سرور عالم راز
محفلین
روئے سخن کسی کی طرف ہو تو رٰو سیاہ
سودا نہیں، جنوں نہیں ، وحشت نہیں مجھے
غزل اُردو کی تمام اصناف سخن میں مقبول ترین صنف ہے اورہمیشہ رہی ہے۔ ادب و شعر کاکوئی دور ایسا نہیں گذرا ہے جب اس کی بے پناہ مقبولیت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہو۔ آج بھی جب اردو پر عمومی اضمحلال اور جمود طاری ہے اور اہل اردو کے ادبی اور شعری ذوق و شوق میں نمایاں کمی نظر آتی ہے غزل بدستور اپنے مقام پر قائم ہے۔اردو ادب کی تاریخ میں ایک شاعر بھی ایسا نہیں گذرا ہے جس نے اپنی شعر گوئی کے کسی لمحے میں غزل میں طبع آزمائی نہ کی ہو۔ غزل پر اس قدر لکھاجا چکا ہے کہ اس پر مزید کچھ کہنا بے حد مشکل ہے۔ اگر ایک طرف مشہور ادیب اورمزاح نگار پروفیسر رشید احمد صدیقی غزل کو :اردو شاعری کی آبرو: کے معزز لقب سے نوازتے ہیں تو دوسری جانب معروف نقاد کلیم الدین احمد اسے : ایک نیم وحشی صنف سخن: کا خطاب دینے میں تردد یا جھجک محسوس نہیں کرتے۔ غزل کی مقبولیت کی غالبا سب سے زیادہ نمایاں نشانی یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جو غزل سے بظاہرنالاں ہیں اور اس کی مخالفت میں اس کے محاسن کو بھی اس کے عیوب میں شمار کرتے ہیں جب خود غزل کہتے ہیں تو اس کے جملہ آداب ، روایات اور مقتضیات کی پیروی کرتے ہیں یعنی اپنی کوئی نئی راہ نکالنے سے قاصر ہیں اور روایتی صورت حال سے خوش ہیں۔
انٹر نیٹ کی اردو محفلوں میں بھی غزل کی مقبولیت کا احساس اور اعتراف عام ہے۔ وہاں معمولا غزل اور نظم ہی پیش کی جاتی ہیں۔ روایتی نظم توکم نظرآتی ہے البتہ آزاد نظم اور گاہے گاہے غزل معری دکھائی دے جاتی ہے۔ اردو کی دیگر اصناف سخن کا نام ونشان دور دور تک نظرنہیں آتا یہاں تک کہ قطعات و رباعیات کا بھی کوئی نام نہیں لیتا بلکہ بیشتر شاعر دونوں میں تفریق و امتیاز سے نا بلد ہیں۔ اردو محفلوں میں بالعموم غزل کے لئے ایک گوشہ مختص کر دیا جاتا ہے اور چونکہ ماضی ء قریب و بعید کے مقابلہ میں غزل گوئی کا عام معیار گر گیا ہے چنانچہ اس کی اصلاح کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔یہ اقدام لائق صد تحسین ہے اور غزل کے لئے خوش آئند بھی ہے۔پچھلے زمانہ میں دنیائے اردو میں استادی/ شاگردی کا نظام غزل کی بقا اور ترقی کا ضامن تھا لیکن وقت اور حالات کی یورش سے اب یہ نظام ختم ہو چکا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس نظام میں جہاں بہت سی خوبیاں تھیں وہیں اس میں چند خرابیاں بھی تھیں۔ بہتر تو یہ تھا کہ برائیوں سے پرہیز اور خوبیوں کے فروغ اور پیروی کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب نئے حالات سے ذہنی سمجھوتہ کرنے اور نئے ماحول کو غزل کے لئے خوشگوار اور زرخیز بنانے کی جانب توجہ اور محنت کی سخت ضرورت ہے۔ محفلوں میں غزلوں کی اصلاح کی مہم اور کوشش بہت غنیمت ہے اور اس کار خیر میں ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوط کرنا ہمارا اولیں فرض ہے۔ پختہ مشق اور تجربہ کار غزل گو شعرا اور اصلاح کاروں کی اس کام میں شدید ضرورت ہے ۔ جو کچھ فی الوقت ہو رہا ہے وہ کچھ نہ ہونے سے بہتر تو ہے لیکن اس کام کو بڑھانا اوربہتر بنانا بھی لازمی ہے اور وقت، یکسوئی اور اُردو دوستی سے ہم یہ کام کر سکتے ہیں۔ اس ادبی کام سے کسی کی سبکی یا دل آزاری منظور نہیں ہے بلکہ اس کار خیر میں اردو کے ہر دوست کا فائدہ ہے ۔
غزل کی طرح اصلاح غزل بھی سہولت اور وضاحت کے لئے مختلف درجات میں تقسیم کی جا سکتی ہے۔ ہر شخص کا کسی ایک تقسیم پر متفق ہونا ضروری نہیں ہے البتہ یہ ظاہر ہے کہ سوچی سمجھی تقسیم سے اصلاح کا کام نسبتا آسان ہو سکتا ہے۔اپنے محدود علم اور تجربہ کی روشنی میں راقم الحروف ایسی ایک تقسیم پیش محفل کر رہا ہے۔ زیادہ نفاست اور تقسیم کی باریکی کام میں الجھن اور پیچیدگی کا باعث ہو سکتی ہے۔ آمدم بر سر مطلب۔
(1) غزل کا سب سے نچلا اور کمزور درجہ وہ ہے جس کو :تک بندی: کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ گاہےگاہے محفل میں یہ نظر آسکتی ہے۔ ایسی غزل کے تقریبا سارے مصرعے وزن،بحر اور باہمی ربط سے بے گانہ ہوتے ہیں اور ان کے معانی بھی : مطللب شعر دَر بطن شاعر: کی تعریف میں آتے ہیں یعنی ذ ہنی قلا بازیوں کے بعد بھی ہاتھ نہیں آتے۔ راقم ایسی تخلیقات کو غزل کی تعریف سے خارج مانتا ہے اور متعلقہ شاعر کو نرم اور شائستہ لیکن صاف اور بےتکلف انداز میں صورت
حا ل سے آگاہ کردیتا ہے اور اصلاح سے معذوری ظاہر کر کے گذارش کرتا ہے کہ وہ مطالعہ، فکر سخن اور محنت جاری رکھیں تا وقتیکہ ان کا کلام اصلاح کے قابل متصور ہو سکے۔ اللہ اللہ خیر صلاح۔
(2) :تک بندی: سے اوپر کے درجہ میں وہ غزلیں رکھی جا سکتی ہیں جو اس کی حد سے نکل کر غزل گوئی کی حد میں داخل ہو گئی ہوں ۔ محفلوں میں اکثر و بیشترایسی ہی غزل نظر آتی ہے ۔ یہ عموما چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے اور اس کے مضامین بہت سیدھے سادے اور بالکل سامنے کے ہوتے ہیں یعنی ذوق سلیم اور موزونیء طبع سے متصف تقریبا ہر شخص تھوڑی سی فکر سے ایسی غزل کہہ سکتا ہے۔ اس میں شعری معنویت، تغزل، گہرائی اور اثر پذیری وغیرہ کی تلاش بیسود ہوتی ہے اور اس کی مناسب اصلاح کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصلاح کار اس کی کوتاہ بیانی کے پیش نظر شاعر کو غزل قریب قریب نئے سرے سے کہہ کر دے ۔ چونکہ ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا اس لئے غزل کی اصلاح الفاظ کی ہیرا پھیری یعنی معمولی ردو بدل سے کی جاتی ہے۔ یہ لفظی ردو بدل اصلاح کار کی شعری سوجھ بوجھ اور فنی استعداد کا پابند ہوتا ہے ۔ اس سے غزل کی ظاہری شکل اِدھر اٰدھر سے برائے نام بدل جاتی ہے لیکن غزل میں کوئی بنیادی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتی۔اس طریق کار کو اصلاح کے بحائے تصحیح کہنا شاید زیادہ مناسب ہے۔ اہل نظر خود فیصلہہ کر سکتے ہیں۔
(3) تیسرے درجہ پر وہ غزلیں رکھی جا سکتی ہیں جن کے خالق شعری شعور اور شاعری کے مبادیات سے واقف ہوتے ہیں اور غزل میں معنی آفرینی کی کوشش پر بھی قادر ہوتے ہیں۔ یہ غزلیں بیشتر چھوٹی اور درمیانی بحروں میں کہی جاتی ہیں اور شاعر کبھی کبھی مشاہیر شعرا اور اساتذہ کی غزلوں کی زمینوں میں بھی طبع آزمائی کرتا ہے ۔ یہ غزلیں اصلاح کار وں کی فکر و توجہ کی خواہاں ہوتی ہیں لیکن محفلوں میں ماہرین فن کی قلت ہی نہیں بلکہ تقریبا مکمل فقدان ہونے کی وجہ سے ان کی مناسب اصلاح نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہ امر افسوس کا مقام ہے اور علاج اور بہتری چاہتا ہے ۔ خوش قسمتی سے ہماری اردو محفل میں دو چار ایسے احباب موجود ہیں جو اگر کسسر نفسی کو محفل کی ضرورت اور فلاح کی خاطر بالائے طاق رکھ کر اصلاح شعر کا فیصلہ کریں تو نہ صرف کام ہو سکتا ہے بلکہ مستقبل میں ان چراغوں سےدوسرے چراغ روشن ہو سکتےہیں۔
یہاں ایک بات کہنا ضروری ہے۔ ہمارے یہاں لوگوں نے ایک عجیب طریق کار اختیار کر رکھا ہے یعنی اگر کوئی شخص اچھی تجویز پیش کرے تو خود کام سے بچنے کے لئے اسی پر وہ کام تھوپ دیتے ہیں کہ : تو پھر آپ ہی یہ کام کیجئے۔: میں اپنی عمر اور صحت کے پیش نظر اس خدمت کی ذمہ داری قبول نہیں کر سکتا البتہ گاہے گاہے مشورہ یا مدد کر سکوں گا۔ اس ضمن میں آپ سے معذرت خواہ ہوں۔غزلوں کے درج بالا تین درجات سے اوپر جانا محفل کے لئے فی الوقت ممکن نہیں ہے۔ اصلاح کی جو صورت چل رہی ہے وہ ناقص اور بیسود ہے۔ اس شعبہ کا کوئی نگراں یا ناظم نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اصول کہیں راقم کی نظر سے گذرے ہیں۔جس کا جب جی چاہتاہے آکر حسب استعداد و لیاقت اصلاح دے جاتا ہے ۔ اس کے بعد کوئی اور اصلاح کار پہلے اصلاح کار پر نکتہ چینی اوراس کی اصلاح کی اصلاح کر سکتا ہے ۔ اس طرح کیسے کام ہو سکتا ہے؟ گذارش ہے کہ محفل کے ارباب حل و عقد اور دردمند احباب اس باب میں غور کریں اور بہتر نظام اصلاح مرتب کرنے پر زور دیں۔ کام کرنے سے ہی ہوتا ہے۔ ہمت مرداں مدد خدا۔ انشااللہ۔ کسی دوست کی شان میں گستاخی ہو گئی ہو تو درگزر فرمادیں۔ شکریہ۔
سودا نہیں، جنوں نہیں ، وحشت نہیں مجھے
غزل اُردو کی تمام اصناف سخن میں مقبول ترین صنف ہے اورہمیشہ رہی ہے۔ ادب و شعر کاکوئی دور ایسا نہیں گذرا ہے جب اس کی بے پناہ مقبولیت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہو۔ آج بھی جب اردو پر عمومی اضمحلال اور جمود طاری ہے اور اہل اردو کے ادبی اور شعری ذوق و شوق میں نمایاں کمی نظر آتی ہے غزل بدستور اپنے مقام پر قائم ہے۔اردو ادب کی تاریخ میں ایک شاعر بھی ایسا نہیں گذرا ہے جس نے اپنی شعر گوئی کے کسی لمحے میں غزل میں طبع آزمائی نہ کی ہو۔ غزل پر اس قدر لکھاجا چکا ہے کہ اس پر مزید کچھ کہنا بے حد مشکل ہے۔ اگر ایک طرف مشہور ادیب اورمزاح نگار پروفیسر رشید احمد صدیقی غزل کو :اردو شاعری کی آبرو: کے معزز لقب سے نوازتے ہیں تو دوسری جانب معروف نقاد کلیم الدین احمد اسے : ایک نیم وحشی صنف سخن: کا خطاب دینے میں تردد یا جھجک محسوس نہیں کرتے۔ غزل کی مقبولیت کی غالبا سب سے زیادہ نمایاں نشانی یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جو غزل سے بظاہرنالاں ہیں اور اس کی مخالفت میں اس کے محاسن کو بھی اس کے عیوب میں شمار کرتے ہیں جب خود غزل کہتے ہیں تو اس کے جملہ آداب ، روایات اور مقتضیات کی پیروی کرتے ہیں یعنی اپنی کوئی نئی راہ نکالنے سے قاصر ہیں اور روایتی صورت حال سے خوش ہیں۔
انٹر نیٹ کی اردو محفلوں میں بھی غزل کی مقبولیت کا احساس اور اعتراف عام ہے۔ وہاں معمولا غزل اور نظم ہی پیش کی جاتی ہیں۔ روایتی نظم توکم نظرآتی ہے البتہ آزاد نظم اور گاہے گاہے غزل معری دکھائی دے جاتی ہے۔ اردو کی دیگر اصناف سخن کا نام ونشان دور دور تک نظرنہیں آتا یہاں تک کہ قطعات و رباعیات کا بھی کوئی نام نہیں لیتا بلکہ بیشتر شاعر دونوں میں تفریق و امتیاز سے نا بلد ہیں۔ اردو محفلوں میں بالعموم غزل کے لئے ایک گوشہ مختص کر دیا جاتا ہے اور چونکہ ماضی ء قریب و بعید کے مقابلہ میں غزل گوئی کا عام معیار گر گیا ہے چنانچہ اس کی اصلاح کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔یہ اقدام لائق صد تحسین ہے اور غزل کے لئے خوش آئند بھی ہے۔پچھلے زمانہ میں دنیائے اردو میں استادی/ شاگردی کا نظام غزل کی بقا اور ترقی کا ضامن تھا لیکن وقت اور حالات کی یورش سے اب یہ نظام ختم ہو چکا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس نظام میں جہاں بہت سی خوبیاں تھیں وہیں اس میں چند خرابیاں بھی تھیں۔ بہتر تو یہ تھا کہ برائیوں سے پرہیز اور خوبیوں کے فروغ اور پیروی کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب نئے حالات سے ذہنی سمجھوتہ کرنے اور نئے ماحول کو غزل کے لئے خوشگوار اور زرخیز بنانے کی جانب توجہ اور محنت کی سخت ضرورت ہے۔ محفلوں میں غزلوں کی اصلاح کی مہم اور کوشش بہت غنیمت ہے اور اس کار خیر میں ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوط کرنا ہمارا اولیں فرض ہے۔ پختہ مشق اور تجربہ کار غزل گو شعرا اور اصلاح کاروں کی اس کام میں شدید ضرورت ہے ۔ جو کچھ فی الوقت ہو رہا ہے وہ کچھ نہ ہونے سے بہتر تو ہے لیکن اس کام کو بڑھانا اوربہتر بنانا بھی لازمی ہے اور وقت، یکسوئی اور اُردو دوستی سے ہم یہ کام کر سکتے ہیں۔ اس ادبی کام سے کسی کی سبکی یا دل آزاری منظور نہیں ہے بلکہ اس کار خیر میں اردو کے ہر دوست کا فائدہ ہے ۔
غزل کی طرح اصلاح غزل بھی سہولت اور وضاحت کے لئے مختلف درجات میں تقسیم کی جا سکتی ہے۔ ہر شخص کا کسی ایک تقسیم پر متفق ہونا ضروری نہیں ہے البتہ یہ ظاہر ہے کہ سوچی سمجھی تقسیم سے اصلاح کا کام نسبتا آسان ہو سکتا ہے۔اپنے محدود علم اور تجربہ کی روشنی میں راقم الحروف ایسی ایک تقسیم پیش محفل کر رہا ہے۔ زیادہ نفاست اور تقسیم کی باریکی کام میں الجھن اور پیچیدگی کا باعث ہو سکتی ہے۔ آمدم بر سر مطلب۔
(1) غزل کا سب سے نچلا اور کمزور درجہ وہ ہے جس کو :تک بندی: کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ گاہےگاہے محفل میں یہ نظر آسکتی ہے۔ ایسی غزل کے تقریبا سارے مصرعے وزن،بحر اور باہمی ربط سے بے گانہ ہوتے ہیں اور ان کے معانی بھی : مطللب شعر دَر بطن شاعر: کی تعریف میں آتے ہیں یعنی ذ ہنی قلا بازیوں کے بعد بھی ہاتھ نہیں آتے۔ راقم ایسی تخلیقات کو غزل کی تعریف سے خارج مانتا ہے اور متعلقہ شاعر کو نرم اور شائستہ لیکن صاف اور بےتکلف انداز میں صورت
حا ل سے آگاہ کردیتا ہے اور اصلاح سے معذوری ظاہر کر کے گذارش کرتا ہے کہ وہ مطالعہ، فکر سخن اور محنت جاری رکھیں تا وقتیکہ ان کا کلام اصلاح کے قابل متصور ہو سکے۔ اللہ اللہ خیر صلاح۔
(2) :تک بندی: سے اوپر کے درجہ میں وہ غزلیں رکھی جا سکتی ہیں جو اس کی حد سے نکل کر غزل گوئی کی حد میں داخل ہو گئی ہوں ۔ محفلوں میں اکثر و بیشترایسی ہی غزل نظر آتی ہے ۔ یہ عموما چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے اور اس کے مضامین بہت سیدھے سادے اور بالکل سامنے کے ہوتے ہیں یعنی ذوق سلیم اور موزونیء طبع سے متصف تقریبا ہر شخص تھوڑی سی فکر سے ایسی غزل کہہ سکتا ہے۔ اس میں شعری معنویت، تغزل، گہرائی اور اثر پذیری وغیرہ کی تلاش بیسود ہوتی ہے اور اس کی مناسب اصلاح کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصلاح کار اس کی کوتاہ بیانی کے پیش نظر شاعر کو غزل قریب قریب نئے سرے سے کہہ کر دے ۔ چونکہ ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا اس لئے غزل کی اصلاح الفاظ کی ہیرا پھیری یعنی معمولی ردو بدل سے کی جاتی ہے۔ یہ لفظی ردو بدل اصلاح کار کی شعری سوجھ بوجھ اور فنی استعداد کا پابند ہوتا ہے ۔ اس سے غزل کی ظاہری شکل اِدھر اٰدھر سے برائے نام بدل جاتی ہے لیکن غزل میں کوئی بنیادی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتی۔اس طریق کار کو اصلاح کے بحائے تصحیح کہنا شاید زیادہ مناسب ہے۔ اہل نظر خود فیصلہہ کر سکتے ہیں۔
(3) تیسرے درجہ پر وہ غزلیں رکھی جا سکتی ہیں جن کے خالق شعری شعور اور شاعری کے مبادیات سے واقف ہوتے ہیں اور غزل میں معنی آفرینی کی کوشش پر بھی قادر ہوتے ہیں۔ یہ غزلیں بیشتر چھوٹی اور درمیانی بحروں میں کہی جاتی ہیں اور شاعر کبھی کبھی مشاہیر شعرا اور اساتذہ کی غزلوں کی زمینوں میں بھی طبع آزمائی کرتا ہے ۔ یہ غزلیں اصلاح کار وں کی فکر و توجہ کی خواہاں ہوتی ہیں لیکن محفلوں میں ماہرین فن کی قلت ہی نہیں بلکہ تقریبا مکمل فقدان ہونے کی وجہ سے ان کی مناسب اصلاح نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہ امر افسوس کا مقام ہے اور علاج اور بہتری چاہتا ہے ۔ خوش قسمتی سے ہماری اردو محفل میں دو چار ایسے احباب موجود ہیں جو اگر کسسر نفسی کو محفل کی ضرورت اور فلاح کی خاطر بالائے طاق رکھ کر اصلاح شعر کا فیصلہ کریں تو نہ صرف کام ہو سکتا ہے بلکہ مستقبل میں ان چراغوں سےدوسرے چراغ روشن ہو سکتےہیں۔
یہاں ایک بات کہنا ضروری ہے۔ ہمارے یہاں لوگوں نے ایک عجیب طریق کار اختیار کر رکھا ہے یعنی اگر کوئی شخص اچھی تجویز پیش کرے تو خود کام سے بچنے کے لئے اسی پر وہ کام تھوپ دیتے ہیں کہ : تو پھر آپ ہی یہ کام کیجئے۔: میں اپنی عمر اور صحت کے پیش نظر اس خدمت کی ذمہ داری قبول نہیں کر سکتا البتہ گاہے گاہے مشورہ یا مدد کر سکوں گا۔ اس ضمن میں آپ سے معذرت خواہ ہوں۔غزلوں کے درج بالا تین درجات سے اوپر جانا محفل کے لئے فی الوقت ممکن نہیں ہے۔ اصلاح کی جو صورت چل رہی ہے وہ ناقص اور بیسود ہے۔ اس شعبہ کا کوئی نگراں یا ناظم نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اصول کہیں راقم کی نظر سے گذرے ہیں۔جس کا جب جی چاہتاہے آکر حسب استعداد و لیاقت اصلاح دے جاتا ہے ۔ اس کے بعد کوئی اور اصلاح کار پہلے اصلاح کار پر نکتہ چینی اوراس کی اصلاح کی اصلاح کر سکتا ہے ۔ اس طرح کیسے کام ہو سکتا ہے؟ گذارش ہے کہ محفل کے ارباب حل و عقد اور دردمند احباب اس باب میں غور کریں اور بہتر نظام اصلاح مرتب کرنے پر زور دیں۔ کام کرنے سے ہی ہوتا ہے۔ ہمت مرداں مدد خدا۔ انشااللہ۔ کسی دوست کی شان میں گستاخی ہو گئی ہو تو درگزر فرمادیں۔ شکریہ۔