کاشف اسرار احمد
محفلین
السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر ہجز مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*******............********............********
اِس ہجر کے دریا کی، رَوانی ہو ذرا کم
صُورت کی طرح اُس کی، بُھلا دے نہ کہیں غَم
گَو نقشِ قدم، دَشت و بیاباں میں بنیں گے
تنہائی کو لے ساتھ میں اور ڈال وہاں رَم
رَہ جائینگے اُس شہرِ ہِراساں میں، بِکھر کر
اک خَوف کے سائے سے، نکلتا ہے جہاں دَم
پیوَست کوئی تیر، رگِ جاں میں ہو چاہے
تُو حرفِ جُنوں بول، نہ چہرے پہ سجا غَم
تُو یاد کی صُورت، مرے سینے میں چُھپا رہ
ہے عکس، تَو آنکھوں سے نُمایاں ہو ذرا کَم
اک پھول کی پتی پہ یہ قطرہ ہے طرب کا
کانٹوں میں الجھ جائے تو گِریہ ہے یہ شبنم
تَنہائی کے زخموں سے، سجائے ہوئے سینہ
محفِل میں رہو یوں، کہ نہ ہو آنکھ ذرا نَم
کاشِف وہ اَنا ہے کہ، گَنوا دوں جو میں دُنیا
نہ پُشت جُھکی دیکھو، نہ سَر میرا ہُوا خَم
سیّد کاشف
*******............********............********
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر ہجز مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*******............********............********
اِس ہجر کے دریا کی، رَوانی ہو ذرا کم
صُورت کی طرح اُس کی، بُھلا دے نہ کہیں غَم
گَو نقشِ قدم، دَشت و بیاباں میں بنیں گے
تنہائی کو لے ساتھ میں اور ڈال وہاں رَم
رَہ جائینگے اُس شہرِ ہِراساں میں، بِکھر کر
اک خَوف کے سائے سے، نکلتا ہے جہاں دَم
پیوَست کوئی تیر، رگِ جاں میں ہو چاہے
تُو حرفِ جُنوں بول، نہ چہرے پہ سجا غَم
تُو یاد کی صُورت، مرے سینے میں چُھپا رہ
ہے عکس، تَو آنکھوں سے نُمایاں ہو ذرا کَم
اک پھول کی پتی پہ یہ قطرہ ہے طرب کا
کانٹوں میں الجھ جائے تو گِریہ ہے یہ شبنم
تَنہائی کے زخموں سے، سجائے ہوئے سینہ
محفِل میں رہو یوں، کہ نہ ہو آنکھ ذرا نَم
کاشِف وہ اَنا ہے کہ، گَنوا دوں جو میں دُنیا
نہ پُشت جُھکی دیکھو، نہ سَر میرا ہُوا خَم
سیّد کاشف
*******............********............********