آپ کی غالباً پوری عمر ہی اس دشت کی سیاحی میں گزر گئی ۔۔۔ میں نے زندگی کے 20 سال دئیے، لیکن اس دوران کم از کم 2 سے 3 بار ایسا دور آیا جب میں نے ہمت ہار کر یا حوصلہ شکنی کی بنیاد پر شاعری مکمل طور پر چھوڑ دی۔ آج کل بھی کچھ مہینوں کی غیر حاضری کے بعد پھر کوشش کررہا ہوں ، لیکن پھر وہی عروض کے مسائل ہیں۔ پھر وہی زبان و بیان کے نقائص ۔۔۔ اس لیے مجھ جیسے شخص کا یہ کہنا کسی حد تک جائز بھی ہوسکتا ہے کہ شاید یہ میرے بس کی بات نہ ہو۔ ایک بار تو اسی محفل میں مجھے شاعری چھوڑ کر نثر سے رجوع کا مشورہ بھی دیا گیا تھا۔۔۔ بار بار کی کوشش سے ایک بات یہ سمجھ میں آئی ہے کہ میں توبہ کرتا ہوں، لیکن مجھ سے ہوتی نہیں ہے۔ تو کیوں نہ کچھ سیکھ ہی لیا جائے؟
جناب شاہد صاحب: سلام علیکم
آپ سے عرض ہے کہ آپ یا میں بڑےشاعر نہیں بن سکیں گے۔ میں نے 78 سال قبل پہلی غزل کہی تھی ۔حساب آپ لگالیں۔ آپ کتاب شائع ضرور کرائیں لیکن اسی وقت جب وہ اس لائق ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی استعداد بھر شاعری میں فکری کوشش کر چکے ہیں۔ مزید ترقی کے لئے محنت طلب مطالعہ، وقت اور مشقت طلب فکر شعر، خود احتسابی، اور خوش قسمتی سے اگر مل سکے تو کسی صاحب علم کے مشورہ کی ضرورت ہو گی۔ اگر آپ اپنی استعداد بھر کوشش کر چکے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ ایسا ہوتا ہے۔ جو بیس سال اس فکرمیں اب تک لگائے ہیں وہ ضائع نہیں گئے کیونکہ ان سے آپ نے کچھ سیکھا ہے۔ فکر جاری رکھیں۔ کتاب کم سے کم تعداد میں چھپوائیں کیوں کہ تقریبا ساری جلدیں مفت میں بانٹی جائیں گی۔ یہ ذاتی منفعت کا سودا نہیں ہے بلکہ اپنے ذوق کی تسکین کی کوشش ہے۔ اور یہ منزل صبر وشکر چاہتی ہے۔ میں اب تک 12 کتابیں لکھ چکا ہوں۔ حاصل؟ والد مرحوم کا ایک شعر سن لیں۔ شاید بات مزید واضح ہو جائے۔ ان کا تخلص راز تھا۔
راز! مل جاتی ہے فکروں سے نجات
شاعری سے اور کچھ حاصل نہیں !
اگر عروض کی بنیادی باتیں سیکھنی ہیں تو میری کتاب :آسان عروض اورنکات شاعری: خرید لیں۔ یہ نو آموز لوگوں کے لئے ہی لکھی گئی ہے۔ اللہ بس، باقی ہوس
سرور عالم راز