محمداحمد
لائبریرین
یہ اشعار م۔ م۔ مغل بھائی نے وقتاً فوقتاً بذریعہ ایس ایم ایس ارسال کئے ، دل کو لگے سوچا آپ سب کے ساتھ بھی شئر کر لئے جائیں۔
گھر جلا ہے کچھ اس قرینے سے
صحن تک روشنی نہیں آئی
میری آنکھوں سے میرے ہونٹوں تک
اشک آئے ہنسی نہیں آئی
اختر علی انجم
مطربہ دیکھ کہیں وہ مری شہ رگ تو نہیں
تیری انگشتِ حسین ساز کے جس تار پہ ہے
اعجاز جودھ پوری
کون ہوں، کیا ہوں ، کیا نہیں ہوں میں
راز یہ کھولتا نہیں ہوں میں
ایک دن اپنے در پہ دی دستک
اور پھر کہہ دیا نہیں ہوں میں
نوید غزالی
کیا دوا، کیسی بحالی، آخری کوشش کے ساتھ
بسترِ بیمار پر دستِ مسیحا جل گیا
عزم بہزاد
وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے
اُسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اُس کا
احمد فراز
ہم اپنے زعم میں خوش تھے کہ اُس کو بھول چکے
مگر خیال تھا یہ بھی، گمان تھا وہ بھی
احمد فراز
تری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
غالب
چراغ اتنے جلاؤ قدم قدم پہ یہاں
کہ راستہ نہ رہے بھاگتی ہوا کے لئے
لیاقت علی عاصم
میں کثرتِ ظہور سے نادیدنی ہوں آج
میں شدتِ وجود سے نا آفریدہ ہوں
جوش ملیح آبادی
پہلے ہوتا تھا مجھے شدتِ غم کا احساس
اب مجھے شدتِ احساس کا غم ہوتا ہے
شہاب محمود
دشت کی دھوپ میں پیاسے کو سہارا دینے
کوئی دریا نہیں آتا ہے سراب آتا ہے
جاذب قریشی
شہر نے واپسی کی راہ نہ دی
اور خود بھی مجھے پناہ نہ دی
اُن چراغوں کا کیا کیا تو نے
کچھ خبر بھی شبِ سیاہ نے دی
نجم الحسن نجمی
نہیں احساس تم کو رائیگانی کا ہماری
سہولت سے تمھیں شاید میسر ہو گئے ہیں
خواجہ رضی حیدر
اس انجمن میں میں نے جلائے بہت چراغ
پھر یوں ہوا چراغ جلانے لگے مجھے
یہ کیا کہ ہر سخن میں وہی لہجہ عام سا
وہ بات کر کہ تو نظر آنے لگے مجھے
رضی اختر شوق
گھر جلا ہے کچھ اس قرینے سے
صحن تک روشنی نہیں آئی
میری آنکھوں سے میرے ہونٹوں تک
اشک آئے ہنسی نہیں آئی
اختر علی انجم
مطربہ دیکھ کہیں وہ مری شہ رگ تو نہیں
تیری انگشتِ حسین ساز کے جس تار پہ ہے
اعجاز جودھ پوری
کون ہوں، کیا ہوں ، کیا نہیں ہوں میں
راز یہ کھولتا نہیں ہوں میں
ایک دن اپنے در پہ دی دستک
اور پھر کہہ دیا نہیں ہوں میں
نوید غزالی
کیا دوا، کیسی بحالی، آخری کوشش کے ساتھ
بسترِ بیمار پر دستِ مسیحا جل گیا
عزم بہزاد
وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے
اُسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اُس کا
احمد فراز
ہم اپنے زعم میں خوش تھے کہ اُس کو بھول چکے
مگر خیال تھا یہ بھی، گمان تھا وہ بھی
احمد فراز
تری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
غالب
چراغ اتنے جلاؤ قدم قدم پہ یہاں
کہ راستہ نہ رہے بھاگتی ہوا کے لئے
لیاقت علی عاصم
میں کثرتِ ظہور سے نادیدنی ہوں آج
میں شدتِ وجود سے نا آفریدہ ہوں
جوش ملیح آبادی
پہلے ہوتا تھا مجھے شدتِ غم کا احساس
اب مجھے شدتِ احساس کا غم ہوتا ہے
شہاب محمود
دشت کی دھوپ میں پیاسے کو سہارا دینے
کوئی دریا نہیں آتا ہے سراب آتا ہے
جاذب قریشی
شہر نے واپسی کی راہ نہ دی
اور خود بھی مجھے پناہ نہ دی
اُن چراغوں کا کیا کیا تو نے
کچھ خبر بھی شبِ سیاہ نے دی
نجم الحسن نجمی
نہیں احساس تم کو رائیگانی کا ہماری
سہولت سے تمھیں شاید میسر ہو گئے ہیں
خواجہ رضی حیدر
اس انجمن میں میں نے جلائے بہت چراغ
پھر یوں ہوا چراغ جلانے لگے مجھے
یہ کیا کہ ہر سخن میں وہی لہجہ عام سا
وہ بات کر کہ تو نظر آنے لگے مجھے
رضی اختر شوق