محنق اور مسکن کو میں شروع سے ایک دوسرے کے قائم مقام کے طور پر استعمال کرتا رہا ہوں۔
یہ میرا خیال ہے آپ کی ایک اور غلطی ہے۔ تخنیق اور تسکین ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ تسکینِ اوسط کے عمل کے لیے تین حرکات کا ایک جگہ متواتر آ جانا کافی ہے۔ خواہ وہ ایک رکن متوالی الحرکات ہو خواہ دو ارکان کے نکتۂِ اتصال پر تین حرکات اکٹھی ہو جائیں۔ تخنیق اس کے برعکس ایک بالکل منفرد زحاف ہے۔ یہ تسکینِ اوسط کے برعکس ہزج سے مخصوص ہے اور خرم کے مقابل حشوین میں مفاعیلن کا "م" اڑا دینے کا نام ہے (یا بعض کے نزدیک کسی بھی ایسے رکن کا پہلا متحرک حرف اڑا دینے کا نام ہے جو حشو یا عروض و ضرب میں موجود ہو اور وتدِ مقرون سے شروع ہو)۔اس سے پہلے آپ ان دونوں کی تعریفیں بھی خاصی خلط ملط کر گئے ہیں:
عجمی عروض میں دو رویے رائج رہے ہیں۔ اگر ایک ہی رکن میں تین متحرکات یکجا ہو جائیں تو ان میں درمیان والے کو ساکن کردیا جاتا۔ اور اسے تسکینِ اوسط کا نام دیتے۔ اور اگر دو ارکان کو جمع کرکے تین متحرکات یکجا ہو رہے ہیں تو بھی درمیان والے کو ساکن کیا جاتا، لیکن اسے تسکینِ اوسط نہیں، بلکہ تحنیق کہا جاتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ تحنیق کی اصطلاح کم ہوگئی اور اس رویے کو مجموعی طور پر تسکینِ اوسط کہا جانے لگا۔ چنانچہ ہزج میں مفعولن جب شروع میں آتا تو اسے اخرم کہا جاتا، اور جب درمیان میں آتا تو محنق (تحنیق سے) کہا جاتا۔ اگر تحنیق کی جگہ سے تسکین کہیں اور مسکن رکن کہیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔
مجھے یہ آپ کے مرتبے کے شایان تو معلوم نہیں ہوتا کہ میں تسکین اور تخنیق کے فرق کی مثالیں دوں مگر پھر بھی صرف تسہیل کی غرض سے ایک نکتہ اٹھانا چاہتا ہوں۔
2۔ مفعول مفاعلن مفاعیلُ فعل
اس میں صدر/ابتدا کے "ل" اور حشوِ اول کے "مَفَ" کے اتصال پر "م" کو ساکن کر دینے کا نام تسکینِ اوسط ہے۔ جبکہ تخنیق کا یہاں دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں۔ اس سے جو وزن ہمیں حاصل ہو گا وہ ہے "مفعولن فاعلن مفاعیل فعل"۔ اب یہ بتائیے کہ اس کے مفعولن کو، جو صدر/ابتدا میں وارد ہوا ہے، آپ اخرم کہیں گے، مخنق کہیں گے یا مسکن؟ تسکین تو ہم نے خود کی ہے۔ مگر مسکن نہیں کہہ سکتے کیونکہ جہاں کسی اور زحاف کا مقام ہو وہاں تسکین کو تسکین نہیں کہا جاتا۔ مخنق اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ حشوین میں نہیں۔ لہٰذا اخرم کہا جائے گا۔
مگر جیسے آپ فرماتے ہیں کہ تسکین و تخنیق قائم مقام ہیں اس لحاظ سے تو اس مفعولن کو مسکن بھی ہونا چاہیے تھا اور مخنق بھی۔ مگر یہ دونوں نہیں ہے حالانکہ تسکین کا عمل ہم نے خود کیا ہے۔ امید ہے اب آپ پر واضح ہو گیا گا کہ تخنیق اور تسکین قطعاً قائم مقام نہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ، جیسا میں پہلے عرض کر چکا ہوں، تسکین کو زحاف سے زیادہ ایک کلیے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
تسکینِ اوسط دوسری جانب ایک ایسا وسیع الاطلاق زحاف ہے جس کا ذکر بھی عملی صورت میں نہ ہونے کے برابر ملتا ہے۔ اسے ایک کلیے یا قاعدے کی حیثیت بہرحال حاصل رہی ہے۔
غالباً آپ کے ہاں محقق طوسی کی رائے نے اشتباہ پیدا کیا ہے جو "تجنیق" کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ یہ حشوین یا عروض و ضرب میں کسی وتدِ مقرون سے شروع ہونے والے رکن سے قبل ایک حرکت کے آجانے کی صورت میں وتدِ مذکور کے حرفِ اول کو ساکن کرنے کا نام ہے۔ شاید قدما کے ہاں "تجنیق" واقعی کوئی زحاف مروج رہا ہو مگر تخنیق سے اس کا کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا۔ تخنیق تو اکثر کے ہاں "مفاعیلن" کا "م" گرانے کا نام ہے خواہ اس سے قبل کوئی حرکتِ متصل آئے یا نہیں۔ ان دونوں تعریفوں میں تطبیق خاصی دشوار ہو سکتی ہے۔ مگر تخنیق کی راجح تعریف یہی رہی ہے جس کی جانب میں نے اشارہ کیا ہے۔ اگر آپ حکم فرمائیں گے تو میں اس ترجیح کے لیے دلائل بھی پیش کر دوں گا۔
---
جہاں سے ہماری بات شروع ہوئی تھی وہ میرا یہ خیال تھا
اخرب و اخرم وغیرہ ارکان جن کا مقام دراصل صدر و ا بتدا ہیں، حشو میں بھی روا رکھے گئے ہیں۔
اس کا ثبوت مولوی نجم الغنی کے اسی پیراگراف میں موجود ہے جس کے ایک جملے کو آپ نے رنگ کر دکھایا ہے۔ آپ کے نشان زدہ جملے سے پہلے مولوی صاحب فرماتے ہیں:
"اہلِ فارس و ریختہ نے ان کو (یعنی خرم و خرب وغیرہ کو) کسی مقام سے مخصوص نہیں رکھا۔ یہاں تک کہ کبھی خرم و ثلم کو عروض و ضرب میں بھی استعمال کر جاتے ہیں۔"
اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ خرم حشوین میں آ سکتا ہے۔ مگر مولوی صاحب اگلے ہی جملے میں ایک وضاحت کرتے ہیں جو آپ کی حمایت میں معلوم ہوتی ہے لہٰذا آپ نے اسے نشان زد کیا ہے:
"البتہ جس وقت حشو وغیرہ میں خرم کرتے ہیں تو اس وقت خرم نہیں کہتے، تخنیق کہتے ہیں۔ اور رکن کو بجائے اخرم کہنے کے مخنق بولتے ہیں۔"
انتہائی لطف کی بات یہ ہے کہ بظاہر تو مولوی صاحب اسے حشوین میں تخنیق کہنے کے قائل معلوم ہوتے ہیں مگر پھر بھی انھوں نے رباعی کے زحافات میں (اسی کتاب کا صفحہ ۲۳۶) تخنیق کو شمار کرنا بالکل مناسب نہیں سمجھا۔ اس کی وجہ سوچ سکتے ہیں آپ؟ شاید وہی جو میں پہلے عرض کر چکا ہوں:
معاملہ یہ ہے کہ تخنیق ایک تقریباً متروک زحاف ہے جس کا ذکر تو اکثر لوگوں نے کیا ہے مگر عملی طور پر ہزج کی بحور میں اسے لاگو نہیں کیا گیا۔ بلکہ اسے خرم ہی قرار دینے پر اکتفا کیا گیا ہے۔
خیر، اب چونکہ آپ دوبارہ گفتگو پر مائل معلوم ہو رہے ہیں مگر مجھے آپ کی مصروفیات کا اندازہ بھی ہے تو میں چاہتا ہوں کہ آپ بےشک باقی بحثوں کو چھوڑ کر صرف پچھلے دعاویٰ ہی کی وضاحت کی غرض سے ان تین سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں:
- تخنیق و تسکین کو باہم دگر متبادل سمجھنے کی کوئی ٹھوس وجہ؟
- تسکین کی آپ کی خط کشیدہ تعریف کا حوالہ؟
- گزشتہ سوال: کس عروضی نے آپ کے فرمان کے موافق رباعی کے حشوین کے مفعولن کو مسکن یا (مخنق ہی سہی) قرار دیا ہے (ویسے تو مفعولن ان گنت جگہوں پر تسکین کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے۔ سوال رباعی ہی کے تناظر میں اور حشوین کے حوالے سے تھا کیونکہ آپ کا فرمانا تھا کہ رباعی کے حشوین میں خرم نہیں ہے)؟
عرض ہے کہ خرم کو حشوین میں نہیں لایا گیا۔
عجمی عروض میں دو رویے رائج رہے ہیں۔ اگر ایک ہی رکن میں تین متحرکات یکجا ہو جائیں تو ان میں درمیان والے کو ساکن کردیا جاتا۔ اور اسے تسکینِ اوسط کا نام دیتے۔ اور اگر دو ارکان کو جمع کرکے تین متحرکات یکجا ہو رہے ہیں تو بھی درمیان والے کو ساکن کیا جاتا، لیکن اسے تسکینِ اوسط نہیں، بلکہ تحنیق کہا جاتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ تحنیق کی اصطلاح کم ہوگئی اور اس رویے کو مجموعی طور پر تسکینِ اوسط کہا جانے لگا۔ چنانچہ ہزج میں مفعولن جب شروع میں آتا تو اسے اخرم کہا جاتا، اور جب درمیان میں آتا تو محنق (تحنیق سے) کہا جاتا۔ اگر تحنیق کی جگہ سے تسکین کہیں اور مسکن رکن کہیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔