F@rzana
محفلین
طبیعات کے ماہرین نے پانی کو نیچائی سے اونچائی کی طرف بہانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔
پانی کے قطرے ایک دھاتی شیٹ جس پر برابر برابر ابھار بنے ہوئے تھے خود بخود اوپر کی طرف بہنے لگے۔
امریکی سائنسدانوں نے یہ تجربہ یہ بات ثابت کرنے کے لیے کیا کہ پانی کے ’مالیکیول‘ کو بھاپ کی صورت میں کسی ایک سمت میں قوت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس تجربہ پر کام کرنے والی ٹیم نے طبیعات کے ایک جریدے میں لکھا کہ اس تجربہ کی مدد سے کمپیوٹر کی مائیکرو چپس کو ٹھنڈا کرنے میں مدد حاصل ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کا تجربہ ہر شخص اپنے باورچی خانے میں کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک خالی برتن کو جلتے چولہے پر کچھ دیر گرم ہونے دیں اس کے بعد اس میں پانی کے چند قطرے ڈالیں تو پانی کے قطرے تپتے ہوئے برتن میں ادھرسے ادھر دوڑنے لگیں گے۔
اٹھارویں صدی میں سب سے پہلے ایک جرمن سائنسدان نے اس کی تشریح اور سائنسی وجہ بیان کی تھی۔ اصل میں تپتے ہوئے برتن میں پانی کا نچلا حصہ برتن سے ٹکرائے بغیر ہی بھاپ میں تبدیل ہو جاتا ہے جو اسے ادھر اُدھر بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اس تجربہ میں شامل ڈاکٹر ہینر لنکی نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا پانی کو اس صورت میں ایک مخصوص سمت میں لیے جایا جاسکتا ہے۔
تجربہ میں شامل سائنسدانوں نے سیدھی سطح کی پلیٹ کے بجائے ایک ایسی پلیٹ استعمال کی جس پر برابر برابر تکون ابھار بنے ہوئے تھے جس کی وجہ سے پانی کے ذرے ایک جگہ گردش کرنے کے بجائے تکونوں کے رخ پر بہنے لگے۔
ڈاکٹر لنکی نے کہا کہ اس صورت میں بھاپ پانی کے لیے کشتی کا کام کرتی ہے جس پر پانی بہتا ہے۔ اس طرح پانی کے قطرے بارہ درجہ کی اونچائی پر نیچے سے اوپر کی طرف بہہ سکتے ہیں۔
بشکریہ بی بی سی
پانی کے قطرے ایک دھاتی شیٹ جس پر برابر برابر ابھار بنے ہوئے تھے خود بخود اوپر کی طرف بہنے لگے۔
امریکی سائنسدانوں نے یہ تجربہ یہ بات ثابت کرنے کے لیے کیا کہ پانی کے ’مالیکیول‘ کو بھاپ کی صورت میں کسی ایک سمت میں قوت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس تجربہ پر کام کرنے والی ٹیم نے طبیعات کے ایک جریدے میں لکھا کہ اس تجربہ کی مدد سے کمپیوٹر کی مائیکرو چپس کو ٹھنڈا کرنے میں مدد حاصل ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کا تجربہ ہر شخص اپنے باورچی خانے میں کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک خالی برتن کو جلتے چولہے پر کچھ دیر گرم ہونے دیں اس کے بعد اس میں پانی کے چند قطرے ڈالیں تو پانی کے قطرے تپتے ہوئے برتن میں ادھرسے ادھر دوڑنے لگیں گے۔
اٹھارویں صدی میں سب سے پہلے ایک جرمن سائنسدان نے اس کی تشریح اور سائنسی وجہ بیان کی تھی۔ اصل میں تپتے ہوئے برتن میں پانی کا نچلا حصہ برتن سے ٹکرائے بغیر ہی بھاپ میں تبدیل ہو جاتا ہے جو اسے ادھر اُدھر بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اس تجربہ میں شامل ڈاکٹر ہینر لنکی نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا پانی کو اس صورت میں ایک مخصوص سمت میں لیے جایا جاسکتا ہے۔
تجربہ میں شامل سائنسدانوں نے سیدھی سطح کی پلیٹ کے بجائے ایک ایسی پلیٹ استعمال کی جس پر برابر برابر تکون ابھار بنے ہوئے تھے جس کی وجہ سے پانی کے ذرے ایک جگہ گردش کرنے کے بجائے تکونوں کے رخ پر بہنے لگے۔
ڈاکٹر لنکی نے کہا کہ اس صورت میں بھاپ پانی کے لیے کشتی کا کام کرتی ہے جس پر پانی بہتا ہے۔ اس طرح پانی کے قطرے بارہ درجہ کی اونچائی پر نیچے سے اوپر کی طرف بہہ سکتے ہیں۔
بشکریہ بی بی سی