اُردُو محفل میں اِصلاح ِغزل

روئے سخن کسی کی طرف ہو تو رٰو سیاہ
سودا نہیں، جنوں نہیں ، وحشت نہیں مجھے
غزل اُردو کی تمام اصناف سخن میں مقبول ترین صنف ہے اورہمیشہ رہی ہے۔ ادب و شعر کاکوئی دور ایسا نہیں گذرا ہے جب اس کی بے پناہ مقبولیت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہو۔ آج بھی جب اردو پر عمومی اضمحلال اور جمود طاری ہے اور اہل اردو کے ادبی اور شعری ذوق و شوق میں نمایاں کمی نظر آتی ہے غزل بدستور اپنے مقام پر قائم ہے۔اردو ادب کی تاریخ میں ایک شاعر بھی ایسا نہیں گذرا ہے جس نے اپنی شعر گوئی کے کسی لمحے میں غزل میں طبع آزمائی نہ کی ہو۔ غزل پر اس قدر لکھاجا چکا ہے کہ اس پر مزید کچھ کہنا بے حد مشکل ہے۔ اگر ایک طرف مشہور ادیب اورمزاح نگار پروفیسر رشید احمد صدیقی غزل کو :اردو شاعری کی آبرو: کے معزز لقب سے نوازتے ہیں تو دوسری جانب معروف نقاد کلیم الدین احمد اسے : ایک نیم وحشی صنف سخن: کا خطاب دینے میں تردد یا جھجک محسوس نہیں کرتے۔ غزل کی مقبولیت کی غالبا سب سے زیادہ نمایاں نشانی یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جو غزل سے بظاہرنالاں ہیں اور اس کی مخالفت میں اس کے محاسن کو بھی اس کے عیوب میں شمار کرتے ہیں جب خود غزل کہتے ہیں تو اس کے جملہ آداب ، روایات اور مقتضیات کی پیروی کرتے ہیں یعنی اپنی کوئی نئی راہ نکالنے سے قاصر ہیں اور روایتی صورت حال سے خوش ہیں۔

انٹر نیٹ کی اردو محفلوں میں بھی غزل کی مقبولیت کا احساس اور اعتراف عام ہے۔ وہاں معمولا غزل اور نظم ہی پیش کی جاتی ہیں۔ روایتی نظم توکم نظرآتی ہے البتہ آزاد نظم اور گاہے گاہے غزل معری دکھائی دے جاتی ہے۔ اردو کی دیگر اصناف سخن کا نام ونشان دور دور تک نظرنہیں آتا یہاں تک کہ قطعات و رباعیات کا بھی کوئی نام نہیں لیتا بلکہ بیشتر شاعر دونوں میں تفریق و امتیاز سے نا بلد ہیں۔ اردو محفلوں میں بالعموم غزل کے لئے ایک گوشہ مختص کر دیا جاتا ہے اور چونکہ ماضی ء قریب و بعید کے مقابلہ میں غزل گوئی کا عام معیار گر گیا ہے چنانچہ اس کی اصلاح کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔یہ اقدام لائق صد تحسین ہے اور غزل کے لئے خوش آئند بھی ہے۔پچھلے زمانہ میں دنیائے اردو میں استادی/ شاگردی کا نظام غزل کی بقا اور ترقی کا ضامن تھا لیکن وقت اور حالات کی یورش سے اب یہ نظام ختم ہو چکا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس نظام میں جہاں بہت سی خوبیاں تھیں وہیں اس میں چند خرابیاں بھی تھیں۔ بہتر تو یہ تھا کہ برائیوں سے پرہیز اور خوبیوں کے فروغ اور پیروی کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب نئے حالات سے ذہنی سمجھوتہ کرنے اور نئے ماحول کو غزل کے لئے خوشگوار اور زرخیز بنانے کی جانب توجہ اور محنت کی سخت ضرورت ہے۔ محفلوں میں غزلوں کی اصلاح کی مہم اور کوشش بہت غنیمت ہے اور اس کار خیر میں ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوط کرنا ہمارا اولیں فرض ہے۔ پختہ مشق اور تجربہ کار غزل گو شعرا اور اصلاح کاروں کی اس کام میں شدید ضرورت ہے ۔ جو کچھ فی الوقت ہو رہا ہے وہ کچھ نہ ہونے سے بہتر تو ہے لیکن اس کام کو بڑھانا اوربہتر بنانا بھی لازمی ہے اور وقت، یکسوئی اور اُردو دوستی سے ہم یہ کام کر سکتے ہیں۔ اس ادبی کام سے کسی کی سبکی یا دل آزاری منظور نہیں ہے بلکہ اس کار خیر میں اردو کے ہر دوست کا فائدہ ہے ۔

غزل کی طرح اصلاح غزل بھی سہولت اور وضاحت کے لئے مختلف درجات میں تقسیم کی جا سکتی ہے۔ ہر شخص کا کسی ایک تقسیم پر متفق ہونا ضروری نہیں ہے البتہ یہ ظاہر ہے کہ سوچی سمجھی تقسیم سے اصلاح کا کام نسبتا آسان ہو سکتا ہے۔اپنے محدود علم اور تجربہ کی روشنی میں راقم الحروف ایسی ایک تقسیم پیش محفل کر رہا ہے۔ زیادہ نفاست اور تقسیم کی باریکی کام میں الجھن اور پیچیدگی کا باعث ہو سکتی ہے۔ آمدم بر سر مطلب۔

(1) غزل کا سب سے نچلا اور کمزور درجہ وہ ہے جس کو :تک بندی: کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ گاہےگاہے محفل میں یہ نظر آسکتی ہے۔ ایسی غزل کے تقریبا سارے مصرعے وزن،بحر اور باہمی ربط سے بے گانہ ہوتے ہیں اور ان کے معانی بھی : مطللب شعر دَر بطن شاعر: کی تعریف میں آتے ہیں یعنی ذ ہنی قلا بازیوں کے بعد بھی ہاتھ نہیں آتے۔ راقم ایسی تخلیقات کو غزل کی تعریف سے خارج مانتا ہے اور متعلقہ شاعر کو نرم اور شائستہ لیکن صاف اور بےتکلف انداز میں صورت
حا ل سے آگاہ کردیتا ہے اور اصلاح سے معذوری ظاہر کر کے گذارش کرتا ہے کہ وہ مطالعہ، فکر سخن اور محنت جاری رکھیں تا وقتیکہ ان کا کلام اصلاح کے قابل متصور ہو سکے۔ اللہ اللہ خیر صلاح۔

(2) :تک بندی: سے اوپر کے درجہ میں وہ غزلیں رکھی جا سکتی ہیں جو اس کی حد سے نکل کر غزل گوئی کی حد میں داخل ہو گئی ہوں ۔ محفلوں میں اکثر و بیشترایسی ہی غزل نظر آتی ہے ۔ یہ عموما چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے اور اس کے مضامین بہت سیدھے سادے اور بالکل سامنے کے ہوتے ہیں یعنی ذوق سلیم اور موزونیء طبع سے متصف تقریبا ہر شخص تھوڑی سی فکر سے ایسی غزل کہہ سکتا ہے۔ اس میں شعری معنویت، تغزل، گہرائی اور اثر پذیری وغیرہ کی تلاش بیسود ہوتی ہے اور اس کی مناسب اصلاح کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصلاح کار اس کی کوتاہ بیانی کے پیش نظر شاعر کو غزل قریب قریب نئے سرے سے کہہ کر دے ۔ چونکہ ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا اس لئے غزل کی اصلاح الفاظ کی ہیرا پھیری یعنی معمولی ردو بدل سے کی جاتی ہے۔ یہ لفظی ردو بدل اصلاح کار کی شعری سوجھ بوجھ اور فنی استعداد کا پابند ہوتا ہے ۔ اس سے غزل کی ظاہری شکل اِدھر اٰدھر سے برائے نام بدل جاتی ہے لیکن غزل میں کوئی بنیادی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتی۔اس طریق کار کو اصلاح کے بحائے تصحیح کہنا شاید زیادہ مناسب ہے۔ اہل نظر خود فیصلہہ کر سکتے ہیں۔

(3) تیسرے درجہ پر وہ غزلیں رکھی جا سکتی ہیں جن کے خالق شعری شعور اور شاعری کے مبادیات سے واقف ہوتے ہیں اور غزل میں معنی آفرینی کی کوشش پر بھی قادر ہوتے ہیں۔ یہ غزلیں بیشتر چھوٹی اور درمیانی بحروں میں کہی جاتی ہیں اور شاعر کبھی کبھی مشاہیر شعرا اور اساتذہ کی غزلوں کی زمینوں میں بھی طبع آزمائی کرتا ہے ۔ یہ غزلیں اصلاح کار وں کی فکر و توجہ کی خواہاں ہوتی ہیں لیکن محفلوں میں ماہرین فن کی قلت ہی نہیں بلکہ تقریبا مکمل فقدان ہونے کی وجہ سے ان کی مناسب اصلاح نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہ امر افسوس کا مقام ہے اور علاج اور بہتری چاہتا ہے ۔ خوش قسمتی سے ہماری اردو محفل میں دو چار ایسے احباب موجود ہیں جو اگر کسسر نفسی کو محفل کی ضرورت اور فلاح کی خاطر بالائے طاق رکھ کر اصلاح شعر کا فیصلہ کریں تو نہ صرف کام ہو سکتا ہے بلکہ مستقبل میں ان چراغوں سےدوسرے چراغ روشن ہو سکتےہیں۔
یہاں ایک بات کہنا ضروری ہے۔ ہمارے یہاں لوگوں نے ایک عجیب طریق کار اختیار کر رکھا ہے یعنی اگر کوئی شخص اچھی تجویز پیش کرے تو خود کام سے بچنے کے لئے اسی پر وہ کام تھوپ دیتے ہیں کہ : تو پھر آپ ہی یہ کام کیجئے۔: میں اپنی عمر اور صحت کے پیش نظر اس خدمت کی ذمہ داری قبول نہیں کر سکتا البتہ گاہے گاہے مشورہ یا مدد کر سکوں گا۔ اس ضمن میں آپ سے معذرت خواہ ہوں۔غزلوں کے درج بالا تین درجات سے اوپر جانا محفل کے لئے فی الوقت ممکن نہیں ہے۔ اصلاح کی جو صورت چل رہی ہے وہ ناقص اور بیسود ہے۔ اس شعبہ کا کوئی نگراں یا ناظم نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اصول کہیں راقم کی نظر سے گذرے ہیں۔جس کا جب جی چاہتاہے آکر حسب استعداد و لیاقت اصلاح دے جاتا ہے ۔ اس کے بعد کوئی اور اصلاح کار پہلے اصلاح کار پر نکتہ چینی اوراس کی اصلاح کی اصلاح کر سکتا ہے ۔ اس طرح کیسے کام ہو سکتا ہے؟ گذارش ہے کہ محفل کے ارباب حل و عقد اور دردمند احباب اس باب میں غور کریں اور بہتر نظام اصلاح مرتب کرنے پر زور دیں۔ کام کرنے سے ہی ہوتا ہے۔ ہمت مرداں مدد خدا۔ انشااللہ۔ کسی دوست کی شان میں گستاخی ہو گئی ہو تو درگزر فرمادیں۔ شکریہ۔
 

ارشد رشید

محفلین
حضرت سرور صاحب - معافی کا پیشگی خواستگار ہوں مگر آپ کا مشورہ فن شاعری کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا -
دیکھیں سر شاعری ایک فن ہے ایک آرٹ ہے کوئ حساب کا سوال نہیں کہ جس کے پاس حل کروانے لے جائیں ایک ہی جواب آئے -
یہی اس کا حسن ہے کہ آپ جس سے بھی اصلاح لیں گے وہ اپنے علم اور تجربے کے حساب سے ہی اصلاح کرے گا - کوئ اور جو اس میں کچھ زیادہ جانتا ہوگا اس اصلاح کی مزید اصلاح کرے گا- یہ انسان کا کلام ہے اس میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ ہی رہے گی - اب یہ شاعر پر ہے کو وہ سب کو سن کے فیصلہ کرے کہ کون سی بات اس کے خیال میں سب سے بہتر ہے - یہ اسکے لیئے بھی سیکھنے کا عمل ہے اور تما م اصلاح کرنے والے خود بھی اس سے سیکھتے ہیں -
تو میرے خیال میں تو یہی طریقہ صدیوں سے رائج ہے اور یہی طریقہ اس فن کے لوازمات کے عین مطابق ہے -
یہ سائٹ بالکل اسی طریقے پر کام کر رہی ہے اور میرے خیال میں اسے ایسے ہی کام کرتے رہنا چاہیئے -
 
حضرت سرور صاحب - معافی کا پیشگی خواستگار ہوں مگر آپ کا مشورہ فن شاعری کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا -
دیکھیں سر شاعری ایک فن ہے ایک آرٹ ہے کوئ حساب کا سوال نہیں کہ جس کے پاس حل کروانے لے جائیں ایک ہی جواب آئے -
یہی اس کا حسن ہے کہ آپ جس سے بھی اصلاح لیں گے وہ اپنے علم اور تجربے کے حساب سے ہی اصلاح کرے گا - کوئ اور جو اس میں کچھ زیادہ جانتا ہوگا اس اصلاح کی مزید اصلاح کرے گا- یہ انسان کا کلام ہے اس میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ ہی رہے گی - اب یہ شاعر پر ہے کو وہ سب کو سن کے فیصلہ کرے کہ کون سی بات اس کے خیال میں سب سے بہتر ہے - یہ اسکے لیئے بھی سیکھنے کا عمل ہے اور تما م اصلاح کرنے والے خود بھی اس سے سیکھتے ہیں -
تو میرے خیال میں تو یہی طریقہ صدیوں سے رائج ہے اور یہی طریقہ اس فن کے لوازمات کے عین مطابق ہے -
یہ سائٹ بالکل اسی طریقے پر کام کر رہی ہے اور میرے خیال میں اسے ایسے ہی کام کرتے رہنا چاہیئے -
مکرمی ارشد صاحب: جواب مضمون کا دلی شکریہ قبول کیجئے۔ اختلاف رائے میں کوئی ہرج نہیں۔ سبھی محفل کی بہبودی چاہتے ہیں ۔لوگ وہی کریں گے جو محفل کے لئے بہتر ہوگا اور یہی ہونا بھی چاہئے۔ دعائے خیر کا خواستگار ہوں۔ اور درویش کی صدا کیا ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
اصلاح کی جو صورت چل رہی ہے وہ ناقص اور بیسود ہے۔
محترمی !
ناقص تو ہے مگر بے سود اس لیے نہیں کہ اس نقص نے میری رائے میں ایک کمال کو جنم دیا ہے ۔اور وہ کمال یہ کہ چونکہ یہ کام اعجاز صاحب کی ماتحتی میں ہورہا ہے چنانچہ ان کی شخصیت کا پرتو بھی اس نظام میں جھلکتا ہے اور وہ یہ کہ اعجاز صاحب خود بھی اپنی غلطی سے بے تکلف رجوع کر لیتے ہیں اور جس بارے میں نہیں جانتے نہ جاننے کا برملا اظہار بھی کر دیتے ہیں یہی رنگ اصلاح کاروں میں بھی نمایاں ہے۔اور یہی جذبہ اصلاح کی اصل ہے اور یہی آپ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ کسی کا کلام بھی عیب سے پاک نہیں ۔لہذا یہاں آکر اس کا استحضار ہوجاتاہے۔

باقی اصلاح کے متعلق آپ کی مندرجہ بالا تینوں شقوں سے متفق ہوں ۔ایک شق مزید میری نظر میں یہ ہے کہ بعض احباب کافی عرصے سےکلام کی اصلاح کرا رہے ہوتے ہیں مگر: ہنوز روز اول: ہی رہتے ہیں ،بار بار بتائے جانے پر بھی وہی بنیادی عیب ان کی شاعری میں آج تک موجود ہوتے ہیں جو دس سال پہلے بھی تھے اور غزلوں کی شعریت میں بھی ترقی نہیں ہو پاتی۔ایسوں کی اصلاح بھی وقت کا ضیاع ہے کہ ان کو شاعری سے مناسبت ہی نہیں۔گو فیصلہ بظاہر سخت ہے مگر بباطن نرم وملائم۔
 
محترمی !
ناقص تو ہے مگر بے سود اس لیے نہیں کہ اس نقص نے میری رائے میں ایک کمال کو جنم دیا ہے ۔اور وہ کمال یہ کہ چونکہ یہ کام اعجاز صاحب کی ماتحتی میں ہورہا ہے چنانچہ ان کی شخصیت کا پرتو بھی اس نظام میں جھلکتا ہے اور وہ یہ کہ اعجاز صاحب خود بھی اپنی غلطی سے بے تکلف رجوع کر لیتے ہیں اور جس بارے میں نہیں جانتے نہ جاننے کا برملا اظہار بھی کر دیتے ہیں یہی رنگ اصلاح کاروں میں بھی نمایاں ہے۔اور یہی جذبہ اصلاح کی اصل ہے اور یہی آپ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ کسی کا کلام بھی عیب سے پاک نہیں ۔لہذا یہاں آکر اس کا استحضار ہوجاتاہے۔

باقی اصلاح کے متعلق آپ کی مندرجہ بالا تینوں شقوں سے متفق ہوں ۔ایک شق مزید میری نظر میں یہ ہے کہ بعض احباب کافی عرصے سےکلام کی اصلاح کرا رہے ہوتے ہیں مگر: ہنوز روز اول: ہی رہتے ہیں ،بار بار بتائے جانے پر بھی وہی بنیادی عیب ان کی شاعری میں آج تک موجود ہوتے ہیں جو دس سال پہلے بھی تھے اور غزلوں کی شعریت میں بھی ترقی نہیں ہو پاتی۔ایسوں کی اصلاح بھی وقت کا ضیاع ہے کہ ان کو شاعری سے مناسبت ہی نہیں۔گو فیصلہ بظاہر سخت ہے مگر بباطن نرم وملائم۔
محترمی یاسر صاحب: سلام علیکم
جواب خط کا شکریہ۔ آپ کی تحریر سے میرے موقف کی تائید و توثیق ہوتی ہے لیکن وضاحت اور تشریح کا موقع نہیں ہے اور نہ ضرورت اور حاصل۔ دعا سے کچھ ہوتا نہیں ہے ا ور دوا کے ہم لوگ قائل نہیں سو صبر و شکر سے کام چل جائے گا ۔رہے نام اللہ کا ۔ گاہے گاہے یاد کر لیا کیجئے ۔ بات چیت ہوتی رہے گی ۔ غالب نے ایسے موقعوں کے لئے ہی تو کہاہے کہ :
یار سے چھیڑ چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
دعاگو:سرور عالم راز
 
مکرمی و مرشدی، آداب.

آپ کا مضمون پڑھا اور اس کے مندرجات سے مکمل متفق بھی ہوں مگر کیا کیجیے زمانے کی عزلت کا کہ کار اصلاح بھی ہم جیسوں کے ہاتھ آگیا ہے ... مگر اس کو غیبی انتظام بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جیسی شاعری ہو رہی ہے، ویسے ہی "اساتذہ" دستیاب ہیں :)
جس نہج پر آپ یہ کام ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اس کی اہلیت رکھنے والے اصحاب اکثر عدیم الفرصت رہتے ہیں ... پھر بھی گاہے بگاہے کچھ نہ کچھ تبرکا عطا کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے اس محفل پر اصلاح سخن کے حوالے سے کافی موداد جمع ہو چکا ہے. تاہم ہم اہل اردو تو اپنی تساہل پسندی کی وجہ سے ہی معروف ہیں تو اکثر نومشق حضرات یہاں براہ راست اپنا کلام پیش کردیتے ہیں، حالانکہ اگر ایک بار ان مضامین کا مطالعہ کر لیں تو از خود بہت سی غلطیوں سے بچ سکتے ہیں.
والسلام
 
مکرمی و مرشدی، آداب.

آپ کا مضمون پڑھا اور اس کے مندرجات سے مکمل متفق بھی ہوں مگر کیا کیجیے زمانے کی عزلت کا کہ کار اصلاح بھی ہم جیسوں کے ہاتھ آگیا ہے ... مگر اس کو غیبی انتظام بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جیسی شاعری ہو رہی ہے، ویسے ہی "اساتذہ" دستیاب ہیں :)
جس نہج پر آپ یہ کام ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اس کی اہلیت رکھنے والے اصحاب اکثر عدیم الفرصت رہتے ہیں ... پھر بھی گاہے بگاہے کچھ نہ کچھ تبرکا عطا کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے اس محفل پر اصلاح سخن کے حوالے سے کافی موداد جمع ہو چکا ہے. تاہم ہم اہل اردو تو اپنی تساہل پسندی کی وجہ سے ہی معروف ہیں تو اکثر نومشق حضرات یہاں براہ راست اپنا کلام پیش کردیتے ہیں، حالانکہ اگر ایک بار ان مضامین کا مطالعہ کر لیں تو از خود بہت سی غلطیوں سے بچ سکتے ہیں.
والسلام
عزیز مکرم راحل صاحب: علیکم السلام
جواب خط کا شکریہ۔ یہ مختصر : نصف ملاقات: بھی غنیمت ہے کیونکہ آج کل ہر شخص عدیم الفرصت ہے ۔ یہ نہیں معلوم کہ وہ سب کیا کر رہے ہیں کیونکہ فلاح و بہبود کا خانہ خالی کا خالی دکھائی دیتا ہے۔ خیر زندگی کا یہی ڈھرا ہے جو ایسے ہی چلا ہے اور ایسے ہی چلے گا۔ لوگ تفنن طبع کی خاطر اس کو :ہماری تقدیر:کہہ لیتے ہیں۔ آپ نے خط میں ایک جگہ لکھاہے کہ :مگر اس کو غیبی انتظام بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جیسی شاعری ہو رہی ہے، ویسے ہی "اساتذہ" دستیاب ہیں : ۔ میرا خیال ہے کہ اس میں کتابت کی اایک غلطی ہو گئی ہے یعنی آپ :انتقام: کو غلطی سے :انتظام: لکھ گئے ہیں۔ چلئے یوں ہی سہی: ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر۔
سرور عالم راز
 

یاسر شاہ

محفلین
محترمی یاسر صاحب: سلام علیکم
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
گاہے گاہے یاد کر لیا کیجئے ۔ بات چیت ہوتی رہے گی ۔ غالب نے ایسے موقعوں کے لئے ہی تو کہاہے کہ :
یار سے چھیڑ چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
محترمی آپ کو بھولے ہی کہاں کہ یاد کریں۔اردو انجمن کے فنا کے بعد بھی بندے نے آپ کو خط بذریعہ ای میل ںھیجے تھے مگر جواب نہ پا کر تشویش ہوئی تھی۔
یہاں محفل میں ایک ٹیگ کا نظام رائج ہے جس کے ذریعے سے آپ کسی کو بھی اپنی تخلیقات پہ تبصرے کے لیے دعوت دے سکتے ہیں۔طریقہ آسان ہے .
@لکھ کر آگے اس بندے کا نام ٹائپ کر کے انٹر دبائیے ، جب مراسلہ ارسال ہوگا تو ساتھ ہی اس بندے کو بھی اطلاع بھی مل جائے گی ۔
مندرجہ ذیل لڑی میں آپ کو اصلاح کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔نظر کرم فرمائیے تاکہ استفادہ کا سلسلہ آگے بڑھے ان شاء اللہ۔

کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اصلاحِ سخن کی تفصیل تو اچھی رہی، لیکن اگر اس پر عمل کر لیا جائے تو مجھ جیسے مبتدی کبھی شاعر نہیں بن سکیں گے۔
آج اس اصلاحِ سخن کی بدولت اتنا تو ہوا کہ 20 سال سے میں جو شاعری کا جو دیوان اصلاح کیلئے پیش کرتا تھا اور کوئی اللہ کا بندہ اس کارِ خیر میں حصہ ڈالنے کو تیار نہ تھا، وہ ایک مکمل پی ڈی ایف کی صورت میں میرے سامنے موجود ہے۔ مجھے اصلاح کی جتنی ضرورت تھی، وہ یہاں سے پوری ہورہی ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نے جو کہا، وہ بے معنی اور بلا ضرورت ہے۔ لیکن اصلاح کا کام اگر آپ جیسے صاحبانِ فن نہیں سنبھالیں گے تو مجھ جیسے لوگ ہی اپنے نو آموز بھائیوں اور بہنوں کی اصلاح کیلئے جو مناسب سمجھیں گے، کہہ دیا کریں گے۔ اگر یہ راستہ درست نہیں لگتا، تو اس کی نشاندہی کریں۔ ہمیں سمجھائیں کہ غلطی کہاں ہورہی ہے۔ ہم اسے درست کر لیتے ہیں۔
یہ مت کہیں کہ جو ہورہا ہے، وہ غلط ہے، بند ہوجانا چاہئے۔ اگر زیادہ درست کرنا ہے تو اس کی ابتدا تو پہلے ہی قدم سے ہونی ہے۔ آپ قدم اٹھا لیں، ہم پیچھے چل پڑیں گے۔ جو آپ کہیں گے، برحق سمجھا جائے گا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں ذاتی طو رپر یہاں سے اصلاح لینے کے بعد بھی اپنے کلام کو فن کے ہر اعتبار سے مکمل نہیں سمجھتا، اور اگر پھر کوئی غلطی ایسی نظر آجائے جسے درست کرنا ضروری ہے، تو کرلیتا ہوں۔
ہر شاعر کو اتنا وسیع الذہن ضرور ہونا چاہئے کہ غلطی کی طرف توجہ دلانے پر کچھ نہ کچھ اصلاح کی طرف بھی توجہ کرلے۔
محمد یعقوب آسی کہا کرتے تھے کہ غزل کہنے کے 10 سال بعد بھی کوئی اصلاح کرنا ضروری محسوس ہو، تو کرلینی چاہئے۔ حالانکہ یہ مجھے ناقابلِ عمل محسوس ہوتا ہے کیونکہ اس وقت تک زیادہ تر شعراء کا کلام عوام کے ذہنوں پر نقش ہوچکا ہوتا ہے، اسے بدلنا کوئی پنڈورہ باکس کھولنے سے کم نہیں ہوا کرتا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
آپ نے فرمایا: محفل کے ارباب حل و عقد اور دردمند احباب اس باب میں غور کریں اور بہتر نظام اصلاح مرتب کرنے پر زور دیں۔
۔۔۔ بہتر نظامِ اصلاح مرتب کرنے کیلئے کوشش ضرور کی جاسکتی ہے۔ اس پر محفل کے اربابِ حل و عقد ہی روشنی ڈال سکتے ہیں کہ کس حد تک؟ تاہم اگر ایسا نہ ہوسکے، تو میری نظر میں کوئی اور آن لائن فورم ایسا نہیں ہے جہاں شعراء اصلاح لینے کی غرض سے رجوع کیا کریں۔ پھر بھی بہتر نظام کیلئے کوشش بھی کارِ خیر سے کم نہ ہوگی۔
 
اصلاحِ سخن کی تفصیل تو اچھی رہی، لیکن اگر اس پر عمل کر لیا جائے تو مجھ جیسے مبتدی کبھی شاعر نہیں بن سکیں گے۔
آج اس اصلاحِ سخن کی بدولت اتنا تو ہوا کہ 20 سال سے میں جو شاعری کا جو دیوان اصلاح کیلئے پیش کرتا تھا اور کوئی اللہ کا بندہ اس کارِ خیر میں حصہ ڈالنے کو تیار نہ تھا، وہ ایک مکمل پی ڈی ایف کی صورت میں میرے سامنے موجود ہے۔ مجھے اصلاح کی جتنی ضرورت تھی، وہ یہاں سے پوری ہورہی ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نے جو کہا، وہ بے معنی اور بلا ضرورت ہے۔ لیکن اصلاح کا کام اگر آپ جیسے صاحبانِ فن نہیں سنبھالیں گے تو مجھ جیسے لوگ ہی اپنے نو آموز بھائیوں اور بہنوں کی اصلاح کیلئے جو مناسب سمجھیں گے، کہہ دیا کریں گے۔ اگر یہ راستہ درست نہیں لگتا، تو اس کی نشاندہی کریں۔ ہمیں سمجھائیں کہ غلطی کہاں ہورہی ہے۔ ہم اسے درست کر لیتے ہیں۔
یہ مت کہیں کہ جو ہورہا ہے، وہ غلط ہے، بند ہوجانا چاہئے۔ اگر زیادہ درست کرنا ہے تو اس کی ابتدا تو پہلے ہی قدم سے ہونی ہے۔ آپ قدم اٹھا لیں، ہم پیچھے چل پڑیں گے۔ جو آپ کہیں گے، برحق سمجھا جائے گا۔
محترمی شاہد شاہ نوازصاحب: سلام علیکم
جواب خط کا شکریہ۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہآپ کو اس ضمن میں فکر و تردد ہے ۔ آپ نے چار نکات اٹھائے ہیں۔ ان کے جواب لکھ رہا ہوں۔ اطمینان نہ بھی ہو ا تو کم از کم جواب مل جائے گا۔
(1) ہر شاعر پہلے مبتدی ہی ہوتا ہے ،بعد میں شاعرکہلاتا ہے۔ سو آپ کا یہ خیال باطل ہے کہ آپ :اصلاح سخن: کی غیر موجودگی میں شاعر کبھی نہیں بن سکتے تھے۔یعنی اب آپ شاعر: بن چکے ہیں؟:
(2) بیس سال شاعری کے بعد جو :دیوان: مرتب ہوا ہے بہتر ہے کہ ا س کو ایک جانب رکھ دیں جب تک کہ وہ کسی ماہر :استاد: کی نگاہ اصلاح سے نہیں گزرتا ہے۔ آپ کو یہ کیسے خبر ہوئی کہ آپ کی :اصلاح کی جتنی ضرورت تھی: وہ پوری ہو رہی ہے؟ آپ فن شعر کتنا سیکھ چکے ہیں مجھ کو علم نہیں۔ آپ کو بھی علم نہیں! اور یہ کوئی بری بات نہیں بلکہ ایسا ہوتا ہے اور ایں زمانہ روز ہوتا ہے۔ وجہ کا آپ کو بھی علم ہے۔
(3) آپ نے لکھا ہے کہ اگر صاحبان فن یہ کام نہیں کریں گے تو : مجھ جیسے لوگ ہی: نو آموز شاعروں سے :جو مناسب سمجھیں گے کہہ دیا کریں گے:۔ کیا اس سے اصلاح حال ممکن ہے؟ شاعری بھی فن لطیف ہے اور ہر فن کی طرح اپنے استاد کی طالب ہے۔ غالب اور اقبال جیسے لوگ :بقدر بادام: ہیں کہ وہ استاد سے محروم رہ کر بھی بڑے شاعر ہو سکے ورنہ تاریخ اردو میں شاید ہی کوئی شاعر ہوگا جو بصورت دیگر کامیاب رہا ہے۔
(4) یہاں میرا معاملہ : کے آمدی و کے پیر شدی: والا ہے۔ ایک صاحب مجھ سے خفا ہو کر ترک تعلق کر ہی چکے ہیں۔ اب رسوائی کی اور ہمت نہیں ہے۔میں عمر کی 89ویں منزل سے اور شاعری کے سارے مراحل سے گذر چکا ہوں۔ آپ کی محفل میں ظہیر صاحب اور عرفان علوی صاحب مدت سے موجود ہیں ۔ مجھ کو معلوم نہیں کہ اس ضرورت کی جانب انھوں نے توجہ کیوں نہیں کی۔ کوئی وجہ تو ضرور تھی ؟
مزید لکھنا میں ضروری نہیں سمجھتا۔ آپ کے دوسرے خط بھی دیکھ چکا ہوں۔ آپ صاحب دل اور صاحب درد ہیں۔ یعنی :ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں !:۔جزاک اللہ خیرا۔
سرور عالم راز
 
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

محترمی آپ کو بھولے ہی کہاں کہ یاد کریں۔اردو انجمن کے فنا کے بعد بھی بندے نے آپ کو خط بذریعہ ای میل ںھیجے تھے مگر جواب نہ پا کر تشویش ہوئی تھی۔
یہاں محفل میں ایک ٹیگ کا نظام رائج ہے جس کے ذریعے سے آپ کسی کو بھی اپنی تخلیقات پہ تبصرے کے لیے دعوت دے سکتے ہیں۔طریقہ آسان ہے .
@لکھ کر آگے اس بندے کا نام ٹائپ کر کے انٹر دبائیے ، جب مراسلہ ارسال ہوگا تو ساتھ ہی اس بندے کو بھی اطلاع بھی مل جائے گی ۔
مندرجہ ذیل لڑی میں آپ کو اصلاح کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔نظر کرم فرمائیے تاکہ استفادہ کا سلسلہ آگے بڑھے ان شاء اللہ۔

کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا
 
عزیز ی یاسر صاحب: سلام علیکم؛
آپ نے جو معلومات فراہم کی ہیں میں ان سے مستفید ہو چکاہوں۔ اگر آپ : راہ گذر: کومذکر سمجھتے ہیں تو ایسے موضوع پر بحث کی نہیں مطالعہ اور دلائل و نظائر کی ضرورت ہے۔ آپ کا مجھ سے؛ متفق نہ ہونا :آپ کا حق ہے دلیل نہیں! اس بحث میں ایسی ہی باتیں ہیں سو ان سے کیا حاصل ؟ یہاں :اساتذہ: کی کمی نہیں ہے ۔ مبتدی شعرا پر مجھ کو مزید تھوپنا :کار خیر: نہیں :تہمت: ہے سو یہ الزام مجھ کو منظور نہیں۔ وہ مثل تو آپ نے سنی ہوگی : معاف کرو بی بلی،یہ چوہا لنڈورا ہی بھلا ہے:۔ زیادہ حد ادب !
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
عزیز ی یاسر صاحب: سلام علیکم؛
آپ نے جو معلومات فراہم کی ہیں میں ان سے مستفید ہو چکاہوں۔ اگر آپ : راہ گذر: کومذکر سمجھتے ہیں تو ایسے موضوع پر بحث کی نہیں مطالعہ اور دلائل و نظائر کی ضرورت ہے۔ آپ کا مجھ سے؛ متفق نہ ہونا :آپ کا حق ہے دلیل نہیں! اس بحث میں ایسی ہی باتیں ہیں سو ان سے کیا حاصل ؟ یہاں :اساتذہ: کی کمی نہیں ہے ۔ مبتدی شعرا پر مجھ کو مزید تھوپنا :کار خیر: نہیں :تہمت: ہے سو یہ الزام مجھ کو منظور نہیں۔ وہ مثل تو آپ نے سنی ہوگی : معاف کرو بی بلی،یہ چوہا لنڈورا ہی بھلا ہے:۔ زیادہ حد ادب !
محترم،الحمد للّہ مجھ میں اساتذہ کے اعتراضات کو برداشت کرنے کی طاقت ہے۔ اور کچھ نہیں تو شاعری پر رحم کرنے کا مشورہ ہی دیتے جاتے، اس سے میں اپنے وقت کے ضیاع اور شاعری پر ظلم کے دونوں گناہوں سے بچ جاتا 🙂
میں نے تو "راہ گذر" کے لیے دلیل بھی پیش کی تھی۔ حالانکہ میں خود اس سے متفق نہیں تھا۔
اگر میری باتوں میں کہیں کوئی گستاخی در آئی ہو تو معاف فرما دیجیے گا۔
 
محترم،الحمد للّہ مجھ میں اساتذہ کے اعتراضات کو برداشت کرنے کی طاقت ہے۔ اور کچھ نہیں تو شاعری پر رحم کرنے کا مشورہ ہی دیتے جاتے، اس سے میں اپنے وقت کے ضیاع اور شاعری پر ظلم کے دونوں گناہوں سے بچ جاتا 🙂
میں نے تو "راہ گذر" کے لیے دلیل بھی پیش کی تھی۔ حالانکہ میں خود اس سے متفق نہیں تھا۔
اگر میری باتوں میں کہیں کوئی گستاخی در آئی ہو تو معاف فرما دیجیے گا۔
مکرمی عبد الرووف صاحب: والسلام
بھائی میں اپنی بات واضح نہیں کر سکا اور آپ غلط فہمی کا شکار ہو گئے۔ عذر خواہی تومیرے ذمہ ہے نہ کہ آپ کے۔ شاعری اچھی چیز ہے اور اچھی شاعری اس سے بہتر ہے! در اصل میں اپنی صاف گوئی کے باعث کافی برائی اٹھا چکا ہوں اور اب :چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہوں۔: آپ مطلق تردد نہ کریں اور ایک لطیفہ سن لیں کہ ہم لوگ شاعری پر کیسے عاشق ہیں۔ اب یہ معلوم نہیں کہ آپ لطیفہ سن کر مسکرائیں گے یا منھ بنائیں گے ۔
میرے ایک دوست کی بیگم کو شاعری کے جراثیم نےبے حال کیا تو انھوں نے مجھ سے اپنے :دیوان: پر دیباچہ لکھنے کی فرمایش کی۔میری درخواست پر انھوں نے دیوان کے پچیس تیس صفحات بطور نمونہء کلام بھیجے
تا کہ دیباچہ لکھ سکوں۔ کتاب کا نام تھا : روشنی کے سایے: اور بخدا ہر صفحہ پر سات آٹھ زبان و بیان، عروض، فن شعر وغیرہ کی اغلاط موجود تھیں۔ میں نے بڑی محنت سے تمام غلطیاں درست کیں اور مسودہ اس درخواست کے ساتھ واپس کیا کہ : بی بی! میں نے اپنی زندگی میں روشنی کے سایے کبھی نہیں دیکھے اور نہ ہی سنے۔ ازراہ کرم کتاب کا نام بدل کر کوئی دوسرا مناسب اور با معنی رکھ لیجئے۔ ساتھ ہی کتاب کی ساری غلطیاں کسی صاحب علم سے درست کروا لیں اور اس کےبعدہی اس کو شائع کیجئے۔: موصوفہ نے جواب میں کچھ ایسا لکھا تھا کہ : یہ کتاب اسی نام سے اور اسی طرح شائع کی جائے گی۔ آپ سے صرف یہ اجاازت لینی ہے کہ دیباچہ میں جو توصیفی کلمات آپ نے لکھے ہیں ان کو شامل رکھا جائے لیکن جو منفی یا تنقیدی خیالات آپ نے ظاہر کئے ہیں ان کو بالکل حذف کر دیا جائے۔:ظاہر ہے کہ میں نے ان کی بات مسترد کردی کہ :میں یہ اجازت نہیں دے سکتا۔ یا آپ دیباچہ بعینہ شائع کرائیں یا بعینہ مسترد کردیں۔ یہی کیا کم ہے کہ آپ نے مجھ سے ایسی بد عنوانی کی اجازت مانگی ورنہ اگر آپ من مانی کرتیں تو میں آپ کا کیا بگاڑ لیتا؟:۔ اس کے بعد موصوفہ اور ان کے شوہر نے مجھ سے تیس سال پرانے تعلقات منقطع کر لئے جو آج بھی منقطع ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انھوں نے کتاب نیو یارک کے ایک شاعر کو بھیج دی تھی جو پیسے لے کر ایسے ہی تک بندوں کی دستگیری کرتے ہیں۔ یعنی کتاب کی :اصلاح: انھوں نے کر دی تھی۔:روشنی کے سایے: ایک دوست کے توسط سے منگا کر میں نے دیکھی تھی۔اصلاح کار نے تمام غلطیاں درست کر دی تھیں، اشعار موزوں کئے تھے اور نئے شعر کہہ کر جہاں تہاں غزلوں میں چسپاں کر دئے تھے۔ اب آپ بتائیے کہ آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ فاعتبرو یااولی الابصار۔
سرور عالم راز
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
"ہم نے مدعا پایا"

محترم، آپ کے جواب کا ازحد شکریہ، گویا بے کہے (آپ کے) یا بے سنے (میرے) میں نے آپ کا مدعا پایا۔ بہرحال آپ کو ارد گرد (حقیقی یا اس انٹرنیٹ کی دنیا میں) شاعری پر مظالم ہوتے ہوئے دیکھ کر اپنا لہو تو جلانا ہی پڑے گا تا آنکہ آپ محض انٹرنیٹ سے ہی نہیں بلکہ لوگوں سے بھی دوری اختیار کر لیں۔ یہ فیصلہ یقیناً آپ کا ہی ہو گا کہ محض کُڑھنے میں دل جلانا یا پھر کچھ سِکھاتے ہوئے۔
باقی رہی آپ کی صاف گوئی، یہ تو اساتذہ کا خاصہ ہے۔ مجھ کو یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کسی استاد نے غلط جواب لکھنے پر سرزنش نہ کی ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ بچہ 2+2 کا جواب پانچ لکھے اور استاد نے اسے شاباشی دی ہو لیکن اس غلطی پر سزا دینے کا تعین استاد بچے کی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق کرے گا۔ اگر بچہ پہلی جماعت کا طالبعلم ہے تو اسے پیار سے سمجھایا جائے گا اور اگر کوئی بچہ تیسری کلاس کا ہوا تو اُسے مار بھی کھانی پڑ سکتی ہے۔ اور اس میدانِ سخن میں، میں خود کو ابھی مبتدی بھی نہیں پاتا۔ مبتدی کا بہرحال پاؤں تو سخن کے میدان میں ہوتے ہیں اور میں تو ابھی خود کو اس میدان سے کوسوں دور سمجھتا ہوں۔
آپ اگر اس دور میں جہاں پر ٹیلی ویژن، اخبارات اور رسالوں کی اردو کا برا حال ہے وہاں پر امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی مولوی عبدالحق یا پھر کوئی حسرت، فراق، جوش یا فیض مل جائے گا تو یہ حسرت (موہانی) جیسوں کو ڈھونڈنے کی حسرت، حسرت ہی رہ جائے گی۔
کچھ کہا سُنی ہو گئی ہو تو بندہ معافی کا خواستگار ہے ۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
محترمی شاہد شاہ نوازصاحب: سلام علیکم
جواب خط کا شکریہ۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہآپ کو اس ضمن میں فکر و تردد ہے ۔ آپ نے چار نکات اٹھائے ہیں۔ ان کے جواب لکھ رہا ہوں۔ اطمینان نہ بھی ہو ا تو کم از کم جواب مل جائے گا۔
(1) ہر شاعر پہلے مبتدی ہی ہوتا ہے ،بعد میں شاعرکہلاتا ہے۔ سو آپ کا یہ خیال باطل ہے کہ آپ :اصلاح سخن: کی غیر موجودگی میں شاعر کبھی نہیں بن سکتے تھے۔یعنی اب آپ شاعر: بن چکے ہیں؟:
(2) بیس سال شاعری کے بعد جو :دیوان: مرتب ہوا ہے بہتر ہے کہ ا س کو ایک جانب رکھ دیں جب تک کہ وہ کسی ماہر :استاد: کی نگاہ اصلاح سے نہیں گزرتا ہے۔ آپ کو یہ کیسے خبر ہوئی کہ آپ کی :اصلاح کی جتنی ضرورت تھی: وہ پوری ہو رہی ہے؟ آپ فن شعر کتنا سیکھ چکے ہیں مجھ کو علم نہیں۔ آپ کو بھی علم نہیں! اور یہ کوئی بری بات نہیں بلکہ ایسا ہوتا ہے اور ایں زمانہ روز ہوتا ہے۔ وجہ کا آپ کو بھی علم ہے۔
(3) آپ نے لکھا ہے کہ اگر صاحبان فن یہ کام نہیں کریں گے تو : مجھ جیسے لوگ ہی: نو آموز شاعروں سے :جو مناسب سمجھیں گے کہہ دیا کریں گے:۔ کیا اس سے اصلاح حال ممکن ہے؟ شاعری بھی فن لطیف ہے اور ہر فن کی طرح اپنے استاد کی طالب ہے۔ غالب اور اقبال جیسے لوگ :بقدر بادام: ہیں کہ وہ استاد سے محروم رہ کر بھی بڑے شاعر ہو سکے ورنہ تاریخ اردو میں شاید ہی کوئی شاعر ہوگا جو بصورت دیگر کامیاب رہا ہے۔
(4) یہاں میرا معاملہ : کے آمدی و کے پیر شدی: والا ہے۔ ایک صاحب مجھ سے خفا ہو کر ترک تعلق کر ہی چکے ہیں۔ اب رسوائی کی اور ہمت نہیں ہے۔میں عمر کی 89ویں منزل سے اور شاعری کے سارے مراحل سے گذر چکا ہوں۔ آپ کی محفل میں ظہیر صاحب اور عرفان علوی صاحب مدت سے موجود ہیں ۔ مجھ کو معلوم نہیں کہ اس ضرورت کی جانب انھوں نے توجہ کیوں نہیں کی۔ کوئی وجہ تو ضرور تھی ؟
مزید لکھنا میں ضروری نہیں سمجھتا۔ آپ کے دوسرے خط بھی دیکھ چکا ہوں۔ آپ صاحب دل اور صاحب درد ہیں۔ یعنی :ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں !:۔جزاک اللہ خیرا۔
سرور عالم راز
وعلیکم السلام ۔۔۔ آپ کی تمام باتوں سے متفق ہوں ۔۔۔ مبتدی تو میں تاحال خود کو کہہ رہا ہوں اور ہوں بھی ۔۔۔ ۔۔۔ اصلاحِ احوال کا سلسلہ اسی لیے جاری و ساری رکھا ہوا ہے، تاکہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا رہے۔ آپ سے لوگوں کے ترکِ تعلق کا جان کر افسوس ہوا، لیکن حیرت نہیں، کیونکہ تنقید چاہے نیک نیتی سے ہی کیوں نہ کی جائے، کسی کو پسند نہیں آتی۔ اگر آپ کی نظر میں اصلاحِ سخن میں بہتری لائی جاسکتی ہے، آپ وقت نہیں دے سکتے ، تب بھی ان احباب کی طرف اشارہ تو کرسکتے ہیں جو اس ضمن میں کچھ کرسکیں۔ ظہیر صاحب، عرفان علوی اور اسی طرح کے دیگر احباب کی فہرست تیار کی جانی چاہئے جو یہاں موجود ہیں اور جو دیگر فورمز پر دستیاب ہیں، ان کو بھی دعوت دی جاسکتی ہے۔۔۔ قبول کرنا نہ کرنا ان کا کام ہے۔۔۔ آپ کو وقت نکال کر ہمیشہ نہ سہی، کبھی کبھار اصلاحِ سخن میں مجھ جیسے مبتدیوں کے کلام پر رائے دینی چاہئے، اگر اس سے کوئی شخص مکمل شاعر نہ بھی بن سکے، وہ کسی نہ کسی حد تک پہلے سے بہتر ضرور ہوجائے گا اور یہ محسوس کرے گا کہ اسے مزید بہتری کی ضرورت ہے تو کن شعبوں میں؟ اللہ تعالیٰ آپ کیلئے آسانیاں پیدا فرمائے ۔ (آمین)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مکرمی عبد الرووف صاحب: والسلام
بھائی میں اپنی بات واضح نہیں کر سکا اور آپ غلط فہمی کا شکار ہو گئے۔ عذر خواہی تومیرے ذمہ ہے نہ کہ آپ کے۔ شاعری اچھی چیز ہے اور اچھی شاعری اس سے بہتر ہے! در اصل میں اپنی صاف گوئی کے باعث کافی برائی اٹھا چکا ہوں اور اب :چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہوں۔: آپ مطلق تردد نہ کریں اور ایک لطیفہ سن لیں کہ ہم لوگ شاعری پر کیسے عاشق ہیں۔ اب یہ معلوم نہیں کہ آپ لطیفہ سن کر مسکرائیں گے یا منھ بنائیں گے ۔
میرے ایک دوست کی بیگم کو شاعری کے جراثیم نےبے حال کیا تو انھوں نے مجھ سے اپنے :دیوان: پر دیباچہ لکھنے کی فرمایش کی۔میری درخواست پر انھوں نے دیوان کے پچیس تیس صفحات بطور نمونہء کلام بھیجے
تا کہ دیباچہ لکھ سکوں۔ کتاب کا نام تھا : روشنی کے سایے: اور بخدا ہر صفحہ پر سات آٹھ زبان و بیان، عروض، فن شعر وغیرہ کی اغلاط موجود تھیں۔ میں نے بڑی محنت سے تمام غلطیاں درست کیں اور مسودہ اس درخواست کے ساتھ واپس کیا کہ : بی بی! میں نے اپنی زندگی میں روشنی کے سایے کبھی نہیں دیکھے اور نہ ہی سنے۔ ازراہ کرم کتاب کا نام بدل کر کوئی دوسرا مناسب اور با معنی رکھ لیجئے۔ ساتھ ہی کتاب کی ساری غلطیاں کسی صاحب علم سے درست کروا لیں اور اس کےبعدہی اس کو شائع کیجئے۔: موصوفہ نے جواب میں کچھ ایسا لکھا تھا کہ : یہ کتاب اسی نام سے اور اسی طرح شائع کی جائے گی۔ آپ سے صرف یہ اجاازت لینی ہے کہ دیباچہ میں جو توصیفی کلمات آپ نے لکھے ہیں ان کو شامل رکھا جائے لیکن جو منفی یا تنقیدی خیالات آپ نے ظاہر کئے ہیں ان کو بالکل حذف کر دیا جائے۔:ظاہر ہے کہ میں نے ان کی بات مسترد کردی کہ :میں یہ اجازت نہیں دے سکتا۔ یا آپ دیباچہ بعینہ شائع کرائیں یا بعینہ مسترد کردیں۔ یہی کیا کم ہے کہ آپ نے مجھ سے ایسی بد عنوانی کی اجازت مانگی ورنہ اگر آپ من مانی کرتیں تو میں آپ کا کیا بگاڑ لیتا؟:۔ اس کے بعد موصوفہ اور ان کے شوہر نے مجھ سے تیس سال پرانے تعلقات منقطع کر لئے جو آج بھی منقطع ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انھوں نے کتاب نیو یارک کے ایک شاعر کو بھیج دی تھی جو پیسے لے کر ایسے ہی تک بندوں کی دستگیری کرتے ہیں۔ یعنی کتاب کی :اصلاح: انھوں نے کر دی تھی۔:روشنی کے سایے: ایک دوست کے توسط سے منگا کر میں نے دیکھی تھی۔اصلاح کار نے تمام غلطیاں درست کر دی تھیں، اشعار موزوں کئے تھے اور نئے شعر کہہ کر جہاں تہاں غزلوں میں چسپاں کر دئے تھے۔ اب آپ بتائیے کہ آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ فاعتبرو یااولی الابصار۔
سرور عالم راز
مجھ سے ایسی ہی باتوں کے باعث کم و بیش 4 سے 5 شعراء اور شاعرات نے قطع تعلق کیا، اس کے بعد میں نے حقیقت پسندی اپنائی کہ جس قدر جانتا ہوں، اسے بھی خود تک محدود کر لوں۔۔ لیکن جو لوگ اصلاحِ سخن کیلئے اپنا کلام پیش کرتے ہیں، انہیں پہلے ہی ایسی باتوں کیلئے تیار ہونا چاہئے، اگر تنقید نہیں سننی/ پڑھنی تو کلام اصلاح کیلئے پیش کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟
 
Top