(4)
[align=justify:60eaceece4]ظہیر تین سو روپے ماہوار کا نوکر ہے ۔ چار ہزار رُوپے اُس کی تنخواہ میں سے ماں جمع کر چکی ہے اور جس گھر میں مُٹھی بھر چنوں کے لالے تھے ۔ آج اُس میں گہما گہمی ہو رہی ہے ۔ ظہیر کی شادی ہو رہی ہے ، مہمان بھرے ہیں ، دُلہن کا جوڑا اور زیور کشتیوں میں چُنا ہوا ہے ۔ مردانہ میں دیگیں چڑھی ہوئی ہیں ۔ کمروں میں اُجلی چاندنیاں ، دالانوں میں نئے قالین ۔ انگنائی میں کورے تخت ، فردوسی باغ باغ اور نہال نہال اِدھر اُدھر پھر رہی ہے ۔ چاروں طرف سے مُبارکبادیں مل رہی ہیں اور ہنس ہنس کر اور کِھل کِھل کر شکر ادا کر رہی ہے ۔[/align:60eaceece4]
[align=justify:60eaceece4]اس مکان کے چپہ چپہ اور کونہ کونہ پر خوشی کی چھڑیاں لگ رہی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رنج و غم کا اس سر زمین پر کبھی گذر ہی نہیں ہوا ۔ البتہ صدر دالان کی برابر والی کوٹھڑی میں ایک بُڑھیا جس کی عُمر نوّے برس کے قریب ہے اور جو اب ہڈیوں کی مالا ہے ۔ اس لئے کہ فالج نے اُس کا ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ بیکار کر دی ۔ خاموش پڑی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چھت کی کڑیاں گِن رہی ہے ۔ اس کے قوٰی بیکار ہیں ، بصارت جواب دے چکی ہے ، ہاتھ پاؤں کا سکت جاتا رہا ۔ چلنے پھرنے کے قابل نہیں ، کھانسی نے جان پر بنا دی ، کمر جُھک گئی ، چُپکی لیٹی ہے ۔ مگر نہ معلوم عُمرِ گذشتہ کے کیا کیا خیالات اُس کے دماغ میں چکر لگا رہے ہیں۔[/align:60eaceece4]
[align=justify:60eaceece4]بریانی اور متنجن کی خوشبو اُس کے دماغ میں آئی اور اُس نے خیالی پُلاؤ پکانے شروع کئے ۔ ”کھانا آگیا سب سے پہلے فردوسی مجھ کو لا کر دے گی۔ میں کھاؤں گی ہی کتنا ، ایسے میں تو گرم گرم ہے ، پھر ٹھنڈا کس کام کا۔“[/align:60eaceece4]
[align=justify:60eaceece4]” ہائیں ! یہ تو سب کھا بھی رہے ہیں ، کیا فردوسی مجھے بھول گئی ، اُس کو میری مطلق پرواہ نہیں۔“[/align:60eaceece4]
[align=justify:60eaceece4]افتخار دل ہی دل میں بلکہ تھوڑی بہت آواز سے بھی یہ باتیں کر رہی تھی کہ کسی کے قدموں کی آہٹ اُس کے کان تک پہنچی اور اُس کی افسُردگی خوشی سے بدلی ۔ مگر جب آواز اِدھر آنے کی بجائے اُدھر جاتی معلوم ہوئی تو افتخار نے آہستہ آہستہ پُکارا ۔[/align:60eaceece4]
[align=justify:60eaceece4]فردوسی ، اے بی فردوسی !“ مگر اُس کی آواز کا کسی نے جواب بھی نہ دیا ۔ مہمانوں کے کھانے پینے کی آوازیں برابر کان میں آتی رہیں اور آج افتخار کو معلوم ہوا کہ اُس نے اپنی عُمر میں اچھے بیج نہ بوئے ۔ یہاں تک کہ کھانا ختم ہوا اور ایک بیوی جو کسی ضرورت سے ادھر آنکلی تھیں گھبرا کر باہر آئیں اور کہا ،[/align:60eaceece4]
[align=justify:60eaceece4]”فردوسی بیگم ! تم نے تو دماغ سڑا دیا ۔ تُمہاری اماں والی کوٹھری سے تو ایسی بدبُو آرہی ہے کہ مغز پھٹا جاتا ہے۔“[/align:60eaceece4]
فردوسی نے بغیر کسی تامل کے کہا ،
[align=justify:60eaceece4]”بُوا کیا کروں ، مَر بھی تو نہیں چُکتیں ، دم ناک میں ہے ، ساری کوٹھری بَلغَم اور غلاظت سے سڑا رکھی ہے ۔ اور پھر مزاج ساتویں آسمان پر ، ایک کہوں تو ہزار سُنوں ۔“[/align:60eaceece4]
[align=justify:60eaceece4]اتنا کہہ کر فردوسی ماں کے پاس آئی جس کے کانوں میں یہ آواز اچھی طرح آرہی تھی اور کہا ،[/align:60eaceece4]
[align=justify:60eaceece4]”مہمانوں تک میں ناک کٹوا دی ۔ اس کوٹھری کو تین دفعہ بند کرچکی ہوں کہ اندر مری رہو ، مگر بغیر کھولے چین نہیں ، اب تو ہاتھ خاصا اُٹھ جاتا ہے۔“[/align:60eaceece4]
[align=justify:60eaceece4]بُڑھیا چھ سات روز سے دَمہ میں مَر رہی تھی مگر سُوکھی پَنچیوں میں جوش آگیا ۔ جواب کا قصد کیا لیکن سانس نے زبان نہ اُٹھنے دی اور شدت کی کھانسی اُٹھی ۔ ایک میلی سی ڈِپیا افتخار کے سرہانے جَل رہی تھی ۔ وہ کھانسی میں بے چین تھی مگر اُس کی نگاہ بیٹی کے چہرہ پر تھی اور اس نگاہ میں اظہارِ مجبُوری و لاچاری کے سوا عُمرِ گذشتہ کی پُوری داستان تھی ۔ وہ آنکھیں جو اس بے کسی کے عَالم میں اپنی گُذشتہ خدمات اپنا عشق و فریفتگی جتا کر صرف چاولوں کے ایک نوالہ کی خواستگار تھیں ، ابھی زبان سے کچھ کہنے نہ پائی تھیں کہ ہمیشہ کے لئے سو گئیں۔[/align:60eaceece4]
[align=justify:60eaceece4]افتخار کا انجام ماؤں کے واسطے دَرسِ عبرت ہے ۔ فردوسی کے عشق میں ارشاد کے حقوق کا پامال کرنا آسان نہ تھا اور وہ یقیناً اُس سلوک کی سزاوار تھی ، مگر بد نصیب فردوسی جس نے افتخار جیسی عاشق زار ماں کی یہ گت بنائی ، قُدرت کی زبردست طاقت سے اُس وقت آگاہ ہوئی کہ ابھی وہ کھڑی ماں کا چہرہ دیکھ رہی تھی کہ یہ آواز اُس کے کان میں پہنچی،[/align:60eaceece4]
”غضب ہُوا ، دُولھا موٹر سے گر پڑا اور مغز پھٹ گیا۔“
1920
--×-------- اختتام --------×---