اِس ہجر کے دریا کی، رَوانی ہو ذرا کم۔۔۔ ایک غزل اصلاح کے لئے

السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر ہجز مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*******............********............********
اِس ہجر کے دریا کی، رَوانی ہو ذرا کم
صُورت کی طرح اُس کی، بُھلا دے نہ کہیں غَم

گَو نقشِ قدم، دَشت و بیاباں میں بنیں گے
تنہائی کو لے ساتھ میں اور ڈال وہاں رَم


رَہ جائینگے اُس شہرِ ہِراساں میں، بِکھر کر
اک خَوف کے سائے سے، نکلتا ہے جہاں دَم


پیوَست کوئی تیر، رگِ جاں میں ہو چاہے
تُو حرفِ جُنوں بول، نہ چہرے پہ سجا غَم


تُو یاد کی صُورت، مرے سینے میں چُھپا رہ
ہے عکس، تَو آنکھوں سے نُمایاں ہو ذرا کَم


اک پھول کی پتی پہ یہ قطرہ ہے طرب کا
کانٹوں میں الجھ جائے تو گِریہ ہے یہ شبنم


تَنہائی کے زخموں سے، سجائے ہوئے سینہ
محفِل میں رہو یوں، کہ نہ ہو آنکھ ذرا نَم


کاشِف وہ اَنا ہے کہ، گَنوا دوں جو میں دُنیا
نہ پُشت جُھکی دیکھو، نہ سَر میرا ہُوا خَم
سیّد کاشف

*******............********............********
 

اکمل زیدی

محفلین
تُو یاد کی صُورت، مرے سینے میں چُھپا رہ
ہے عکس، تَو آنکھوں سے نُمایاں ہو ذرا کَماک پھول کی پتی پہ یہ قطرہ ہے طرب کا
کانٹوں میں الجھ جائے تو گِریہ ہے یہ شبنم تَنہائی کے زخموں سے، سجائے ہوئے سینہ
محفِل میں رہو یوں، کہ نہ ہو آنکھ ذرا نَم
مزا آگیا ...بہت خوب ...
 

الف عین

لائبریرین
تو بہتر ہے۔غیر مردف غزلوں کے لئے روانی بہت ضروری ہے۔ کچھ مصرعوں میں روانی کی کمی کھٹکتی ہے۔ویسے کوئی غلطی تو نہیں ہے ماشاء اللہ۔ اب ایک ایک کر کے؛؛؛
اِس ہجر کے دریا کی، رَوانی ہو ذرا کم
صُورت کی طرح اُس کی، بُھلا دے نہ کہیں غَم
۔۔وہی روانی والی بات۔الفاظ کی نشست تبدیل کر کے بہتری لائی جا سکتی ہے۔

گَو نقشِ قدم، دَشت و بیاباں میں بنیں گے
تنہائی کو لے ساتھ میں اور ڈال وہاں رَم
۔۔رم ڈالا نہیں جاتا۔ کیا جاتا ہے (اور مذاق میں ایک رم وہ ہے جو ڈالی جاتی ہے۔ مگر اس کا محل نہیں)

رَہ جائینگے اُس شہرِ ہِراساں میں، بِکھر کر
اک خَوف کے سائے سے، نکلتا ہے جہاں دَم
۔۔درست

پیوَست کوئی تیر، رگِ جاں میں ہو چاہے
تُو حرفِ جُنوں بول، نہ چہرے پہ سجا غَم
۔۔دوسرا مصرع رواں نہیں، ’بول‘ بھی اچھا نہیں۔ پہلا مصرع بھی جیسے
جیسے کہ کوئی تیر ہو پیوستِ رگ ِ جاں

تُو یاد کی صُورت، مرے سینے میں چُھپا رہ
ہے عکس، تَو آنکھوں سے نُمایاں ہو ذرا کَم
۔۔’نمایاں بھی ہو کم کم‘کیسارہے گا؟

اک پھول کی پتی پہ یہ قطرہ ہے طرب کا
کانٹوں میں الجھ جائے تو گِریہ ہے یہ شبنم
۔۔طرب کا قطرہ؟ ’اک بوند ہنسی کی‘ بہتر ہو گا۔

تَنہائی کے زخموں سے، سجائے ہوئے سینہ
محفِل میں رہو یوں، کہ نہ ہو آنکھ ذرا نَم
÷÷ذرا نم میں روانی نہیں، پر نم کہو تو بہتر ہے۔

کاشِف وہ اَنا ہے کہ، گَنوا دوں جو میں دُنیا
نہ پُشت جُھکی دیکھو، نہ سَر میرا ہُوا خَم
۔۔’نہ‘کو دو حرفی استعمال مجھے پسند نہیں۔ یہاں ’نے‘ کیا جا سکتا ہے۔ ’ہوا‘ کا صیغہ استعمال کرنے کی بجائے ’ہو‘ استعمال بہتر ہے۔
 
تو بہتر ہے۔غیر مردف غزلوں کے لئے روانی بہت ضروری ہے۔ کچھ مصرعوں میں روانی کی کمی کھٹکتی ہے۔ویسے کوئی غلطی تو نہیں ہے ماشاء اللہ۔ اب ایک ایک کر کے؛؛؛
اِس ہجر کے دریا کی، رَوانی ہو ذرا کم
صُورت کی طرح اُس کی، بُھلا دے نہ کہیں غَم
۔۔وہی روانی والی بات۔الفاظ کی نشست تبدیل کر کے بہتری لائی جا سکتی ہے۔

گَو نقشِ قدم، دَشت و بیاباں میں بنیں گے
تنہائی کو لے ساتھ میں اور ڈال وہاں رَم
۔۔رم ڈالا نہیں جاتا۔ کیا جاتا ہے (اور مذاق میں ایک رم وہ ہے جو ڈالی جاتی ہے۔ مگر اس کا محل نہیں)

رَہ جائینگے اُس شہرِ ہِراساں میں، بِکھر کر
اک خَوف کے سائے سے، نکلتا ہے جہاں دَم
۔۔درست

پیوَست کوئی تیر، رگِ جاں میں ہو چاہے
تُو حرفِ جُنوں بول، نہ چہرے پہ سجا غَم
۔۔دوسرا مصرع رواں نہیں، ’بول‘ بھی اچھا نہیں۔ پہلا مصرع بھی جیسے
جیسے کہ کوئی تیر ہو پیوستِ رگ ِ جاں

تُو یاد کی صُورت، مرے سینے میں چُھپا رہ
ہے عکس، تَو آنکھوں سے نُمایاں ہو ذرا کَم
۔۔’نمایاں بھی ہو کم کم‘کیسارہے گا؟

اک پھول کی پتی پہ یہ قطرہ ہے طرب کا
کانٹوں میں الجھ جائے تو گِریہ ہے یہ شبنم
۔۔طرب کا قطرہ؟ ’اک بوند ہنسی کی‘ بہتر ہو گا۔

تَنہائی کے زخموں سے، سجائے ہوئے سینہ
محفِل میں رہو یوں، کہ نہ ہو آنکھ ذرا نَم
÷÷ذرا نم میں روانی نہیں، پر نم کہو تو بہتر ہے۔

کاشِف وہ اَنا ہے کہ، گَنوا دوں جو میں دُنیا
نہ پُشت جُھکی دیکھو، نہ سَر میرا ہُوا خَم
۔۔’نہ‘کو دو حرفی استعمال مجھے پسند نہیں۔ یہاں ’نے‘ کیا جا سکتا ہے۔ ’ہوا‘ کا صیغہ استعمال کرنے کی بجائے ’ہو‘ استعمال بہتر ہے۔
بہت بہتر استاد محترم۔
ان شا اللہ میں تبدیلیوں کے بعد دوبارہ حاضر ہوتا ہوں۔
جزاک اللہ۔
 
السلام علیکم​
اصلاحات کے بعد غزل حاضر ہے۔ جناب الف عین سر،احباب سے توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*******............********............********
اِس ہجر کے دریا کی، رَوانی ہو ذرا کم
اُس شکل کی مانند، بُھلا دے نہ کہیں غَم


گَو نقشِ قدم، دَشت و بیاباں میں بنیں گے
تنہائی کو لے ساتھ میں اور ڈال وہاں رَم


رَہ جائینگے اُس شہرِ ہِراساں میں، بِکھر کر
اک خَوف کے سائے سے، نکلتا ہے جہاں دَم


جیسے کہ کوئی تیر ہو پیوَستِ رگِ جاں
تُو حرفِ جُنوں بول، نہ چہرے پہ سجا غَم


تُو یاد کی صُورت، مرے سینے میں چُھپا رہ
ہے عکس، تَو آنکھوں سے نُمایاں بھی ہو کَم کَم


اک پھول کی پتی پہ یہ ہے بوند ہنسی کی
کانٹوں میں پہ جو رُک جائے تو گِریہ ہے یہ شبنم


تَنہائی کے زخموں سے، سجائے ہوئے سینہ
محفِل میں رہو یوں، کہ نہ ہو آنکھ یہ پُرنَم


کاشِف وہ اَنا ہے کہ، گَنوا دوں جو میں دُنیا
تُم پُشت جُھکی دیکھو، نہ سَر میرا ہُوا خَم

سیّد کاشف

*******............********............********
 

کاشف اختر

لائبریرین
واہ کاشف صاحب ! کمال کردیا آپ نے تو ۔اتنے اعلیٰ معیار کا کلام تو میری سمجھ سے بہت بالا تر ہے ! ویسے میرے لئے فخر کی بات ہے کہ آپ میرے ہم نام ہیں ۔
 

الف عین

لائبریرین
رم ڈالنا اب بھی باقی ہے،
اس کے علاوہ پچھلی پوسٹ میں ایک اور بات لکھنا چاہ رہا تھا مگر اس کے بغیر پوسٹ کر کے اٹھنا پڑا تھا، سر میرا ہوا خم نہیں، ’ہو‘ کم کا محل ہے
 
کاشف بھائی استاد کی بتائی ہوئی تبدیلیاں ابھی باقی ہیں۔
مجھے ذاتی طور پر چھٹا شعر اور مقطع سب سے زیادہ پسند آیا۔
 
مجموعی لحاظ سے غزل کہ موضوعات اچھے ہیں۔ مطلع کے بعد اگر ایک حسنِ مطلع کا اضافہ کر سکیں تو زیادہ مناسب رہے گا (ذاتی رائے) غیر مردف غزل کا حسن مزید بڑھ جاتا ہے جب صوتی مشابہت والے الفاظ استعمال ہوں۔ ابھی بھی اچھی غزل ہے حسنِ مطلع کر کے دیکھیں امید ہے آپ کو خود بھی اچھا لگے گا۔
اس مشورے سے ہٹ کر۔۔۔
پہلے تو میری طرف سے داد قبول کیجئے۔ اچھی غزل کہی ہے بعد اس کے یوں، استاد کی بتائی ہوئی کچھ باتوں کی تبدیلی سے مزید نکھار آجائے گا۔
 
رم ڈالنا اب بھی باقی ہے،
اس کے علاوہ پچھلی پوسٹ میں ایک اور بات لکھنا چاہ رہا تھا مگر اس کے بغیر پوسٹ کر کے اٹھنا پڑا تھا، سر میرا ہوا خم نہیں، ’ہو‘ کم کا محل ہے
بہت بہتر استاد محترم۔
تبدیلی کے بعد حاضر ہوتا ہوں۔ ان شا اللہ ۔
 
مجموعی لحاظ سے غزل کہ موضوعات اچھے ہیں۔ مطلع کے بعد اگر ایک حسنِ مطلع کا اضافہ کر سکیں تو زیادہ مناسب رہے گا (ذاتی رائے) غیر مردف غزل کا حسن مزید بڑھ جاتا ہے جب صوتی مشابہت والے الفاظ استعمال ہوں۔ ابھی بھی اچھی غزل ہے حسنِ مطلع کر کے دیکھیں امید ہے آپ کو خود بھی اچھا لگے گا۔
اس مشورے سے ہٹ کر۔۔۔
پہلے تو میری طرف سے داد قبول کیجئے۔ اچھی غزل کہی ہے بعد اس کے یوں، استاد کی بتائی ہوئی کچھ باتوں کی تبدیلی سے مزید نکھار آجائے گا۔
بہت شکریہ نذیر بھائی۔
کوشش کرتا ہوں۔ شاید کچھ وقت لگے۔
نوازش جناب کی۔:)
 
السلام علیکم​
اصلاحات کے بعد غزل حاضر ہے۔ جناب الف عین سر اور احباب سے توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*******............********............********
اِس ہجر کے دریا کی، رَوانی ہو ذرا کم
اُس شکل کی مانند، بُھلا دے نہ کہیں غَم

کہنے کو کَشِش دِل میں، زَمیں سے، رہی پَیہم
پر، دُور کے دریا کی، مُحبّت تھی مُقدّم


گَو نقشِ قدم، دَشت و بیاباں میں بنیں گے
تنہائی کو لے ساتھ میں اور کر تُو وہاں رَم


رَہ جائینگے اُس شہرِ ہِراساں میں، بِکھر کر
اک خَوف کے سائے سے، نکلتا ہے جہاں دَم


جیسے کہ کوئی تیر ہو پیوَستِ رگِ جاں
تُو حرفِ جُنوں بول، نہ چہرے پہ سجا غَم


تُو یاد کی صُورت، مرے سینے میں چُھپا رہ
ہے عکس، تَو آنکھوں سے نُمایاں بھی ہو کَم کَم


اک پھول کی پتی پہ یہ ہے بوند ہنسی کی
کانٹوں میں پہ جو رُک جائے تو گِریہ ہے یہ شبنم


تَنہائی کے زخموں سے، سجائے ہوئے سینہ
محفِل میں رہو یوں، کہ نہ ہو آنکھ یہ پُرنَم


کاشِف وہ اَنا ہے کہ، گَنوا دوں جو میں دُنیا
تُم پُشت جُھکی دیکھو، نہ سَر میرا ذرا خَم

سیّد کاشف

*******............********............********

ایک شعر اور ہوا تھا لیکن اس غزل کے مزاج سے ذرا ہٹا ہوا لگا مجھے۔ شعر ہے:
مانا ، چلو جُھوٹا ہوں ، نہیں بات میں دَم خَم
اوروں کی بھی باتیں مگر، ایسی ہی ہیں مُبہَم
سو اسے غزل بدر کر دیا ہے۔:p
 
Top