عاطف ملک
محفلین
طویل بحر میں کی گئی ایک کوشش پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں،اس امید پر کہ شاید کوئی شعر احباب کو پسند آ جائے۔
اوڑھ لیں سب گلوں نے قبائیں نئی، کونپلوں پر عجب اک نکھار آ گیا
بلبلوں نے خوشی کے ترانے پڑھے،جب چمن میں وہ جانِ بہار آ گیا
اک گھڑی کو نظر آپ سے کیا لڑی،مجھ کو واللہ سدھ بدھ نہ کوئی رہی
لوگ مے خوار مجھ کو سمجھنے لگے،میری آنکھوں میں ایسا خمار آ گیا
سامنے ان کے جب ذکر میرا ہوا، رُخ وفورِ حیا سے دمکنے لگا
ماہِ کامل میں کیا ہوگی ایسی پھبن، ان کے چہرے پہ ایسا نکھار آ گیا
ہم نے ہو کر خفا یہ ارادہ کیا عمر بھر بات اس سے کریں گے نہ ہم
اس نے آنکھوں میں معصومیت بھر کے یوں ہم کو دیکھا کہ پھر اس پہ پیار آ گیا
وہ جو ہوتے نہ تھے لحظہ بھر کو جدا، ان کا برسوں سے کوئی نہیں رابطہ
سچ کہوں گر تو میں خود بھی حیران ہوں اس تعلق میں کیوں یہ غبار آ گیا
عینؔ مشہور تھا بے ادب، بد زباں، آئی نرغے میں جب عشق کے اس کی جاں
اس کے اطوار میں آگئی عاجزی اور لہجے میں بھی انکسار آ گیا
عینؔ میم عاطفؔ
مارچ ۲۰۲۰
بلبلوں نے خوشی کے ترانے پڑھے،جب چمن میں وہ جانِ بہار آ گیا
اک گھڑی کو نظر آپ سے کیا لڑی،مجھ کو واللہ سدھ بدھ نہ کوئی رہی
لوگ مے خوار مجھ کو سمجھنے لگے،میری آنکھوں میں ایسا خمار آ گیا
سامنے ان کے جب ذکر میرا ہوا، رُخ وفورِ حیا سے دمکنے لگا
ماہِ کامل میں کیا ہوگی ایسی پھبن، ان کے چہرے پہ ایسا نکھار آ گیا
ہم نے ہو کر خفا یہ ارادہ کیا عمر بھر بات اس سے کریں گے نہ ہم
اس نے آنکھوں میں معصومیت بھر کے یوں ہم کو دیکھا کہ پھر اس پہ پیار آ گیا
وہ جو ہوتے نہ تھے لحظہ بھر کو جدا، ان کا برسوں سے کوئی نہیں رابطہ
سچ کہوں گر تو میں خود بھی حیران ہوں اس تعلق میں کیوں یہ غبار آ گیا
عینؔ مشہور تھا بے ادب، بد زباں، آئی نرغے میں جب عشق کے اس کی جاں
اس کے اطوار میں آگئی عاجزی اور لہجے میں بھی انکسار آ گیا
عینؔ میم عاطفؔ
مارچ ۲۰۲۰
آخری تدوین: