‘ ہے، یعنی اشیاء کا وجود خالقِ حقیقی کی ’’یشاء ‘‘ کا ظہور ہے۔ گویا مشیت ِ الٰہیہ کی آنکھ سے دیکھنے والا اشیا کی اصل حقیقت دیکھ لے گا۔ یہاں دائرہ مکمل ہو جاتا ہے۔عالمِ ظاہر میں حقیقت سے سفر شروع کرنے والا مسافر‘ صداقت اور معرفت کی کیف آگیں وادیوں سے گزرتا ہوا حقیقت کی اصل حقیقت یعنی حقیقتِ کاملہ تک پہنچ جاتا ہے!! یہاں پہنچنے والا انسان کہہ سکتا ہے کہ حقیقت حق ہے اور حق حقیقت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔