کاشفی
محفلین
طنز و مزاح۔۔۔۔۔چند محاوروں کو اپنے طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔
(نادِر خان سَرگِروہ ۔۔۔مقیم مکہ مکرمہ)دو اےکم دو ، دو دُونی چار ، دو تِیا چھ ، دو چوک۔۔۔۔کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں۔(یوں بھی میں کبھی کبھی ہی سوچتا ہوں) کہ ہمیں یہ پہاڑے کیوںکر رٹائے جاتے ہیں؟پہاڑوں کا دوسرا نام ۔۔۔ذہنی ضرب ہے ۔ یعنی چیخ چیخ کر عرشِ محلہ ہلا نا اور ذہن پر ضرب لگانا، جس کا حاصلِ ضرب= کچھ بھی نہیں۔
صبح صبح اسکول پہنچتے ہی ۔۔۔ آنکھ ، کان اور دماغ کا کھُلنا ضروری ہوتا ہے۔ اِسی لئے شاید بچوں سے کھوپڑی چٹخانے والی آواز میں پہاڑے پڑھوائے جاتے ہیں۔روز روز کی رٹائی سے بچے اِتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ چار نوا چھتیس اور نو چوک چھتیس میں کوئی فرق ہی نہیں سمجھتے۔ اِس کثرتِ رٹائی سے اسکول کے آس پاس کے لوگ پہاڑ جیسے دِن کا سامنا کرنے سے پہلے پہاڑوں کے مخصوص راگ۔ 'راگ پہاڑی ' کا اچھی طرح ریاض کر لیتے ہیں۔پہاڑوں اور گِنتی کا اگر تقابُلی جائزہ لیا جائے تو۔۔۔گِنتی کی حیثیت پہاڑے کے سامنے ایسی ہے جیسے ۔۔۔'پہاڑ ے کے آگے رائی'۔
گِنتی ہے رینگتا ہُوا گھُونگھا ۔۔۔اور۔۔۔پہاڑ ے ہیں۔۔۔ڈگ بھرتے ~~~~ہِرن.~~~~
(جاری ہے۔۔۔۔۔)
اونٹ پہاڑ ے کے نیچے
(نادِر خان سَرگِروہ ۔۔۔مقیم مکہ مکرمہ)
صبح صبح اسکول پہنچتے ہی ۔۔۔ آنکھ ، کان اور دماغ کا کھُلنا ضروری ہوتا ہے۔ اِسی لئے شاید بچوں سے کھوپڑی چٹخانے والی آواز میں پہاڑے پڑھوائے جاتے ہیں۔روز روز کی رٹائی سے بچے اِتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ چار نوا چھتیس اور نو چوک چھتیس میں کوئی فرق ہی نہیں سمجھتے۔ اِس کثرتِ رٹائی سے اسکول کے آس پاس کے لوگ پہاڑ جیسے دِن کا سامنا کرنے سے پہلے پہاڑوں کے مخصوص راگ۔ 'راگ پہاڑی ' کا اچھی طرح ریاض کر لیتے ہیں۔پہاڑوں اور گِنتی کا اگر تقابُلی جائزہ لیا جائے تو۔۔۔گِنتی کی حیثیت پہاڑے کے سامنے ایسی ہے جیسے ۔۔۔'پہاڑ ے کے آگے رائی'۔
گِنتی ہے رینگتا ہُوا گھُونگھا ۔۔۔اور۔۔۔پہاڑ ے ہیں۔۔۔ڈگ بھرتے ~~~~ہِرن.~~~~
(جاری ہے۔۔۔۔۔)