پیرزادہ قاسم اُسی کی طرح سے اُس کا بھی جی جلائیں کیا

غزل

پیرزادہ قاسم



اُسی کی طرح سے اُس کا بھی جی جلائیں کیا

وہ ہم کو بھول گیا ہم بھی بھول جائیں کیا


نہ اب وہ سنگِ ملامت، نہ شورشِ طِفلاں

یہ حال ہے تو بھلا اُس گلی میں جائیں کیا


ہیں زخم زخم تو نغموں میں چاشنی کیسی

جو دِل بجھا ہو تو باہر سے جگمگائیں کیا


وہ ساتھ تھا تو بہت جستجو تھی منزل کی

بچھڑگیا ہے تو ہم بھی بھٹک نہ جائیں کیا


عجیب راہ ہے یہ راہِ ترکِ الفت بھی

کہ دل یہ پوچھے ہے رستے سے لوٹ جائیں کیا​
 
واہ واہ کیا انتخاب ہے۔

واہ! ہر شعر لاجواب ہے! خوبصورت غزل

آداب عرض ہے فاتح بھائی، لاریب مرزا بٹیا و دیگر احباب۔ پسندیدگی پر شکریہ قبول فرمائیے۔

دراصل کل ہمیں پرانی کتابوں کے ٹھیلے پر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی کا کوئی پچیس سال پہلے کا چھپا مجموعہ کلام “تُند ہوا کے جشن میں” مل گیا ہے۔ ارادہ ہے کہ وقتاً فوقتاً محفلین کو بھی اِس جشن میں شریک کریں گے۔
 

فاتح

لائبریرین
دراصل کل ہمیں پرانی کتابوں کے ٹھیلے پر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی کا کوئی پچیس سال پہلے کا چھپا مجموعہ کلام “تُند ہوا کے جشن میں” مل گیا ہے۔
ہم نے کالج کے زمانے میں"تند ہوا کے جشن میں" اردو بازار کراچی سے خریدا تھا اورایک عرصہ تک تو ہمارے پاس ہی تھا اب نجانے کیا ہوا۔
 

طارق شاہ

محفلین
اُسی کی طرح سے اُس کا بھی جی جلائیں کیا
وہ ہم کو بھول گیا، ہم بھی بھول جائیں کیا

کیا کہنے

ہیں زخم زخم تو نغموں میں چاشنی کیسی
جو دِل بجھا ہو تو باہر سے جگمگائیں کیا


:) :)
 
Top