ٹائپنگ ماسٹر
محفلین
اپنی پیدائش سے لے کر آج تک خیبر پختونخوا (سابقہ صوبہ سرحد) میں رہائش کے دوران میں اکثر سمجھتا رہا کہ بحیثیت ’’نان نیٹیو سپیکر‘‘ ہم پٹھانوں کے پاس اُردو کی ٹانگیں توڑنے کا پیدائشی حق یا لائسنس ہے۔ (کسی کی دِل آزاری کے لیے پیشگی معذرت) مگر گزشتہ سال کراچی آنے تک میں اسی غلط فہمی میں رہا کہ ’’پاکستان میں سب سے خالص اُردو صرف اور صرف کراچی میں بولی جاتی ہے‘‘۔ اور اللہ کے فضل و کرم سے میری آنکھیں اُس وقت کھلیں جب میں کراچی آ کر ایسے ایسے لوگوں سے ملا جن کے ننھیال اور دودھیال دونوں طرف سے اُن کو مادری زبان اُردو وراثت میں ملی تھی مگر اُن کی اُردو سن کر مجھے بحیثیت پٹھان اپنی اُردو پر فخر بلکہ گھمنڈ محسوس ہوا۔
میں نے اُردو کی سابقہ کتابوں میں ’’کتاب لیں‘‘ یا ’’کتاب دیں‘‘ کو ’’کتاب لیجئے‘‘ یا ’’کتاب لیجیو‘‘ پڑھا۔ مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے چنانچہ سننے کو ملا کہ ’’کتاب لیو‘‘ یا ’’کتاب دیو‘‘۔ بعینہٖ دُنیا کے طول و عرض میں اُردو بولنے والے کہتے ہیں کہ ’’یہ کام ہم نے کیا ہے‘‘ مگر کراچی میں ’’یہ کام ہم نے کرا ہے‘‘ سننے کو ملتا ہے۔ کئی لوگوں سے بحث و مباحثہ ہوا مگر وہی ڈھاک کے تین پات۔
ایک صاحب نے تو مجھے حیران ہی کردیا جب موصوف خود کو عقلِ کل گردانتے ہوئے بڑے فخر سے مجھے تڑی دینے لگے کہ میں نے سولہ جماعتیں پڑھی ہیں چنانچہ میں جو کچھ ’’ارشاد‘‘ کر رہا ہوں وہی صحیح ہے اور بحیثیت ماسٹرز ڈگری ہولڈر میں تو غلط ہو ہی نہیں سکتا۔ قبل ازیں جھگڑا صرف اس جملے پر ہوا کہ ’’انتقالِ جائیداد کے لیے فریق اوّل ہمہ وقت تیار رہے گا‘‘ حضرت نے تشریح کی کہ ’’جائیداد تو سانس نہیں لیتی چنانچہ وہ مر بھی نہیں سکتی‘‘۔ میں نے بہتیرا سمجھانے کی کوشش کی کہ انتقال منتقل سے نکلا ہے جس کا مطلب انگریزی میں ٹرانسفر ہے۔ مگر موصوف تھے کہ مانتے ہی نہیں تھے۔
ایک صاحب مجھے کہنے لگے ’’ذرا پنکھا کھول دیں‘‘ میں نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا کہ ’’جناب میں کوئی مکینک تھوڑی ہوں جو پنکھا کھول کے بیٹھ جاؤں‘‘۔ خیر ایک دوسرے صاحب نے تشریح فرمائی کہ ’’پنکھا آن کرنے کو یا پنکھا چلانے کو یہاں پنکھا کھولنا کہا جاتا ہے‘‘۔
ایک دُوسرے صاحب نے جملہ ’’تحریر کر دیا تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے‘‘ میں سوال اُٹھا دیا کہ ’’آپ نے اس جملے میں ’’ سُندر ‘‘ کیوں لکھا؟‘‘ میں نے از راہِ تفنن کہا کہ ’’جی دراصل ہماری نانی مرحومہ سنسکرت زبان بولتی تھیں لہٰذا میں نے بھی اُن سے سنا اورمستعار لے کر آپ کے مسودے میں تحریر کر دیا‘‘ (جبکہ درحقیقت خیبرپختونخوا کی کسی پٹھان نانی کا دُور دُور تک سنسکرت سے تعلق نہیں ہوتا‘ اور دوسرا میری نانی میری پیدائش سے پہلے ہی انتقال (ٹرانسفر) فرما چکی تھیں۔
کراچی کے بچے اور بڑے بھی ’’Square‘‘ کو ’’اسکوائر‘‘ کہتے ہیں جبکہ ’’Question‘‘ کو یہاں ’’کوئسٹن یا کوشن‘‘ سننے کو ملا۔ خیر ’’سانوں کی ﹍ بلکہ مٹی پاؤ‘‘ کیونکہ انگریزی کا ٹھیکہ ہم نے تھوڑی لے رکھا ہے۔
مگر ہمیں تو اُردو کی کم مائیگی پر رونا آتا ہے۔ کیونکہ کراچی میں اُردو کی گنتی سمجھنے والے آپ کو کہیں خال خال ہی ملیں گے۔ آپ آج بھی کسی کو موبائل نمبر لکھواتے ہوئے ’’سڑسٹھ‘‘ یا ’’ اُناسی‘‘ نمبر بتا کر اُس کی اچھی بھلی شکل کو ’’ہونق‘‘ میں تبدیل ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔
اب پتہ نہیں خالص اُردو کبھی یہاں بولی بھی جاتی تھی یا وہ بھی پاکستان بننے کے بعد آہستہ آہستہ معدوم ہوتی گئی؟ اب تو یہاں کے لوگ ایک دوسرے کو ’’ابے‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں جو کہ میرے خیال میں ’’انتہائی ناشائستہ لفظ‘‘ ہے اور شاید کچھ لوگ تو اسے ’’بازاری لفظ‘‘ بھی کہہ دیں۔
آج کل تو ایسا لگتا ہے کہ اصل اُردو کا کہیں وجود ہی نہیں پایا جاتا اور اگر موجود بھی ہے تو کثیر الاستعمال غلط زبان کی وجہ سے اصل اُردو زبان بھی اپنا وجود آہستہ آہستہ کھو بیٹھے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
میں نے اُردو کی سابقہ کتابوں میں ’’کتاب لیں‘‘ یا ’’کتاب دیں‘‘ کو ’’کتاب لیجئے‘‘ یا ’’کتاب لیجیو‘‘ پڑھا۔ مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے چنانچہ سننے کو ملا کہ ’’کتاب لیو‘‘ یا ’’کتاب دیو‘‘۔ بعینہٖ دُنیا کے طول و عرض میں اُردو بولنے والے کہتے ہیں کہ ’’یہ کام ہم نے کیا ہے‘‘ مگر کراچی میں ’’یہ کام ہم نے کرا ہے‘‘ سننے کو ملتا ہے۔ کئی لوگوں سے بحث و مباحثہ ہوا مگر وہی ڈھاک کے تین پات۔
ایک صاحب نے تو مجھے حیران ہی کردیا جب موصوف خود کو عقلِ کل گردانتے ہوئے بڑے فخر سے مجھے تڑی دینے لگے کہ میں نے سولہ جماعتیں پڑھی ہیں چنانچہ میں جو کچھ ’’ارشاد‘‘ کر رہا ہوں وہی صحیح ہے اور بحیثیت ماسٹرز ڈگری ہولڈر میں تو غلط ہو ہی نہیں سکتا۔ قبل ازیں جھگڑا صرف اس جملے پر ہوا کہ ’’انتقالِ جائیداد کے لیے فریق اوّل ہمہ وقت تیار رہے گا‘‘ حضرت نے تشریح کی کہ ’’جائیداد تو سانس نہیں لیتی چنانچہ وہ مر بھی نہیں سکتی‘‘۔ میں نے بہتیرا سمجھانے کی کوشش کی کہ انتقال منتقل سے نکلا ہے جس کا مطلب انگریزی میں ٹرانسفر ہے۔ مگر موصوف تھے کہ مانتے ہی نہیں تھے۔
ایک صاحب مجھے کہنے لگے ’’ذرا پنکھا کھول دیں‘‘ میں نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا کہ ’’جناب میں کوئی مکینک تھوڑی ہوں جو پنکھا کھول کے بیٹھ جاؤں‘‘۔ خیر ایک دوسرے صاحب نے تشریح فرمائی کہ ’’پنکھا آن کرنے کو یا پنکھا چلانے کو یہاں پنکھا کھولنا کہا جاتا ہے‘‘۔
ایک دُوسرے صاحب نے جملہ ’’تحریر کر دیا تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے‘‘ میں سوال اُٹھا دیا کہ ’’آپ نے اس جملے میں ’’ سُندر ‘‘ کیوں لکھا؟‘‘ میں نے از راہِ تفنن کہا کہ ’’جی دراصل ہماری نانی مرحومہ سنسکرت زبان بولتی تھیں لہٰذا میں نے بھی اُن سے سنا اورمستعار لے کر آپ کے مسودے میں تحریر کر دیا‘‘ (جبکہ درحقیقت خیبرپختونخوا کی کسی پٹھان نانی کا دُور دُور تک سنسکرت سے تعلق نہیں ہوتا‘ اور دوسرا میری نانی میری پیدائش سے پہلے ہی انتقال (ٹرانسفر) فرما چکی تھیں۔
کراچی کے بچے اور بڑے بھی ’’Square‘‘ کو ’’اسکوائر‘‘ کہتے ہیں جبکہ ’’Question‘‘ کو یہاں ’’کوئسٹن یا کوشن‘‘ سننے کو ملا۔ خیر ’’سانوں کی ﹍ بلکہ مٹی پاؤ‘‘ کیونکہ انگریزی کا ٹھیکہ ہم نے تھوڑی لے رکھا ہے۔
مگر ہمیں تو اُردو کی کم مائیگی پر رونا آتا ہے۔ کیونکہ کراچی میں اُردو کی گنتی سمجھنے والے آپ کو کہیں خال خال ہی ملیں گے۔ آپ آج بھی کسی کو موبائل نمبر لکھواتے ہوئے ’’سڑسٹھ‘‘ یا ’’ اُناسی‘‘ نمبر بتا کر اُس کی اچھی بھلی شکل کو ’’ہونق‘‘ میں تبدیل ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔
اب پتہ نہیں خالص اُردو کبھی یہاں بولی بھی جاتی تھی یا وہ بھی پاکستان بننے کے بعد آہستہ آہستہ معدوم ہوتی گئی؟ اب تو یہاں کے لوگ ایک دوسرے کو ’’ابے‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں جو کہ میرے خیال میں ’’انتہائی ناشائستہ لفظ‘‘ ہے اور شاید کچھ لوگ تو اسے ’’بازاری لفظ‘‘ بھی کہہ دیں۔
آج کل تو ایسا لگتا ہے کہ اصل اُردو کا کہیں وجود ہی نہیں پایا جاتا اور اگر موجود بھی ہے تو کثیر الاستعمال غلط زبان کی وجہ سے اصل اُردو زبان بھی اپنا وجود آہستہ آہستہ کھو بیٹھے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
آخری تدوین: