ٹائپنگ ماسٹر
محفلین
محترم قارئین ۔ السلام علیکم ! اُمید ہے مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔
سن 1994ء میں اُردو سافٹ ویئر نقاش (بعد میں آکاش) سے شناسائی ہوئی، جو نوے کے عشرے کے آغاز میں ایک جاننے والے نے 40 ہزار روپے کا ایک ہفتہ وار میگزین کی کتابت کے لیے خریدا تھا۔ مذکورہ سافٹ ویئر ایم ایس ورڈ ورژن 5 ڈاس پر بنایا گیا تھا۔ اور صرف نستعلیق اور نسخ دو فانٹس دستیاب تھے۔
اُنہی حضرت کی وساطت سے سن 1996ء میں نقاش سافٹ ویئر کے لاہور میں ڈسٹری بیوٹر سے سافٹ ویئر ہمالہ خریدنے کا اتفاق ہوا جسے شاہکار اُردو سافٹ ویئر کی اپ ڈیٹ کہہ سکتے ہیں۔ یہ بھی ڈاس میں آپریٹ ہوتا تھا۔ ہمالہ میں اُردو نستعلیق کے دو اور نسخ کے تقریباً 50 فانٹس دیئے گئے تھے۔
بہرحال میں کی بورڈ نقاش آکاش شاہکار اور ہمالہ کا استعمال کر رہا تھا۔ بعد میں ان پیج سے شناسائی ہونے کے بعد میں یوزر ڈیفائنڈ کی بورڈ استعمال کرتا رہا جس میں وقتاً فوقتاً حسب ضرورت تبدیلیاں کرتا رہا۔
آج میرے یوزر ڈیفائنڈ کی بورڈ اور فونیٹک کی بورڈ میں 50 تبدیلیاں ہیں مگر میں بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ فونیٹک کی بورڈ اور پاکستان میں استعمال ہونے والے دیگر تمام اُردو کی بورڈز کو زیادہ استعمال ہونے والے حروف اور انسانی اُنگلیوں کی قوت کے مطابق تقسیم نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ان تمام کی بورڈز سے ٹائپنگ کی صورت میں ایک تو کی پنچنگ زیادہ کرنا پڑتی ہے اور دوسرے کمزور اُنگلیوں پر زیادہ استعمال ہونے والے حروف رکھ دیئے گئے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ شہادت کی اُنگلی یا بڑی اُنگلی کا کنڈہ بنا کر پانچ کلو گھی کا ڈبہ محلے کی دُکان سے گھر تک لا سکتے ہیں مگر تیسری اور چھوٹی اُنگلی کا کنڈہ بنا کر ایسا کرنے کا سوچ نہیں سکتے کیونکہ ان اُنگلیوں کی قوت اور مزاحمت اتنی زیادہ نہیں ہوتی۔
یہی وجہ تھی کہ سن 2006ء میں اُردو سائنس بورڈ لاہور کی جانب سے مشتہر کی جانے والی ایک اَسامی پر راقم الحروف کے مقابل روزنامہ جنگ لاہور کے آپریٹر جو غالباً مونو ٹائپ کی بورڈ استعمال کرتے تھے، آگئے۔ یہاں بتاتا چلوں کہ جنگ اخبار کے ٹائپسٹ کافی تیز ٹائپنگ کے لیے مشہور ہیں۔ میں نے صرف پانچ منٹ کی بورڈ سیٹنگ کے لیے مانگے جس کے بعد بیالوجی کے مضمون سے متعلق اُردو سائنس انسائیکلو پیڈیا پراجیکٹ کے دو صفحے ہمیں ٹائپنگ کرنے کے لیے دیئے گئے۔ واضح رہے کہ ان صفحات میں روزمرہ استعمال سے ہٹ کر اُردو، عام استعمال سے ہٹ کر سائنٹیفک انگریزی نام، سائنس دان کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کی تکرار تھی جن کے باعث سپیڈ سے ٹائپنگ کسی طور ممکن نہ تھی۔ مقررہ وقت 15 منٹ دیئے گئے مگر میں نے 11 منٹ کے بعد انتظامیہ سے ری ٹائپ کرنے کی اجازت مانگی بصورتِ دیگر مدمقابل کی ٹائپنگ روکنے کی استدعا کی۔ کیونکہ ٹائپنگ مشین کے برعکس کمپیوٹر میں کاپی پیسٹ ممکن ہونے کی وجہ سے کمپیوٹر ٹائپنگ ٹیسٹ میں ری ٹائپ کی اجازت نہیں دی جاتی۔ جبکہ میرے 11 منٹ میں ٹیسٹ مکمل کرنے کے بعد مدمقابل کو پورے 15 منٹ وقت دینے سے وہ صاحب بھی مذکورہ ٹیسٹ مکمل کر پاتے اور پھر فیصلہ غلطیوں سے پاک ٹائپنگ کی بنیاد پر ہوتا جو کہ میرے خیال میں زیادتی ہوتی کہ جس ٹائپنگ سپیڈ کی جانچ کے لیے ٹیسٹ لیا جا رہا تھا وہ مقصد فوت ہو جاتا۔ (بالکل اس طرح جیسے فٹ بال کا میچ پینلٹی ککس پر فیصلہ پائے)
بہرحال میری تکرار پر موصوف کو 12 منٹ بعد ٹائپنگ روکنا پڑی تو میرے 2 صفحوں کی مکمل ٹائپنگ کے مقابلے میں وہ صرف 1 صفحہ ٹائپ کرسکے تھے، چنانچہ تیز ٹائپنگ کی وجہ مجھے اُس اَسامی پر رکھ لیا گیا۔
فونیٹک کی بورڈ کو صوتی کی بورڈ کہتے ہیں کہ صوت یا آوازوں کی بنیاد پر اسے مرتب کیا گیا مگر اس کے باعث اُردو لکھنے والوں کو زیادہ مشقت اُٹھانا پڑتی ہے۔
ہمارے کی بورڈ میں کی جانے والی ہر تبدیلی کے پیچھے ایک لاجک رکھی گئی ہے۔ مثال کے طور پر
سن 1994ء میں اُردو سافٹ ویئر نقاش (بعد میں آکاش) سے شناسائی ہوئی، جو نوے کے عشرے کے آغاز میں ایک جاننے والے نے 40 ہزار روپے کا ایک ہفتہ وار میگزین کی کتابت کے لیے خریدا تھا۔ مذکورہ سافٹ ویئر ایم ایس ورڈ ورژن 5 ڈاس پر بنایا گیا تھا۔ اور صرف نستعلیق اور نسخ دو فانٹس دستیاب تھے۔
اُنہی حضرت کی وساطت سے سن 1996ء میں نقاش سافٹ ویئر کے لاہور میں ڈسٹری بیوٹر سے سافٹ ویئر ہمالہ خریدنے کا اتفاق ہوا جسے شاہکار اُردو سافٹ ویئر کی اپ ڈیٹ کہہ سکتے ہیں۔ یہ بھی ڈاس میں آپریٹ ہوتا تھا۔ ہمالہ میں اُردو نستعلیق کے دو اور نسخ کے تقریباً 50 فانٹس دیئے گئے تھے۔
بہرحال میں کی بورڈ نقاش آکاش شاہکار اور ہمالہ کا استعمال کر رہا تھا۔ بعد میں ان پیج سے شناسائی ہونے کے بعد میں یوزر ڈیفائنڈ کی بورڈ استعمال کرتا رہا جس میں وقتاً فوقتاً حسب ضرورت تبدیلیاں کرتا رہا۔
آج میرے یوزر ڈیفائنڈ کی بورڈ اور فونیٹک کی بورڈ میں 50 تبدیلیاں ہیں مگر میں بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ فونیٹک کی بورڈ اور پاکستان میں استعمال ہونے والے دیگر تمام اُردو کی بورڈز کو زیادہ استعمال ہونے والے حروف اور انسانی اُنگلیوں کی قوت کے مطابق تقسیم نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ان تمام کی بورڈز سے ٹائپنگ کی صورت میں ایک تو کی پنچنگ زیادہ کرنا پڑتی ہے اور دوسرے کمزور اُنگلیوں پر زیادہ استعمال ہونے والے حروف رکھ دیئے گئے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ شہادت کی اُنگلی یا بڑی اُنگلی کا کنڈہ بنا کر پانچ کلو گھی کا ڈبہ محلے کی دُکان سے گھر تک لا سکتے ہیں مگر تیسری اور چھوٹی اُنگلی کا کنڈہ بنا کر ایسا کرنے کا سوچ نہیں سکتے کیونکہ ان اُنگلیوں کی قوت اور مزاحمت اتنی زیادہ نہیں ہوتی۔
یہی وجہ تھی کہ سن 2006ء میں اُردو سائنس بورڈ لاہور کی جانب سے مشتہر کی جانے والی ایک اَسامی پر راقم الحروف کے مقابل روزنامہ جنگ لاہور کے آپریٹر جو غالباً مونو ٹائپ کی بورڈ استعمال کرتے تھے، آگئے۔ یہاں بتاتا چلوں کہ جنگ اخبار کے ٹائپسٹ کافی تیز ٹائپنگ کے لیے مشہور ہیں۔ میں نے صرف پانچ منٹ کی بورڈ سیٹنگ کے لیے مانگے جس کے بعد بیالوجی کے مضمون سے متعلق اُردو سائنس انسائیکلو پیڈیا پراجیکٹ کے دو صفحے ہمیں ٹائپنگ کرنے کے لیے دیئے گئے۔ واضح رہے کہ ان صفحات میں روزمرہ استعمال سے ہٹ کر اُردو، عام استعمال سے ہٹ کر سائنٹیفک انگریزی نام، سائنس دان کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کی تکرار تھی جن کے باعث سپیڈ سے ٹائپنگ کسی طور ممکن نہ تھی۔ مقررہ وقت 15 منٹ دیئے گئے مگر میں نے 11 منٹ کے بعد انتظامیہ سے ری ٹائپ کرنے کی اجازت مانگی بصورتِ دیگر مدمقابل کی ٹائپنگ روکنے کی استدعا کی۔ کیونکہ ٹائپنگ مشین کے برعکس کمپیوٹر میں کاپی پیسٹ ممکن ہونے کی وجہ سے کمپیوٹر ٹائپنگ ٹیسٹ میں ری ٹائپ کی اجازت نہیں دی جاتی۔ جبکہ میرے 11 منٹ میں ٹیسٹ مکمل کرنے کے بعد مدمقابل کو پورے 15 منٹ وقت دینے سے وہ صاحب بھی مذکورہ ٹیسٹ مکمل کر پاتے اور پھر فیصلہ غلطیوں سے پاک ٹائپنگ کی بنیاد پر ہوتا جو کہ میرے خیال میں زیادتی ہوتی کہ جس ٹائپنگ سپیڈ کی جانچ کے لیے ٹیسٹ لیا جا رہا تھا وہ مقصد فوت ہو جاتا۔ (بالکل اس طرح جیسے فٹ بال کا میچ پینلٹی ککس پر فیصلہ پائے)
بہرحال میری تکرار پر موصوف کو 12 منٹ بعد ٹائپنگ روکنا پڑی تو میرے 2 صفحوں کی مکمل ٹائپنگ کے مقابلے میں وہ صرف 1 صفحہ ٹائپ کرسکے تھے، چنانچہ تیز ٹائپنگ کی وجہ مجھے اُس اَسامی پر رکھ لیا گیا۔
فونیٹک کی بورڈ کو صوتی کی بورڈ کہتے ہیں کہ صوت یا آوازوں کی بنیاد پر اسے مرتب کیا گیا مگر اس کے باعث اُردو لکھنے والوں کو زیادہ مشقت اُٹھانا پڑتی ہے۔
ہمارے کی بورڈ میں کی جانے والی ہر تبدیلی کے پیچھے ایک لاجک رکھی گئی ہے۔ مثال کے طور پر
انگریزی حرف اے سے الف اور آ ۔۔۔ کیونکہ الف اور آ کی جوڑی ہمیں ساتھ پڑھائی گئی
فونیٹک کی بورڈ میں الف لکھ کر شفٹ اے سے مد لکھا جاتا ہے۔
مثلاً آصف لکھنے کے لیے فونیٹک کی بورڈ میں سٹروکس (1) اے (2+3) شفٹ اے (4+5) شفٹ ایس (6) ایف= آصف
ہمارے کی بورڈ میں آصف لکھنے کے لیے سٹروکس (1+2) شفٹ اے (3) سیمی کالن (4) ایف = آصف
ہمارے کی بورڈ میں انگریزی حرف ایس سے س اور ش ۔۔۔ کیونکہ س اور ش کی جوڑی ہمیں ساتھ پڑھائی گئی
ہمارے کی بورڈ میں انگریزی حرف ای سے ع اور غ ۔۔۔۔۔ کیونکہ ع اور غ کی جوڑی ہمیں ساتھ پڑھائی گئی
ہمارے کی بورڈ میں انگریزی حرف ایچ سے ہ اور ح ۔۔۔۔۔ کیونکہ ہ اور ح دونوں اردو میں زیادہ مستعمل ہیں۔
واضح رہے کہ اُردو میں اصل ہ ہے نہ کہ ھ جو کہ ہندی حروف کا حصہ ہے اور بہت کم الفاظ میں میں استعمال ہوتا ہے مثلا گھ گھوڑا، پھ پھول، ڈھ ڈھول وغیرہ۔ اصل اُردو کے الفاظ ہے ہیں اور ہوں کی بجائے لوگ ھے ھیں اور ھوں استعمال کرتے ہیں جو کہ غلط ہے۔
ہمارے کی بورڈ میں انگریزی حرف جے سے ج اور چ ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ج اور چ کی جوڑی ہمیں ساتھ پڑھائی گئی چنانچہ انہیں ساتھ رکھ کر استعمال کرنے سے ٹائپنگ کرتے وقت ٹائپسٹ کے دماغ میں زیادہ برق رفتاری سے پراسیسنگ ہوتی ہے۔
اسی طرح فونیٹک کی بورڈ میں مختصر ؑ ۔۔ ؓ ۔۔ ؒ کے ساتھ ساتھ ؐ اور ﷺ بھی مختلف جگہوں پر بکھرے پڑے ہیں۔
آ کو بھی + کے اوپر رکھ کر زیادتی کی گئی۔ جو کہ اُردو میں بطور حرف استعمال ہوتا ہے۔
فونیٹک میں شد کے نشان کو ہائفن کے اوپر رکھا گیا ہے۔ جبکہ ہم نے شد کے نشان کو ڈبلیو سے مشابہت کی بناء پر ڈبلیو پر رکھا۔
فونیٹک کی بورڈ میں دو زبر اور دو زیر کو ٹلڈ سائن اور اپاسٹرافی کے اوپر رکھ دیا گیا۔
گول ة کا استعمال اردو میں کم ترین ہوتا ہے مگر اسے انگریزی حرف او کے اوپر رکھ کر پاورفل کی کو ضائع کیا گیا ہے۔
فونیٹک کی بورڈ میں ی اور ے کو الگ الگ رکھ کر ٹائپسٹ پر بوجھ زیادہ کر دیا گیا۔
ہمارے کی بورڈ میں ی اور ے دونوں کو انگریزی حرف یو پر رکھ دیا گیا۔ کیونکہ اپنی بیس لائن پر کوئی بھی اُنگلی اپنی پوری قوت کے ساتھ بہترطور پر کام کرسکتی ہے۔ جبکہ بیسک پوائنٹ سے آگے یا پیچھے پاورفل انگلیوں کی بھی وہ قوت نہیں ہوتی۔
میرے خیال میں جب انگریزی کی بورڈ کے مرتب کنندگان تمام پوزیشنوں پر زیادہ مستعمل حروف کے بارے میں باریک بینی سے سوچ و بچار کرکے ایسا کی بورڈ مرتب کرسکتے ہیں جس کی افادیت سے کوئی بھی انکاری نہیں تو اُردو زبان جس کے استعمال کنندگان دُنیا میں چوتھے نمبر پر ہیں، اس کے کی بورڈ مرتب کنندگان ایسی سوچ و بچار کیوں نہیں کرسکتے۔ کیا وجہ ہے کہ آج بھی ایک عام قاری فونیٹک کی بورڈ کا اسیر ہو کر رہ گیا ہےجس کی بنیادی وجہ ان پیج جیسے سافٹ ویئر میں اس کا کثیر استعمال اور دیگر کسی کی بورڈ کی عدم موجودگی تھی۔
جبکہ دیگر مستعمل کی بورڈز میں سے کوئی بھی اپنی مرکزی حیثیت نہیں بناسکا۔
اُمید ہے اہل فکر ان نکات پر اظہار خیال فرمائیں گے۔
والسلام
فونیٹک کی بورڈ میں الف لکھ کر شفٹ اے سے مد لکھا جاتا ہے۔
مثلاً آصف لکھنے کے لیے فونیٹک کی بورڈ میں سٹروکس (1) اے (2+3) شفٹ اے (4+5) شفٹ ایس (6) ایف= آصف
ہمارے کی بورڈ میں آصف لکھنے کے لیے سٹروکس (1+2) شفٹ اے (3) سیمی کالن (4) ایف = آصف
ہمارے کی بورڈ میں انگریزی حرف ایس سے س اور ش ۔۔۔ کیونکہ س اور ش کی جوڑی ہمیں ساتھ پڑھائی گئی
ہمارے کی بورڈ میں انگریزی حرف ای سے ع اور غ ۔۔۔۔۔ کیونکہ ع اور غ کی جوڑی ہمیں ساتھ پڑھائی گئی
ہمارے کی بورڈ میں انگریزی حرف ایچ سے ہ اور ح ۔۔۔۔۔ کیونکہ ہ اور ح دونوں اردو میں زیادہ مستعمل ہیں۔
واضح رہے کہ اُردو میں اصل ہ ہے نہ کہ ھ جو کہ ہندی حروف کا حصہ ہے اور بہت کم الفاظ میں میں استعمال ہوتا ہے مثلا گھ گھوڑا، پھ پھول، ڈھ ڈھول وغیرہ۔ اصل اُردو کے الفاظ ہے ہیں اور ہوں کی بجائے لوگ ھے ھیں اور ھوں استعمال کرتے ہیں جو کہ غلط ہے۔
ہمارے کی بورڈ میں انگریزی حرف جے سے ج اور چ ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ج اور چ کی جوڑی ہمیں ساتھ پڑھائی گئی چنانچہ انہیں ساتھ رکھ کر استعمال کرنے سے ٹائپنگ کرتے وقت ٹائپسٹ کے دماغ میں زیادہ برق رفتاری سے پراسیسنگ ہوتی ہے۔
اسی طرح فونیٹک کی بورڈ میں مختصر ؑ ۔۔ ؓ ۔۔ ؒ کے ساتھ ساتھ ؐ اور ﷺ بھی مختلف جگہوں پر بکھرے پڑے ہیں۔
آ کو بھی + کے اوپر رکھ کر زیادتی کی گئی۔ جو کہ اُردو میں بطور حرف استعمال ہوتا ہے۔
فونیٹک میں شد کے نشان کو ہائفن کے اوپر رکھا گیا ہے۔ جبکہ ہم نے شد کے نشان کو ڈبلیو سے مشابہت کی بناء پر ڈبلیو پر رکھا۔
فونیٹک کی بورڈ میں دو زبر اور دو زیر کو ٹلڈ سائن اور اپاسٹرافی کے اوپر رکھ دیا گیا۔
گول ة کا استعمال اردو میں کم ترین ہوتا ہے مگر اسے انگریزی حرف او کے اوپر رکھ کر پاورفل کی کو ضائع کیا گیا ہے۔
فونیٹک کی بورڈ میں ی اور ے کو الگ الگ رکھ کر ٹائپسٹ پر بوجھ زیادہ کر دیا گیا۔
ہمارے کی بورڈ میں ی اور ے دونوں کو انگریزی حرف یو پر رکھ دیا گیا۔ کیونکہ اپنی بیس لائن پر کوئی بھی اُنگلی اپنی پوری قوت کے ساتھ بہترطور پر کام کرسکتی ہے۔ جبکہ بیسک پوائنٹ سے آگے یا پیچھے پاورفل انگلیوں کی بھی وہ قوت نہیں ہوتی۔
میرے خیال میں جب انگریزی کی بورڈ کے مرتب کنندگان تمام پوزیشنوں پر زیادہ مستعمل حروف کے بارے میں باریک بینی سے سوچ و بچار کرکے ایسا کی بورڈ مرتب کرسکتے ہیں جس کی افادیت سے کوئی بھی انکاری نہیں تو اُردو زبان جس کے استعمال کنندگان دُنیا میں چوتھے نمبر پر ہیں، اس کے کی بورڈ مرتب کنندگان ایسی سوچ و بچار کیوں نہیں کرسکتے۔ کیا وجہ ہے کہ آج بھی ایک عام قاری فونیٹک کی بورڈ کا اسیر ہو کر رہ گیا ہےجس کی بنیادی وجہ ان پیج جیسے سافٹ ویئر میں اس کا کثیر استعمال اور دیگر کسی کی بورڈ کی عدم موجودگی تھی۔
جبکہ دیگر مستعمل کی بورڈز میں سے کوئی بھی اپنی مرکزی حیثیت نہیں بناسکا۔
اُمید ہے اہل فکر ان نکات پر اظہار خیال فرمائیں گے۔
والسلام
آخری تدوین: