اُردو کی بورڈ استعمال کرتے ہوئے تیز ترین ٹائپنگ

اس کام کو کر گزریں اس سے کافی فائدہ ہونے کی امید ہے
ابو ہاشم صاحب حوصلہ افزائی کا شکریہ

پرسوں رات بھی میں نے دوست صاحب کے حکم کے مطابق تقریباً ۴ لاکھ کیریکٹر ۸۵ ہزار الفاظ پر مشتمل پیراگراف کے مجموعے کو کیریکٹر کاؤنٹ ٹول میں جانچ کے لیے ڈالا اور اس بار بھی حیرت انگیز طور پر وہی اوّل ۱۰ حروف تھے جو میرے پچھلے نتیجے میں سامنے آئے تھے۔ یعنی ا، ی، ک، ر، و، ہ، ے، ن، م، ت ۔ اس سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ ہماری گفتگو اور خط و کتابت میں یہ ۱۰ حروف (پہلا عشرہ) سب سے زیادہ مستعمل ہیں۔ اگر اس بات کے پیش نظر ان حروف کو گھریلو صف Home Raw میں رکھا جائے تو ہمیں شفٹ بٹن کا استعمال کم سے کم کرنا پڑے گا۔

اسی طرح دوسرا عشرہ میں بھی قریب قریب وہی ۱۰ حروف تھے جن کا تجربہ میں نے پچھلے نتیجے میں کیا تھا یعنی (س، ل، ں، ھ، ب، د، پ، ج، گ، ۔) پچھلے نتیجے کے مقابلے صرف ۲ حروف ش اور ع کو بالترتیب ۲۴ واں اور ۲۶واں مقام ملا۔

جہاں تک ٹائپنگ ماسٹر صاحب کے تختۂ کلید کی بات ہے ان کی ترتیب بھی فونیٹک تختۂ کلید پر کام کرنے والے کے لیے زبردست ثابت ہوگی۔

اور میرا تجربہ کا آغاز ان کے ہی اس مضمون کی اس بات
مثلاً آصف لکھنے کے لیے فونیٹک کی بورڈ میں سٹروکس (1) اے (2+3) شفٹ اے (4+5) شفٹ ایس (6) ایف= آصف
ہمارے کی بورڈ میں آصف لکھنے کے لیے سٹروکس (1+2) شفٹ اے (3) سیمی کالن (4) ایف = آصف
میرے خیال میں جب انگریزی کی بورڈ کے مرتب کنندگان تمام پوزیشنوں پر زیادہ مستعمل حروف کے بارے میں باریک بینی سے سوچ و بچار کرکے ایسا کی بورڈ مرتب کرسکتے ہیں جس کی افادیت سے کوئی بھی انکاری نہیں تو اُردو زبان جس کے استعمال کنندگان دُنیا میں چوتھے نمبر پر ہیں، اس کے کی بورڈ مرتب کنندگان ایسی سوچ و بچار کیوں نہیں کرسکتے۔ کیا وجہ ہے کہ آج بھی ایک عام قاری فونیٹک کی بورڈ کا اسیر ہو کر رہ گیا ہےجس کی بنیادی وجہ ان پیج جیسے سافٹ ویئر میں اس کا کثیر استعمال اور دیگر کسی کی بورڈ کی عدم موجودگی تھی
سے ہوا۔ چونکہ انگریزی کیبورڈ کی ترتیب انہوں نے کثیر المستعمل لیٹرس کو پیشِ نظر رکھ کر ہی کی ہوگی۔ اگر ہم بھی اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ ہماری خط و کتابت میں کون کون سے حروف کثیر المستعمل ہیں اپنے تختۂ کلید کو مرتب دیں تو ٹائپنگ کی رفتار سست ہونے کے بجائے تیز ہو گی۔ جن بھائیوں نے رفتار سست ہونے کی بات کہی ہے تو انہیں میں کہنا چاہوں گا۔ ہر نو سکھیے کے لیے ہر وہ تختۂ کلید مشکل ہی ہوتا جس پر وہ مشق کا آغاز کرتا ہے۔ میں نے بھی جب اردو انگریزی ٹائپنگ سیکھنا شروع کیا تھا تو لیٹرس کو تلاش کرنے میں دشواری ہوتی تھی۔ لیکن مسلسل ۶ مہینے کی مشق سے آسانیاں ہو گئی۔ جن لوگوں نے فونیٹک کی بورڈ کو ترتیب دیا انہوں نے اس بات کو پیش نظر رکھا کہ ہمارے سامنے کی بورڈ انگریزی شکل میں کمپیوٹر کے سامنے رکھا ہوتا ہے اگر اسی ترتیب سے اردو کے حروف کو سجایا جائے تو حروف کو تلاش کرنے میں زیادہ دقت نہیں ہوگی۔

میں یہ چاہتا ہوں کے جس طرح حروف کا تعدد جاننے کے لیے میں نے تجربہ کیا ہے اسی طرح کچھ دوسرے افراد بھی جانچ کر اپنا نتیجہ یہاں پیش کریں۔ اگر ۲۰، ۲۵ نتیجے سامنے آ جاتے ہیں تو ہم اوّل، دوم اور سوم عشرہ کی ایک ترتیب طے کر سکتے ہیں۔ پھر اسی طرح کم مستعمل حروف کو ہم شفٹ کے ساتھ ترتیب دے سکتے ہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
پھر اسی طرح کم مستعمل حروف کو ہم شفٹ کے ساتھ ترتیب دے سکتے ہیں۔
میں نے اردو ٹائپنگ مونوٹائپ کی بورڈ پر سیکھی تھی اور آج بھی اسی کی بورڈ سے ٹائپ کرتا ہوں۔ مونوٹائپ کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں کوئی حرف شفٹ پر نہیں ہے، البتہ ۰ تا ۹ اعداد کی بورڈ کی آخری رو میں شفٹ کے ساتھ ٹائپ کیے جاتے ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حروف کی ترتیبِ نو کرتے ہوئے اگر تمام حروف کی ٹائپنگ کو شفٹ سے آزاد کر دیا جائے تو کیا ٹائپنگ اسپیڈ تیز تر نہیں ہو جائے گی؟
 
آخری تدوین:
السلام علیکم ! تمام محفلین کا اس پوسٹ کو توجہ سے پڑھنے اور وقت دینے پر بہت بہت شکریہ۔ عرض ہے کہ میرے کہنے کا مدعا ہرگز یہ نہیں کہ ہم نئے سرے سے نئے الفاظ رکھ کر کی بورڈ مرتب کر دیں‘ اس سے بات کہیں کی کہیں نکل جائے گی۔ میرے کہنے کا مقصد تو صرف یہ تھا کہ مقتدرہ‘ آفتاب‘ مونو ٹائپ یا فونیٹک کی بورڈ میں حروف کو بکھیر کر رکھ دیا گیا تھا‘ جنہیں ہم نے جوڑیوں کی شکل میں یکجا کرکے دیکھ اس کی بورڈ میں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ s پر س اور ش رکھا گیا۔
باقی QWERTY کی بورڈ کے اُردو سے ملتے جلتے حروف کو ہی رکھا گیا ہے کیونکہ اگر ہم دس کثیر الاستعمال حروف کو HOME ROW میں رکھنے کی ضد کر بیٹھیں تو عام استعمال کنندہ کو بہت نقصان ہوگا۔ کمپوزر اور زیادہ ٹائپنگ والے حضرات کبھی نہ کبھی ان پر ٹائپنگ کرنا سیکھ جائیں گے مگر ہمارا مقصد وسیع النظر بن کر عام استعمال کنندہ کی سہولت کاری ہے۔
مثال کے طور پر 7 پر ہم نے 7۔ ؁۔ ۷۔ ۩ رکھے۔
(1) اب 7 پر سیون‘ سنہ‘ اُردو سات‘ اور سجدہ کی علامت رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ سیون سے سن اور سیون سے ۷ اور سیون سے سجدہ تمام کا آپس میں ربط لگتا ہے۔
(2) S پر س ‘ ش ‘ ۣ ‘ ۜ تمام س کی مختلف صورتیں رکھی گئی ہیں۔
(3) M پر م ‘ ٓ ‘ ۭ ‘ ۢ تمام م کی ممکنہ صورتیں رکھی گئی ہیں ہمراہ مد۔
تقریباً تمام اعراب شفٹ کے ساتھ رکھے گئے ہیں ما سوائے زبر اور زیر کے جو کہ اکثر زیادہ استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ نگاہِ کرم‘ آبِ رواں وغیرہ۔ ڈائریکٹ کی پر رکھے جانے کی وجہ یہی ہے کہ ٹائپنگ کے دوران سپیڈ برقرار رکھی جاسکے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ' اور i پر صرف زبر دو زبر اور زیر دو زیر کے جوڑے رکھے گئے۔
(1) زبر کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ' ۔۔۔ َ
(2) دو زبر کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " ۔۔۔ ً
(3) زیر کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ i ۔۔۔ ِ
(4) دو زیر کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ I ۔۔۔ ٍ
(5) پیش کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ P ۔۔۔ ُ
(6) دو پیش کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ } ۔۔۔ ٌ
(7) اُلٹا پیش کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ { ۔۔۔ ٗ
(8 ) فلپ پیش کے لیے ۔۔۔ آلٹ جی آر + { ۔۔۔ ٝ
(9) کھڑا زبر کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ F ۔۔۔ ٰ
(10) کھڑی زیر کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ V ۔۔۔ ٖ
(11) جزم کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ Q ۔۔۔ ْ
(12) شد کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ W ۔۔۔ ّ
(13) مد کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ M ۔۔۔ ٓ
 
پہیہ دوبارہ ایجاد نہ کیا گیا ہوتا تو آج بھی لکڑی کے پہیے ہی چل رہے ہوتے۔ ابھی اسی دور کی بات لیں تو ٹیوب والے ٹائروں کی جگہ بےٹیوب ٹائر نہ آئے ہوتے۔

مقصد فونیٹک کی بورڈ کا از سرِ نو جائزہ لینا ہے۔
اس کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ مبتدی کو زیادہ کوشش کیے بغیر اردو ٹائپ کرنا آ جائے۔ اور دوسرا یہ کہ فونیٹک کی بورڈ ہی استعمال کرتے ہوئے تیر ٹائپنگ ہو سکے۔

بالکل میرا مقصد یہی ہے کہ عام استعمال کنندہ کو اُردو کی بورڈ کی آسان سمجھ آ سکے۔
اس کام کے لیے میں نے حروف کے جوڑوں کا استعمال کیا‘ جس میں فونیٹکس یعنی آوازوں کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے جبکہ زیادہ زور جوڑوں پر دیا گیا ہے۔
باقی جو لوگ گزشتہ ادوار کے مستعمل کی بورڈز استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں‘ اُنہیں کچھ مشکل ضرور ہوگی آسان کی بورڈ کو استعمال کرنے میں جبکہ نئے استعمال کنندگان اسے آسانی سے سمجھ جائیں گے۔

بقول احمد ندیم قاسمی صاحب کے
یہ ارتقا کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں
پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے تھے
 
آخری تدوین:

دوست

محفلین
اردو کیریکٹر فریکوئنسی فائل یہاں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ کریکٹر فریکوئنسی سے ظاہر ہوتا ہے یہ خاصے بڑے ڈیٹا سیٹ سے بنائی گئی ہے جس میں کریکٹرز کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اس میں بہت سے مسائل بھی نظر آرہے ہیں کیونکہ انگریزی اور دیگر زبانوں کے حروف اور اس کے علاوہ نان سینس حروف بھی صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس سے اردو کے حروف کی عمومی فریکوئنسی کا زیادہ بہتر اندازہ ہو سکے گا۔ اس کو کی بورڈ لے آؤ ڈیزائن کرنے کے لیے یا کسی بھی دیگر مقصد کے لیے استعمال کرنے کی ذمہ داری اب اس کے استعمال کنندگان پر ہے۔ اپنی طرف سے اس سے زیادہ اس معاملے میں بولنے کی تمنا نہیں ہے۔
 

ابو ہاشم

محفلین
محترم دوست کی دی ہوئی لسٹ کی چھانٹی کی اور نتیجہ نیچے دیا گیا ہے:

ا 40006095
ی 32795136
ر 22566462
ک 22341379
و 19577024
ن 17219159
ہ 16114304
م 15960060
ے 15821515
س 11516045
ل 11436018
ت 11375620
د 8566688
ب 8524983
ں 7404733
پ 5407629
ج 5083852
ھ 4237464
گ 4088819
ئ 4027584
ع 3775353
ف 3607491
ق 3353098
ٹ 3217096
ش 3211463
ح 3129695
ز 2871456
۔ 2857753
خ 2138393
چ 2002432
ص 1822889
آ 1473026
، 1422393
ڈ 1339942
ط 1335143
ڑ 746800
ظ 726971
ض 706077
غ 569271
ذ 465642
) 427855
( 427186
ث 420858
‘ 321893
ؤ 217590
ء 209169
ِ 187851
ٰ 162205
. 155397
ُ 154575
’ 135893
: 121521
“ 104423
” 103412
- 101744
؟ 89756
َ 78042
/ 67532
! 64714
ً 61564
ّ 54540
" 52614
· 41992
ٓ 38375
, 36427
۱ 29643
٭ 25103
ْ 24847
ژ 22604
¸ 22313
ﷺ 19526
ۂ 15996
ؔ 13443
ۃ 10787
ؓ 10726
أ 10002
ه 9556
ي 8891
' 8830
ة 8058
ؒ 7623
ٔ 6492
ؐ 6014
ك 5397
4913
ئے 4642
؎ 2983
؛ 2803
ﺅ 2791
ٍ 2689
إ 2491
؂ 2394
ؑ 2364
․ 2073
ٗ 1524
ى 1487
ﷲ 1438
؍ 1263
ٌ 1184
﴿ 1058
﴾ 1056
— 1052
• 704
] 634
[ 612
= 610
? 553
٘ 512
۔ 482
ٖ 367
‏– 325
؁ 257
\ 147
× 75
{ 65
} 48
ٕ 46
٬ 39
् 25
٪ 22
> 16
< 13
ۀ 11
े 10
؏ 5
؃ 4
÷ 4
ۤ 3
۝ 3
ۙ 3
ۜ 3
ۖ 2
ٳ 2
ﹸؕ 2
ۚ 2
ۗ 2
ۭ 2
؀ 2
ۧ 2
ۘ 2

ان میں جو کیریکٹر بھی کسی طرح اردو/عربی/قرآن سے متعلق لگا اسے رکھ لیا باقی تمام کیریکٹر نکال دیے۔ اعداد بھی نکال دیے۔ تعدد ساتھ ہی ہے
ظاہر ہے کہ ان کی مزید چھانٹی کرنی ہو گی اور کچھ کیریکٹرز کا تعدد ایک سے زیادہ بار آیا ہے ان کو جمع کرنا ہوگا اگر اس کی ضرورت ہوئی تو

سرفراز احمد صاحب کا ڈیٹا بھی اس بڑے ڈیٹا کی بہت حد تک تائید کرتا دکھائی دیتا ہے۔
 
آخری تدوین:

نکتہ ور

محفلین
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر فونیٹک کی بورڈ کی لکیر کے فقیر کیوں بنے ہوئے ہیں لوگ۔
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر !
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر


میں نے جب اردو ٹائپنگ کی ابتدا کی تو فونیٹک کی بورڈ مجھے بہت پسند آیا کہ حروف آسانی سے مل جاتے تھے لیکن جب زیادہ ٹائپنگ کرنا پڑی تو الجھن ہونے لگی کہ زیادہ استعمال ہونے والے حروف لکھنا آسان نہ تھا۔ نئے کی بورڈ سے وقتی مشکل ضرور ہو گی لیکن فوائد زیادہ ہیں

بات وہی ہے کہ
چونکہ انگریزی کیبورڈ کی ترتیب انہوں نے کثیر المستعمل لیٹرس کو پیشِ نظر رکھ کر ہی کی ہوگی۔ اگر ہم بھی اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ ہماری خط و کتابت میں کون کون سے حروف کثیر المستعمل ہیں اپنے تختۂ کلید کو مرتب دیں تو ٹائپنگ کی رفتار سست ہونے کے بجائے تیز ہو گی۔ جن بھائیوں نے رفتار سست ہونے کی بات کہی ہے تو انہیں میں کہنا چاہوں گا۔ ہر نو سکھیے کے لیے ہر وہ تختۂ کلید مشکل ہی ہوتا جس پر وہ مشق کا آغاز کرتا ہے۔ میں نے بھی جب اردو انگریزی ٹائپنگ سیکھنا شروع کیا تھا تو لیٹرس کو تلاش کرنے میں دشواری ہوتی تھی۔ لیکن مسلسل ۶ مہینے کی مشق سے آسانیاں ہو گئی۔ جن لوگوں نے فونیٹک کی بورڈ کو ترتیب دیا انہوں نے اس بات کو پیش نظر رکھا کہ ہمارے سامنے کی بورڈ انگریزی شکل میں کمپیوٹر کے سامنے رکھا ہوتا ہے اگر اسی ترتیب سے اردو کے حروف کو سجایا جائے تو حروف کو تلاش کرنے میں زیادہ دقت نہیں ہوگی۔

میں یہ چاہتا ہوں کے جس طرح حروف کا تعدد جاننے کے لیے میں نے تجربہ کیا ہے اسی طرح کچھ دوسرے افراد بھی جانچ کر اپنا نتیجہ یہاں پیش کریں۔ اگر ۲۰، ۲۵ نتیجے سامنے آ جاتے ہیں تو ہم اوّل، دوم اور سوم عشرہ کی ایک ترتیب طے کر سکتے ہیں۔ پھر اسی طرح کم مستعمل حروف کو ہم شفٹ کے ساتھ ترتیب دے سکتے ہیں۔
 

ابو ہاشم

محفلین
حروف کا تعدد مزید چھانٹی اور ایک جیسے کیریکٹروں کو اکٹھا کر دینے کے بعد:

ا 39967717
ی 32805514
ر 22566462
ک 22346776
و 19577024
ن 17219159
ہ 16123860
م 15960060
ے 15821515
س 11516045
ل 11436018
ت 11375620
د 8566688
ب 8524983
ں 7404733
پ 5407629
ج 5083852
ھ 4237464
گ 4088819
ئ 4027584
ع 3775353
ف 3607491
ق 3353098
ٹ 3217096
ش 3211463
ح 3129695
ز 2871456
۔ 2857753
خ 2138393
چ 2002432
ص 1822889
آ 1511404
، 1422393
ڈ 1339942
ط 1335143
ڑ 746800
ظ 726971
ض 706077
غ 569271
ذ 465642
) 427855
( 427186
ث 420858
‘ 321893
ؤ 220381
ء 209169
ِ 187851
ٰ 162205
ُ 154575
’ 135893
: 121521
“ 104423
” 103412
- 101744
؟ 89756
َ 78042
/ 67532
! 64714
ً 61564
ّ 54540
" 52614
٭ 25103
ْ 24847
ژ 22604
¸ 22313
ﷺ 19526
ۃ 18845
ۂ 16007
ؔ 13443
ؓ 10726
أ 10002
' 8830
ؒ 7623
ٔ 6492
ؐ 6014
ئے 4642
؎ 2983
؛ 2803
ٍ 2689
؂ 2394
ؑ 2364
ٗ 1524
ﷲ 1438
؍ 1263
ٌ 1184
﴿ 1058
﴾ 1056
] 634
[ 612
= 610
٘ 512
۔ 482
ٖ 367
‏– 325
؁ 257
\ 147
× 75
{ 65
} 48
٬ 39
٪ 22
> 16
< 13
؏ 5
؃ 4
÷ 4
؀ 2
 

ابو ہاشم

محفلین
حروف کا تعدد تو معلوم ہو گیا اب اگلا مرحلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ کس کلید کو دبانا کتنا آسان یا کتنا مشکل ہے یعنی اس پر کتنا زیادہ یا کتنا کم وقت لگتا ہے؟ میرا خیال ہے home row پر بھی مختلف کلیدوں کے دبانے میں آسانی کا فرق ہے۔ آسانی کے لحاظ سے کلیدوں کی ترتیب معلوم ہو جائے تو پھر بس شماریاتی اردو کی بورڈ تیار!
ان معلومات کی فونیٹک کی بورڈ کے لیے بھی بہت افادیت ہو گی مثلاً 'و' کے لیے چار کلیدیں o ،w، v، u امیدوار ہیں۔ مستحق کونسی ہے اس کا فیصلہ کلیدوں کی آسانی کے تقابل سے ہو گا
 

یاسر حسنین

محفلین
میرے خیال میں جب انگریزی کی بورڈ کے مرتب کنندگان تمام پوزیشنوں پر زیادہ مستعمل حروف کے بارے میں باریک بینی سے سوچ و بچار کرکے ایسا کی بورڈ مرتب کرسکتے ہیں جس کی افادیت سے کوئی بھی انکاری نہیں تو اُردو زبان جس کے استعمال کنندگان دُنیا میں چوتھے نمبر پر ہیں، اس کے کی بورڈ مرتب کنندگان ایسی سوچ و بچار کیوں نہیں کرسکتے
چونکہ انگریزی کیبورڈ کی ترتیب انہوں نے کثیر المستعمل لیٹرس کو پیشِ نظر رکھ کر ہی کی

ٹائپ رائٹر اور کمپیوٹر "کی بورڈ" کی دلچسپ تاریخ

کی بورڈ کی ترتیب جو کہ ہم ہر روز استعمال کرتے ہیں کی کہانی کافی قدیم ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کی بورڈ کی ترتیب خود کی بورڈ کی ابتداء سے بھی پرانی ہے اور کچھ کا خیال ہے کہ کی بورڈ ٹائپ رائٹر کے متغیرات میں سے ہے۔
تاہم، دلائل کے اعتبار سے کہانی کا آغاز 1875ء سے کرتے ہیں، جب "کستوفر شولس" نے ایمس ڈنسمور کے اشتراک سے پہلے سے موجود کی بورڈ میں کچھ جدت طرازی کا اطلاق کیا تا کہ حروف کی ترتیب بہت زیارہ قریب نہ ہو اور پنچنگ بارز مخالف سمت میں آئیں۔
کی بورڈ کی مقبول ترتیب جو ہم معتدد مواقعوں میں استعمال کرتے ہیں کیورٹی کہلاتی ہے جو کہ پہلے پانچ حروف کو کی بورڈ کے اوپر والے بائیں کونے میں جوڑ کر بنائی گئی ہے۔
کی بورڈ کی ترتیب کے پیچھے جو کہ عجیب بات ہے کوئی سوچ یا نظریہ کارفرما نہیں ہے بلکہ ابتدائی ڈیولپرز کے واقعات اور ٹیسٹ شامل ہیں۔
ڈیولپرز ایک ایسے نظام کی تلاش میں تھے جو نہ صرف کارآمد ہو بلکہ ٹائپسٹ کے ہاتھوں کے لیے آرام دہ بھی ہو کیورٹی کو ابتدا میں متعارف کرانے کے بعد نظام نتیجہ کے طور پر اسی ترتیب سے جڑا رہا اور یہ ترتیب لوگوں کے ذہنوں میں رچ بس گئی۔
اگر ہم ٹائیپنگ کی تاریخ کے مزید اوراک پلٹے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ٹائپ رائٹر کی وہ اقسام جنہیں آج کے دور میں باسہولت نہیں سمجھا جاتا وہ 1714 کے دور کے تھے۔بعد کے سالوں میں، مشین کو کئی اختراح نے مزید سہولت اور آسانی کے لیے دوبارہ ایجاد کیا۔
تاہم، ایک بڑے تجارتی پیمانے پر ٹائپ رائٹر کو متعارف کرانے کا سہرا تاریخی طور پر شولس کے سر جاتا ہے جس نے اپنی پوری زندگی اس مشین کی ترتیب کو انسانی زندگی کا حصہ بنانے کی کوششوں میں صرف کر دی۔
شولس کا سب سے پہلے ٹائپ رائٹر سے واسطہ اس وقت پڑا جب وہ ملواکی میں اخبار کے ایڈیٹر تھے اور وہاں انہوں نے ٹائپ سیٹنگ کی مشین بنانے کی کوشش کی تاہم وہ اس میں بری طرح ناکام ہو گئے اور بعد میں انہوں نے مکمل طور پر اس خیال کو ترک کر دیا۔ تاہم وہ ٹائپ رائٹر سے زیادہ دیر کے لئے دور نہیں رہ سکے۔
شولس نے 1866ء میں کامیابی کے ساتھ ایک نمبرنگ مشین کو ڈیزائن اور پیٹنٹ کیا۔اس مشین سے کتابوں کے صفحات، ٹکٹوں اور دیگر اشیاء پر ہندسے (نمبر) لکھے جا سکتے تھے۔
اس کے فورا بعد شولس اور سول کو اپنی مشین ایک وکیل اور شوقین موجد، کارولس گلیڈن کو پیش کرنے کا موقع ملا اسے ابتدائی طور پر یہ مشین بہت پسند آئی لیکن اس کا خیال تھا کہ اس مشین کو مزید کارآمد بنایا جا سکتا ہے آگر اس میں صرف ہندسوں(نمبروں) کی بجائے الفاظ لکھے جا سکیں۔
شولس فورا ہی اس خیال سے متفق ہوا اور اس پر کام کرنا شروع کیا. اس نے تفصیل سے ممکنہ امکانات کا تجزیہ کیا تاکہ باضابطہ طور پر الفاظ لکھنے والی مشین کو دوبارہ تخلیق کیا جا سکے۔
شولس کو بالاخر 1867ء میں بڑی کامیابی ہوئی جب سائنٹیفک امریکن میں ایک مضمون ان کی نظروں سے گزرا جس میں مشین کے نمونے جس جون پرات نے 'پترٹائپ' کہا پر روشنی ڈالی گئی تھی۔
شولس نے اس نمونے کا تجزیہ کیا اور اس کا خیال تھا کہ وہ اس نمونے میں کچھ تبدیلیاں کر کے اپنی مشین کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
گلیڈن نے شولس اور سول کے ساتھ اس نئی کوشش میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی یہ تینوں مشین بنانے میں کامیاب ہو گئے جسے شولس نے 'تائپ رائٹر' کا نام دیا لیکن باقیوں نے اسے بنیادی دو سفید اور کالی کیز کی قطار کی وجہ سے 'لٹرری پیانو' کہنا شروع کر دیا۔
کی بورڈ میں صفر اور ایک کے ہندسے نہیں تھے اور یہ کام آئی اور او کے حروف سے چلایا جاتا تھا، اگلے پانچ سال خاص طور پر شولس کے لئے سخت ثابت ہوئے کیونکہ وہ اپنے دن رات کی بورڈ کی ترتیب کو کامل و بہترین بنانے کی کوششوں میں صرف کرتا تھا۔
شولس نے ایمنس ڈنسمور کے بگرم فریقونسی کے علم سے بھی استفادہ حاصل کیا. گزشتہ سالوں میں سارفین کے لیے ٹائپنگ کو مزید آرام دہ بنانے کے لیے کافی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
کیورٹی (QWERTY) نظام کافی تبدیلیوں کے بعد تخلیق کیا گیا اور شولس کے مطابق اس میں کافی حد تک تبدیلیاں ہو چکی تھیں نئی ترتیب میں الفاظ پورے کی بورڈ میں پھیلے ہوئے تھے کہ تائپسٹ کو اپنی انگلیوں کو ہلانا پڑتا تھا جس سے سٹرین کے خطرے کو کم کیا جا سکتا تھا اور ٹائپنگ بار کولیشن (ڈنڈیوں کے ٹکراؤ) کے خطرے کو بھی کم کیا جا سکتا تھا۔
جیسا کہ نیا کیورٹی نظام زیادہ سے زیادہ مقبول ہو گیا ہے اور لوگ اس کے عادی ہو گئے ہیں تو اسی لیے اس میں مزید ترامیم کرنا غیر موثر لگتا ہے۔
بنیادی طور پر انگریزی کی بورڈز کی جتنی بھی اقسام ہیں وہ اس بنیاد پر تشکیل پائیں کہ ٹائیپنگ کے دوران ٹائپ رائٹر کی ڈنڈیاں آپس میں نہ ٹکرائیں۔ جدید دور کے کی بورڈ اسی کے حساب سے بنائے گئے کیونکہ لوگ ٹائپ رائٹر کے عادی تھے تو ان کو کوئی مشکل پیش نہ آئے
(نوٹ : یہ مضمون فیس بُک سے نقل کیا گیا ہے اور اس کے لکھاری کا نام ساتھ موجود نہیں تھا)
 
جیسا کہ نیا کیورٹی نظام زیادہ سے زیادہ مقبول ہو گیا ہے اور لوگ اس کے عادی ہو گئے ہیں تو اسی لیے اس میں مزید ترامیم کرنا غیر موثر لگتا ہے۔
بنیادی طور پر انگریزی کی بورڈز کی جتنی بھی اقسام ہیں وہ اس بنیاد پر تشکیل پائیں کہ ٹائیپنگ کے دوران ٹائپ رائٹر کی ڈنڈیاں آپس میں نہ ٹکرائیں۔ جدید دور کے کی بورڈ اسی کے حساب سے بنائے گئے کیونکہ لوگ ٹائپ رائٹر کے عادی تھے تو ان کو کوئی مشکل پیش نہ آئے

میرا بھی یہی خیال ہے‘ کیورٹی نظام کے مطابق اُردو حروفِ تہجی رکھ کر چلنے سے استعمال کنندگان کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
 
السلام علیکم ! جملہ محفلین سے درخواست ہے کہ اپنے اپنے اُردو کی بورڈ جو آپ کے زیر استعمال ہے کا نام لکھ کر نیچے دی گئی ویب سائٹ سے اُردو ٹائپنگ سپیڈ بھی چیک کرکے رزلٹ شیئر کر دیں تاکہ پتہ چل سکے کہ کون سے کی بورڈ سے کیا سپیڈ حاصل کی جاسکتی ہے۔ مثلاً مونو ٹائپ‘ آفتاب‘ مقتدرہ‘ فونیٹک وغیرہ۔
اُردو ٹائپنگ سپیڈ چیک کرنے کے لیے لنک درج ذیل ہے :-
Typing Test Urdu - 10FastFingers.com
ایزی اُردو کی بورڈ سے ٹائپنگ کرتے ہوئے یہ رزلٹ حاصل ہوا :-
Urdu Typing Result — Postimage.org
 

Hafiz Murtaza

محفلین
الحمدللہ 2016 سے اینڈرائڈ میں ملٹی لنگ او کی بورڈ استعمال کررہا ہوں بہت سی من پسند چیزیں ہیں اس میں۔ ایسا کام لیب ٹاپ میں بھی ممکن ہے ۔
یا گوگل کیبورڈ کی طرح وائس کے ذریعے لکھنے کی سہولت لیب ٹاپ میں ممکن ہے؟
 

ابو ہاشم

محفلین
زبر اور دو زبر دیگر کی بورڈز میں الگ الگ جگہوں پر ہیں جنہیں الگ الگ جگہ پر یاد رکھنا ٹائپسٹ کی ذہنی پراسیسنگ کی رفتار کو سست کرتا ہے‘ ہم نے زبر اور دو زبر کو ایک جگہ جمع کیا
کیا کی بورڈ میں یہ پروگرامنگ نہیں ہو سکتی کہ زبر کی کلید کو دو بار دبانے سے دو زبر والا کیریکٹر لگ جائے
 
کیا کی بورڈ میں یہ پروگرامنگ نہیں ہو سکتی کہ زبر کی کلید کو دو بار دبانے سے دو زبر والا کیریکٹر لگ جائے
بھائی زبر اور دو زبر کو ہم نے ساتھ ہی رکھا ہے‘ بس شفٹ + ‘ پریس کریں
اسی طرح زیر اور دو زیر کو ہم نے ساتھ ہی رکھا ہے‘ بس شفٹ + i پریس کریں
 

ابو ہاشم

محفلین
آپ کا یہ طریقہ بہت پسند آیا
پھر اس سے اگلا خیال آیا کہ شفٹ زبر دبانے سے دو دفعہ زبر دبانا زیادہ آسان لگتا ہے تو کیا ایسا ممکن ہے
 
آپ کا یہ طریقہ بہت پسند آیا
پھر اس سے اگلا خیال آیا کہ شفٹ زبر دبانے سے دو دفعہ زبر دبانا زیادہ آسان لگتا ہے تو کیا ایسا ممکن ہے
بھائی مائیکرو سافٹ ورڈ میں تو آپ آٹو کوریکٹ آپشن میں جا کر زیر زیر کو دو زیر سے ری پلیس کر سکتے ہیں‘ اسی طرح زبر زبر کو دو زبر سے ری پلیس کر سکتے ہیں لیکن ایسا صرف اکیلی صورت میں ہو رہا ہے‘ اور الفاظ کے آخر میں استعمال شدہ زیر زیر کو دو زیر یا زبر زبر کے دو زبر تبدیل نہیں ہو رہے۔
مثلاً اگر آپ ٹائپ کریں (زیر) (زیر) تو آٹو کوریکٹ اسے (دو زیر) بنا رہا ہے۔
لیکن اگر آپ (ق) (ص) (د) (ا) (زبر) (زبر) لکھیں تو وہ (قصداً) نہیں بن رہا۔
 
Top