اللہ جنت نصیب کرے نانی اماں مرحومہ کو، ان کی سنائی ایک کہانی یاد آ گئی جو وہ مدتوں پہلے کبھی ہمارے بچپن میں سنایا کرتی تھیں (ان کو فوت ہوئے بھی تیس پینتیس سال ہو گئے)، کہانی سیالکوٹ کی "مذمت" میں ہوتی تھی کہ پنجاب کے کسی دور دراز کے علاقے سے ایک ہندو نے اپنے ماں باپ کو اسی طرح دو پلڑوں میں اٹھایا اور عزم کیا کہ انہیں کشمیر میں کسی مندر کی زیارت کروائے گا (سیالکوٹ کو گیٹ وے ٹو کشمیر کہا جاتا ہے)۔ اس نے ہفتوں تک اسی طرح اپنے بوڑھے ماں باپ کو اٹھا کر پا پیادہ سفر کیا لیکن جب کشمیر کے قریب پہنچا تو انہیں پٹخ دیا اور کہا کہ اب مجھ سے نہیں اٹھایا جاتا۔ اس کے والد نے پوچھا بیٹا یہ کونسی جگہ ہے تو اُس نے کہا سیالکوٹ۔ والد بولا کہ بیٹا تیرا کوئی قصور نہیں، یہ جگہ ہی ایسی ہے!
بعض ملازمتوں کے لیے نفسیاتی ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں اس طرح کا سوال بھی ہوتا ہے کہ دی گئی تصویر پر کہانی لکھیں۔ میں سوچ رہاہوں کہ اس تصویر پر دو کہانیاں لکھی ہوئی ہیں ۔ نفسیات کےماہر کہانی لکھنے والوں کا نفسیاتی تجزیہ کریں تو وہ کیا ہوگا؟
گمشدہ اونٹ ملنے کی خوشی کا قدر ہوتی ہے، یہ کوئی اونٹ بان سے پوچھے۔
بائیک پر اس طرح سے کسی ایسی لمبی یا چوڑی چیز کو اٹھا کر بیٹھنا خطرے سے خالی نہیں۔ جس قدر بائیک کی رفتار بڑھے گی ہوا کے دباؤ سے اس چیز کو اٹھائے رکھنا بہت دشوار ہوتا جائے گا۔ اور اگر کم رفتار سے چلایا جائے، پہنچتے پہنچتے اس خاتون کے بازو تو شل ہو ہی جائیں گے۔
بہت اچھی بات کی۔آپ نے۔بائیک پر اس طرح سے کسی ایسی لمبی یا چوڑی چیز کو اٹھا کر بیٹھنا خطرے سے خالی نہیں۔ جس قدر بائیک کی رفتار بڑھے گی ہوا کے دباؤ سے اس چیز کو اٹھائے رکھنا بہت دشوار ہوتا جائے گا۔ اور اگر کم رفتار سے چلایا جائے، پہنچتے پہنچتے اس خاتون کے بازو تو شل ہو ہی جائیں گے۔
یہاں پر بائیک والے کو خاتون کا احساس کرتے ہوئے اس دروازے کو کسی رکشے یا ریڑھی پر اپنی مطلوبہ جگہ پر بھجوانا چاہیے تھا۔
میں دراصل ایک مرتبہ ایسا کام کرتے ہوئے گر چکا ہوں اسی لیے مجھے یہاں بچت سے زیادہ احتیاط کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔بہت اچھی بات کی۔آپ نے۔
کچھ خواتین کو بھی اللہ تعالیٰ مردوں جیسی ہمت اور طاقت دیتا ہے۔ یہ انہی میں سے لگ رہی ہیں ورنہ یہ آسان کام نہیں ہے۔
پھر یہ کہ محدود وسائل بھی انسان کو ایسے کام کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ جن کا بندہ عام طور پر تصور بھی نہیں کر سکتا۔
بائیک پر اس طرح سے کسی ایسی لمبی یا چوڑی چیز کو اٹھا کر بیٹھنا خطرے سے خالی نہیں۔ جس قدر بائیک کی رفتار بڑھے گی ہوا کے دباؤ سے اس چیز کو اٹھائے رکھنا بہت دشوار ہوتا جائے گا۔ اور اگر کم رفتار سے چلایا جائے، پہنچتے پہنچتے اس خاتون کے بازو تو شل ہو ہی جائیں گے۔
یہاں پر بائیک والے کو خاتون کا احساس کرتے ہوئے اس دروازے کو کسی رکشے یا ریڑھی پر اپنی مطلوبہ جگہ پر بھجوانا چاہیے تھا۔
آپ کی بات بالکل درست ہے۔ عام طور پر لوگ کچھ رقم بچانے کے لیے بڑے سابڑا رسک لینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ہماری سڑکوں پر اس طرح کے مناظر ایک عام سی بات ہے۔ یہ تو چلیں کوئی گھر والے لگ رہے ہیں لیکن کمرشل کام کرنے والے، دکاندار حضرات بھی اکثر ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ بھاری بھر کم، لوہے، لکڑی، شیشے کی چیزیں موٹر سائیکلوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی خطرات میں ڈالتے ہیں۔ ان کی وسائل کی بھی بظاہر کوئی مجبوری نہیں ہوتی!میں دراصل ایک مرتبہ ایسا کام کرتے ہوئے گر چکا ہوں اسی لیے مجھے یہاں بچت سے زیادہ احتیاط کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔