فرحت کیانی
لائبریرین
اُٹھ کے پتوار سنبھال
مرے مانجھی، مرے ساجھی، مرے بھائی، جاگ
اُٹھ کے پتوار سنبھال!
دیکھ پُورب سے بھی، پچھم سے بھی طوفاں اُٹھا
رنگِ شعلہ لیے، جولاں اُٹھا
ایسے طوفاں ہوا کرتے ہیں حوادث کے سفیر
ساتھ لاتے ہیں یہ آفات کے تیر
رازدارانِ ضمیر!
بپھری لہریں ہیں کہ ہر آن چڑھی آتی ہیں
تیزرفتار سے ناؤ پہ بڑھی آتی ہیں
ناؤ کی چال ہے اکھڑی ہوئی، کیا ہار چلی؟
ڈگمگاتی ہوئی منجدھار چلی
یہ نہیں وقت الجھنے کا ترا ساتھی سے
گھات میں ناؤ کے قزاق بھی ہیں
مَکر کی چالوں میں وہ طاق بھی ہیں
پھینکتے رہتے ہیں ہر موڑ پہ جال
مرے مانجھی، مرے ساجھی، مرے بھائی، جاگ
اُٹھ کے پتوار سنبھال!
تجھ کو کچھ یاد ہے، ناؤ بڑے چاؤں سے بنی
کتنے جتنوں سے، امنگوں سے، دعاؤں سے بنی
کیل کانٹے سے کیا لیس، سنوارا تھا اسے
موج کے سینے پر مل جُل کے اُتارا تھا اسے
اپنے کنبے کو سوار اس میں کیا تھا ہم نے
اپنا تو سارا اثاثہ ہے یہی!
چھوڑ اب گزری ہوئی بات کو، وہ بات گئی
آئیں گے اور ابھی دہر میں دن رات کئی
بن چکے ہیں مہ و سال
بس ایک سوال
دُور ہے دیس مرادوں کا، بہت دُور ابھی
مرے مانجھی، مرے ساجھی، مرے بھائی، جاگ
اُٹھ کے پتوار سنبھا؛ل!
دل کی وادی میں اندھیرے کا ہے ڈیرا کب سے
خوف و اندیشہ کے بُھتنوں کے بھیانک چہرے
ہر طرف لال انگارہ سی آنکھوں کی قطار
جن کی حد ہے نہ شمار
رات رویا میں، نظر آیا تھا جو کچھ مجھ کو
اس کی ہیبت سے ہوں لرزاں اب تک
مری کُٹیا پہ گرا نیلے گگن سے دیپک
پھر مری آنکھ نے پُرہول نظارہ دیکھا
دھرتی کو پاؤں تلے پارہ پارہ دیکھا
شور برپا تھا، کئی بولیاں گڈمڈ سی سُنیں
کوئی دیتا تھا اذاں دُور کہیں
جھنڈیاں رنگ برنگ اُبھریں، اُفق پر لہرائیں
ظلمتِ شب کی پھر ان پر بھی پڑی پرچھائیں
مرے لب پر یہ دعائیں آئیں
یا الٰہی مری کشتی کی ہو خیر!
اس پہ قابض نہ ہو غیر!
ترے بازو کا سہارا ہے اسے بعدِ خُدا
آج کے کام کو تُو کل پہ نہ ڈال
مرے مانجھی، مرے ساجھی، مرے بھائی، جاگ
اُٹھ کے پتوار سنبھال!
۔۔۔جسٹس ایس۔ اے۔ رحمٰن
--------------------------------------------------
مارچ 1971 میں اس نظم کو چھاپتے وقت درج زیل جملہ بھی ساتھ لکھا گیا تھا۔۔
(یہ نظم اکتوبر، نومبر 1969 میں لکھی گئی تھی، لیکن شاید آج بھی حسبِ حال ہے)
اور نجانے کیوں آج 2008 میں بھی یہ نظم حسبِ حال ہی لگتی ہے!!!
مرے مانجھی، مرے ساجھی، مرے بھائی، جاگ
اُٹھ کے پتوار سنبھال!
دیکھ پُورب سے بھی، پچھم سے بھی طوفاں اُٹھا
رنگِ شعلہ لیے، جولاں اُٹھا
ایسے طوفاں ہوا کرتے ہیں حوادث کے سفیر
ساتھ لاتے ہیں یہ آفات کے تیر
رازدارانِ ضمیر!
بپھری لہریں ہیں کہ ہر آن چڑھی آتی ہیں
تیزرفتار سے ناؤ پہ بڑھی آتی ہیں
ناؤ کی چال ہے اکھڑی ہوئی، کیا ہار چلی؟
ڈگمگاتی ہوئی منجدھار چلی
یہ نہیں وقت الجھنے کا ترا ساتھی سے
گھات میں ناؤ کے قزاق بھی ہیں
مَکر کی چالوں میں وہ طاق بھی ہیں
پھینکتے رہتے ہیں ہر موڑ پہ جال
مرے مانجھی، مرے ساجھی، مرے بھائی، جاگ
اُٹھ کے پتوار سنبھال!
تجھ کو کچھ یاد ہے، ناؤ بڑے چاؤں سے بنی
کتنے جتنوں سے، امنگوں سے، دعاؤں سے بنی
کیل کانٹے سے کیا لیس، سنوارا تھا اسے
موج کے سینے پر مل جُل کے اُتارا تھا اسے
اپنے کنبے کو سوار اس میں کیا تھا ہم نے
اپنا تو سارا اثاثہ ہے یہی!
چھوڑ اب گزری ہوئی بات کو، وہ بات گئی
آئیں گے اور ابھی دہر میں دن رات کئی
بن چکے ہیں مہ و سال
بس ایک سوال
دُور ہے دیس مرادوں کا، بہت دُور ابھی
مرے مانجھی، مرے ساجھی، مرے بھائی، جاگ
اُٹھ کے پتوار سنبھا؛ل!
دل کی وادی میں اندھیرے کا ہے ڈیرا کب سے
خوف و اندیشہ کے بُھتنوں کے بھیانک چہرے
ہر طرف لال انگارہ سی آنکھوں کی قطار
جن کی حد ہے نہ شمار
رات رویا میں، نظر آیا تھا جو کچھ مجھ کو
اس کی ہیبت سے ہوں لرزاں اب تک
مری کُٹیا پہ گرا نیلے گگن سے دیپک
پھر مری آنکھ نے پُرہول نظارہ دیکھا
دھرتی کو پاؤں تلے پارہ پارہ دیکھا
شور برپا تھا، کئی بولیاں گڈمڈ سی سُنیں
کوئی دیتا تھا اذاں دُور کہیں
جھنڈیاں رنگ برنگ اُبھریں، اُفق پر لہرائیں
ظلمتِ شب کی پھر ان پر بھی پڑی پرچھائیں
مرے لب پر یہ دعائیں آئیں
یا الٰہی مری کشتی کی ہو خیر!
اس پہ قابض نہ ہو غیر!
ترے بازو کا سہارا ہے اسے بعدِ خُدا
آج کے کام کو تُو کل پہ نہ ڈال
مرے مانجھی، مرے ساجھی، مرے بھائی، جاگ
اُٹھ کے پتوار سنبھال!
۔۔۔جسٹس ایس۔ اے۔ رحمٰن
--------------------------------------------------
مارچ 1971 میں اس نظم کو چھاپتے وقت درج زیل جملہ بھی ساتھ لکھا گیا تھا۔۔
(یہ نظم اکتوبر، نومبر 1969 میں لکھی گئی تھی، لیکن شاید آج بھی حسبِ حال ہے)
اور نجانے کیوں آج 2008 میں بھی یہ نظم حسبِ حال ہی لگتی ہے!!!