شمشاد
لائبریرین
اُسے بلاؤ کہ جس کے چہرے پہ چاند تارے سجے ہوئے ہیں
کہ اپنی دھرتی کے آسماں پر سیاہ بادل تنے ہوئے ہیں
یہ کس مسافر کے منتظر ہیں کہ میری بستی کے لوگ سارے
ہتھیلیوں پر چراغ لے کر روِش روِش پر کھڑے ہوئے ہیں
شجر بھی شاید پکار اٹھیں، حجر بھی شاید زبان کھولیں
مگر ہم اہلِ صفا کے ہونٹوں پہ جیسے تالے پڑے ہوئے ہیں
میں کس سے پوچھوں کہ میری بستی کو کون تاراج کر گیا ہے
تمام خلقت بریدہ سر ہے تمام خیمے جلے ہوئے ہیں
(مقبول عامر)
کہ اپنی دھرتی کے آسماں پر سیاہ بادل تنے ہوئے ہیں
یہ کس مسافر کے منتظر ہیں کہ میری بستی کے لوگ سارے
ہتھیلیوں پر چراغ لے کر روِش روِش پر کھڑے ہوئے ہیں
شجر بھی شاید پکار اٹھیں، حجر بھی شاید زبان کھولیں
مگر ہم اہلِ صفا کے ہونٹوں پہ جیسے تالے پڑے ہوئے ہیں
میں کس سے پوچھوں کہ میری بستی کو کون تاراج کر گیا ہے
تمام خلقت بریدہ سر ہے تمام خیمے جلے ہوئے ہیں
(مقبول عامر)