حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا
نام و نسب:۔
ہند نام، ام سلمہ کنیت، قریش کے خاندان مخزوم سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے ہند بنت ابی امیہ سہیل بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم، والدہ بنو فراص سے تھیں اور انکا سلسلہ نسب یہ ہے، عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ بن مالک بن جذیمہ بن علقمہ بن جذل الطعان ابن فراس بن غنم بن مالک بن کنانہ،
ابو امیہ(حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے والد) مکہ کے مشہور مخیر اور فیاض تھے، سفر میں جاتے تو تمام قافلہ والوں کی کفالت خود کرتے تھے اسی لیے زاد الراکب کے لقب سے مشہور تھے۔[اصابہ ج8ص240] حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انہی کی آغوش تربیت میں نہایت نازونعمت سے پرورش پائی۔
نکاح:۔
عبداللہ بن عبدالاسد سے جو زیادہ تر ابوسملہ رضی اللہ تعالی عنہ کے نام سے مشہور ہیں، اور جو ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے چچا زاد بھائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے، نکاح ہوا،
اسلام:۔
آغاز نبوت میں اپنے شوہر کے ساتھ ایمان لائیں،
ہجرت حبشہ:۔
اور ان ہی کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی، حبشہ میں کچھ زمانہ تک قیام کر کے مکہ واپس آئیں اور یہاں سے مدینہ ہجرت کی، ہجرت میں انکو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اہل سیر کے نزدیک وہ پہلی عورت ہیں جو ہجرت کر کے مدینہ آئیں۔
ہجرت مدینہ:۔
ہجرت کا واقعہ نہایت عبرت انگیز ہے، حضرت ام سملہ رضی اللہ تعالی عنہا اپنے شوہر کے ہمراہ ہجرت کرنا چاہتی تھیں(انکا بچہ سلمہ بھی ساتھ تھا)لیکن (حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے) قبیلہ نے مزاحمت کی تھی، اس لیے حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ انکو چھوڑ کر مدینہ چلے گئے تھے، اور یہ اپنے گھر واپس آ گئیں تھیں(ادھر سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے خاندان والے حضرت ام سملہ رضی اللہ تعالی عنہا سے چھین لے گئے) اس لیے ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اور بھی تکلیف تھی، چنانچہ روزانہ گھبرا کر گھر سے نکل جاتیں اور ابطح میں بیٹھ کر رویا کرتیں۔ سات آٹھ دن تک یہی حالت رہی اور خاندان کے لوگوں کو احساس تک نہ ہوا۔ ایکدن ابطح سے انکے خاندان کا ایک شخص نکلا اور ام شلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو روتے دیکھا تو اسکا دل بھر آیا گھر آکر لوگوں سے کہا کہ" اس غریب پر ظلم کیوں کرتے ہو، اسکو جانے دو اور اسکا بچہ اسکے حوالے کردو،" روانگی کی اجازت ملی تو بچے کو گود میں لیکر اونٹ پر سوار ہو گئیں اور مدینہ کا راستہ لیا، چونکہ وہ بالکل تنہا تھیں، یعنی کوئی مرد ساتھ نہ تھا، تنعیم میں عثمان بن طلحہ(کلید بردار کعبہ) کی نظر پڑی، بولا"کدھر کا قصد ہے؟"کہا"مدینے کا"پوچھا کوئی ساتھ بھی ہے، کہا"خدا اور یہ بچہ،" عثمان نے کہا"یہ نہیں ہو سکتا تم تنہا کبھی نہیں جا سکتیں"یہ کہکر اونٹ کی مہار پکڑی اور مدینہ کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں جب کہیں ٹھہرتا تو اونٹ کو بٹھا کر کسی درخت کے نیچے چلا جاتا، اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا اتر پڑتیں، روانگی کا وقت آتا تو اونٹ پر کجادہ رکھ کر پرے ہٹ جاتا اور ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کہتا کہ"سوار ہو جاؤ"حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایسا شریف آدمی کبھی نہیں دیکھا، غرض مختلف منزلوں پر قیام کرتا ہوا۔ مدینہ لایا، قبا کی آبادی پر نظر پڑی تو بولا"اب تم اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ، وہ یہیں مقیم ہیں" یہ ادھر روانہ ہوئیں، اور عثمان نے مکہ کا راستہ لیا،[زرقانی ج3ص272،273]
قبا پہنچیں تو لوگ انکا حال پوچھتے تھے اور جب یہ اپنے باپ کا نام بتاتیں تو انکو یقین نہیں آتا تھا(یہ حیرت انکے تنہا سفر کرنے پر تھی، شرفا کی عورتیں اسطرح باہر نکلنے کی جرأت نہیں کرتی تھیں) اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا مجبوراً خاموش ہوتی تھیں، لیکن جب کچھ لوگ حج کے ارادہ سے مکہ روانہ ہوئے اور انہوں نے اپنے گھر رقعہ بھجوایا تو اس وقت لوگوں کو یقین ہوا کہ وہ واقعی ابوامیہ کی بیٹی ہیں، ابو امیہ قریش کے چونکہ نہایت مشہور اور معزز شخص تھے، اسلیےحضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھی گئیں۔[مسند ابن حنبل ج6ص307]
وفات ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ، نکاح ثانی اور خانگی حالات:۔
کچھ زمانہ تک شوہر کا ساتھ رہا، حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ بڑے شہہ سوار تھے، بدر اور احد میں شریک ہوئے، غزوہ احد میں چند زخم کھائے، جنکے صدمہ سے جانبر نہ ہو سکے، جمادی الثانی سن چار ہجری میں انکا زخم پھٹا اور اسی صدمہ سے وفات پائی۔[زرقانی ج3ص273] حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچیں اور وفات کی خبر سنائی، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود انکےمکان پر تشریف لائے، گھر میں کہرام مچا تھا، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی تھیں،" ہائے غربت میں یہ کیسی موت ہوئی" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"صبر کرو، انکی مغفرت کی دعا مانگو، اور یہ کہو کہ خداوندا! ان سے بہتر انکا جانشین عطا کر" اسکے بعد ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی لاش پر تشریف لائےاور جنازہ کی نماز نہایت اہتمام کے ساتھ پڑھائی گئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نو تکبیریں کہیں، لوگوں نے نماز کے بعد پوچھا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپکو سہو تو نہیں ہوا؟ فرمایا یہ ہزار تکبیروں کے مستحق تھے، وفات کے وقت ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں، آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دست مبارک سے آنکھیں بند کیں، اور انکی مغفرت کی دعا مانگی،
ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کے بعد ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا حاملہ تھیں، وضع حمل کے بعد عدت گزر گئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے نکاح کا پیغام دیا، لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انکار کر دیا، انکے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لیکر پہنچے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا مجھے چند عذر ہیں(1)میں سخت غیور ہوں۔(2)صاحب عیال ہوں(3) میرا سن زیادہ ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان زخمتوں کو گوارہ فرمایا، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اب عذر کیا ہو سکتا تھا؟
اپنے لڑکے سے (جنکا نام عمر تھا) کہا اٹھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح کراؤ۔[سنن نسائی ص511] شوال سن چار ہجری کی اخیر تاریخوں میں یہ تقریب انجام پائی، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی موت سے جو شدید صدمہ ہوا تھا، خداوند تعالی نے اسکو ابدی مسرت میں تبدیل کر دیا، سنن ابن ماجہ میں ہے،
"جب ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے وفات پائی تو میں نے وہ حدیث یاد کی جسکو وہ مجھ سے بیان کیا کرتے تھے تو میں نے دعا شروع کی اور جب میں یہ کہنا چاہتی کہ خداوندا! مجھے ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بہتر کون مل سکتا ہے لیکن میں نے دعا کو پڑھنا شروع کیا تو ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے جانشین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے"
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو دو چکیاں، گھڑا، اور چمڑے کا تکیہ جس میں خرمے کی چھال بھری تھی، عنایت فرمایا، یہی سامان اور بیبیوں کو بھی عنایت ہوا تھا،[مسندج6ص295]
بہت حیادار تھیں، ابتدا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکان پر تشریف لاتے تو حضرت ام سلمہ فرط غیرت سے لڑکی (زینب) کو گود میں بٹھا لیتیں، آپ یہ دیکھ کر واپس جاتے، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کو جو حضرت ام سلمہ کے رضاعی بھائی تھے، معلوم ہوا تو بہت ناراض ہوئے، اور لڑکی کو چھین لے گئے،[ایضاً]
لیکن بعد میں یہ بات ختم ہو گئی، اور جسطرح دوسری بیبیاں رہتی تھیں وہ بھی رہنے لگیں، نکاح سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے انکا ذکر کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بڑا رشک ہوا، ابن سعد میں ان سے جو روایت منقول ہے اس میں یہ فقرہ بھی ہے"یعنی مجھکو سخت غم ہوا،"[ج8ص24]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بےحد محبت تھی، یہی وجہ ہے کہ ایک موقع پر جب تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کو (سوا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہاکے) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ عرض کرنا تھا، تو انہوں نے حضرت ام سلمہ کو ہی اپنا سفیر بنا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، صحیح بخاری میں ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کے دو گروہ تھے، ایک میں حضرت عائشہ، حفصہ، صفیہ، سودہ رضی اللہ تعالی عنہن شامل تھیں، دوسرے میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور باقی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن تھیں۔ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو زیادہ محبوب رکھتے تھے۔ اس لیے لوگ ان ہی کی باری میں ہدیہ بھیجتے تھے، حضرت ام سلمہ کی جماعت نے ان سے کہا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی طرح ہم بھی سب کی بھلائی کی خواہاں ہیں، اس بنا پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم جسکے بھی مکان میں ہوں۔ لوگوں کو ہدیہ بھیجنا چاہیے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ سے یہ شکایت کی تو آپ نے دو مرتبہ اعراض فرمایا، تیسری مرتبہ کہا"ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا ! عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے معاملے میں مجھے اذیت نہ پہنچاؤ، کیونکہ انکے سوا تم میں کوئی بیوی ایسی نہیں ہے، جسکے لحاف میں میرے پاس وحی آئی ہو،[صحیح بخاری ج1ص532]"حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا"میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اذیت پہنچانے سے پناہ مانگتی ہوں۔"
حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شب باش ہوتے تو انکا بچھونا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانماز کے سامنے بچھتا تھا(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے اور یہ سامنے ہوتی تھیں۔)[مسندج6ص322]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال کا بہت خیال رکھتی تھیں، حجرت سفینہ رضی اللہ تعالی عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور غلام ہیں، دراصل حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے غلام تھے، انکو آزاد کیا تو اس شرط پر کہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تم پر انکی خدمت لازمی ہوگی[ایضاًص316]
عام حالات:۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مشہور واقعات زندگی یہ ہیں، غزوہ خندق میں اگرچہ وہ شریک نہ تھیں، تاہم اس قدر قریب تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو اسطرح سنتی تھیں فرماتی ہیں کہ مجھے وہ وقت خود یاد ہے کہ جب سینۂ مبارک غبار سے اٹا ہوا تھا اور آپ لوگوں کو اینٹیں اٹھا اٹھا کر دیتے اور اشعار پڑھ رہے تھے کہ دفعتہً عمار بن یاسر پر نظر پڑی فرمایا"(افسوس) ابن سمیہ! تجھکو ایک باغی گروہ قتل کرے گا،"[ایضاًص289]
محاصرہ بنو قریظہ سن پانچ ہجری میں یہود سے گفتگو کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابولبابہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا تھا، اثنائے مشورہ میں ابولبابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ہاتھ کے اشارے سے بتلایا کہ تم لوگ قتل ہو جاؤ گے، لیکن بعد میں اسکو افشائے راز سمجھ کر اس قدر نادم ہوئےکہ مسجد کے ستون سے اپنے آپکو باندھ لیا، چند دنوں تک یہی حالت رہی پھر توبہ قبول ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان میں تشریف فرما تھے کہ صبح کو مسکراتے ہوئے اٹھے تو بولیں"خدا آپکو ہمیشہ ہنسائے، اس وقت ہنسنے کا کیا سبب ہے؟"فرمایا"ابولبابہ رضی اللہ تعالی عنہ کی توبہ قبول ہو گئی" عرض کی "تو کیا میں انکو یہ مژدہ سنا دوں"فرمایا"ہاں اگر چاہو"حضرت ام سلمہ اپنے حجرہ کے دروازہ پر کھڑی ہوئیں اور پکار کر کہا"ابولبابہ مبارک ہو تمھاری توبہ قبول ہو گئی،" اس آواز کا کانوں میں پڑنا تھا کہ تمام مدینہ امنڈ آیا۔[زرقانی ج2ص153وابن سعدج2ق1
ص54]
اسی سن میں آیت حجاب نازل ہوئی اس سے پیشتر ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن بعض دور کے اعزہ و اقارب کے سامنے آیا کرتی تھیں، اب خاص خاص اعزہ کے سوا سب سے پردہ کرنے کا حکم ہوا۔ حضرت ابن ام کمتوم قبیلہ قریش کے ایک معزز صحابی اور بارگاہ نبوی کے مؤذن تھے اور چونکہ نابینا تھے، اس لیے ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کے حجروں میں آیا کرتے تھے، ایکدن آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہما سے فرمایا،"ان سے فرمایا،"ان سے پردہ کرو"بولیں"وہ تو نابینا ہیں" فرمایا"تم تو نابینا نہیں ہو، تم تو انہیں دیکھتی ہو"[مسندج6ص296]
صلح حدیبیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں، صلح کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ لوگ حدیبیہ میں قربانی کریں، لیکن لوگ اس قدر دل شکستہ تھے کہ ایک شخص بھی نہ اٹھا یہاں تک کہ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے، تین دفعہ بار بار کہنے پر بھی ایک شخص بھی آمادہ نہ ہوا، (چونکہ معاہدہ کی تمام شرطیں بظاہر مسلمانوں کے سخت خلاف تھیں اس لیے تمام لوگ رنجیدہ اور غصہ سے بیتاب تھے)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے شکایت کی، انہوں نے عرض کی"آپ کسی سے کچھ نہ فرمائیں بلکہ باہر نکل کر خود قربانی کریں اور احرام اتارنے کے لیے بال منڈوائیں"آپ نے باہر آکر قربانی کی اور بال منڈوائے اب جب لوگوں کو یقین ہو گیا کہ اس فیصلہ میں تبدیلی نہیں ہو سکتی تو سب نے قربانیاں کیں اور احرام اتارا، ہجوم کا یہ حال تھا کہ ایکدوسرے پر ٹوٹا پڑتا تھا اور عجلت اس قدر تھی کہ ہر شخص حجامت بنانے کی خدمت انجام دے رہا تھا،[صحیح بخاری ج6ص380]
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا یہ خیال علم النفس کے ایک بڑے مسئلہ کو حل کرتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہور کی فطرت شناسی میں انکو کس درجہ کمال حاصل تھا، امام الحرمین فرمایا کرتے تھے کہ صنف نازک کی پوری تاریخ اصابت رائے کی ایسی عظیم الشان مثال نہیں پیش کر سکتی۔[زرقانی ج3ص272]
غزوہ خیبر میں شریک تھیں، مرحب کے دانتوں پر جب تلوار پڑی تو کرکراہٹ کی آواز انکے کانوں میں آئی تھی،[استیعاب ج2ص803]
سن نو ہجری میں ایلاء کا واقعہ پیش آیا، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کو تنبیہہ کی تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس بھی آئے وہ انکی عزیز ہوتی تھیں، ان سے بھی گفتگو کی، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جواب دیا،[صحیح بخاری ج2ص730]
"عمررضی اللہ تعالی عنہ تم ہر معاملہ میں دخل دینے لگے یہاں تک کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انکی ازواج کے معاملات میں بھی دخل دیتے ہو۔"
چونکہ جواب نہایت خشک تھا، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ چپ ہو گئے اور اٹھ کر چلے آئے، رات کو یہ خبر مشہور ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کو طلاق دے دی صبح کو جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور تمام واقعہ بیان کیا جب حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا قول نقل کیا تو آپ مسکرائے،
حجة الوداع میں جو سن دس ہجری میں ہوا۔ اگرچہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا علیل تھیں، تاہم ساتھ آئیں، نبہا(غلام) اونٹ کی مہار تھامے تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب غلام کے پاس اس قدر مال موجود ہو کہ وہ اسکو ادا کر کے آزاد ہو سکتا ہو تو اس سے پردہ ضروری ہو جاتا ہے،[مسندج6ص308وص289]
طواف کے متعلق فرمایا کہ جب نماز فجر ہو، تم اونٹ پر سوا ہو کر طواف کرو چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ایسا ہی کیا،[صحیح بخاری ج1ص219،220]
سن 11ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علیل ہوئے، مرض نے طول کھینچا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان میں منتقل ہو گئے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا اکثر آپکو دیکھنے کے لیے جایا کرتی تھیں، ایکدن طبیعت زیادہ علیل ہوئی تو ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا چیخ اٹھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا کہ مسلمانوں کا شیوہ نہیں،[طبقات ج2ق2ص13] ایکدن مرض میں اشتداد ہوا تو ازواج نے دوا پلانی چاہی، چونکہ گوارہ نہ تھی، آپ نے انکار فرمایا، لیکن جب غشی طاری ہو گئی تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بنت عمیس نے دوا پلا دی[صیح بخاری ج2ص641وطبقات ج2ق2ص32](بعض روائتوں میں ہے کہ ان دونوں نے اسکا مشورہ دیا تھا) اسی زمانہ میں ایک روز حضرت ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہما نے جو حبشہ ہو آئی تھیں، وہاں کے عیسائی معبدوں کا(جو غالبا رومن کیتھولک گرجے ہونگے) اور انکے مجسموں اور تصویروں کا تذکرہ کیا، آپ نے فرمایا۔ ان لوگوں میں جب کوئی نیک مرتا ہے تو اسکے مقبرہ کو عبادت گاہ بنا لیتے ہیں، اور اسکا بت بنا کر اس میں کھڑا کرتے ہیں ، قیامت کے روز خدائے عزوجل کی نگاہ میں یہ لوگ بدترین مخلوق ہونگے،[صحیح بخاری وصحیح مسلم]
وفات سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے باتیں کی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اسی وقت بےتابانہ پوچھنے لگیں، لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے توقف کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پوچھا،[طبقات ج2ق2ص40]
سن اکسٹھ ہجری میں حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے شہادت پائی، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں، سر اور ریش مبارک غبار آلود ہے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا حال ہے، ارشاد ہوا،"حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کے مقتل سے واپس آ رہا ہوں"حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیدار ہوئیں تو آنکھوں سے آنسو جاری تھے[صحیح ترمذی ص224] اسی حالت میں زبان سے نکلا اہل عراق نے حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو قتل کیا، خدا انکو قتل کرے اور حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو ذلیل کیا خدا ان لوگوں پر لعنت کرے،[مسند ج6ص98]
سن تریسٹھ ہجری میں واقعہ حرہ کے بعد شامی لشکر مکہ گیا، جہاں ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ پناہ گزیں تھے، چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ایسے لشکر کا تذکرہ فرمایا تھا، بعض کو شبہہ ہوا، اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا بولیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ ایک شخص مکہ میں پناہ لے گا، اسکے مقابلہ میں جو لشکر آئے گا بیاباں میں وہیں دھنس جائے گا۔ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا جو لوگ جبراً شریک کیئے گئے ہوں گے وہ بھی ؟فرمایا ہاں وہ بھی لیکن قیامت میں انکی نیتوں کے مطابق اٹھیں گے(حضرت ابوجعفر رضی اللہ تعالی عنہ) فرماتے تھے کہ یہ واقعہ مدینہ کے میدان میں پیش آئے گا،[صحیح بخاری ج2ص493،494]
وفات:۔
جس سال حرہ کا واقعہ ہوا(یعنی سن 63 ہجری) اسی سال حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انتقال فرمایا اس وقت 84 برس کا سن تھا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نماز جنازہ پڑھی اور بقیع میں دفن کیا[زرقانی ج3ص276] اس زمانہ میں ولید بن عتبہ(ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ کا پوتا) مدینہ کا گورنر تھا، چونکہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے وصیت کی تھی کہ وہ میرے جنازہ کی نماز نہ پڑھائے، اس لیے وہ جنگل کی طرف نکل گیا اور اپنے بجائے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیج دیا۔[طبری کبیرج3ص2443]
اولاد:۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پہلے شوہر سے جو اولاد ہوئی اسکے نام یہ ہیں۔
سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ، حبشہ میں پیدا ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکا نکاح حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی لڑکی امامہ سے کیا تھا۔
عمر رضی اللہ تعالی عنہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح انہوں نے ہی کیا تھا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ خلافت میں فارس و بحرین کے حاکم تھے،
دُرّہ، انکا ذکر صحیح بخاری میں آیا ہے، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جو کہ ازواج مطہرات میں داخل تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ درہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں؟ فرمایا یہ کیسے ہو سکتا ہے، اگر میں نے اسکو پرورش نہ بھی کیا ہوتا تو بھی وہ کسی طرح میرے لیے حلال نہ تھی، کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے۔[صحیح بخاری ج2ص764]
زینب رضی اللہ تعالی عنہا پہلے برہ نام تھا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رکھا۔[زرقانی ج3ص272]
حلیہ:۔
اصابہ میں ہے،"یعنی حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نہایت حسین تھیں۔"
ابن سعد[ابن سعدج8ص66] نے روایت کی ہے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو انکے حسن کا حال معلوم ہوا تو سخت پریشان ہوئیں، مگر یہ واقدی کی روایت ہے جو چنداں قابل اعتبار نہیں،
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بال نہایت گھنے تھے۔[مسندج6ص389]
فضل و کمال:۔
علمی حیثیت اگرچہ تمام ازواج بلند مرتبہ تھیں، تاہم حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہما کا ان میں کوئی جواب نہیں تھا، چنانچہ محمود بن لبید کہتے ہیں،[طبقات ابن سعدج6ص317]
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج احادیث کا مخزن تھیں، تاہم عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہما کا ان میں کوئی حریف مقابل نہ تھا۔"
مروان بن حکم ان سے مسائل دریافت کرتا اور اعلانیہ کہتا تھا۔
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے ہوتے ہوئے ہم دوسروں سے کیوں پوچھیں،"[مسندج6ص317]
حضرت ابو ہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما دریائے علم ہونے کے باوجود انکے دریائے فیض سے مستغنی نہ تھے،[ایضاًص312] تابعین کرام کا ایک بڑا گروہ انکے آستانہ فضل پر سربر تھا۔
قرآن اچھا پڑھتیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز پر پڑھ سکتی تھیں، ایک مرتبہ کسی نے پوچھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیونکر قرأت کرتے تھے؟ بولیں ایک ایک آیت الگ الگ کر کے پڑھتے تھے اسکے بعد خود پڑھ کر بتلا دیا۔[ایضاًص300،301]
حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سوا انکا کوئی حریف نہ تھا، ان سے 378 روائتیں مروی ہیں۔ اس بنا پر وہ محدثین صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے تیسرے طبقہ میں شامل ہیں۔
حدیث سننے کا بڑا شوق تھا۔ ایک دن بال گوندوارہی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے زبان مبارک سے ایھاالناس(لوگو!) کا لفظ نکلا تو فوراً بال باندھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں، اور کھڑے ہو کر پورا خطبہ سنا،[ایضاًص301]
مجتہد تھیں، صاحب اصابہ نے انکے تذکرہ میں لکھا ہے،
"یعنی وہ کامل العقل اور صاحب الرائے تھیں۔"[اصابہ ج8ص241]
علامہ ابن قیم نےلکھا ہے کہ ان کے فتاویٰ اگر جمع کیئے جائیں تو ایک چھوٹا سا رسالہ تیار ہو سکتا ہے،[اعلام الموقین ج1ص13] انکے فتاوی کی ایک خاص خصوصیت یہ ہے کہ وہ عموما متفق علیہ ہیں اور یہ انکی دقیقہ رسی اور نقطہ سنجی کا کرشمہ ہے،
انکی نکتہ سنجی پر ذیل کے واقعات شاہد ہیں۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھا کرتے تھے، مروان نے پوچھا آپ یہ نماز کیوں پڑھتے ہیں؟ بولے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی پڑھتے تھے، چونکہ انہوں نے یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سلسلہ سے سنی تھی، مروان نے انکے پاس تصدیق کےلیے آدمی بھیجا، انہوں نے کہا مجھکو ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے یہ حدیث پہنچی ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس آدمی گیا اور انکو یہ قول نقل کیا تو بولیں،"یعنی خدا عائشہ(رضی اللہ تعالی عنہا) کی مغفرت کرے انہوں نے بات نہیں سمجھی،"[مسند احمد ج6ص299، یہ واقعہ صحیح بخاری میں بھی ہے ج2ص239]
"کیا میں نے ان سے یہ نہیں کہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے پڑھنے کی ممانعت فرمائی ہے۔"[مسنداحمدج6ص303]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا خیال تھا کہ رمضان میں جنابت کا غسل فورا صبح اٹھ کر کرنا چاہیے، ورنہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے، ایک شخص نے جا کر حضرت ام سلمہ و حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما سے جا کر پوچھا دونوں نے کہا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں صائم ہوتے تھے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سنا تو رنگ فق ہو گیا، اسی خیال سے رجوع کیا اور کہا کہ میں کیا کروں فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھ سے اسی طرح بیان کیا تھا، لیکن ظاہر ہے کہ حضرت ام سلمہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما کو زیادہ علم ہے۔[مسنداحمدج6ص306،307](اسکے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا فتوی واپس لے لیا)[ایضاًص306]
ایک مرتبہ چند صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے دریافت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اندرونی زندگی کے متعلق کچھ ارشاد کیجیئے، فرمایا"آپ کا ظاہروباطن یکساں تھا۔" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائےتو آپ سے واقعہ بیان کیا، فرمایا تم نے بہت اچھا کیا،[ایضاًص309]
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا جواب صاف دیتی تھیں اور کوشش کرتی تھیں کہ سائل کی تشفی ہو جائے، ایک دفعہ کسی شخص کو مسئلہ بتایا، وہ انکے پاس سے اٹھ کر دوسری ازواج کے پاس گیا۔ سب نے ایک ہی جواب دیا، واپس آ کے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو یہ خبر سنائی تو بولیں، نعم واشفیک! ذرا ٹھہرو میں تمھاری تشفی کرنا چاہتی ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسکے متعلق یہ حدیث سنی ہے،[ایضاًص297]
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حدیث و فقہ کے علاوہ اسرار کا بھی علم تھا، اور یہ وہ فن تھا جسکے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ عالم خصوصی تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ انکے پاس آئے تو بولیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ بعض صحابی ایسے ہیں جنکو نہ میں اپنے انتقال کے بعد دیکھونگا نہ وہ مجھکو دیکھیں گے، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ گھبرا کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچے اور ان سے یہ حدیث بیان کی، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس تشریف لائے اور کہا، "خدا کی قسم! سچ سچ کہنا کیا میں انہی میں ہوں۔"حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا نہیں، لیکن تمھارے علاوہ میں کسی کو مستثنےٰ نہیں کرونگی،[مسنداحمدص307ج6]
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے جن لوگوں نے علم حدیث حاصل کیا انکی ایک بڑی جماعت ہے ہم صرف چند ناموں پر اکتفا کرتے ہیں۔
عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ، اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ، ہندرضی اللہ تعالی عنہا بنت الحارث الفراسیہ، صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت شیبہ، عمررضی اللہ تعالی عنہ، زینب رضی اللہ تعالی عنہا(اولاد حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا) مصعب رضی اللہ تعالی عنہ بن عبداللہ(برادرزادہ) نبہان (غلام مکاتب) عبداللہ بن رافع، نافع رضی اللہ تعالی عنہ، شعبہ، پسر شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ، ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ، خیرة والدۂ حسن بصری، سلیمان رضی اللہ تعالی عنہ بن یسار، ابو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ الہندی، حمید رضی اللہ تعالی عنہ، ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ، سعید بن مسیب، ابووائل، صفیہ بنت محصی، شعبی، عبدالرحمان، ابن حارث بن ہشام، عکرمہ، ابوبکر بن عبدالرحمان، عثمان بن عبداللہ ابن موہب، عروہ بن زبیر، کریب مولیٰ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ، قبیصہ بن زویب رضی اللہ تعالی عنہ، نافع مولا ابن عمر یعلےٰ بن مالک،
اخلاق و عادات:۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نہایت زاہدانہ زندگی بسر کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ ایک ہار پہنا جس میں سونے کا کچھ حصہ شامل تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراض کیا تو اسکو توڑ ڈالا۔[ایضاًج6ص319،323] ہر مہینے میں تین دن(دو شنبہ، جمعرات اور جمعہ) روزہ رکھتی تھیں،[ایضاًص389] ثواب کی متلاشی رہتیں، انکے پہلے شوہر کی اولاد انکے ساھ تھی، اور وہ نہایت عمدگی سے انکی پرورش کرتی تھیں، اس بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پوچھا کہ مجھکو اسکا کچھ ثواب بھی ملے گا۔ اپ نے فرمایا"ہاں"[صحیح بخاری ج1ص1198]
اچھے کاموں میں شریک ہوتی تھیں، آیت تطہیر انہی کے گھر میں نازل ہوئی تھی،
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا کر کمبل اڑھایا اور کہا"خدایا! یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے ناپاکی کو دور کر اور انہیں پاک کر" حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے یہ دعا سنی تو بولیں یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) میں بھی انکے ساتھ شریک ہوں ارشاد ہوا۔ تم اپنی جگہ پر ہو اور اچھی ہوں۔[صحیح ترمذی ص530]
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی پابند تھیں، نماز کے اوقات میں بعض امراء نے تغیر و تبدل کیا یعنی مستحب اوقات چھوڑ دیئے تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انکو تنبیہہ کی اور فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہر جلد پڑھا کرتے تھے اور تم عصر جلد پڑھتے ہو۔[مسندج6ص289]
ایک دن انکے بھتیجے نے دو رکعت نماز پڑھی، چونکہ سجدہ گاہ غبار آلود تھی، وہ سجدہ کرتے عقت مٹی جھاڑتے تھے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے روکا کہ یہ فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روش کے خلاف ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غلام نے ایک دفعہ ایسا کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا، ترب وجھک اللہ! یعنی تیرا چہرہ خدا کی راہ میں غبار آلود ہو۔[ایضاًج6ص301]
فیاض تھیں، اور دوسروں کو بھی فیاضی کی طرف مائل کرتی تھیں۔ ایک دفعہ حضرت عبدالرحمان بن عوف نے آکر کہا اماں! میرے پاس اس قدر مال جمع ہو گیا ہے کہ اب بربادی کا خوف ہے، فرمایا بیٹا! اسکو خرچ کرو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بہت سے صحابہ ایسے ہیں کہ جو مجھکو میری موت کے بعد پھر نہ دیکھیں گے![ایضاًص290]
ایک مرتبہ چند فقراء جن میں عورتیں بھی تھیں، انکے گھر آئے اور نہایت الحاح سے سوال کیا، ام الحسن بیٹھی تھیں، انہوں نے ڈانٹا لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا ہمکو اسکا حکم نہیں ہے۔ اسکے بعد لونڈی کو کہا کہ انکو کچھ دیکر رخصت کرو۔ کچھ نہ ہو تو ایک ایک چھوہارا انکے ہاتھ پر رکھ دو،[استیعابج2ص803]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انکو جو محبت تھی اسکا یہ اثر تھا کہ آپکے موئے مبارک تبرکاً رکھ چھوڑے تھے۔ جنکی وہ لوگوں کو زیارت کراتی تھیں،[مسند احمدج6ص296] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے اس قدر محبت تھی کہ ایک مرتبہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اسکا کیا سبب ہے کہ ہمارا قرآن میں ذکر نہیں۔ تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اور یہ آیت پڑھی
"ان المسلمین والمسلمات والمومنین والمومنات"[ایضاًص301]
مناقب:۔
ایک مرتبہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں، حضرت جبرئیل آئے اور باتیں کرتے رہے، انکے جانے کے بعد آپ نے پوچھا۔"انکو جانتی ہو؟" بولیں وحیہ رضی اللہ تعالی عنہ تھے، لیکن جب اپ نے اس واقعہ کو اور لوگوں سے بیان کیا تو اس وقت معلوم ہوا کہ وہ جبرئیل تھے،[صحیح مسلم ج2ص241مطبوعہ مصر](غالبا یہ نزول حجاب سے قبل کا واقعہ ہے۔)