حسان خان
لائبریرین
اُس کو مجرا جس کا نانا احمدِ مختار ہے
جس کی ماں زہرا ہے، بابا حیدرِ کرار ہے
ایک تو بھائی حسن سم سے جگر افگار ہے
ایک بھائی اس کا عباسِ علم بردار ہے
آپ کھینچے ہاتھ میں اسلام کی تلوار ہے
قید ہو کر شام کو جس دم چلے زین العبا
پاؤں میں بیڑی، گلے میں طوق، اس پر پیادہ پا
تازیانے جب دکھاتے آن کر اہلِ جفا
کہتے تھے کچھ رحم بھی اس پر کرو بہرِ خدا
ایک تو مظلوم ہے اور دوسرے بیمار ہے
گو کہ اہلِ ظلم دیتے شہ کو تھے رنج و تعب
پر یہی ہنس ہنس کے فرماتے تھے شاہِ تشنہ لب
کیا دکھاؤں اُن کو برقِ آتشِ قہر و غضب
امتِ جد ہے، نہیں اک آن میں یہ سب کا سب
لشکرِ اہلِ جفا ہوتا ابھی فی النار ہے
بازوئے شہ کے ہوئے جب ہاتھ شانوں سے جدا
دیر تک عباس کو رویا کیے وہ بادشا
جا کے آخر نعش پر رو رو بصد آہ و بکا
کہتے تھے سرور کہ اکبر ہے ضعیفی کا عصا
پر نہ ہو جب ہاتھ ہی تن پر عصا بیکار ہے
ہیں درِ دولت سے ہوتے بہرہ ور شاہ و گدا
پھر بھلا اس در کے ہوتے کس سے کیجے التجا
آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں پر ظفر ہے آپ کا
آئیے اب تو مدد کے واسطے بہرِ خدا
یا حسین ابنِ علی بندہ بہت ناچار ہے
(اعلیٰ حضرت بہادر شاہ ظفر)