اور پھر میں نے شیر کو پٹخ ڈالا

اور پھر میں نے شیر کو پٹخ ڈالا
وسعت اللہ خانبی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
  • 19 مئ 2015
140624221444_nawaz_sharif_and_musharraf_624x351_ap_nocredit.jpg

سابق چیف ایگزیکٹیو، تین بار کے صدرِ پاکستان، تین مدت کے چیف آف آرمی سٹاف، ایک مدت کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین اور ایک عدد ماڑی موٹی ملک گیر سیاسی جماعت کے مالک پرویز مشرف ریٹائرمنٹ کے آٹھ برس بعد بھی اپنی بات پر قائم ہیں کہ 1999 کی جنگِ کارگل پاکستان کی سب سے بڑی فوجی فتح تھی۔
’ہماری سیکنڈ لائن آف ڈیفنس نے پانچ مقامات سے کارگل میں داخل ہو کر بھارت کو گلے سے پکڑ لیا تھا لیکن سیاسی قیادت نے یہ عظیم موقع ضائع کر دیا۔ پھر بھی بھارت کو یہ تین ماہ کبھی نہیں بھولیں گے۔‘
پرویز مشرف نے یہ باتیں دو روز پہلے کراچی میں اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ یوتھ ونگ کے بچوں سے کیں۔ اور یہ جانتے بوجھتے کیں کہ نواز شریف، جنرل عزیز، جنرل محمود، بروس ریڈل اور بل کلنٹن اب بھی حیات ہیں۔
غلط آمد
’بابا جی نے صرف بھارت کو ہی کارگل میں گلے سے نہیں پکڑا بلکہ اس کے فوراً بعد نواز شریف کو گلے سے پکڑا۔ وہ تو سعودی عرب غلط موقع پر آ گیا اور بابا جی کے پنجوں سے چھڑا لے گیا۔ پھر 11/9 ہوگیا اور امریکہ نے بابا جی کو گلے سے پکڑ لیا اور انہوں نے یہ کہہ کر گلو خلاصی کروائی کہ بھاگوان جو تو کہتا ہے میں کرتا ہوں مگر گلا تو چھوڑ ظالم ۔۔پھر بابا جی کی کچھ سمجھ میں نہ آیا تو رفیق تارڑ کے گلے سے صدارت اتار کے اپنے گلے میں ڈال لی۔‘
پرویز مشرف صاحب ماشااللہ 72 برس کے ہو چکے ہیں اور72 برس کا آدمی کچھ بھی کہے اسے احتراماً سر جھکا کے ’جی سر جی‘ کہتے ہوئے سن لینا چاہیے۔ ویسے بھی ہماری تہذیب اس بنیاد پر کھڑی ہے کہ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است ۔۔۔۔
عمر کا یہ وہ دور ہوتا ہے جس میں تنہائی کے مارے آدمی کا جی چاہتا ہے کہ بچے اس کے آس پاس آلتی پالتی بیٹھے رہیں اور وہ انھیں اپنے دلچسپ تجربات سے محظوظ کرتا رہے۔ بچوں کے سامنے کچھ بھی کہنا اس لیے محفوظ ہے کہ وہ قصے کی حقیقت اگر پرکھ نہ بھی پائیں تو اسے ایک دلچسپ کہانی سمجھ کے لطف اندوز ضرور ہوتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کے کان میں کہتے ہیں ’بابا جی بہت انٹرسٹنگ ہیں۔‘
140814153224_kargil_1999_624x351_ap.jpg

بابا جی نے کارگل میں صرف بھارت ہی کو گلے سے نہیں پکڑا بلکہ اس کے فوراً بعد نواز شریف کو گلے سے پکڑ لیا۔ وہ تو سعودی عرب غلط موقعے پر آ گیا اور بابا جی کے پنجوں سے چھڑا لے گیا۔ پھر 11/9 ہوگیا اور امریکہ نے بابا جی کو گلے سے پکڑ لیا اور انھوں نے یہ کہہ کر گلو خلاصی کروائی کہ بھاگوان جو تو کہتا ہے میں کرتا ہوں مگر گلا تو چھوڑ ظالم ۔۔۔
پھر بابا جی کی کچھ سمجھ میں نہ آیا تو رفیق تارڑ کے گلے سے صدارت اتار کے اپنے گلے میں ڈال لی۔ بعد ازاں وہ آئین کے گلے پڑ گئے اور 17ویں ترمیم قوم کے گلے میں ڈال لی۔ جب بابا جی نے اکبر بگٹی کو گلے سے پکڑا تو بلوچستان ان کے گلے پڑ گیا اور آج تک گلے کا ہار ہے۔
آخر آخر سپریم کورٹ کو بھی بابا جی نے کارگل کی طرح فتح کرنا چاہا۔ وہ تو عوام نے ساتھ نہیں دیا ورنہ افتخار محمد چوہدری کو مزا چکھا کر کارگل جیسی ایک اور فتح اپنے نام کر لیتے۔
الٹا آصف زرداری نے انھیں گلے سے پکڑ کے براستہ گارڈ آف آنر ایوانِ صدر سے باہر رکھ دیا اور پھر اگلی حکومت نے ان کے گلے میں آرٹیکل چھ کی چونڈی (کلپ) لگانے کی کوشش کی۔ وہ تو خیر ہوئی کہ سعادت مند ’جونیئرز ‘ نے بابا جی کے سامنے ڈاکٹروں کو ڈھال بنا کے کھڑا کر دیا تاکہ باقی وقت وہ قصے کہانیوں پر گزار لیں۔
’ہاں تو بچو میں یہ کہہ رہا تھا کہ جب 20 فٹ لمبا شیر میرے سامنے آیا تو میں بالکل خوفزدہ نہیں ہوا بلکہ مچان سے اتر کر اس کے سامنے سینہ تان کے کھڑا ہوگیا۔۔۔
مگر دادا جی کیا شیر 20 فٹ کا بھی ہوتا ہے؟
چلو دس فٹ کا کر لو۔۔۔ اب اس سے کم نہیں کروں گا۔۔۔ آرام سے کہانی سنو۔۔۔ تو جب میں مچان سے اتر کر شیر کے سامنے سینہ تان کے کھڑا ہوگیا تو میں نے شیر سے کہا مارو گولی مجھے۔۔۔
لیکن داد جی بندوق تو آپ کے پاس ۔۔۔؟؟
خاموشی سے بیٹھ کے سنتے ہو یا نہیں۔ایک تو آج کل کے بچے خود کو معلوم نہیں افلاطون کیوں سمجھتے ہیں ۔۔۔ ہاں تو پھر میں نے شیر سے کہا کہ مارو گولی مجھے۔ یہ سن کر شیر آبدیدہ ہوگیا اور میرے بوٹوں پر پاؤں رکھ کے کہا۔ یا استاد معاف کر دو تم انسان نہیں، انسان کے روپ میں اصلی باتصویر نسلی شیر ہو۔۔۔ اور پھر میں نے اس دس فٹ کی بلا کو گلے سے پکڑ کے بلی کی طرح زور سے پٹخ دیا ۔ بے چارا شیر کپڑے جھاڑتا ہوا سر جھکائے خجل خجل جنگل میں غائب ہوگیا‘۔۔۔۔۔(تالیاں)۔۔۔۔
 
یہ بات واقعی مزے کی ہے کہ :)
پرویز مشرف نے یہ باتیں دو روز پہلے کراچی میں اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ یوتھ ونگ کے بچوں سے کیں۔ اور یہ جانتے بوجھتے کیں کہ نواز شریف، جنرل عزیز، جنرل محمود، بروس ریڈل اور بل کلنٹن اب بھی حیات ہیں۔
 
جنرل پرویز مشرف کی فتح - نذیر ناجی
محاورے میں تو احمقوں کی جنت کے بارے میں سنا کرتے تھے لیکن حقیقت کی دنیا میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں‘ اس پر یقین نہیں تھا اور لوگ بھی ایسے جو ہمارے ملک کے سربراہ رہ چکے ہوں۔ مجھے اشارہ کرنے کی ضرورت نہیں‘ آپ نے خود ہی سمجھ لیا ہو گا کہ ایسی بڑیں ہانکنے والی شخصیت‘ خود ہمارے ملک میں رونق افروز ہے اور آج بھی اس کا یہی خیال ہے کہ ان سے زیادہ دانا اور سمجھدار آدمی‘ ہمارے ملک میں نہیں ہے۔ایک اعتبار سے تو وہ صحیح ہی سمجھتے ہیں۔ احمقوں کی جنت میں بسنے والا کوئی شخص اگر ہمارے ملک میں دس برس حکومت کر جائے‘ تو اسے کوئی بھی دعویٰ کرنے کا حق حاصل ہے اور جنرل(ر) پرویز مشرف نے یہ دعویٰ کر کے کوئی غلطی نہیں کی کہ وہ کارگل پر فتح کے جھنڈے گاڑ چکے تھے۔ بھارت کو ایسا عبرت ناک سبق سکھایا تھا‘ جسے بھارت کبھی نہیں بھول پائے گا اور ان کے شاندار کارنامے کو سیاسی قیادت نے مٹی میں ملا دیا‘ ورنہ وہ تو دنیا پر اپنی بہادری اور ذہانت کا سکہ جما چکے تھے۔وہ اس جنت میں اکیلے ہی نہیں رہتے‘ ان کے ہزاروں پرستار بھی‘ ان کے ساتھ ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ ابھی تک ا نہیں یقین ہے کہ وہ‘ دوبارہ اقتدار میں آئیں گے اور فتح کے جو جھنڈے انہوں نے گاڑے تھے‘انہیں دوبارہ گاڑ کے نہ صرف لہرائیں گے بلکہ دنیا پر اپنی دھاک بٹھا کر بھی رہیں گے۔آئیے! ان کی شاندار فتوحات کا جائزہ لیتے ہیں۔
کارگل کی چوٹیوں پر ہمیشہ برف جمی رہتی ہے حتیٰ کہ شدید گرمی کے موسم میں بھی کارگل کے پہاڑوں پر برف کا راج ہوتا ہے۔ ہمارے مفکرِاعظم نے یہی سوچ کر کارگل کی پہاڑیوں پر‘ فوج بھیجی تھی کہ بھارتی فوجی‘ وہاں برفانی پہاڑوں سے اتر کے آرام کر رہے ہوں گے اور ہمارے سپہ سالار کے انوکھے احکامات پر عمل کرتے ہوئے‘ ہمارے فوجی کارگل پر قبضہ کر کے‘ سیدھے سری نگر پہنچ جائیں گے۔جب یہ معرکہ انجام کو پہنچا تو اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے پوچھا تھا کہ مجھے یہ تو بتا دیا جائے کہ کارگل سے وہ کون سا راستہ‘ سری نگر کو جاتا ہے؟ جس پر چل کر‘ ہمارے جوان سری نگر تک جا سکتے تھے۔
اس سوال کو قریباً پندرہ سولہ برس ہو چکے ہیں‘ ابھی تک ہمارے سپہ سالار نے اس کا جواب نہیں دیا‘ حالانکہ وہ بہت عرصے تک اقتدار میں رہے اور چاہتے تو نصابی کتابوں میں یہ لکھوا سکتے تھے کہ کارگل سے سری نگر جانے والی سڑک کہاں پر واقع ہے؟ اور اس پر چلتے ہوئے ہماری فوج کس طرح کارگل کے پہاڑوں پر قبضہ کر سکتی تھی؟ ریٹائرڈجنرل صاحب نے بے شمار تقریریں کی ہیں ‘مگر کسی میں یہ بتانے کی ہمت نہیں کی کہ ہم کارگل سے کون سی سڑک پکڑ کر‘ سری نگر پہنچ سکتے تھے؟ ہمارے جنرل صاحب کی حکمت عملی یہ تھی کہ بھارتی فوج‘ مئی کے مہینے میں آرام کرنے واپس جا چکی ہو گی اور ہم خالی پہاڑوں پر پہنچ کر‘فتح کے جھنڈے گاڑ لیں گے۔اپنے خیال کے مطابق‘ انہوں نے جھنڈے تو گاڑ لئے اور شاید انہی جھنڈوں کا تذکرہ بار بار یاد آتا ہے اور وہ قوم کو اپنا عظیم احسان یاد دلاتے رہتے ہیں مگر ان کی قسمت کہ ان کے اس کارنامے کو نہ دشمن مانتا ہے اور نہ ہی ان کے اہل وطن۔ کیونکہ اصل میں جو کچھ ہوا‘ وہ پاکستانی قوم کی نظر میں بدترین فوجی کارروائی تھی ‘ جس کا حکم دینے والے اور اس پر عمل کرنے والے تاریخ کی بدترین ہزیمت سے دوچار ہوئے اور ان کی جو حالت ہوئی ‘پاک فوج کے افسر اور جوان اپنی تکلیفوں کو یاد کر کے آج بھی ان لمحات کو کوستے ہیں‘ جب انہوں نے کارگل کو فتح کر کے اس پر اور سری نگر پر قبضہ کرنے کی ٹھانی تھی۔ اگر کوئی احمقوں کی جنت میں رہنے پر مصر ہے تو اس کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا لیکن اگر کوئی دھکے دے کر‘ اسے نکالنے میں کامیاب ہو جائے تو اس جنت میں بسنے والوں کو اندازہ ہو گا کہ پاک فوج نے اتنا بڑا بلنڈر کبھی نہیں کیا ہو گا۔
قارئین کو اچھی طرح علم ہو گا کہ مئی اور جون کے مہینوں میں پہاڑوں پر برف پگھلنے لگتی ہے‘ مگر اتنی بھی نہیں پگھلتی کہ کارگل کے بلند پہاڑ بالکل ہی بے لباس ہو جائیں مگر ہمارے عظیم سپہ سالار اور ان کے ساتھیوں نے سوچا ہوگا کہ بھارتی فوجیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اگر وہ برف پگھلنے کے دنوں میں اپنے مورچے خالی کر کے نیچے اتر جائیں گے تو پاکستان کا عظیم سپہ سالار ‘ان پر قبضہ کرنے کے احکامات جاری کر دے گا۔ یوں بھارتی فوجی صحیح اندازہ کرنے سے قاصر رہے‘ ہمارے چیف آف آرمی سٹاف نے بھارتیوں کے خالی کئے ہوئے مورچوں پر جا کر آرام سے قبضہ کر لیا اور اپنی دانست میں بھارت کو شکست فاش دے دی۔اب سنئے ‘کارگل کی فتح کی قابلِ فخر کہانی۔ پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کو حکم دیا گیا کہ اس وقت بھارتی مورچے خالی پڑے ہوں گے۔ وہ اطمینان سے اوپر جا کر‘ ا ن پر قبضہ کر سکتے ہیں اور جو سڑک سری نگر کو جاتی ہے‘ اس پر چلتے ہوئے وہ سری نگر پہنچ سکتے ہیں۔ پتہ نہیں بیچارے کتنے سادہ لوح اور ڈسپلن کے مارے ہوئے پاک فوج کے جوان اور افسر‘ اس سڑک کی تلاش میں بھارتیوں کے نرغے میں آگئے اور انہیں بے رحم پہاڑوں پر کس طرح بھٹکتے ہوئے ‘جام شہادت نوش کرنا پڑا۔بھارتیوں نے ان خالی مورچوں پر قبضہ کرنے والے پاکستانی جوانوں پر ‘اس بری طرح سے حملہ کیا کہ انہیں جان بچانے کے لئے‘ بے رحم پہاڑوں پر اِدھر اُدھر بھٹکنا پڑا اور اکثر تو اسی تگ و دو میں جانیں گنوا بیٹھے۔ہمارے بہادر سپہ سالار نے اپنے سپاہیوں کو شاندار فتح حاصل کرنے کے لئے‘ صرف چند روز تک کا خشک راشن دیا تھا تاکہ وہ برف میں دبے ہوئے پہاڑوں پرخشک راشن کھا کر‘وقت گزارتے رہیں۔ وہاں پر کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو خشک راشن ختم ہونے کے بعد‘پیٹ بھرنے کے کام آتی۔ ہمارے جوانوں نے بہادری اور جاں فروشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘راشن کے بغیر بھی اپنی جدوجہد جاری رکھی لیکن وہ جاتے کہاں؟ نہ کوئی سڑک تھی اور نہ کسی محفوظ مقام کی طرف جانے والا راستہ۔ وہ بیچارے بلندیوں پر برف میں بھٹکتے رہے اور انتہائی بے بسی کے عالم میں تڑپ تڑپ کر جامِ شہادت نوش کرتے رہے اور جو بچ گئے ان کی طرف سے بار بار پیغامات آئے کہ کسی طرح سے انہیں وہاں سے نکالا جائے‘ کیونکہ بھارتی توپوں کے گولے ہر طرف سے برس رہے تھے۔ ایک طرف موسم کی بے رحمی تھی ۔ موت کے پنجے تھے اور دوسری طرف توپوں کے برستے ہوئے گولے۔
جب محفوظ مقامات پر موجود پاکستانی سپاہ کو اپنے ساتھیوں کی حالتِ زار کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنے کمانڈروں پر زور دیا کہ ساتھیوں کو بچانے کی تدبیر کی جائے لیکن جن کمانڈروں نے یہ احمقانہ ایڈونچر کرنے کا حکم دیا تھا ‘ ان کے پاس نہ کوئی تدبیر تھی‘ نہ اسلحہ‘ جسے استعمال کر کے وہ اپنے جوانوں کو محفوظ مقام کی طرف لا سکتے۔ یہ تھے وہ سنگین حالات‘ جن سے گھبرا کر پاکستان کے فاتح جنرل کو بھیگی بلی کی طرح‘وزیراعظم نوازشریف کو ڈھونڈنا پڑا اور ان سے التجا کرنا پڑی کہ وہ کسی طرح‘امریکہ کی مدد لے کر ہمارے فوجیوں کو بھارتیوں کی گولہ باری اور محاصرے سے بچائیں ۔ روایت کے مطابق‘ وزیر اعظم اس ایڈونچر سے بالکل بے خبر تھے اور حملے کا منصوبہ بناتے وقت‘ ان سے اجازت بھی نہیں لی گئی تھی لیکن وہ مصیبت میں گھری ہوئی اپنی فوج کو اس بیچارگی کی حالت میںچھوڑ بھی نہیں سکتے تھے ۔ چنانچہ انہیں امریکی حکومت سے ہنگامی طور پر کہنا پڑا کہ انہیں‘صدر کلنٹن سے ملاقات کا موقع فراہم کیا جائے۔ وہ دن امریکہ کے لئے ایک خصوصی دن تھا۔ صدر کلنٹن قومی تقریبات میں مصروف تھے‘ لیکن وزیراعظم نوازشریف کی خاطر انہیں وقت نکالنا پڑا۔انہوں نے صدر کلنٹن کو اپنے سپہ سالار کا کارنامہ بتاتے ہوئے‘ درخواست کی کہ وہ بھارتی وزیراعظم سے بات کر کے‘ہمارے گھیرے میںآئے ہوئے فوجیوں کو زندہ سلامت واپسی کا راستہ لے کر دیں۔ صدر کلنٹن نے فوری طور پر‘وزیراعظم واجپائی سے بات کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ گھیرے میں آئے ہوئے پاکستانی فوجیوں کو واپسی کا راستہ مہیا کریں۔بھارتی وزیراعظم نے جو چند روز کی مہلت لے کر دی تھی‘ اس میں گھیرے میں آئے ہوئے فوجیوں کو نکلنے کا وقت نہیں مل سکا جس پر ہمارے بہادر سپہ سالار نے دوبارہ وزیراعظم سے مزید مہلت مانگنے کے لئے کہا اور وزیراعظم نوازشریف نے دوبارہ صدر کلنٹن سے اصرار کر کے مہلت میں اضافہ کرایا۔
مجھے ان دنوں بھارتیوں کے نرغے سے نکل کر آنے والے فوجیوں کی حالتِ زار کا علم ہے۔ جان بچا کر واپس آنے والے فوجیوں اور جوانوں کی جو حالتِ زار تھی‘ اسے یاد کر کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے سپہ سالار نے فوجی افسروں اور جوانوں کو جس حال میں پہنچایا‘دشمن کی فوج نے بھی ہمارے جوانوں کو اس بری طرح سے گھیرے میں نہیں لیا تھا۔ جو جوان راستے میں ہی جان دے گئے یا جو نیم جانی کی حالت میں وطنِ عزیز کی سرزمین تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے‘ جب ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ‘تو ان کے پیٹ میں سے گھاس نکلی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پرویز مشرف نے فتح کے سبز پرچم اپنے جوانوں کے معدوں میں کس طرح لہرائے تھے؟ ان کی وہ کون سی فتح تھی‘ جس پر وہ آج بھی فخر کرتے ہیں اور اس پر اصرار بھی کرتے ہیں کہ بھارتیوں کو اپنی شکست تواچھی طرح یاد ہو گی۔ اللہ‘دشمن کی فوج کو بھی ایسی فتح سے ہمکنار نہ کرے‘ جو فتح ہمارے جنرل پرویز مشرف نے اپنے جوانوں کو دلوائی۔


- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/nazeer-naji/2015-05-20/11319/55150733#tab2
 
Top