اور کائنات ڈوب گئی

سید عمران

محفلین
تھپ پ پ۔۔۔
۔
۔
۔
توے پر کائنات کی آخری روٹی لگائی گئی!!!
۔
۔
۔
آسمان کے سیاہ کنارے صبح صادق کی سفیدی سے سرمگیں ہورہے تھے۔زندگی نئی صبح کے لیے انگڑائیاں لے کر بیدار ہونے لگی۔ پرندے گھونسلوں میں دھیرے دھیرے چہچہانا شروع ہوئے اور رات کی سستی دور کرکے نئی اڑان بھرنے کی تیاریوں میں لگ گئے۔
زمین پر بسی انسانوں کی بستیاں بھی آہستہ آہستہ جاگنے لگیں،سانس لیتی زندگی کی آوازوں کا شور لمحہ بہ لمحہ بڑھنے لگا۔ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ زندگی بھرپور توانائی کے ساتھ پرانے ڈھب پر آگئی۔ناشتے کے لیے باورچی خانے کی چمنیوں سے دھواں نکلنے لگا، برتنوں کے کھڑکھڑانے کا شور تیز ہوگیا، کاروبار و ملازمت، کھیتوں کھلیانوں اور دور دیس کے سفر پر جانے والوں کی تیاریاں زوروں پر آگئیں۔۔۔
شہروں میں سڑکوں پر مسافروں کی چلت پھرت، سواریوں کا شور اور خرید و فروخت کا ہنگامہ ہونے لگا۔۔۔گاؤں دیہاتوں میں جانور رزق تلاش کرنے جنگلوں کھیتوں میں بکھر گئے۔۔۔ سب ہمیشہ کی طرح روز مرہ کے کاموں میں مست و مگن تھے۔۔۔ زندگی ویسی ہی رواں دواں تھی جیسے ہمیشہ سے تھی ۔۔۔ ذرّہ برابر بھی متغیر نہ تھی۔۔۔ لیکن ۔۔۔کسی کو معلوم نہیں کہ آج کائنات پر ایسی تباہی آنے والی ہے جو اس سے پہلے نہ کبھی آئی تھی۔۔۔ نہ آج کے بعد کبھی آئے گی۔۔۔
کوئی نہیں جانتا کہ آج کائنات کی زندگی کا آخری دن ہے۔۔۔
آج کائنات اپنی تمام تر رنگینوں سمیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈوب جائے گی ۔۔۔
دوبارہ نہ اُبھرنے کے لیے ۔۔۔
کسی میں طاقت نہیں کہ اس عظیم و کبیر تباہی کو روک لے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
وہ کسان ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنے مویشیوں کے چارہ کھانے کی جگہ کو مٹی سے لیپنے کی تیاری کررہا تھا۔۔۔ اس کے پاؤں پانی اور مٹی کو ملا کر گارے کی شکل دے رہے تھے۔۔۔
یہ کائنات کا سب سے پہلا شخص تھا جس نے وہ آواز سنی جو کائنات پر محیط ہونے جارہی تھی۔۔۔ کائنات کو اتھل پتھل کرنے والی تھی۔۔۔
کسی کو معلوم نہیں کہ اب سے تھوڑی دیر بعد سمندروں میں آگ لگنے والی ہے، چاند بے نور اور سورج اندھا ہوجائے گا۔۔۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہے کہ ستارے اور سیارے ایک ایک کرکے جھڑنے والے ہیں۔۔۔ اور۔۔۔ کوئی تصور میں بھی نہیں لاسکتا کہ ہمالیہ اور قراقرم جیسے عظیم پہاڑ دُھنکی ہوئی روئی کے گالوں کی طرح فضاؤں میں اُڑتے پھریں گے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
زندگی کی گہاگہمی عروج پر پہنچ چکی ہے۔۔۔بازاروں میں مریض علاج کے لیے دوا حاصل کررہے ہیں، کوئی گھر بنانے کا سامان لے رہا ہے تو کوئی زبان کے چٹخاروں کا کھانا طلب کررہا ہے۔۔۔دولہا دولہن شادی کی خریداری کررہے ہیں، سہاگ کے جوڑے لے رہے ہیں۔۔۔پس ماندگان مردےکے لیے کفن خرید رہے ہیں۔۔۔ لیکن سب اس بات سے بے خبر ہیں کہ بس ذرا دیر ہوا چاہتی ہے کہ مریض علاج سے، مالک مکان سے اور بھوکا کھانے سے محروم ہونے والا ۔۔۔ دولہن عروسی جوڑے سے اور مردہ کفن سے بے نیاز ہوجائےگا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
کپڑے والے نے کپڑا کاٹنے کے لیے تھان ہاتھ میں لیا، خریدنے والے نے دام چکانے کے لیے ہاتھ جیب میں ڈالا۔۔۔اور ماں نے بھوک سے بلکتے بچے کو دودھ پلانے کے لیے گود میں لٹالیا۔۔۔
عین اسی وقت کسان نے پریشان ہوکر چاروں طرف دیکھا کہ یہ عجیب و غریب آواز کہاں سے آرہی ہے، ایسی آواز جو آج تک نہیں سنی ۔۔۔ لمحہ بہ لمحہ تیز سے تیز تر ہونے والی آواز۔۔۔ پھر کچھ نہ سمجھتے ہوئے سر جھٹک کر دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہونے کی کوشش کی۔۔۔ تب اچانک تیز ہوتی ہوئی آواز ایک زوردار چنگھاڑ میں بدل گئی۔۔۔
اور خدا کا وہ حکم آ پہنچا جس کا صدیوں سے وعدہ تھا۔۔۔جس گھڑی کا علم انبیاء سے بھی چھپا کر رکھا گیا تھا۔۔۔ اس وقت کی خبر سے فرشتے بھی بے خبر رہے۔۔۔ قیامت کا وقتِ موعود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات تک محدود رکھا تھا۔۔۔
یہ وقت اچانک آپڑا ۔۔۔ فاذا جاءت الصاخۃ۔۔۔ جب اچانک آپڑا وہ کان پھاڑ دینے والا پُرشور دھماکہ تو گارا گوندھتا کسان کھڑے کھڑے منہ کے بل گرگیا۔۔۔مریض دوا منہ میں لے جانے سے قبل مرگیا۔۔۔ عمارتیں تعمیر کرنے والے کی ساری عمارتیں ڈھیر ہوگئیں۔۔۔ بھوک مٹانے کے لیے کھانا لینے والے کو اگلا نوالہ لینا نصیب نہ ہوا۔۔۔ کپڑا کاٹنے والا کا اٹھا ہوا ہاتھ بے دم ہوکر لٹک گیا اور دام چکانے والے کا ہاتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جیب میں پڑا رہ گیا۔۔۔ سب اپنے اپنے کام درمیان میں ادھورا چھوڑ کے زمیں بوس ہوگئے۔۔۔ دودھ پیتے بچے کو ماں نے گھبرا کر زور سے دور پھینکا اور بھاگنے کی کوشش کی مگر آج کے دن کی پکڑ سے دونوں نہ بچ سکے۔۔۔ جنگلوں بیابانوں میں وحشی جانور شکار بھول کر چیخنے چلانے لگے،عالم وحشت میں ادھر سے ادھر بھاگنے لگے، شکار کا گوشت نوچنا بھول گئے۔۔۔آج کسی کو اپنا کام پورا کرنے کی مہلت نہیں ملے گی!!!
آسمان پر چمکتا دمکتا روشنی بکھیرتا سورج یکا یک بجھ کر تاریک ہوگیا ۔۔۔ چاند کا چہرہ فق ہوا۔۔۔ اور روشن و چمکیلی کائنات اچانک اندھیرے میں ڈوب گئی۔۔۔ ستارے بے نور ہوکر زوردار دھماکوں سے پھٹنے لگے۔۔۔ سیارے ذرّہ ذرّہ ہوکر ریت میں تبدیل ہوگئے۔۔۔ سمندروں کے پانیوں نے آگ پکڑ لی اور تیزی سے خشک ہونے لگے۔۔۔ بڑے بڑے پہاڑ جڑ سے اکھڑ کے بے وزن ہوگئے اور ہواؤں میں اِدھر اُدھر ڈولنے لگے۔۔۔ زمین پر زلزلے کے جھٹکوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔۔۔ ایک عظیم بھونچال تھا جس نے پورے کرہ ارض کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔۔۔ زمین اپنے اندر دبے ہوئے پوشیدہ خزانے اگلنے لگی۔۔۔ سونے چاندی، ہیرے جواہرات اور معدنیات۔۔۔ مگر آج ان کا کوئی خریدار، کوئی قدر دان نہ تھا ۔۔۔ بالآخر زمین کا گولہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر خلا کی وسعتوں میں گم ہوگیا۔۔۔ اس کے سینے پر بنے بڑے بڑے بنگلے، محلات اور عیاشیوں کے اڈے سب ملیامیٹ ہوگئے۔۔۔
آسمان بیچ سے چٹخا اور تیزی سے پگھلنے لگا۔۔۔ اس کا نیلگوں رنگ دہکتے ہوئے تانبے کی طرح سرخ ہونے لگا۔۔۔ درمیان سے فرشتے عیاں ہورہے ہیں ۔۔۔ غیب کی دنیا کا پردہ چاک ہورہا ہے۔۔۔ مگر آج یہ تماشہ دیکھنے والا کوئی ذی روح موجود نہیں۔۔۔ سارے منہ زور منہ کی کھا کر برباد ہوچکےہیں!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
منہ زور اور تند و تیز آواز کی شوریدہ سری نے ساری کائنات کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔۔۔ اذا جاءت الطامۃ الکبرٰی۔۔۔ آج کائنات پر بڑی عظیم مصیبت آپڑی تھی۔۔۔ اس مصیبت کے بوجھ تلے دب کر کائنات کے پرزے اڑ رہے تھے۔۔۔
زمین و آسمان، سورج و چاند، ستارے اور سیارے، کہکشاں اور ملائکہ سب صفحہ ہستی سے یکسر غائب ہوگئے۔۔۔ پوری کائنات میں آدم بچا تھا نہ آدم زاد۔۔۔ جن و انس ، ملائکہ و فرش سب نیست و نابود ہوچکے تھے۔۔۔ خالی خلاؤں میں عظیم سناٹے کا راج تھا۔۔۔ قیامت کی قیامت خیز تباہی اپنے انجام کو پہنچ کر خاموش ہوچکی تھی۔۔۔
کائنات کی اینٹ سے اینٹ بج گئی تھی۔۔۔
آج کوئی سائنس دان بھی نہ بچا تھا جو اس عظیم تباہی پر تحقیق کرتا، اس کی سائنسی وجوہات تلاش کرتا۔۔۔ اور۔۔۔
سائنسی تحقیق کے نام پر خدا کے وجود کا انکار کرتا!!!
یہ زمین جو سرکشوں سے بھر گئی تھی۔۔۔ خدا کے منکروں سے ، نافرمانوں سے پَٹ گئی تھی۔۔۔ خدا کے نام لیواؤں سے خالی ہوگئی تھی۔۔۔ اس دھرتی کے سینے پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ بچا تھا۔۔۔آج کفر و سرکشی کی اس دنیا کے لیے خدا کو نہ ماننے کی پاداش میں صفحہ ہستی سے مٹانے کا حکم پورا ہوگیا۔۔۔
۔
۔
۔
کفر اتنی بڑی بلا ہے جس نے ساری کائنات کو ڈبو دیا!!!
 

عرفان سعید

محفلین
یہاں تک آپ کی تحریر نے بہت لطف دیا
تھپ پ پ۔۔۔
۔
۔
۔
توے پر کائنات کی آخری روٹی لگائی گئی!!!
۔
۔
۔
آسمان کے سیاہ کنارے صبح صادق کی سفیدی سے سرمگیں ہورہے تھے۔زندگی نئی صبح کے لیے انگڑائیاں لے کر بیدار ہونے لگی۔ پرندے گھونسلوں میں دھیرے دھیرے چہچہانا شروع ہوئے اور رات کی سستی دور کرکے نئی اڑان بھرنے کی تیاریوں میں لگ گئے۔
زمین پر بسی انسانوں کی بستیاں بھی آہستہ آہستہ جاگنے لگیں،سانس لیتی زندگی کی آوازوں کا شور لمحہ بہ لمحہ بڑھنے لگا۔ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ زندگی بھرپور توانائی کے ساتھ پرانے ڈھب پر آگئی۔ناشتے کے لیے باورچی خانے کی چمنیوں سے دھواں نکلنے لگا، برتنوں کے کھڑکھڑانے کا شور تیز ہوگیا، کاروبار و ملازمت، کھیتوں کھلیانوں اور دور دیس کے سفر پر جانے والوں کی تیاریاں زوروں پر آگئیں۔۔۔
شہروں میں سڑکوں پر مسافروں کی چلت پھرت، سواریوں کا شور اور خرید و فروخت کا ہنگامہ ہونے لگا۔۔۔گاؤں دیہاتوں میں جانور رزق تلاش کرنے جنگلوں کھیتوں میں بکھر گئے۔۔۔ سب ہمیشہ کی طرح روز مرہ کے کاموں میں مست و مگن تھے۔۔۔ زندگی ویسی ہی رواں دواں تھی جیسے ہمیشہ سے تھی ۔۔۔ ذرّہ برابر بھی متغیر نہ تھی۔۔۔ لیکن ۔۔۔کسی کو معلوم نہیں کہ آج کائنات پر ایسی تباہی آنے والی ہے جو اس سے پہلے نہ کبھی آئی تھی۔۔۔ نہ آج کے بعد کبھی آئے گی۔۔۔
کوئی نہیں جانتا کہ آج کائنات کی زندگی کا آخری دن ہے۔۔۔
آج کائنات اپنی تمام تر رنگینوں سمیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈوب جائے گی ۔۔۔
دوبارہ نہ اُبھرنے کے لیے ۔۔۔
کسی میں طاقت نہیں کہ اس عظیم و کبیر تباہی کو روک لے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
وہ کسان ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنے مویشیوں کے چارہ کھانے کی جگہ کو مٹی سے لیپنے کی تیاری کررہا تھا۔۔۔ اس کے پاؤں پانی اور مٹی کو ملا کر گارے کی شکل دے رہے تھے۔۔۔
یہ کائنات کا سب سے پہلا شخص تھا جس نے وہ آواز سنی جو کائنات پر محیط ہونے جارہی تھی۔۔۔ کائنات کو اتھل پتھل کرنے والی تھی۔۔۔
کسی کو معلوم نہیں کہ اب سے تھوڑی دیر بعد سمندروں میں آگ لگنے والی ہے، چاند بے نور اور سورج اندھا ہوجائے گا۔۔۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہے کہ ستارے اور سیارے ایک ایک کرکے جھڑنے والے ہیں۔۔۔ اور۔۔۔ کوئی تصور میں بھی نہیں لاسکتا کہ ہمالیہ اور قراقرم جیسے عظیم پہاڑ دُھنکی ہوئی روئی کے گالوں کی طرح فضاؤں میں اُڑتے پھریں گے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
زندگی کی گہاگہمی عروج پر پہنچ چکی ہے۔۔۔بازاروں میں مریض علاج کے لیے دوا حاصل کررہے ہیں، کوئی گھر بنانے کا سامان لے رہا ہے تو کوئی زبان کے چٹخاروں کا کھانا طلب کررہا ہے۔۔۔دولہا دولہن شادی کی خریداری کررہے ہیں، سہاگ کے جوڑے لے رہے ہیں۔۔۔پس ماندگان مردےکے لیے کفن خرید رہے ہیں۔۔۔ لیکن سب اس بات سے بے خبر ہیں کہ بس ذرا دیر ہوا چاہتی ہے کہ مریض علاج سے، مالک مکان سے اور بھوکا کھانے سے محروم ہونے والا ۔۔۔ دولہن عروسی جوڑے سے اور مردہ کفن سے بے نیاز ہوجائےگا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
کپڑے والے نے کپڑا کاٹنے کے لیے تھان ہاتھ میں لیا، خریدنے والے نے دام چکانے کے لیے ہاتھ جیب میں ڈالا۔۔۔اور ماں نے بھوک سے بلکتے بچے کو دودھ پلانے کے لیے گود میں لٹالیا۔۔۔
عین اسی وقت کسان نے پریشان ہوکر چاروں طرف دیکھا کہ یہ عجیب و غریب آواز کہاں سے آرہی ہے، ایسی آواز جو آج تک نہیں سنی ۔۔۔ لمحہ بہ لمحہ تیز سے تیز تر ہونے والی آواز۔۔۔ پھر کچھ نہ سمجھتے ہوئے سر جھٹک کر دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہونے کی کوشش کی۔۔۔ تب اچانک تیز ہوتی ہوئی آواز ایک زوردار چنگھاڑ میں بدل گئی۔۔۔
اور خدا کا وہ حکم آ پہنچا جس کا صدیوں سے وعدہ تھا۔۔۔جس گھڑی کا علم انبیاء سے بھی چھپا کر رکھا گیا تھا۔۔۔ اس وقت کی خبر سے فرشتے بھی بے خبر رہے۔۔۔ قیامت کا وقتِ موعود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات تک محدود رکھا تھا۔۔۔
یہ وقت اچانک آپڑا ۔۔۔ فاذا جاءت الصاخۃ۔۔۔ جب اچانک آپڑا وہ کان پھاڑ دینے والا پُرشور دھماکہ تو گارا گوندھتا کسان کھڑے کھڑے منہ کے بل گرگیا۔۔۔مریض دوا منہ میں لے جانے سے قبل مرگیا۔۔۔ عمارتیں تعمیر کرنے والے کی ساری عمارتیں ڈھیر ہوگئیں۔۔۔ بھوک مٹانے کے لیے کھانا لینے والے کو اگلا نوالہ لینا نصیب نہ ہوا۔۔۔ کپڑا کاٹنے والا کا اٹھا ہوا ہاتھ بے دم ہوکر لٹک گیا اور دام چکانے والے کا ہاتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جیب میں پڑا رہ گیا۔۔۔ سب اپنے اپنے کام درمیان میں ادھورا چھوڑ کے زمیں بوس ہوگئے۔۔۔ دودھ پیتے بچے کو ماں نے گھبرا کر زور سے دور پھینکا اور بھاگنے کی کوشش کی مگر آج کے دن کی پکڑ سے دونوں نہ بچ سکے۔۔۔ جنگلوں بیابانوں میں وحشی جانور شکار بھول کر چیخنے چلانے لگے،عالم وحشت میں ادھر سے ادھر بھاگنے لگے، شکار کا گوشت نوچنا بھول گئے۔۔۔آج کسی کو اپنا کام پورا کرنے کی مہلت نہیں ملے گی!!!
آسمان پر چمکتا دمکتا روشنی بکھیرتا سورج یکا یک بجھ کر تاریک ہوگیا ۔۔۔ چاند کا چہرہ فق ہوا۔۔۔ اور روشن و چمکیلی کائنات اچانک اندھیرے میں ڈوب گئی۔۔۔ ستارے بے نور ہوکر زوردار دھماکوں سے پھٹنے لگے۔۔۔ سیارے ذرّہ ذرّہ ہوکر ریت میں تبدیل ہوگئے۔۔۔ سمندروں کے پانیوں نے آگ پکڑ لی اور تیزی سے خشک ہونے لگے۔۔۔ بڑے بڑے پہاڑ جڑ سے اکھڑ کے بے وزن ہوگئے اور ہواؤں میں اِدھر اُدھر ڈولنے لگے۔۔۔ زمین پر زلزلے کے جھٹکوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔۔۔ ایک عظیم بھونچال تھا جس نے پورے کرہ ارض کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔۔۔ زمین اپنے اندر دبے ہوئے پوشیدہ خزانے اگلنے لگی۔۔۔ سونے چاندی، ہیرے جواہرات اور معدنیات۔۔۔ مگر آج ان کا کوئی خریدار، کوئی قدر دان نہ تھا ۔۔۔ بالآخر زمین کا گولہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر خلا کی وسعتوں میں گم ہوگیا۔۔۔ اس کے سینے پر بنے بڑے بڑے بنگلے، محلات اور عیاشیوں کے اڈے سب ملیامیٹ ہوگئے۔۔۔
آسمان بیچ سے چٹخا اور تیزی سے پگھلنے لگا۔۔۔ اس کا نیلگوں رنگ دہکتے ہوئے تانبے کی طرح سرخ ہونے لگا۔۔۔ درمیان سے فرشتے عیاں ہورہے ہیں ۔۔۔ غیب کی دنیا کا پردہ چاک ہورہا ہے۔۔۔ مگر آج یہ تماشہ دیکھنے والا کوئی ذی روح موجود نہیں۔۔۔ سارے منہ زور منہ کی کھا کر برباد ہوچکےہیں!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
منہ زور اور تند و تیز آواز کی شوریدہ سری نے ساری کائنات کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔۔۔ اذا جاءت الطامۃ الکبرٰی۔۔۔ آج کائنات پر بڑی عظیم مصیبت آپڑی تھی۔۔۔ اس مصیبت کے بوجھ تلے دب کر کائنات کے پرزے اڑ رہے تھے۔۔۔
زمین و آسمان، سورج و چاند، ستارے اور سیارے، کہکشاں اور ملائکہ سب صفحہ ہستی سے یکسر غائب ہوگئے۔۔۔ پوری کائنات میں آدم بچا تھا نہ آدم زاد۔۔۔ جن و انس ، ملائکہ و فرش سب نیست و نابود ہوچکے تھے۔۔۔ خالی خلاؤں میں عظیم سناٹے کا راج تھا۔۔۔ قیامت کی قیامت خیز تباہی اپنے انجام کو پہنچ کر خاموش ہوچکی تھی۔۔۔
کائنات کی اینٹ سے اینٹ بج گئی تھی۔۔۔
اسے تاثر ہی سمجھیے گا، آخر میں تشنگی سی رہ گئی!
آج کوئی سائنس دان بھی نہ بچا تھا جو اس عظیم تباہی پر تحقیق کرتا، اس کی سائنسی وجوہات تلاش کرتا۔۔۔ اور۔۔۔
سائنسی تحقیق کے نام پر خدا کے وجود کا انکار کرتا!!!
یہ زمین جو سرکشوں سے بھر گئی تھی۔۔۔ خدا کے منکروں سے ، نافرمانوں سے پَٹ گئی تھی۔۔۔ خدا کے نام لیواؤں سے خالی ہوگئی تھی۔۔۔ اس دھرتی کے سینے پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ بچا تھا۔۔۔آج کفر و سرکشی کی اس دنیا کے لیے خدا کو نہ ماننے کی پاداش میں صفحہ ہستی سے مٹانے کا حکم پورا ہوگیا۔۔۔
۔
۔
۔
کفر اتنی بڑی بلا ہے جس نے ساری کائنات کو ڈبو دیا!!!
 

م حمزہ

محفلین
تھپ پ پ۔۔۔
۔
۔
۔
توے پر کائنات کی آخری روٹی لگائی گئی!!!
۔
۔
۔
آسمان کے سیاہ کنارے صبح صادق کی سفیدی سے سرمگیں ہورہے تھے۔زندگی نئی صبح کے لیے انگڑائیاں لے کر بیدار ہونے لگی۔ پرندے گھونسلوں میں دھیرے دھیرے چہچہانا شروع ہوئے اور رات کی سستی دور کرکے نئی اڑان بھرنے کی تیاریوں میں لگ گئے۔
زمین پر بسی انسانوں کی بستیاں بھی آہستہ آہستہ جاگنے لگیں،سانس لیتی زندگی کی آوازوں کا شور لمحہ بہ لمحہ بڑھنے لگا۔ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ زندگی بھرپور توانائی کے ساتھ پرانے ڈھب پر آگئی۔ناشتے کے لیے باورچی خانے کی چمنیوں سے دھواں نکلنے لگا، برتنوں کے کھڑکھڑانے کا شور تیز ہوگیا، کاروبار و ملازمت، کھیتوں کھلیانوں اور دور دیس کے سفر پر جانے والوں کی تیاریاں زوروں پر آگئیں۔۔۔
شہروں میں سڑکوں پر مسافروں کی چلت پھرت، سواریوں کا شور اور خرید و فروخت کا ہنگامہ ہونے لگا۔۔۔گاؤں دیہاتوں میں جانور رزق تلاش کرنے جنگلوں کھیتوں میں بکھر گئے۔۔۔ سب ہمیشہ کی طرح روز مرہ کے کاموں میں مست و مگن تھے۔۔۔ زندگی ویسی ہی رواں دواں تھی جیسے ہمیشہ سے تھی ۔۔۔ ذرّہ برابر بھی متغیر نہ تھی۔۔۔ لیکن ۔۔۔کسی کو معلوم نہیں کہ آج کائنات پر ایسی تباہی آنے والی ہے جو اس سے پہلے نہ کبھی آئی تھی۔۔۔ نہ آج کے بعد کبھی آئے گی۔۔۔
کوئی نہیں جانتا کہ آج کائنات کی زندگی کا آخری دن ہے۔۔۔
آج کائنات اپنی تمام تر رنگینوں سمیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈوب جائے گی ۔۔۔
دوبارہ نہ اُبھرنے کے لیے ۔۔۔
کسی میں طاقت نہیں کہ اس عظیم و کبیر تباہی کو روک لے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
وہ کسان ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنے مویشیوں کے چارہ کھانے کی جگہ کو مٹی سے لیپنے کی تیاری کررہا تھا۔۔۔ اس کے پاؤں پانی اور مٹی کو ملا کر گارے کی شکل دے رہے تھے۔۔۔
یہ کائنات کا سب سے پہلا شخص تھا جس نے وہ آواز سنی جو کائنات پر محیط ہونے جارہی تھی۔۔۔ کائنات کو اتھل پتھل کرنے والی تھی۔۔۔
کسی کو معلوم نہیں کہ اب سے تھوڑی دیر بعد سمندروں میں آگ لگنے والی ہے، چاند بے نور اور سورج اندھا ہوجائے گا۔۔۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہے کہ ستارے اور سیارے ایک ایک کرکے جھڑنے والے ہیں۔۔۔ اور۔۔۔ کوئی تصور میں بھی نہیں لاسکتا کہ ہمالیہ اور قراقرم جیسے عظیم پہاڑ دُھنکی ہوئی روئی کے گالوں کی طرح فضاؤں میں اُڑتے پھریں گے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
زندگی کی گہاگہمی عروج پر پہنچ چکی ہے۔۔۔بازاروں میں مریض علاج کے لیے دوا حاصل کررہے ہیں، کوئی گھر بنانے کا سامان لے رہا ہے تو کوئی زبان کے چٹخاروں کا کھانا طلب کررہا ہے۔۔۔دولہا دولہن شادی کی خریداری کررہے ہیں، سہاگ کے جوڑے لے رہے ہیں۔۔۔پس ماندگان مردےکے لیے کفن خرید رہے ہیں۔۔۔ لیکن سب اس بات سے بے خبر ہیں کہ بس ذرا دیر ہوا چاہتی ہے کہ مریض علاج سے، مالک مکان سے اور بھوکا کھانے سے محروم ہونے والا ۔۔۔ دولہن عروسی جوڑے سے اور مردہ کفن سے بے نیاز ہوجائےگا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
کپڑے والے نے کپڑا کاٹنے کے لیے تھان ہاتھ میں لیا، خریدنے والے نے دام چکانے کے لیے ہاتھ جیب میں ڈالا۔۔۔اور ماں نے بھوک سے بلکتے بچے کو دودھ پلانے کے لیے گود میں لٹالیا۔۔۔
عین اسی وقت کسان نے پریشان ہوکر چاروں طرف دیکھا کہ یہ عجیب و غریب آواز کہاں سے آرہی ہے، ایسی آواز جو آج تک نہیں سنی ۔۔۔ لمحہ بہ لمحہ تیز سے تیز تر ہونے والی آواز۔۔۔ پھر کچھ نہ سمجھتے ہوئے سر جھٹک کر دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہونے کی کوشش کی۔۔۔ تب اچانک تیز ہوتی ہوئی آواز ایک زوردار چنگھاڑ میں بدل گئی۔۔۔
اور خدا کا وہ حکم آ پہنچا جس کا صدیوں سے وعدہ تھا۔۔۔جس گھڑی کا علم انبیاء سے بھی چھپا کر رکھا گیا تھا۔۔۔ اس وقت کی خبر سے فرشتے بھی بے خبر رہے۔۔۔ قیامت کا وقتِ موعود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات تک محدود رکھا تھا۔۔۔
یہ وقت اچانک آپڑا ۔۔۔ فاذا جاءت الصاخۃ۔۔۔ جب اچانک آپڑا وہ کان پھاڑ دینے والا پُرشور دھماکہ تو گارا گوندھتا کسان کھڑے کھڑے منہ کے بل گرگیا۔۔۔مریض دوا منہ میں لے جانے سے قبل مرگیا۔۔۔ عمارتیں تعمیر کرنے والے کی ساری عمارتیں ڈھیر ہوگئیں۔۔۔ بھوک مٹانے کے لیے کھانا لینے والے کو اگلا نوالہ لینا نصیب نہ ہوا۔۔۔ کپڑا کاٹنے والا کا اٹھا ہوا ہاتھ بے دم ہوکر لٹک گیا اور دام چکانے والے کا ہاتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جیب میں پڑا رہ گیا۔۔۔ سب اپنے اپنے کام درمیان میں ادھورا چھوڑ کے زمیں بوس ہوگئے۔۔۔ دودھ پیتے بچے کو ماں نے گھبرا کر زور سے دور پھینکا اور بھاگنے کی کوشش کی مگر آج کے دن کی پکڑ سے دونوں نہ بچ سکے۔۔۔ جنگلوں بیابانوں میں وحشی جانور شکار بھول کر چیخنے چلانے لگے،عالم وحشت میں ادھر سے ادھر بھاگنے لگے، شکار کا گوشت نوچنا بھول گئے۔۔۔آج کسی کو اپنا کام پورا کرنے کی مہلت نہیں ملے گی!!!
آسمان پر چمکتا دمکتا روشنی بکھیرتا سورج یکا یک بجھ کر تاریک ہوگیا ۔۔۔ چاند کا چہرہ فق ہوا۔۔۔ اور روشن و چمکیلی کائنات اچانک اندھیرے میں ڈوب گئی۔۔۔ ستارے بے نور ہوکر زوردار دھماکوں سے پھٹنے لگے۔۔۔ سیارے ذرّہ ذرّہ ہوکر ریت میں تبدیل ہوگئے۔۔۔ سمندروں کے پانیوں نے آگ پکڑ لی اور تیزی سے خشک ہونے لگے۔۔۔ بڑے بڑے پہاڑ جڑ سے اکھڑ کے بے وزن ہوگئے اور ہواؤں میں اِدھر اُدھر ڈولنے لگے۔۔۔ زمین پر زلزلے کے جھٹکوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔۔۔ ایک عظیم بھونچال تھا جس نے پورے کرہ ارض کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔۔۔ زمین اپنے اندر دبے ہوئے پوشیدہ خزانے اگلنے لگی۔۔۔ سونے چاندی، ہیرے جواہرات اور معدنیات۔۔۔ مگر آج ان کا کوئی خریدار، کوئی قدر دان نہ تھا ۔۔۔ بالآخر زمین کا گولہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر خلا کی وسعتوں میں گم ہوگیا۔۔۔ اس کے سینے پر بنے بڑے بڑے بنگلے، محلات اور عیاشیوں کے اڈے سب ملیامیٹ ہوگئے۔۔۔
آسمان بیچ سے چٹخا اور تیزی سے پگھلنے لگا۔۔۔ اس کا نیلگوں رنگ دہکتے ہوئے تانبے کی طرح سرخ ہونے لگا۔۔۔ درمیان سے فرشتے عیاں ہورہے ہیں ۔۔۔ غیب کی دنیا کا پردہ چاک ہورہا ہے۔۔۔ مگر آج یہ تماشہ دیکھنے والا کوئی ذی روح موجود نہیں۔۔۔ سارے منہ زور منہ کی کھا کر برباد ہوچکےہیں!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
منہ زور اور تند و تیز آواز کی شوریدہ سری نے ساری کائنات کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔۔۔ اذا جاءت الطامۃ الکبرٰی۔۔۔ آج کائنات پر بڑی عظیم مصیبت آپڑی تھی۔۔۔ اس مصیبت کے بوجھ تلے دب کر کائنات کے پرزے اڑ رہے تھے۔۔۔
زمین و آسمان، سورج و چاند، ستارے اور سیارے، کہکشاں اور ملائکہ سب صفحہ ہستی سے یکسر غائب ہوگئے۔۔۔ پوری کائنات میں آدم بچا تھا نہ آدم زاد۔۔۔ جن و انس ، ملائکہ و فرش سب نیست و نابود ہوچکے تھے۔۔۔ خالی خلاؤں میں عظیم سناٹے کا راج تھا۔۔۔ قیامت کی قیامت خیز تباہی اپنے انجام کو پہنچ کر خاموش ہوچکی تھی۔۔۔
کائنات کی اینٹ سے اینٹ بج گئی تھی۔۔۔
آج کوئی سائنس دان بھی نہ بچا تھا جو اس عظیم تباہی پر تحقیق کرتا، اس کی سائنسی وجوہات تلاش کرتا۔۔۔ اور۔۔۔
سائنسی تحقیق کے نام پر خدا کے وجود کا انکار کرتا!!!
یہ زمین جو سرکشوں سے بھر گئی تھی۔۔۔ خدا کے منکروں سے ، نافرمانوں سے پَٹ گئی تھی۔۔۔ خدا کے نام لیواؤں سے خالی ہوگئی تھی۔۔۔ اس دھرتی کے سینے پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ بچا تھا۔۔۔آج کفر و سرکشی کی اس دنیا کے لیے خدا کو نہ ماننے کی پاداش میں صفحہ ہستی سے مٹانے کا حکم پورا ہوگیا۔۔۔
۔
۔
۔
کفر اتنی بڑی بلا ہے جس نے ساری کائنات کو ڈبو دیا!!!
کئی دنوں کی غیر حاضری کے بعد واپسی!
وہ بھی اتنی زبردست تحریر کے ساتھ۔ جزاک اللہ۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے غضب اور قہر سے محفوظ فرمائے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم !

"شاد باش اے عشق خوش سودائے ما "-

خوب لکھا ہے - بلکہ بہت خوب -آخری سطریں تو گویا جانِ مضمون ہیں -آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی -جزاک اللہ خیرا

یاسر
 

یاسر شاہ

محفلین
یہاں تک آپ کی تحریر نے بہت لطف دیا

اسے تاثر ہی سمجھیے گا، آخر میں تشنگی سی رہ گئی!

السلام علیکم !

برادرم غنیمت ہے کہ آپ قرینے سے بات کرتے ہیں اور مثبت انداز میں تبادلۂ خیال بھی -ورنہ کوئی صاحب ہیں آتے ہیں -کھایا پیا بھی کچھ نہیں گلاس توڑ دیا بارانا-
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
برادرم غنیمت ہے کہ آپ قرینے سے بات کرتے ہیں اور مثبت انداز میں تبادلۂ خیال بھی -ورنہ کوئی صاحب ہیں آتے ہیں 'پرائے دودھ میں مینگنی ڈال کر یہ جا وہ جا -کھایا پیا بھی کچھ نہیں گلاس توڑ دیا بارانا-
حضور آپکی تحسین کا بہت شکریہ!
آپکی جھنجھلاہٹ بالکل بجا ہے، لیکن مجھ جیسے گفتارِ بے سلیقہ کرنے والے کی نگاہ میں سرخ رنگ کے الفاظ محلِ نظر ہیں۔
اسے محض ایک تجویز ہی گردانیے۔ مناسب سمجھیں تو نظر ثانی فرما لیں۔
 

یاسر شاہ

محفلین
حضور آپکی تحسین کا بہت شکریہ!
آپکی جھنجھلاہٹ بالکل بجا ہے، لیکن مجھ جیسے گفتارِ بے سلیقہ کرنے والے کی نگاہ میں سرخ رنگ کے الفاظ محلِ نظر ہیں۔
اسے محض ایک تجویز ہی گردانیے۔ مناسب سمجھیں تو نظر ثانی فرما لیں۔
میں نے مذکورہ جملہ ہٹا دیا کہ جو آپ کی نظر پہ بار تھا-
 

ام اویس

محفلین
کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ ﴿ۚۖ۲۶﴾ وَّ یَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ ﴿ۚ۲۷﴾

جو (مخلوق) زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے۔ اور تمہارے پروردگار ہی کی ذات (بابرکات) جو صاحب جلال وعظمت ہے باقی رہے گی۔

اللہ تعالیٰ کے سوا باقی سب فنا

لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
القصص 28

اسکے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسکی ذات پاک کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اسی کا حکم چلتا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔

یہ زمین جو سرکشوں سے بھر گئی تھی۔۔۔ خدا کے منکروں سے ، نافرمانوں سے پَٹ گئی تھی۔۔۔ خدا کے نام لیواؤں سے خالی ہوگئی تھی۔۔۔ اس دھرتی کے سینے پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ بچا تھا۔۔۔آج کفر و سرکشی کی اس دنیا کے لیے خدا کو نہ ماننے کی پاداش میں صفحہ ہستی سے مٹانے کا حکم پورا ہوگیا۔۔۔
۔
اس دن بس ایک ہی صدا گونجتی ہوگی

لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۖ لِلَّ۔هِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ﴿١٦
غافر
کس کے لیے بادشاہی ہے آج کے دن
الله کی جو اکیلا اور غالب ہے

شاید یہ مضمون ابھی جاری ہے کہ اسی فنا سے بقا کی ابتدا ہوگی
 
Top