اس کام کے لیےآج میں ساری رات جاگا رہا، ۵ ، ۶ طویل مضامین تقریبا ایک لاکھ سے دو لاکھ کیریکٹر کے Character Count Tool میں بھیجنے کے بعد اس نتیجہ میں پہنچا کہ ہماری تحریروں میں سب سے زیادہ استعمال کیے جانے حروف ---- ا، ی، ک، ر، و، ہ، ے، ن، م، ت ---- بالترتیب (تھوڑے سے فرق کے ساتھ) ہیں۔
اگر ان حروف کو گھریلو صف Home Row میں شامل کیا جائے تو اس طرح ہمیں ٹائپ کرنے میں زیادہ آسانی ہو گی۔ اس کوآسانی سے یاد رکھنے کے لیے میں نے اسے (کرو تم یہ نیا) الفاظ سے سجا دیا ہے تاکہ ان الفاظ کے ذریعہ ہم بآسانی کیبورڈ کی ترتیب کو سمجھ سکیں۔
اس کے بعد میں نے زیادہ استعمال ہونےوالے دس حروف بالترتیب کم و بیش فرق کے ساتھ ( س، ب، ل، ں، د، ش، ھ، ع، ج، گ) کو پایا۔ ان حروف کو میں نے گھریلو صف کے اوپری لائن میں اس طرح ترتیب دیا کہ وہ (گل بس عش جھدں) کے طور پر پڑھی جائے۔ یہ تمام کثیر المستعمل کلید کو اس ترتیب سے سجانے کا یہ فائدہ ہو گا کہ ہمیں Shift Button کا استعمال بہت ہی کم کرنا پڑے گا۔
یہ تو میں نے اپنے طور پر ایک کوشش کی ہے میری یہ ترتیب کہاں تک درست ہے یہ ہمارے ماہرین ہی بتائیں گے۔ کام بس اتنا ہی کر پایا تھا کہ نیند اور تھکاوٹ سے بوجھل جسم نہ کہا کہ اب بس کرو میرا بھی تو حق ہے وہ مجھے دو۔ اور بس میں بستر استراحت میں کمبل تان کر سو گیا۔
میری یہ خواہش ہے کہ ماہرین اس تعلق سے ضرور رہنمائی فرمائیں۔ اگر اس کام کی ضرورت ہے تو یہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے اور اگر اس کی ضرورت نہیں تو اس کام کو یہیں تمام کرتے ہیں۔
آپ کی دلیل میں کافی وزن ہے۔ ماضی میں ہم حروف تہجی کے اسٹیکر منگوا کر کیبورڈ پر چسپاں کر دیا کرتے تھے۔ لیکن اس کا نقصان پھر یہ ہوتا تھا کہ انگریزی میں ٹائپ کرتے وقت دشواری ہوتی تھی۔ اس لئے میرے خیال میں بہتر حل یہی ہے کہ انگریزی کیبورڈ کو ہی تختہ مشق بنایاجائے۔ بالکل نئے سرے سے پہیہ ایجاد کر کے ٹائپنگ سپیڈ مزید سست روی کا شکار ہو جائے گی۔میرے محترم بھائی ! میرے کہنے کا مدعا یہ ہرگز نہیں تھا کہ ہم اُردو کی بورڈ پر یہ نئے حروف ایڈجسٹ کریں جو کہ بالکل نئے ہوں۔ کیونکہ تقریباً جب سے ہمارا کمپیوٹر سے واسطہ پڑا انگریزی کی بورڈ جو کہ ’’qwerty‘‘ کی بورڈ کہلایا جاتا ہے‘ اسی سے واسطہ پڑا ہے۔ اور اسی کی مناسبت سے چونکہ انگریزی کے 26 حروف ہمیں بخوبی ازبر ہیں جب کہ ہم مزید بڑے 26 حروف شفٹ کی کے ذریعے آسانی سے استعمال کرتے ہیں۔ اب یہ بات غور طلب ہے کہ انگریزی کے 26 حروف کے مقابلے میں اُردو کے 37 حروف ہیں جبکہ آ ، ھ ، ة وغیرہ اور عربی اعراب، قرآنی رموز اوقاف اور مختلف کثیر الاستعمال ترسیموں مثلاً ﷺ، ؐ ، ؓ ، ؒ ، ؔ ، ٭ ، أ ، إ ، َ ، ِ ، ُ ، ٌ ، ٗ ، ٰ ، ٖ ، ٓ ، ً ‘ ٍ ‘ ۭ ، ۢ ، ۨ ، ۩ ، ٕ ، ٔ ، ؏ ، ، ، ، ۞ ، ﴾ ، ﴿ ، ٝ ، ْ ، ۗ ، ۖ ، ؛ ، : ، ۣ ، ۜ ، ﷽ ، ؞ ، ۚ ، ﷻ وغیرہ کو ملا کر ان کی تعداد تقریباً انگریزی کے 26 حروف کے مقابلے میں 7 گنا یعنی 180 کے قریب بنتی ہے۔ آپ کے ’’کرو تم یہ نیا‘‘ کے شوق میں سارا معاملہ ہی تلپٹ ہو جائے گا کیونکہ استعمال کنندہ جو کہ انگریزی کی بورڈ کا عادی ہے اُسی کی بورڈ کے حروف کی مناسبت سے لگ بھگ اُردو کے حروف رکھے گئے ہیں جو کہ آسانی سے یاد رکھے جا سکتے ہیں مثلاً انگریزی حرف Q کے لیے ق اور K کے لیے ک رکھا گیا ہے۔ جبکہ ان کی جگہ نئے حروف رکھ کر ایک نیا کٹا کھولنے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے کیونکہ اُردو تقریباً گزشتہ 20 یا 25 سال سے کمپیوٹر کے عام استعمال کنندہ کے استعمال میں آئی جو کہ qwerty کی بورڈ پر ان ہی کیز پر ق و ع ر ت کے حروف سے تو آشنائی رکھتے ہیں مگر نئے حروف ان qwerty پر رکھنے سے سب کے دماغ گھوم جائیں گے۔ مثلاً آپ کو بچپن سے بتایا گیا کہ سات کی تعداد کے لیے 7 استعمال کیا کریں یا 2 کا مطلب دو چیزیں ہیں جبکہ اگر آج میں کہوں کہ 7 کی جگہ ۷ کی بجائے ₰ اور 8 کی جگہ ۸ کی بجائے Ω رکھ دیا جائے تو ہمارا ذہن اس بات کو قطعاً قبول نہیں کرے گا۔ (مزید تفصیل بھی ارسال کر رہا ہوں)
ان تمام حروف کا تعدد یہاں شریک کر دیا جائے تو ٹائپنگ ماسٹر صاحب کے کی بورڈ کی افادیت معلوم ہو سکتی ہے۔ انھوں نے shift+J پر چ رکھا ہے جہاں ان پیج فونیٹک کی بورڈ پر ض تھا۔ خیال ہے کہ چ سیدھا C دبانے سے زیادہ آسانی سے ٹائپ ہو سکتا ہے بجائے شفٹ جے کے۔ اور ض کا تعدد کم ہو گا تو وہ شفٹ جے پر ہی صحیح رہے گا۔ بہرحال سرفراز احمد صاحب کے کام سے ایسی باتیں تو طے ہو سکتی ہیں۵ ، ۶ طویل مضامین تقریبا ایک لاکھ سے دو لاکھ کیریکٹر کے Character Count Tool میں بھیجنے کے بعد اس نتیجہ میں پہنچا کہ ہماری تحریروں میں سب سے زیادہ استعمال کیے جانے حروف ---- ا، ی، ک، ر، و، ہ، ے، ن، م، ت ---- بالترتیب (تھوڑے سے فرق کے ساتھ) ہیں۔
میرے معزز بھائی ! آپ ’چ‘ کا استعمال چیک کرلیں‘ کم ہی ہوگا‘ دوسرا ج کے ساتھ چ کی جوڑی اسی لیے رکھی گئی کہ ہم نے حروف کے جوڑے بنائے۔ اُردو ٹائپنگ میں زیادہ مسئلہ انگریزی حرف Z سے ملتی جلتی آوازوں والے حروف کی وجہ سے پیدا ہوا مثلاً ض‘ ظ‘ ز‘ ذ وغیرہ جبکہ کی صرف ایک یعنی Z مہیا تھی۔ اسی طرح فونیٹک کی بورڈ میں ج اور ض کو ساتھ اسی لیے رکھا گیا کیونکہ ہندی بولنے والے افراد ضمیر حسین کو جمیر حسین بولتے ہیں۔ ضرورت کو جرورت بولتے ہیں۔ جبکہ جاوید کو ضاوید بول دیتے ہیں۔ تو فونیٹک میں اسی وجہ سے ج اور ض کو ساتھ رکھا گیا‘ واضح رہے کہ اِن پیج پر اولین کام اور آج تک کا زیادہ تر کام ہندوستانیوں نے ہی کیا تھا۔ میرا مقصد کسی کی تضحیک کرنا نہیں بلکہ آپ کو وہ عوامل بتانے ہیں جن کی وجہ سے ج اور ض کو ایک ساتھ رکھا گیا۔ جبکہ پاکستانی اُردو بولنے والے ہر لفظ کو الگ الگ مخصوص مخارج سے ادا کر سکتے ہیں (عمومی طور پر)ان تمام حروف کا تعدد یہاں شریک کر دیا جائے تو ٹائپنگ ماسٹر صاحب کے کی بورڈ کی افادیت معلوم ہو سکتی ہے۔ انھوں نے shift+J پر چ رکھا ہے جہاں ان پیج فونیٹک کی بورڈ پر ض تھا۔ خیال ہے کہ چ سیدھا C دبانے سے زیادہ آسانی سے ٹائپ ہو سکتا ہے بجائے شفٹ جے کے۔ اور ض کا تعدد کم ہو گا تو وہ شفٹ جے پر ہی صحیح رہے گا۔ بہرحال سرفراز احمد صاحب کے کام سے ایسی باتیں تو طے ہو سکتی ہیں
تاکہ حروف کی حقیقی فریکوئنسی کا پتہ چل سکے
آپ احباب بصد شوق پہیہ دوبارہ ایجاد کریں۔
بالکل نئے سرے سے پہیہ ایجاد کر کے ٹائپنگ سپیڈ مزید سست روی کا شکار ہو جائے گی۔
انگریزی qwerty کی بورڈ کی تمام کیز پر ہمارے ہاں ایڈجسٹ کیے گئے اُردو کے ہر حرف کی توجیہ یا لاجک (فی الحال بیس لائن کی توجیہات ملاحظہ فرمائیں)
کلر کوڈ (اس پوسٹ میں)
(1) ا نارمل پنچنگ
(2) آ شفٹ کیس
(3) إ آلٹ جی آر کیس
(قرآنی رموز اور دیگر ترسیمے آلٹ جی آر پر رکھے گئے ہیں)
(4) أ آلٹ جی آر + شفٹ کیس
(عموماً ہائی پوزیشن پر استعمال ہونے والے ترسیمے آلٹ جی آر کے ساتھ شفٹ پر رکھے گئے ہیں)
aA سے ا آ إ أ فونیٹک کی بورڈ میں تمام حروف الگ الگ جگہوں پر تھے ہم نے الف کی تمام اشکال کو ایک جگہ جمع کیا۔
sS سے س ش ۣ ۜ فونیٹک کی بورڈ میں س کے ساتھ ص تھا‘ ہم نے س ش کو ساتھ رکھ کر قرآنی رموز میں س کی تمام اشکال کو ایک جگہ جمع کیا۔ کیونکہ س اور ش ہم نے ساتھ ہی پڑھا۔
dD سے د ڈ فونیٹ ک کی بورڈ میں بھی یہی ترتیب ہے
fF سے ف ٰ (کھڑا زبر) ٯ تمام حروف کو فونیٹک کی بورڈ میں گڈمڈ بھیڑ بکریوں کی طرح رکھا گیا ہے ہم نے ف جسے عربی میں ’فا‘ کہا جاتا ہے جس کی آواز کا آخری حصہ کھڑا زبر کی آواز سے ملتا جلتا ہے اسی مناسبت سے کھڑا زبر رکھا جبکہ آلٹ جی آر شفٹ میں ف کی خالی شکل بغیر نقطے کے رکھ دی۔
gG سے گ : ؛ فونیٹک میں گ کے ساتھ غ رکھا گیا‘ جبکہ ہم نے ع اور غ کی جوڑی ساتھ پڑھی تو ساتھ رکھی۔ جبکہ ; : کی پر ص اور ض کو رکھنے کی وجہ سے ؛ اور : یہاں لے آئے۔
hH سے ہ ح ۟ (چھوٹا ہ ہائی) فونیٹک کی بورڈ میں ھ اور ح کو ساتھ رکھا گیا‘ ہم نے اُردو کی ہ کو بیس لائن پر رکھا اور ح کو شفٹ کیس میں رکھا‘ کیونکہ ’ہ‘ کا استعمال ’ح‘ سے زیادہ ہے جبکہ ’ھ‘ صرف چند مخصوص الفاظ مثلاً گھ گھوڑا‘ پھ پھول‘ بھ بھول یا ڈھول وغیرہ میں بہت کم استعمال ہوتی ہے‘ جبکہ آلٹ جی آر کے ساتھ چھوٹی ہ ہائی کو رکھ دیا گیا۔
jJ سے ج چ ﷻ ۚ فونیٹک میں ج اور چ الگ الگ ہیں۔ ج اور چ کی جوڑی ہمیں ساتھ پڑھائی گئی‘ اس کے ساتھ ساتھ ترسیمہ جل جلالہٗ اور قرآنی رموز اوقاف کا ’چھوٹا ج ہائی‘ کو آلٹ جی آر + شفٹ پر رکھ دیا گیا۔
kK سے ک خ ڪ ك فونیٹک میں ک کے ساتھ خ رکھا گیا ہے ہم نے ک کی تمام ممکنہ مستعمل اشکال کو ایک جگہ جمع کیا۔
lL سے ل أ ٴ ۙ ل دیگر کی بورڈز میں بھی اسی جگہ ہے‘ مگر ہم نے کم استعمال ہونے والے أ کو ل پر رکھنے اور إ کو ب پر رکھا گیا‘ اس کے علاوہ قرآنی رموز میں ترسیمے (چھوٹا لا ہائی) کو آلٹ جی آر + شفٹ پر جبکہ ہمزہ ہائی کو بھی رکھ دیا کیونکہ y پر پہلے ہی ( ئ ء ٕ ٔ ) پہلے سے موجود تھے۔
; : سے ص ض ‘ “ دیگر کی بورڈز میں ص اور ض کو الگ الگ بکھیر کر رکھا گیا تھا ہم نے ص اور ض کو ایک جگہ جمع کیا جبکہ واوین کو بھی رکھ دیا۔
' " سے َ (زبر) ً (دو زبر) ’ ” زبر اور دو زبر دیگر کی بورڈز میں الگ الگ جگہوں پر ہیں جنہیں الگ الگ جگہ پر یاد رکھنا ٹائپسٹ کی ذہنی پراسیسنگ کی رفتار کو سست کرتا ہے‘ ہم نے زبر اور دو زبر کو ایک جگہ جمع کیا جبکہ واوین کو بھی رکھ دیا۔
آپ کا کیبورڈ سمجھنے کیلئے لگایا تھا۔جناب فونیٹک کی بورڈ کا عکس لگانے کا مطلب نہیں سمجھ میں آیا۔
۵ ، ۶ طویل مضامین تقریبا ایک لاکھ سے دو لاکھ کیریکٹر کے Character Count Tool میں بھیجنے کے بعد اس نتیجہ میں پہنچا کہ ہماری تحریروں میں سب سے زیادہ استعمال کیے جانے حروف ---- ا، ی، ک، ر، و، ہ، ے، ن، م، ت ---- بالترتیب (تھوڑے سے فرق کے ساتھ) ہیں۔
کے مطابق h کی کلید کا حقدار ہ بنتا ہے فونیٹک کی بورڈ پر۔ شفٹ h پر ح ہی ٹھیک لگتا ہے جبکہ ھ کے لیے کوئی اور جگہ تلاش کرنی ہو گی۔ بہر حال یہ ابتدائی نتیجہ ہی ہے دوست کے مشورے کے مطابق کافی بڑے ذخیرے سے حروف کا تعدد معلوم کرنے کے بعد ہی حتمی فیصلہ ہو سکتا ہے۔اس کے بعد میں نے زیادہ استعمال ہونےوالے دس حروف بالترتیب کم و بیش فرق کے ساتھ ( س، ب، ل، ں، د، ش، ھ، ع، ج، گ) کو پایا۔
اس کام کو کر گزریں اس سے کافی فائدہ ہونے کی امید ہےمیری یہ خواہش ہے کہ ماہرین اس تعلق سے ضرور رہنمائی فرمائیں۔ اگر اس کام کی ضرورت ہے تو یہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے اور اگر اس کی ضرورت نہیں تو اس کام کو یہیں تمام کرتے ہیں۔